🇵🇰 *شمشیر بے نیام* 🇵🇰
❤ *38* *قسط نمبر* ❤
*خالد کے جاسوسوں نے* یہ اطلاح دی کہ پچهلے معرکہ سے بهاگے هوئے سپاهی بهی مدائن سے آنیوالی فوج میں شامل هورهے هیں.خالد نے اپنے سالاروں کو بلایا اور پوری صورت حال سے آگاہ کیا.
میرے عزیز ساتهیو..هم یہاں صرف اللہ کے بهروسہ پر لڑنے کیلیئے آئے هیں.جنگی نقطہ نگاہ سے دیکها جائے تو هم فارس کی فوج سے ٹکر لینے کے قابل نہیں.اپنے وطن سے هم بہت دور نکل آئے هیں.همیں کمک نہیں مل سکتی.اور هم واپس بهی نہیں جائینگے. هم فارسیوں یا کسری کو نہیں آگ کے پجاریوں کو شکست دینے کا عزم کیئے هوئے هیں.میں تم سب کے چہروں پر تهکن کے آثار دیکهہ رها هوں.تمہاری آنکهیں بهی تهکی هوئی اور باتوں میں بهی تهکن هے.
رب کعبہ کی قسم هماری روحیں تهکی هوئ نہیں هیں. همیں روح کی طاقت سے لڑنا هے......ایسی باتیں اپنی زبان پر مت لاو....اے ابن ولید
ایک سالار عاصم بن عمرو نے کہا همارے چہروں پر تهکن کے آثار هیں مایوسی کے نہیں.
همارے ارادوں میں کوئ تهکن نہیں .ابن ولید....دوسرے سالار عدی بن عاتم نے کہا...هم نے آرام کرلیا هے.اور سپاہ نے بهی آرام کرلیا هے.
میں اسی لیئے یہاں خیمہ زن هوگیا تها کہ اللہ کے سپاهی آرام کرلیں.اگر تمہارے ارادے تهکے هوئے نہیں تو مجهے کچهہ کہنے کی ضرورت نہیں.میں کچهہ دوسری باتیں کرنا چاهتا هوں جو زیادہ ضروری هیں.
تم جانتے هو کہ هم نے فارسیوں کو پہلے معرکہ میں شکست دی تو وہ پهر سامنے آگئے.اور ان میں وہ سپاهی بهی شامل هوگئے جو پہلے معرکہ سے بهاگے هوئے تهے.اور اب مجهے پهر اطلاع ملی هے کہ دوسرے معرکہ سے بهاگے هوئے سپاهی پهر مدائن سے آنیوالی فوج سے ملتے جارهے هیں.
اب همیں یہ کوشش کرنی هے کہ اگلے معرکہ میں آتش پرستوں کا کوئ سپاهی زندہ نہ جاسکے.انہیں هلاک کردو یا گرفتار کرلو.میں کسری کی فوج کا نام ونشان مٹا دینا چاهتا هوں.
اللہ ایسا هی کریگا...تین چار آوازیں سنائ دیں.
سب کچهہ اللہ کے اختیار میں هے... خالد نے کہا هم اسی کی خوشنودی کیلیئے گهروں سے اتنی دور آگئے هیں. اب جو صورتحال همارے سامنے هے اس پر سنجیدگی سے غور کرو یہ فیصلے جذبات سے نہیں کیئے جاسکتے.اس حقیقت کو هم نظر انداز نہیں کرسکتے کہ فارسیوں کی جنگی طاقت اور تعداد جو اب آرهی هے هم اسکا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں.
لیکن پسپائ کو دل سے نکال دو.تازہ اطلاع کے مطابق مدائن کی فوج دجلہ عبور کر آئ هے.آج رات کو فراط بهی عبور کرلے گی پهر وہ دلجہ پہنچ جائیگی.انکی دوسری فوج بهی آرهی هے .همارے جاسوس اسکا کوچ دیکهہ رهے هیں.
