💟 *شمشیر بے نیام* 💟
*قسط نمبر* *8*
*اس کے پیچھے عکرمہ* کے دو سوار اکٹهے چلے آ رہے تھے۔ خندق کے کنارے پر آکر دونوں سواروں نے اپنے گھوڑوں کی پیٹھیں خالی کر دی تھیں اور ان کی گردنوں پر جھکے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔اہلِ قریش کے لشکر نے داد وتحسین کے نعرے لگائے۔ اس شور سے مسلمان پہرے دار دوڑے آئے،اتنے میں عکرمہ کے دو اور گھوڑے اپنے سواروں کو اٹھائے خندق کے کنارے سے ہوا میں اٹھے۔ ان کے پیچھے سات میں سے باقی سواروں نے بھی اپنے گھوڑوں کو ایڑھ لگا دی۔ تمام گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔’’ٹھہر جاؤ !‘‘عکرمہ نے مسلمان سنتریوں کو بلند آواز میں کہا۔’’ کوئی اور گھوڑا خندق کے اس طرف نہیں آئے گا۔محمد (ﷺ)کو بلاؤ۔ تم میں جو سب سے زیادہ بہادر ہے اسے لاؤ۔ وہ میرے ایک آدمی کا مقابلہ کرکے گرا لے تو ہم سب کو قتل کر دینا۔خدا کی قسم! ہم تمہارا خون اس ریت پر چھڑک کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘ مسلمانوں کی اجتماع گاہ میں کھلبلی بپا ہو چکی تھی ۔ایک شور تھا ’’قریش اور غطفان نے خندق عبور کر لی ہے۔مسلمانوں تمہارے امتحان کا وقت آ گیا ہے ۔ ہوشیار…… خبردار……دشمن آگیا ہے۔‘‘رسول اﷲﷺ نے مسلمانوں کو بے قابو نہ ہونے دیا۔آپﷺ نے دیکھ لیا تھا کہ اہلِ قریش خندق کے پار کھڑے قہقہے لگا رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کا مذاق بھی اڑا رہے تھے۔ پھبتیاں بھی کس رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اس جگہ پہنچے جہاں عکرمہ اور اس کے سوار کھڑے للکار رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ کے ساتھ حضرت علی ؓبھی تھے ۔آپﷺ نے صورتِ حال کا جائزہ لیا تو سمجھ گئے کہ عکرمہ انفرادی مقابلے کیلئے آیا ہے۔آپﷺ کو اور حضرت علیؓ کو دیکھ کر عمرو بن عبدو نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا۔’’قسم هے ہبل اور عزیٰ کی!‘‘عمرو نے للکار کر کہا۔’’تم میں مجھے کوئی ایک بھی نظر نہیں آ رہا جو میرے مقابلے میں اتر سکے۔‘‘مؤرخ عینی شاہدوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کی خاموشی گواہی دے رہی تھی کہ ان پر عمرو کا خوف طاری ہو گیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ عمرو کی جسامت اور طاقت کے ایسے ایسے قصے مشہور تھے جیسے وہ مافوق الفطرت طاقت کا مالک ہو۔ دیکھا شاید کسی نے بھی نہیں تھا۔لیکن سب کہتے تھے کہ عمرو گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے اور وہ پانچ سو گھڑ سواروں کو اکیلا شکست دے سکتا ہے۔اس کے متعلق ہر کوئی تسلیم کرتا تھا کہ اسے نہ کوئی گرا سکا ہے نہ کوئی گرا سکے گا۔ابو سفیان خندق کے پاس کھڑا دیکھ رہا تھا ۔خالد اور صفوان بھی دیکھ رہے تھے۔ غطفان، عینیہ اور ان کا تمام لشکر دیکھ رہا تھا اور نعیم ؓبن مسعود بھی غیر مسلموں کے لشکر میں دم بخود کھڑے تھے۔‘‘ ’’میں جانتاl you ہوں تم میں سے کوئی بھی آگے نہیں آئے گا۔‘‘عمرو بن عبدو کی للکار ایک بار پھر گرجی۔خندق کے پارقریش کا قہقہہ بلند ہوا اور کئی پھبتیاں سنائی دیں۔حضرت علیؓ نے رسولِ خداﷺکی طرف دیکھا ۔آپﷺ نے اپنا عمامہ سر سے اتارا اور حضرت علیؓ کے سر پر باندھ دیا پھر اپنی تلوار حضرت علیؓ کو دی۔مؤرخ ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کی سرگوشی سنائی دی۔’’ علی کا مدد گار تو ہی ہے میرے ﷲ!‘‘مؤرخین نے اس تلوار کے متعلق جو رسولِ کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو دی تھی، لکھا ہے کہ ’’یہ تلوار قریش کے مشہور جنگجو منبّہ بن حجاج کی تھی۔وہ بدر کی لڑائی میں مارا گیا تھا۔