مجهیں اطلائیں مل رهی هیں.اللہ تعالی هماری مدد کررها
هے. یہ اسی ذات باری تعالی کا کرم هے کہ فارس کی دوسری فوج جو سالار بہمن جاذویہ کی زیر کمان آرهی هے. اسکی رفتار تیز نہیں اسے پڑاو بهی زیادہ کرنے پڑ رهے هیں. هم اپنی قلیل نفری سے دونوں فوجوں سے ٹکر لے سکتے هیں...اگر میری عقل سہی کام کررهی هے تو میں یہی طریقہ بہتر سمجهتا هوں کہ مدائن کی فوج جو سالار اندرزغر کیساتهہ آرهی هے جو دلجہ تک جلدی پہنچ جائیگی . اس سے پہلے کہ بہمن کی فوج اسکے ساتهہ آملے هم ادندرزغر کی فوج پر حملہ کردیں گے.
اس سے بہتر کوئ فیصلہ نہیں هوسکتا...سالار عاصم نے کہا مجهے مدائن کی اس فوج میں ایک کمزوری نظر آرهی هے کہ اس فوج میں عیسائیوں کے قبیلوں کے لوگ بهی شامل هیں جو لڑنا تو جانتے هونگے مگر انہیں جنگ اور باقاعدہ معرکہ کا تجربہ نہیں.بلکہ میں انہیں ایک مصلحہ هجوم کہونگا.دوسری کمزوری وہ سپاهی هیں جو پچهلی جنگوں میں شکست کها کر بهاگے هوئے مدائن کی فوج کو راستہ میں ملے تهے. مجهے یقین هے وہ ڈرے هوئے هونگے.انہوں نے اپنے هزاروں ساتهیوں کو تلواروں برچهیوں سے قتل هوتے دیکها هے. پسپائ کی صورت میں وہ سب سے پہلے بهاگیں گے.
اللہ کی قسم عمرو خالد نے پرجوش آواز میں کہا تجهہ میں وہ عقل هے جو هر بات سمجهہ لیتی هے.
خالد نے سب پر نگاہ دوڑائی اور کہا تم میں کوئ ایک بهی ایسا نہیں جو اس بات کو نہ سمجهہ سکا هو ...مگر اس بات کو مت بهولو کہ دشمن کے پاس سازو سامان رسد اور کمک کی کمی نہیں.صرف اندرزغر کی فوج هماری فوج سے 6 گنا زیادہ هے میں نے جو طریقہ سوچا هے وہ موزوں اور موثر ضرور هوگا .مگر آسان نہیں.
لڑنا سپاہ نے هے وہ سمجهتے هیں کہ هم یہاں کیوں آئے هیں. پهر بهی انہیں اچهی طرح سے سمجها دوں کہ هم واپس جانے کیلیئے نہیں آئے.هم مدائن میں هونگے یا خدائے بزرگ و برتر کے حضور پہنچ جائیں گے.
دو مؤرخوں طبری اور یقوت نے لکها هے کہ بلا شبہ یہ فہم وفراست اور عقیدہ کی جنگ تهی.اگر تعداد اور دیگر جنگی احوال و کوائف کو دیکها جاتا تو آتش پرستوں اور مسلمانوں کا کوئ مقابلہ نہ تها.
خالد کا چہرہ اترا هوا تها.راتیں گہری سوچ میں گزر رهی تهیں.خیمہ گاہ میں چلتے چلتے رک جاتے.اور گہری سوچ میں کهو جاتے.زمین پر بیٹهہ کر مٹی پر انگلی سے لکیریں ڈالتے دیکها گیا. خالد کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تها کہ وہ آتش پرستوں سے فیصلہ کن معرکہ لڑے بغیر واپس نہ آنے کا عہد کرچکے تهے.
انہوں نے حسب معمول اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا.اور پہلے کیطرح دائیں اور بائیں پہلووں پر دونو سالار عاصم بن عمرو اور سالار عدی بن عاتم کو رکها.. اپنے لیئے صرف 1500 نفری رکهی.جن میں پیدل بهی اور گهڑ سوار بهی تهے.تقسیم کے بعد انہوں نے کوچ کا حکم دے دیا.
یہ حکم انہوں نے جاسوس کی اطلاع کے مطابق دیا.کہ اندرزغر کی فوج دریائے فراط عبور کر رهی هے.خالد نے اپنی رفتار ایسے رکهی کہ آتش پرست یونہی دلجہ پہچے خالد کی فوج انکے سامنے هو. یہ فہم و فراست کا غیر معملولی مظاهرہ تها.