فاتح مجاہدین نے یہ تلوار حضورﷺ کو پیش کی تھی ۔آپﷺ نے اس کے بعد یہی تلوار اپنے پاس رکھی ،اب آپﷺ نے وہی تلوار حضرت علیؓ کو دے کر عرب کے ایک دیو قامت کے مقابلے میں اتارا۔یہ تلوار تاریخ ِاسلام میں ’’ذوالفقار ‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔حضرت علیؓ، عمرو بن عبدو کے سامنے جا کھڑے ہوئے ۔’’ابو طالب کے بیٹے!‘‘ عمرو جو گھوڑے پر سوار تھا۔حضرت علیؓ سے مخاطب ہوا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارا باپ میرا کتنا گہرا دوست تھا؟کیا یہ میرے لیے بہت برا فعل نہیں ہو گا۔کہ میں اپنے عزیز دوست کے بیٹے کو قتل کردوں۔‘‘’’اے میرے باپ کے دوست!‘‘حضرت علیؓ نے للکارکر جوا ب دیا ۔’ہماری دوستی ختم ہوچکی ہے۔ خدا کی قسم! میں تمہیں صرف ایک بار کہوں گا کہ ﷲ کو برحق اور محمدﷺ کو ﷲ کا رسول تسلیم کرلواور ہم میں شامل ہو جاؤ۔‘‘’’تم نے ایک بار کہہ لیا ہے ۔‘‘عمرو نے کہا۔’’ میں دوسری بار یہ بات نہیں سنوں گا ۔میں یہ بھی کہوں گا کہ میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا ۔‘‘’’میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں عمرو!‘‘حضرت علیؓ نے کہا ۔’’اتر گھوڑے سے اور آ میرے مقابلے پہ۔اور بچا اپنے آپ کو اس تلوار سے جو مجھے ﷲ کے رسولﷺ نے عطا کی ہے۔‘‘عمرو کے متعلق مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ وحشی تھا۔ جب غصے میں آتا تھا تو اس کا چہرہ غضب ناک ہو کر درندوں جیسا ہو جاتا تھا۔ وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور تلوار سونت کر حضرت علی ؓپر پہلا وار اتنی تیزی سے کیا کہ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کو کاٹ دیا ہے۔لیکن حضرت علی ؓیہ بھرپور وار بچا گئے۔اس کے بعد عمرو نے یکے بعد دیگرے حضرت علیؓ پر متعدد وار کیے۔ حضرت علیؓ نے ہر وار غیر متوقع پینترا بدل کر بچایا۔عمرو نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ جس جسامت اور طاقت پر اسے اتنا گھمنڈ ہے وہ ہر جگہ کام نہیں آ سکتی۔تیغ زنی کے معرکے میں جس تیزی اور پھر تی کا مظاہرہ حضرت علی ؓکر رہے تھے وہ عمرو نہیں کر سکتا تھا ۔کیونکہ اس کا جسم بھاری بھرکم تھا،اگروہ گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا بھی سکتا تھا تو بھی اس میں گھوڑے جیسے رفتار نہیں تھی۔اس کی طاقت گھوڑے سے زیادہ بھی ہو سکتی تھی۔حضرت علیؓ نے اس پر ایک بھی وار نہ کیا جسے عمرو نے خوفزدگی سمجھاہو گا ۔وہ وار پہ وار کرتا رہا اور حضرت علیؓ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہوتے رہے۔ خندق کے پار اہلِ قریش کا لشکر جو قہقہے لگا رہا تھا ،یک لخت خاموش ہو گیا۔کیونکہ ان کا دیو قامت عمرو وار کرتے کرتے رک گیا تھا،اور خاموش کھڑا ہو گیا تھا۔وہ ہانپ رہا تھا۔وہ غالباً حیران تھا کہ کہ یہ نوجوان جو قد بت میں اس کے جسم کا بیسواں حصہ بھی نہیں ہے اس سے مرعوب کیوں نہیں ہوا۔دراصل عمرو تھک گیا تھا۔ حضرت علیؓ نے جب اس کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی طاقت اتنے سارے وار کرتے کرتے صرف کرچکا ہے اور حیران و پریشان کھڑا ہے تو حضرت علیؓ نے یہ حیران کن مظاہرہ کیا کہ تلوار پھینک کر بجلی کی سی تیزی سے عمرو پر جھپٹے ،اور اچھل کر اس کی گردن اپنے ہاتھوں میں دبوچ لی۔اس کے ساتھ ہی حضرت علیؓ نے عمرو کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگ ایسے پھنسائی کہ وہ پیٹھ کے بل گرا۔اس نے اپنی گردن چھڑانے کیلئے بہت زور لگایا لیکن اس کی گردن حضرت علیؓ کی آہنی گرفت سے آزاد نہ ہو سکی۔