اللہ کے فضل سے ایسا هی هوا جیسا انہوں نے سوچا تها. اندرزغر کی فوج دلجہ پہچی انہیں خیمے گاڑنے کا حکم ملا کیونکہ اسے بہمن کی فوج کا انتظار کرنا تها.اسکی لمبے سفر کی تهکی فوج خیمے گاڑنے لگی ساتهہ هی شور برپا هوگیا کہ بہمن کی فوج آگئ...تمام سپاہ انکے استقبال کے جوش میں نعرے بازی کرنے لگی...
اچانک یہ شور خاموش هوگیا..یہ تو مدینہ کی فوج هے. کسی نے بلند آواز سے کہا..اب شور شروع هوگیا..دشمن آگیا هے...تیار هوجاو..
سالار اندرزغر گهوڑے پر سوار آگے آگیا.اور دیکها کہ یہ خالد کی فوج تهی اور جنگی ترتیب میں رہ کر پڑاو ڈال رهی تهی. خیمے نہیں گاڑ رهی تهی .مطلب یہ کہ مسلمان لڑائ کیلیئے تیار هیں .
سالار اعلی.......... اندرزغر کو ایک دوسرے سالار نے کہا.. ابهی بہمن کی فوج نہیں آئ .معلوم هوا هے کہ وہ ابهی دور هے ورنہ هم ان مسلمانوں کو ابهی کچل دیتے...یہ تیار هیں اور هماری سپہ تهکی هوئ هے.
کیا تم نہیں دیکهہ رهے کہ انکی تعداد کتنی تهوڑی هے.
اندرزغر نے کہا..انکی تعداد بمشکل دس هزار هوگی.میں انکو چیونٹیوں سے زیادہ کچهہ نہیں سمجهتا.ان کے گهڑ سوار دستے کہاں هیں.
کہاں هوسکتے هیں اسکے سالار نے کہا.کهلا میدان هے جو کچهہ هے صاف نظر آرها هے.
معلوم هوتا هے همارے سالاروں اور کمانداروں کو مسلمان ایک ایک کے چار چار نظر آتے هیں.اندرزغر نے کہا.
شکست کها کر بهاگ آنیوالے سپاهیوں نے بتایا تها کہ مسلمانوں کا رسالہ بہت زبردست هے. بہت بڑا هے.اور انکے گهڑ سوار لڑنے کے اتنے ماهر هیں کہ کسی کے هاتهہ نہیں آتے.
مگر مجهے تو انکا رسالہ کہیں نظر نہیں آتا.همیں جهوٹی اطلائیں دی گئ هیں. هم بہمن کا انتظار نہیں کریں گے. اسکے آنے تک هم ان مسلمانوں کو ختم کر چکے هوںگے.
مورخوں نے لکها هے کہ مسلمانں کے گهڑ سوار وهاں نہیں تهے.وهی تهوڑے سے سوار تهے جو پیادہ کے ساته تهے.اور کچهہ گهڑ سوار محافظ تهے.
آتش پرستوں کے حوصلے بڑهہ گئے.اندرزغر کیلیئے یہ فتح بڑی آسان تهی.خالد نے اتنی تهوڑی نفری کیساتهہ اتنے بڑے لشکر کے سامنے آکر غلطی کی تهی .جس میدان میں دونو فوجیں آمنے سامنے کهڑی تهیں وہ هموار تها .دائیں اور بائیں دو بلند ٹیکریاں تهیں. ایک ٹیکری آگے جاکر مڑ گئ تهی. اسکے پیچهے ایک اور ٹیکری تهی خالد نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کر رکها تها.ادهر آتش پرست بهی جنگی تریب میں هوگئے.دونوں فوجوں کے سالار ایک دوسرے کی فوجوں کا جائزہ لینے لگے. خالد نے دیکها آتش پرستوں کے پیچهے دریا تها .اندرزغر نے اپنی فوج کو دریا سے تقریبا ایک میل دور رکها تها .آتش پرستوں کے پہلے سالاروں نے اپنا عقب دریا کے بہت قریب رکها تها .تاکہ عقب محفوظ رهے
لیکن اندرزغر نے اپنے عقب کی اتنی احتیاط نہ کی.اسے یقین تها کہ یہ مٹهی بهر مسلمان اس کے پیچهے آنے کی جرات نہیں کریں گے.
آتش کے پجاریو...اندرغر نے اپنی سپاہ سے خطاب کیا. یہ هیں وہ مسلمان جن سے همارے ساتهیوں نے شکست کهائ. اپنی آنکهون سے دیکهہ لو کیا ان سے شکست کها کر تم ڈوب نہیں مرو گے.کیا تم انہیں فوج کہو گے. یہ فقط لٹیروں کا گروہ هے ان میں سے ایک بهی زندہ نہ جائے.