حضرت علی ؓنے اس کی گردن سے ایک ہاتھ ہٹا کر کمر بند سے خنجر نکالا اور اس کی نوک عمرو کی شہہ رگ پر رکھ دی ۔’’اب بھی میرے ﷲ کے رسول ﷺپر ایمان لے آ تو میں تیری جان بخشی کر دوں گا حضرت علیؓ نے کہا۔عمرو بن عبدونے جب دیکھاکہ اس کی وہ طاقت جس سے اہلِ عرب لرزتے تھے بے کار ہو گئی ہے تو اس نے یہ اوچھی حرکت کی کہ حضرت علیؓ کہ منہ پر تھوک دیا۔دیکھنے والے ایک بار پھر حیران رہ گئے کیونکہ حضرت علیؓ خنجر سے اس کی شہ رگ کاٹ دینے کے بجائے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔انہوں نے خنجر کمر بند میں اڑس لیا اور ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا،عمرو اب اس طرح اٹھا جیسے اس کے جسم کی طاقت ختم ہو چکی ہو۔صرف اسے ہی نہیں ہر کسی کو توقع تھی کہ حضرت علی ؓاسے زندہ نہیں اٹھنے دیں گے لیکن حضرت علیؓ بڑے آرام سے پیچھے ہٹے ۔’’عمرو!‘‘ حضرت علی ؓنے کہا۔’’میں نے ﷲ کے نام پر تیرے ساتھ زندگی اور موت کا مقابلہ کیا ہے لیکن تو نے میرے منہ پر تھوک کر میرے دل میں ذاتی دشمنی پیدا کر دی ہے۔میں تجھے ذاتی دشمنی کی بناء پر قتل نہیں کروں گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے خدا کو میرا یہ انتقام اچھا نہ لگے…… جا یہاں سے۔ اپنی جان لے کر واپس چلا جا۔‘‘عمرو بن عبدو شکست تسلیم کرنے والا آدمی نہیں تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ میدان میں ا س کی یہ پہلی ہار تھی جسے وہ برداشت نہ کر سکا ۔ا س نے اپنی ہار کوجیت میں بدلنے کیلئے یہ اوچھی حرکت کی کہ تلوار نکال کر حضرت علیؓ پر جھپٹ پڑا۔حضرت علیؓ اس حملے کیلئے تیارنہیں تھے لیکن ان کی کامیابی کیلئے رسولِ خداﷺ نے خدا سے مدد مانگی تھی ۔عین وقت پر جب عمرو کی تلوار اور حضرت علیؓ کی گردن میں دو چار لمحوں کا فاصلہ رہ گیا تھا، حضرت علیؓ نے اپنی ڈھال آگے کر دی۔ عمرو کا وار اس قدر زور دار تھا کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کی ڈھال کو کاٹ دیا۔ڈھال حضرت علی ؓکے کان کے قریب سر پر لگی جس سے خون پھوٹنے لگا۔ عمرو ڈھال میں سے تلوار کھینچ ہی رہا تھا کہ حضرت علی ؓکی وہ تلوار جو انہیں رسولِ کریمﷺ نے دی تھی ،اتنی تیزی سے حرکت میں آئی کہ عمرو کی گردن کٹ گئی۔گردن پوری نہ کٹی لیکن شہہ رگ کٹ چکی تھی۔ عمرو کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اس کاجسم ڈولنے لگا۔حضرت علیؓ نے ا س پردوسرا وار نہ کیا۔انہو ں نے دیکھ لیا تھا کہ یہی وار کافی ہے۔ عمرو کی ٹانگیں دوہری ہوئیں، اس کے گھٹنے زمین پر لگے اور وہ لڑھک گیا۔عرب کی مٹی اس کا خون چوسنے لگی۔خندق کے پار دشمن کے لشکر پر ایسا سکوت طاری ہو گیا جیسے پورے کا پورا لشکر کھڑے کھڑے مر گیا ہو۔اب مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے ۔عربوں کی رسم کے مطابق اس مقابلے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا تھا۔مسلمانوں کے ایک جیش نے عکرمہ اور اس کے باقی سواروں پر حملہ کر دیا تھا۔ قریش کے ان سواروں کیلئے بھاگ نکلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔وہ خیریت سے پسپا ہونے کیلئے لڑے۔ اس معرکے میں قریش کاایک آدمی مارا گیا۔عکرمہ نے اپنا ایک گھوڑا خندق کی طرف موڑ کر بھاگ نکلنے کیلئے ایڑھ لگائی ۔خندق پھلانگنے سے پہلے عکرمہ نے اپنی برچھی پھینک دی۔ان میں سے ایک سوار جس کا نام ’’خالد بن عبداﷲ‘‘ تھا خندق کو پھلانگ نہ سکا ۔اس کا گھوڑا خندق کے اگلے کنارے سے ٹکرایا اور خندق میں جا پڑا۔وہ اٹھ کر کنارے پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔لیکن مسلمانوں نے اس پر پتھروں کی بوچھاڑکر دی اور وہ وہیں ختم ہو گیا۔رسولِ کریمﷺ نے حکم دیا کہ خندق کے اس مقام پر مستقل پہرے کا انتظام کر دیا جائے کیونکہ وہاں سے خندق پھلانگی جا سکتی تھی۔دوسرے دن خالد اپنے گھڑ سوار دستے میں سے چند ایک جانباز سوار منتخب کرکے خندق عبورکرنے کو چل پڑا۔’’خالد رک جاؤ!‘‘ ابو سفیان نے اسے کہا۔’’کیا تم نے کل عکرمہ کے سواروں کاانجام نہیں دیکھا؟اب مسلمانوں نے وہاں پہرے کا اور زیادہ مضبوط انتظام کر دیا ہوگا۔‘‘’’کیا یہ بہتر نہیں کہ لڑے بغیر واپس جانے کے بجائے تم میری لاش میرے گھوڑے پر رکھ کر مکہ لے جاؤ؟‘‘خالد نے کہا۔’’اگر ہم ایک دوسرے کے انجام سے ڈرنے لگے تو وہ دن بہت جلد طلوع ہو گا جب ہم مسلمانوں کے غلام ہوں گے۔‘‘’’میں تمہیں نہیں روکوں گا میرے دوست! ‘‘عکرمہ نے خالد سے کہا۔’’لیکن میری ایک بات سن لو۔اگر تم میری شکست کا انتقام لینے جا رہے ہو تو رک جاؤ۔تمہیں قریش کی عظمت عزیز ہے تو ضرور جاؤ۔‘‘آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو وہ لمحے یاد آ رہے تھے ۔اسے نہ اس وقت یہ خیال آیا تھا نہ آج کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خندق عبور کرکے بھی مارا جائے گا ،نہ عبور کر سکا تو بھی مارا جائے گا ،کیوں خندق کی طرف چل پڑا تھا۔ وہ ۱۶مارچ ۶۲۷ء کے دن کا تیسرا پہر تھا۔خالد چند ایک منتخب سوارو ں کے ساتھ خندق کی طرف بڑھا۔اس نے خندق پھلانگنے کیلئے کچھ فاصلے سے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی۔مگر اس مقام کے پہرے پر جو مسلمان کہیں چھپے بیٹھے تھے۔انہوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔خالد نے لگام کو پوری طاقت سے کھینچا،اور اس کا گھوڑا خندق کے عین کنارے پر جا رکا۔خالد نے گھوڑے کو پیچھے موڑااور اپنے تیر اندازوں کو بلایا۔اس نے سوچا تھا کہ اس کے تیر انداز مسلمانوں پر تیر پھینکتے چلے جائیں گے جس سے مسلمان سر نہیں اٹھا سکیں گے اور وہ خندق پھلانگ لے گا۔لیکن مسلمانوں نے تیر اندازی میں اضافہ کر دیا۔مسلمان تیروں کی بوچھاڑوں میں تیر چلا رہے تھے۔خالد کو پسپا ہونا پڑا۔خالد اس انداز سے اپنے سواروں کو وہاں سے ہٹا کر دوسری طرف چل پڑا جیسے اس نے خندق پر ایک اور حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو۔مؤرخین جن میں ابنِ ہشام اور ابنِ سعد قابلِ ذکر ہیں لکھتے ہیں کہ’’ یہ خالدکی ایک چال تھی۔اس نے چلتے چلتے اپنے سوار جیش میں مزید سوار شامل کر لیے۔اس نے سوچا یہ تھا کہ اسے پسپا ہوتے دیکھ کر مسلمان پہرے دار اِدھر ُادھر ہوجائیں گے ۔اس نے ادھر دیکھا ۔وہاں اسے کوئی پہرے دار نظر نہ آیا۔اس نے اپنے دستے کو خندق کے کم چوڑائی والے مقام کی طرف موڑ کر سَر پٹ دوڑادیا۔خالد کی یہ چال صرف اس حد تک کامیاب رہی کہ اس کے تین چار گھوڑ سوار خندق پھلانگ گئے۔ان میں خالد سب سے آگے تھا۔مسلمان پہرے داروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔قریش کے جو سوار ابھی خندق کے پاس تھے۔ان پر مسلمانوں نے اتنے تیر برسائے کہ انہیں پسپا ہونا پڑا۔خالد اور اس کے سواروں کیلئے مسلمانوں کے گھیرے سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا۔یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا جو خالد نے گھوڑا دوڑا کر اور پینترے بدل بدل کر لڑا۔اس کے سوار بھی تجربہ کار اور پھرتیلے تھے۔ ان میں سے ایک مارا گیا۔خالد اب دفاعی معرکہ لڑ رہا تھا ۔اس نے کئی مسلمانوں کو زخمی کیا جن میں سے ایک شہید ہو گیا ۔آخر اسے نکلنے کا موقع مل گیا اور اس کا گھوڑا خندق کو پھلانگ آیا۔ اس کے جو سوار زندہ رہ گئے تھے وہ بھی خندق پھلانگ آئے۔ اس کے بعد قریش میں سے کسی نے بھی خندق کے پار جانے کی جرات نہ کی۔