وہ دن یونہی گزر گیا.ایک دوسرے کی فوج کو دیکهتے اور اپنی اپنی فوج کی ترتیب سیدهی کرتے رهے.
اگلے دن خالد نے اپنی فوج کو حملہ کا حکم دے دیا.آتش پرستون کی فوج تہہ در تہہ کهڑی تهی مسلمانوں کا حملہ شدید تها.مگر دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تهی کہ مسلمانون کو پیچهے هٹنا پڑا.
دشمن اپنی اگلی صف کو پیچهے کرکے تازہ دم کو آگے لے آیا. خالد نے ایک اور حملہ کیلیئے اپنے چند ایک اور دستوں کو آگے بهیجا.گهمسان کا معرکہ رها مگر مسلمانوں کو پیچهے هٹنا پڑا.آتش پرستوں کی تعداد بهی زیادہ تهی اور وہ ذرہ پوش بهی تهے.مسلمانوں کو ایسے لگا جیسے وہ ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس آگئے هوں. خالد نے کچهہ دیر اور حملے جاری رکهے مگر مجاهدین تهکن محسوس کرنے لگے.متعدد مجاهدین زخمی هوچکے تهے.خالد نے یہ سوچ کر کہ اسکی فوج حوصلہ نہ هار بیٹهے خود حملہ کیلیئے سپاهیوں کیساتهہ جانے لگے.اس سے مسلمانوں کا جذبہ تو قائم رها. مگر انکے جسم شل هوگئے تهے. آتش پرست ان پر قہقہے لگانے لگے.
مسلمانوں نے خالد کی زیر قیادت جتنی لڑائیاں لڑی تهیں یہ پہلی لڑائ تهی جس میں مسلمانوں نے اپنے سالار کیخلاف احتجاج کیا. چاهے دبہ دبہ هی تها.مگر مسلمانوں میں بے اطمینانی صاف نظر آنے لگی.اتنے عظیم سپہ سالار کیخلاف مسلمانوں کی بے اطمینانی بڑی عجیب بات تهی.
بار بار پوچهتے تهے اپنا سوار دستہ کہاں هے.وہ محسوس کررهے تهے کہ آج خالد اپنے مخصوص انداز میں نہیں لڑ رهے. یہ هر حملہ میں ساتهہ جاتے مگر پهر بهی سپاهیوں کو کسی کمی کا احساس تها. آتش پرستوں کی بہت بڑی نفری دیکهہ کر بهی مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹتے جارهے تهے.
انہیں شکست نظر آنے لگی.حالانکہ آتش پرستوں نے ابهی ایک بهی هلہ نہیں بولا تها
اندرزغر مسلمانوں کو تهکا کر حملہ کرنا چاهتا تها.مسلمان تهک چکے تهے خالد اپنی فوج کی یہ کیفیت دیکه رهے تهے. انہوں نے حملے روک دیئے وہ سوچ رهے تهے کہ اب کیا چال چلیں .آتش پرستوں کی طرف سے ایک دیو قد آدمی سامنے آیا اس نے للکار کر کہا جس میں میرا مقابلہ کرنے کی همت هے سامنے آئے. یہ :"هزار مرد": پہلوان اور تیغ زن تها.. فارس میں "هزار مرد" کا لقب اس جنگجو کو دیا جاتا تها جسے کوئ شکست نہ دے سکتا هو. مطلب یہ هوتا کہ یہ هزار آدمیوں کے برابر هے..