عکرمہ اور خالد کی ناکامی کے بعد قریش اور ان کے دیگر اتحادی قبائل کے لشکر میں مایوسی جو پہلے ہی کچھ کم نہ تھی اور بڑھ گئی۔ خوراک نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ ابو سفیان جو اپنے اور دیگر تمام قبائل کے لشکر کا سالارِ اعلیٰ تھا پہلے ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا تھا ۔خالد، عکرمہ اور صفوان نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ ان کا لشکر زندہ و بیدار ہے، یہ کارروائی جاری رکھی کہ وقتاً فوقتاً خندق کے قریب جاکر مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر تیر برساتے رہے ۔اس کے جواب میں مسلمانوں نے تیر اندازوں کو خندق کے قریب پھیلا دیا جو اہلِ قریش کے تیر اندازوں پر جوابی تیر اندازی کرتے رہے۔تیروں کے تبادلے کا یہ سلسلہ صرف ایک دن صبح سے شام تک چلا۔ اہلِ قریش ، غطفان اور دیگر قبائل جس محمد (ﷺ)کو شکست دینے آئے تھے وہ محمد(ﷺ)کسی ملک کے بادشاہ نہیں تھے۔ وہ خداکے رسولﷺ تھے۔ خدا نےانہیں ایک عظیم پیغام دے کر رسالت عطا کی تھی۔ آپﷺ نے خدا سے مدد مانگی تھی ۔خدا اپنے رسولﷺ کو کیسے مایوس کرتا؟ اس کے علاوہ مدینہ کے اندر مسلمانوں کی عورتیں اور بچے دن رات اپنی کامیابی اور نجات کی دعائیں مانگتے رہتے تھے یہ دعائیں رائیگاں کیسے جاتیں؟۱۸ مارچ ۶۲۷ء بروز منگل مدینہ کی فضاء خاموش ہو گئی۔سردی خاصی تھی، ہوا بند ہو گئی۔ موسم خوش گوار ہو گیا لیکن یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔ اچانک آندھی آ گئی جو اس قدر تیز و تند تھی کہ خیمے اڑنے لگے۔ جھکڑ بڑے ہی سرد تھے۔آندھی کی تندی اور اس کی چیخوں سے گھوڑے اور اونٹ بھی گھبرا گئے اور رسیاں تڑوانے لگے۔مسلمانوں کی اجتماع گاہ سلع کی پہاڑی کی اوٹ میں تھی۔ ا س لیے آندھی انہیں اتنا پریشان نہیں کر رہی تھی جتنا مکہ کے لشکر کو ۔قریش کھلے میدان میں تھے۔ آندھی ان کا سامان اڑارہی تھی ،خیمے اُڑ گئے یا لپیٹ دیئے گئے تھے ۔لشکر کے سردار اور سپاہی اپنے اوپر ہر وہ کپڑا ڈال کر بیٹھ گئے تھے جو ان کے پاس تھا۔ان کیلئے یہ آندھی خدا کا قہر بن گئی تھی ۔اس کی چیخوں میں قہر اور غضب تھا۔ابو سفیان برداشت نہ کر سکا ،وہ اٹھا اسے اپنا گھوڑا نظر نہ آیا۔قریب ہی ایک اونٹ بیٹھاتھا۔ ابو سفیان اونٹ پر چڑھ بیٹھا اور اسے اٹھایا۔مؤرخ ابنِ ہشام کی تحریر کے مطابق ابو سفیان بلند آواز سے چلانے لگا۔’’اے اہلِ قریش! اے اہلِ غطفان ! کعب بن اسد نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔آندھی ہمارا بہت نقصان کر چکی ہے۔ اب یہاں ٹھہرنا بہت خطرناک ہے۔مکہ کو کوچ کرو، میں جا رہا ہوں……میں جا رہا ہوں۔‘‘اس نے اونٹ کو مکہ کی طرف دوڑا دیا۔خالد کو آج وہ منظر یاد آ رہا تھا۔تمام لشکر جسے مکہ سے مدینہ کی طرف کوچ کرتے دیکھ کر اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا، ابو سفیان کے پیچھے پیچھے ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح جا رہا تھا۔ خالد اور عمرو بن العاص نے اپنے طور پر سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے مسلمان عقب سے حملہ کر دیں، چنانچہ انہوں نے اپنے سوار دستوں کو اپنے قابو میں رکھ کر لشکر کے عقب میں رکھاتھا ۔ابو سفیان نے ایسے حفاظتی اقدام کی سوچی ہی نہیں تھی۔اس پسپا ہوتے لشکر میں وہ آدمی نہیں تھے جو مارے گئے تھے اور اس لشکر میں نعیمؓ بن مسعود بھی نہیں تھے۔قریش کا لشکر چلا تو نعیم ؓ آندھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خندق میں اتر گئے اور رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے آج خالد مدینہ کی طرف اسی راستے پر جا رہا تھا جس راستے سے ا سکا لشکر ناکام واپس گیا تھا۔ اسے شیخین کی پہاڑی نظر آنے لگی تھی ۔ آندھی نے تاریخِ اسلام کا رخ موڑ دیا۔آندھی نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ خدا حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔رسولِ خداﷺ کے دشمنوں کی پسپائی تنکوں کی مانند تھی۔جو آندھی میں اڑے جاتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔خالد کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ مسلمان تعاقب کریں گے لیکن مسلمانوں نے تعاقب کی سوچی ہی نہیں تھی۔اس آندھی میں تعاقب اور لڑائی مسلمانوں کے خلاف بھی جا سکتی تھی۔جس دشمن کوخدا نے بھگا دیا تھا اس کے پیچھے جانا دانشمندی نہیں تھی۔البتہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے چند ایک آدمیوں کو بلندیوں پر کھڑا کر دیا گیا تھاکہ وہ دشمن پر نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن کہیں دور جا کر رک جائے اور منظم ہو کر واپس آجائے۔آندھی اتنی مٹی اور ریت اڑا رہی تھی کہ تھوڑی دور تک بھی کچھ نظر نہیں آتا تھا۔بہت دیر بعد تین ،چا رمسلمان گھوڑ سوار اس جگہ سے خندق پھلانگ گئے جہاں سے عکرمہ اور خالدکے گھوڑوں نے خندق پھلانگی تھی۔وہ دور تک چلے گئے انہیں اڑتی ہوئی گرد اور ریت کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا۔وہ رک گئے لیکن واپس نہ آئے۔شام سے کچھ دیر پہلے آندھی کا زور ٹوٹ گیااور جھکڑ تھم گئے ۔فضاء صاف ہو گئی اور نظر دور تک کام کرنے لگی۔دور افق پر زمین سے گرد کے بادل اٹھ رہے تھے۔ وہ اہلِ قریش اور ان کے اتحادی قبائل کی پسپائی کی گرد تھی جو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں میں بڑی صاف نظر آ رہی تھی۔ یہ گرد مکہ کو جا رہی تھی۔ تعاقب میں جانے والے مسلمان سوار اس وقت واپس آئے جب رات بہت گہری ہو چکی تھی۔’’ خدا کی قسم!‘‘انہوں نے واپس آ کر بتایا۔’’وہ جو ہمارے عقیدے کو توڑنے اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے،وہ مدینہ سے اتنی دہشت لے کر گئے ہیں کہ رک نہیں رہے۔کہیں پڑاؤ نہیں کر رہے۔کیا راتوں کو مسافر پڑاؤ نہیں کیا کرتے؟کیا لشکر راتوں کو بھی چلتے رہتے ہیں؟وہی چلتے رہتے ہیں جو منزل تک بہت جلد ی پہنچنا چاہتے ہوں۔‘ ‘احادیث،اور مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق رسولِ کریمﷺ کو جب یقین ہو گیا کہ دشمن گھبراہٹ کے عالم میں بھاگا ہے اور ایسا امکان ختم ہو چکا ہے کہ وہ منظم ہوکر واپس آ جائے گا ،تب آپﷺ نے کمر سے تلوار کھولی ،خنجر اتار کر رکھ دیا اور ﷲ کا شکر ادا کر کے غسل کیا۔ اس رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا،وہ مدینہ والوں کیلئے فتح و نصرت اور مسرت و شادمانی کی صبح تھی۔ہر طرف ﷲ اکبر اور خوشیوں کے نعرے تھے۔سب سے زیادہ خوشی عورتیں اور بچے منا رہے تھے۔جنہیں چھوٹے چھوٹے قلعوں میں بند کردیا گیا تھا۔وہ خوشی سے چیختے چلاتے باہر نکلے۔مدینہ کی گلیوں میں مسلمان بہت مسرور پھر رہے تھے۔ فتح کے اس جشن میں بنو قریظہ کے یہودی بھی شامل تھے۔رسولِ کریمﷺ نے انہیں امن و امان میں رہنے کے عوض کچھ مراعات دے رکھی تھیں۔ظاہری طور پروہ مسلمانوں کو اپنا دوست کہتے،اور دوستوں کی طرح رہتے تھے۔اہلِ قریش کی پسپائی پر وہ مسلمانوں کی طرح خوشیاں منا رہے تھے لیکن ان کا سردار کعب بن اسد اپنے قلعے نما مکان میں بیٹھا تھا۔ا سکے پاس اپنے قبیلے کے تین سرکردہ یہودی بیٹھے تھے اور اُس وقت کی غیر معمولی طورپر حسین یہودن یوحاوہ بھی وہاں موجود تھی۔وہ گذشتہ شام اہلِ قریش کی پسپائی کی خبر سن کر آئی تھی۔’’