درزغر اس دیوقد کو آگے کرکے مسلمانوں کا تماشہ دیکهنا چاهتا تها. مسلمانوں میں کوئ اسکے مقابلہ میں اترنے والا نہ تها.خالد کود کر گهوڑے سے اترے تلوار نکالی اور "هزار مرد" کے سامنے جاپہنچے.کچهہ دیر دونو کی تلواریں ٹکراتی رهیں دونو پینترے بدلتے رهے.آتش پرست پہلوان مست بهینسا لگتا تها. اسکے جسم میں اتنی طاقت لگتی تهی کا اسکا ایک وار انسان کو دو حصوں میں کاٹ دے..خالد نے یہ کیا کہ اسے زیادہ وار کرنے کا موقعہ دیا اور خود بچاؤ کرتے رهے تاکہ وہ تهک جائے.وہ بهینسا خالد کو کمزور اور تهکا هوا سمجهہ کر انکے ساتهہ کهیلنے لگا.کبهی دائیں سے بائیں اور کبهی اوپر سے نیچے وار کرتا..اور کبهی وار کرتا اور هاتهہ روک لیتا.اور طنزیہ کلامی بهی کرتا رها.اور اپنی طاقت کے گهمنڈ میں لا پرواہ سا هوگیا.اس نے اچانک تلوار یو گهمائ جیسے خالد کی گردن کاٹ دیگا.خالد وار کو تلوار پر روکٹنے کے بجائے تیزی سے پیچهے هٹ گئے. اسکا وار خالی گیا وہ گهوم گیا اور اسکا پہلو خالد کے آگے هوگیا..خالد اسی انتظار میں تهے.خالد نے تلوار کی نوک کا وار اسکے پہلو میں اسطرح کیا جیسے برچهی اندر گهس گئ..وہ گرنے لگا تو خالد نے تلوار اسکے پہلو سے کهینچ کر دوسرا وار کیا.اور تلوار اسکے پہلو میں اندر تک گهس گئ..پہلوان وهیں گرا اور مر گیا..
خالد اسکے سینہ پر بیٹهہ گئے اور حکم دیا کہ انہیں کهانا دیا جائے..کهانا دیا گیا جو خالد نے "هزار مرد"کی لاش پر بیٹهہ کر کهایا..اس انفرادی مقابلہ نے مسلمانوں کے حوصلہ میں جان ڈال دی.
آتش پرست سالار نے بهانپ لیا تها کہ مسلمان تهک چکے هیں.اس نے حملہ کا حکم دے دیا.اسے اپنی فتح کا پورا یقین تها...آتش پرست فوج سمندر کی موجوں کی طرح آئ. اب مسلمانوں کو کچلے جانا هوچکا تها..اس لیئے انہوں نے جانیں بچانے کیلیئے بڑی تیزی سے مقابلہ کیا..ایک ایک مسلمان کا مقابلہ نو یا دس آتش پرست سے تها..اب هر مسلمان ذاتی جنگ لڑ رها تها.اسکے باوجود بهی ڈسپلن کا دامن نہ چهوڑا.اور بهگدڑ نہ مچنے دی..
مسلمانوں کو خیال آتا کہ خالد اپنے پہلوؤں کو یوں استعمال کیوں نہیں کرتے جو انکا مخصوص طریقہ تها. خالد خود سپاهیوں کیطرح لڑ رهے تهے ان کے کپڑوں پر خون تها جو انکے زخموں سے نکل رها تها.خالد ایرانی نفری کا زیادہ نقصان نہیں کر پارها تها کیونکہ انکی نفری بہت زیادہ تهی.
اندرزغر نے اپنے دستوں کوپیچهے هٹا لیا اور دوسرے تازہ دم دستے آگے کیئے.انکی تعداد بهی بڑها دی. مسلمان ان میں نظر هی نہیں آتے تهے.اندرزغر کا خواب پورا هوتا دکهائ دیتا تها کہ ایک بهی مسلمان کو زندہ نہیں جانے دیں گے.اس نے مسلمانوں کو جلدی ختم کرنے کیلیئے مزید دستوں کو هلہ بولنے کا حکم دے دیا...اب تو مسلمانوں کیلیئے بهاگ نکلنا بهی ممکن نہ رها.زخمی شیروں کیطرح لڑ رهے تهے.
خالد اپنے معرکہ سے آگے نکل گئے. انکا علمدار انکے ساتهہ تها. خالد نے علم اپنے هاتهہ میں لیکر اوپر کیا .ایک بار دائیں اور ایک بار بائیں کیا.اور علم واپس علمدار کو دے دیا.
یہ ایک اشارہ تها.اسے دیکهتے هی میدان کے پہلووں میں جو ٹیکریاں تهیں ان میں سے 2هزار گهڑسوار نکلے جن کے هاتهوں میں برچهیاں تهیں.جو انہوں نے آگے کو کر لیں اور گهوڑے سرپٹ دوڑے آرهے تهے.