کیا یہ اچھا نہیں ہوا کہ ہم نے مسلمانوں پر حملے نہیں کیے؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’مجھے نعیم بن مسعود نے اچھا مشورہ دیا تھا۔اس نے کہا تھا کہ قریش سے معاہدے کی ضمانت کے طور پر چند آدمی یرغمال کیلئے مانگو۔اس نے یہ بھی کہا تھاکہ قریش اس سے دگنالشکر لے آئیں تو بھی خندق عبور نہیں کر سکتے۔میں نے نعیم کا مشورہ اس لیے قبول کر لیا تھاکہ وہ اہلِ قریش میں سے ہے۔‘‘’’وہ اہلِ قریش میں سے نہیں۔‘‘ایک یہودی نے کہا۔’’وہ محمد کے پیروکاروں میں سے ہے۔‘‘’’خدائے یہودہ کی قسم!تمہاری بات سچ نہیں ہو سکتی۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’وہ اہلِ قریش کے ساتھ آیا تھا۔‘‘’’مگر ان کے ساتھ گیا نہیں۔‘‘اسی یہودی نے کہا۔’’میں نے کل شام اسے مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ دیکھا ہے۔اس وقت تک ا ہلِ قریش کا لشکر مدینہ سے بہت دور جا چکا تھا۔‘‘’’پھر تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ محمد(ﷺ) کے پیروکاروں میں سے ہے؟‘‘کعب نے کہا۔’’میں ایسی بات کو کیوں سچ مانوں جو تم نے کسی سے پوچھا نہیں۔‘‘’’میں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے پوچھا تھا۔‘‘یہودی نے کہا۔’’میں نے نعیم کو دیکھ کر کہا تھا،کیا مسلمان اب قریش کے جنگی قیدیوں کو کھلا رکھتے ہیں؟میرے دوست نے جواب دیا تھا کہ نعیم کبھی کا اسلام قبول کرچکا ہے۔اسے مدینہ میں آنے کا موقع اب ملا ہے۔‘‘ ’’پھر اس نے ہمیں مسلمانوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہم سے بچایا ہے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’اس نے جو کچھ بھی کیا ہے ،ہمارے لیے اچھا ثابت ہوا ہے۔اگر ہم قریش کی بات مان لیتے تو……‘‘’’تو مسلمان ہمارے دشمن ہو جاتے۔‘‘ایک اور یہودی نے کہا۔’’تم یہی کہنا چاہتے ہو نہ کعب! مسلمان پھر بھی ہمارے دشمن ہیں،ہمیں محمد(ﷺ) کے نئے مذہب کو یہیں پر ختم کرنا ہے ورنہ محمد(ﷺ) ہمیں ختم کر دے گا۔‘‘’’کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ مذہب جسے یہ لوگ اسلام کہتے ہیں ،کتنی تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا ہے؟‘‘ تیسرے یہودی نے جو معمر تھا ،کہا۔’’ہمیں اس کے آگے بندھ باندھنا ہے۔اسے روکنا ہے۔‘‘’’لیکن کیسے؟‘‘ کعب بن اسد نے پوچھا۔’’قتل۔‘‘معمر یہودی نے کہا۔’ ’محمد(ﷺ) کا قتل۔‘‘’’ایسی جرات کون کرے گا؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’تم کہو گے کہ وہ ایک یہودی ہو گا۔اگر وہ محمد(ﷺ) کے قتل میں ناکام ہو گیا تو بنو قینقاع اوربنو نضیر کا انجام دیکھ لو،مسلمانوں نے انہیں جس طرح قتل کیا ہے اور ان میں سے زندہ بچ رہنے والے جس طرح دور دراز کے ملکوں کو بھاگ گئے ہیں وہ نہ بھولو۔‘‘’’خدائےیہودہ کی قسم!‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’میری عقل تم سے زیادہ کام نہیں کرتی تو تم سے کم بھی نہیں،تم نے جو آج سوچا ہے وہ میں اور’’ لیث بن موشان‘‘ بہت پہلے سوچ چکے ہیں ۔کوئی یہودی محمد(ﷺ) کو قتل کرنے نہیں جائے گا۔‘‘’’پھر وہ کون ہو گا؟ ‘‘’’وہ قبیلۂ قریش کا ایک آدمی ہے۔‘‘بوڑھے یہودی نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان نے اسے تیارکر لیا ہے ۔میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ کام کر دیا جائے۔‘‘’’اگر تم لوگ بھول نہیں گئے کہ میں بنو قریظۃ کا سردار ہوں تو میں اس کام کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں جو مجھے معلوم ہی نہ ہوکہ کیسے کیا جائے گا؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’اور مجھے کون بتائے گا کہ اس آدمی کواتنے خطرناک کام کیلئے کیسے تیار کیا گیا ہے؟کیا اسے ابو سفیان نے تیار کیا ہے؟خالدبن ولید نے تیار کیا ہے؟‘‘’’سنو کعب!‘‘بوڑھے یہودی نے کہااور یہودی حسینہ یوحاوہ کی طرف دیکھا۔’’میں یہ بات لیث بن موشان کی موجودگی میں سناؤں تو کیا اچھا نہ ہوگا؟‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’اس بات میں اس بزرگ کا عمل دخل زیادہ ہے۔‘‘’’ہم اس بوڑھے جادوگر کو کہاں سے بلائیں۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’ہم تم پر اعتبار کرتے ہیں۔‘‘ ’’وہ یہیں ہیں۔‘‘بوڑھے یہودی نے کہا۔ ’’ہم اسے ساتھ لائے ہیں اور ہم اسے بھی ساتھ لائے ہیں جو محمد (ﷺ) کو قتل کرے گا۔اب ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ہم سب کو امید تھی کہ قریش غطفان اور ان کے دوسرے قبائل اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے مگر ہر میدا ن میں انہوں نے شکست کھائی ۔ہم نے انہیں مدینہ پر حملہ کیلئے اکسایا تھا وہ یہاں سے بھی بھاگ نکلے۔ خدائے یہودہ کی قسم! کعب تم نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ نہ کرکے بہت برا کیا ہے۔‘ ‘’’میں اس کی وجہ بتا چکا ہوں۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’وجہ صحیح تھی یا غلط۔‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اب ہم قریش کی فتح کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ‘‘اس نے یوحاوہ سے کہا۔’’لیث بن موشان کو بلاؤ دوسرے کو ابھی باہر رکھو۔‘‘یوحاوہ کمرے سے نکل گئی ۔واپس آئی تو اس کے ساتھ لیث بن موشان تھا ۔وہ ایک بوڑھا یہودی تھا جس کی عمر ستر اور اسی برس کے درمیان تھی۔اس کے سر اور داڑھی کے بال دودھ کی طرح سفید ہو چکے تھے۔ داڑھی بہت لمبی تھی،اس کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھا ،اس نے اونٹ کے رنگ کی قبا پہن رکھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں لمبا عصاتھاجو اوپر سے سانپ کے پھن کی طرح تراشا ہوا تھا۔لیث بن موشان کو یہودیوں میں جادوگر کے نام سے شہرت حاصل تھی۔شعبدہ بازی اور کالے علم میں وہ مہارت رکھتا تھا ۔وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔اس کے متعلق بہت سی روایات مشہور تھیں،جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ مردے کو تھوڑی سی دیر کیلئے زندہ کر سکتا ہے اور وہ کسی بھی مرد یا عورت کو اپنے تابع کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ یہودی اسے اپنا پیرومرشد سمجھتے تھے ۔وہ جہاندیدہ اور عالم فاضل شخص تھا۔وہ کمرے میں داخل ہوا تو سب اس کی تعظیم کو اٹھے وہ جب بیٹھ گیا تو سب بیٹھے۔’’خاندانِ موشان کی عظمت سے کون واقف نہیں۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آپ کو یہاں بلانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ یوحاوہ شاید آپ کو لے آئی ہے۔‘‘’’میں پیغمبر نہیں، کعب بن اسد!‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں یہ خوبصورت الفاظ سننے کا عادی نہیں اور تعظیم و احترام کاوقت بھی نہیں۔کوئی نہ بلاتا تو بھی مجھے آنا تھا۔تم لوگ اپنے فرض کی ادائیگی میں بہت وقت ضائع کر چکے ہو۔ تم سے یہ لڑکی اچھی ہے جس نے وہ کام کر لیا ہے جو تمہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘’’معزز موشان ‘‘کعب بن اسدنے کہا۔’’ہم نے ابھی اس انتہائی اقدام کی سوچی نہیں تھی۔اگر ہم محمد (ﷺ)کے قتل جیسا خوفناک ارادہ کرتے بھی تو یوحاوہ کو استعمال نہ کرتے۔ہم اتنی خوبصورت اور جوان لڑکی کو استعمال نہیں کر سکتے۔
Tags
Shamsheer e Bayniyam