وہ اس ترتیب میں هوکر آتش پرستوں کے عقب میں آگئے کہ لڑائ کے شوروغل میں انہیں اس وقت پتہ چلا کہ انکے عقب سے ان پر حملہ هوگیا هے ..یہ تهے مسلمانوں کے وہ گهڑ سوار دستے جنہیں اندرزغر ڈهونڈ رها تها. خالد کی سپاہ بهی پوچهہ رهی تهی کہ اپنے سوار دستے کہاں هیں.
خالد نے اپنی نفری کی کمی اور دشمن کی نفری کی افراط دیکهہ کر یہ طریقہ کیا تها کہ اپنے گهڑ سوار دستوں کو ٹیکری آڑ میں اسطرح بهیج دیا کہ اپنی سپاہ کو بهی پتہ نہ چل سکے..اور انکے ساتهہ علم کے دائیں بائیں هلنے کا اشارہ مقرر کیا.گهوڑوں کو ایسی جگہ پر چهپایا گیا تها.جو دشمن سے لگ بهگ ڈیڑه دو میل دور تهی.تاکہ گهوڑوں کے هنہنانے کی آواز دشمن تک نہ پہنچ سکے.ایک روائیت میں هے کہ رات کو گهوڑوں کے منہ باندهہ دئیے گئے تهے.
جب صبح لڑائ شروع هوئ تو ان گهڑ سواروں کے کمانداروں نے انکو پابہ رکاب کردیا تها.ایک آدمی ٹیکری پر کهڑا هوکر اشارے کا انتظار کر رها تها.
آتش پرستوں پر عقب سے قیامت ٹوٹ پڑی .خالد نے اگلی چال چلی جو پہلے سے طے تهی...پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم نے بهی اپنے آپ کو بچا کر رکها هوا تها..انہیں معلوم تها کہ کیا کرنا هے..جب عقب سے آتش پرستوں پر هلہ بولا تو ان دونو سالاروں نے اپنے اپنے پہلو پهیلا کر آتش پرستوں کو گهیرے میں لے لیا.
دشمن کو دهوکہ دینے کیلیئے خالد نے اپنا محفوظہ(ریزرو) بهی معرکہ میں جهونک دیا.
آتش پرستوں کے فتح کے نعرے چیخ و پکار میں تبدیل هوگئے.مسلم گهڑ سواروں کی برچهیاں انہیں کاٹتی اور گراتی جاتی تهیں..دشمن میں بهگدڑ تو ان هزار عیسائیوں نے مچائ جنہیں جنگ کا تجربہ نہیں تها.اور زیادہ بهگدڑ ان سپاهیوں نے مچائ جو پہلے شکست خوردہ معرکہ سے بهاگ کر آئے تهے.وہ جانتے تهے کہ مسلمان کسی کو زندہ نہیں چهوڑیں گے.
اب مسلمانوں کے نعرے گرج رهے تهے.ایسا پانسہ پلٹا کہ زرتشت کی آگ سرد هوگئ..مؤرخوں نے دلجہ کے معرکہ کو دلجہ کا جہنم لکها هے..آتش پرستوں کیلیئے یہ معرکہ جہنم سے کم نہ تها..اتنا بڑا لشکر ڈری هوئ بهیڑ بکریوں کی صورت اختیار کرگیا..وہ بهاگ رهے تهے...کٹ رهے تهے ...گهوڑوں تلے روندے جارهے تهے..
مؤرخوں نے لکها هے کہ اندرزغر زندہ بهاگ نکلنے میں کامیاب هوگیا.مگر مدائن جانے کے بجائے صحرا کا رخ کر گیا .کیونکہ اسے علم تها کہ زندہ گیا تو اردشیر اسے جلاد کے حوالہ کردیگا.. یہ صحرا میں گهومتا هی مر گیا.
دوسری بہمن جازویہ کی فوج ابهی تک دلجہ نہیں پہنچی تهی. مسلمانوں کو ابهی ایسا هی ایک اور معرکہ لڑنا تها.
بہمن جازویہ کو بهی دلجہ پہنچنا تها.اردشیر کے حکم کے مطابق اسے اندرزغر کے لشکر سے ملکر خالد کے لشکر پر حملہ کرنا تها.اسے یقین تها کہ وہ اور اندرزغر ملکر مسلمانوں کو کچل هی دیں گے جلدی کیا هے.
اسکا لشکر آخری پڑاؤ سے چلنے لگا کہ چار پانچ سپاهی انکے لشکر میں داخل هوئے.ان میں کچهہ زخمی تهے.جو زخمی نہ تهے انکی بهی سانسیں سوکهی هوئ تهیں.قدم گهسیٹ رهے تهے.چہروں پر خوف اور شب بیداری کے تاثرات تهے اور دهول کی تہہ چڑهی هوئ تهی..
کون هو تم ان سے پوچها گیا.
هم سالار درزغر کے لشکر کے سپاهی هیں.ان میں سے ایک نے خوف سےکانپتی هوئ آواز میں کہا..
سب مارے گئے هیں دوسرے نے کہا..
وہ انسان نہیں جن هیں ایک کراهتے هوئے بولا..تم یقین نہیں کروگے.
تم جهوٹ بولتے هو جازویہ کے لشکر کے ایک کماندار نے کہا..یہ بهگوڑے هیں.اور سب کو ڈرا کر بے قصور بن رهے هیں.انہیں سالار کے پاس لے چلو..ان کے سر قلم کر دیں گے
انہیں جازویہ کے سامنے لایا گیا....تم کون سی لڑائ لڑ کر آئے هو..لڑائ تو ابهی شروع هی نہیں هوئ.
محترم سالار... جس لڑائ میں آپ شامل هونے جارهے هیں وہ ختم هو چکی هے....ایک نے کہا.
تیغ زن "هزار مرد" مسلمانوں کے سالار کےهاتهوں مارا گیا هے..اور اندرزغر وهاں سے بهاگ گیا هے.
هم جیت رهے تهے.مسلمانوں کے پاس گهڑ سوار دستے نہیں تهے.اندرزغر نے حکم دیا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کاٹ دو. انکی تعدا بہت تهوڑی تهی.هم انکی بوٹیاں بکهیرنے کیلیئے نعرے لگاتے آگے بڑهے اور ان سے الجهہ گئے تو همارے پیچهے سے هزاروں گهڑ سوار هم پر آن پڑے.کہ هم میں سے کسی کو اپنا هوش نہ رها.
ایک زخمی نے هانپتے هوئے کہا سب سے پہلے همارا جهنڈہ گرا. کوئ حکم دینے والا نہ رها. هر طرف نفسا نفسی اور بهگدڑ مچ گئ.اپنوں کی صرف لاشیں نظر آتی تهیں.
کیسے یقین کرلوں کہ اتنے بڑے لشکر کو اتنے چهوٹے لشکر نے شکست دی هے.بہمن سالار نے کہا.
اتنے میں اسے اطلاع دی گئی کہ چند اور سپاهی آئے هیں
انہیں بهی سالار کے سامنے کهڑا کردیا گیا..یہ تیرہ چودہ سپاهی تهے.انکی حالت اتنی بری تهی کہ تین چار گر پڑنے کے انداز سے بیٹهہ گئے.
تم مجهے ان میں سب سے زیادہ پرانے سپاهی نظر آتے هو. جاذویہ نے ایک ادهیڑعمر سپاهی سے کہا . جس کا جسم توانا تها..کیا تم بتا سکتے هو کہ میں جو سن رها هوں کہاں تک سچ هے..تم جانتے هو میدان جنگ سے بهاگنے اور جهوٹ کی سزا کیا هے.
اگر آپ نے یہ سنا هے کہ اندرزغر کی فوج مدینہ کی فوج کے هاتهوں کٹ گئی هے تو یہ سچ هے.آپ سالار هیں اور میں سپاهی هوں...اس بوڑهے سپاهی نے کہا..یہ ایسے هی سچ هے جیسے سورج آسمان پر هے اور هم زمین پر هیں. میں نے مسلمانوں کیخلاف یہ تیسری لڑائ لڑی هے.انکی نفری تینو لڑائیوں میں کم تهی.زرتشت کی قسم میں جهوٹ بولوں تو یہ آگ مجهے جلادے جس کی میں پوجا کرتا هوں. انکے پاس کوئ ایسی طاقت هے جو نظر نہیں آتی.یہ طاقت اس وقت هم پر حملہ کرتی هے جب انہیں شکست هونے لگتی هے.
مجهے اس لڑائ کا بتاو بہمن جازویہ نے کہا تمہیں شکست کس طرح هوئ.
پهر اس سپاهی نے پوری تفصیل سے بتایا کہ مسلمان کیسے اچانک انکے سامنے آگئے .انہوں نے حملہ کردیا اور یہ معرکہ کس طرح پیش آیا.
Tags
Shamsheer e Bayniyam