*آخری* *قسط*
*شمشیر بے نیام*
عمرؓ بن الخطاب نے عدل و انصاف میں شہرت پائی ہے ۔عدلِ فاروقی ضرب المثل کے طور پراستعمال ہوتا ہے۔ ان کے عدل کی لاٹھی سے سب یکساں طور پر ہانکے جاتے تھے۔ ان کی لاٹھی غربت اور امارت رنگ ونسل آقا اور غلا م کو نہیں پہچانتی تھی۔
اس دور میں خالدؓ کی ٹکر کا کون سا ایسا سالار تھا جس نے اسلام کو ارضِ شام، اردن اور فلسطین تک پھیلا دیا ہو؟ بیت المقدس کا فاتح جوکوئی بھی تھا، اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ خالدؓ نہ ہوتے تو بیت المقدس کی فتح اتنی آسان بھی نہ ہوتی۔ عمرؓ ذاتی طور پر جانتے تھے ۔قیصر و کسریٰ کے خلاف بعض فتوحات اس لئے ممکن ہو سکی تھیں کہ خالدؓ نے غیر معمولی طور پر دلیرانہ فیصلے کیے تھے۔ ابو عبیدہؓ ٹھنڈے مزاج کے سالار تھے۔ اگر خالدؓ ان کے ساتھ نہ ہوتے تو رومیوں کے خلاف اتنی تیزی سے اتنی زیادہ کامیابیاں حاصل نہ کی جا سکتیں۔
خود عمرؓ خالدؓ کے معترف تھے لیکن عمرؓ کو جب خالدؓ کے خلاف ایک ایسی بات کاپتا چلاجواسلام کی روح کی منافی تھی اور جسے عمرؓ نظر انداز بھی کرسکتے تھے ۔تو انہوں نے فوری کارروائی کاحکم دے دیا۔ عمرؓ نے سوچا تک نہیں کہ خالدؓ کی جو قدروقیمت ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ یہ چھوٹا سا الزام ہضم بھی کیا جا سکتا ہے۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ
عمرؓ بن الخطاب نے مسندِ خلافت پر بیٹھتے ہی تمام دستوں میں ایک ایک دو دو مخبر رکھ دیئے تھے۔ جو سالاروں اور دیگر عہدیداروں کی ذاتی سرگرمیوں پر نظر رکھتے تھے۔ جب شام میں امن و امان ہو گیا اور خالدؓ کو قنسرین کا حاکم بنا دیا گیا۔ عمرؓ کو مدینہ میں اطلاع ملی کہ خالدؓ نے ایک شاعر کو جس کا نام اشعث بن قیس تھا، دس ہزار درہم صرف اس لئے انعام کے طور پردیئے ہیں کہ اس نے قنسرین میں جاکر خالدؓ کی فتوحات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ایک قصیدہ پڑھا تھا۔ اشعث بن قیس بنو کندہ کا سردار تھا۔ا س نے شاعری اور مدح سرائی کو پیشہ بنا لیا تھا۔ وہ اور اس جیسے چند اور شاعر سالاروں اور حاکموں وغیرہ کے ہاں جاتے ،قصیدہ پڑھتے اورتحفے تحائف اور انعام و اکرام وصول کرتے تھے۔ اس ضمن میں اشعث قنسرین خالدؓ کے ہاں جا پہنچا۔ خالدؓامیر باپ کے بیٹے تھے انہوں نے غربت دیکھی ہی نہیں تھی۔ شہزادوں کی طرح پلے بڑھے تھے۔ یہ تو ان کی عظمت تھی کہ صحیح معنوں میں شہزادہ ہوتے ہوئے انہوں نے آدھی عمر میدانِ جنگ میں پیش قدمیوں میں زمین پر سوتے اور گھوڑے کی پیٹھ پر گزار دی تھی۔ وہ طبعاً خوش ذوق تھے، فیاض تھے، ہر حسین چیز کے دلدادہ تھے۔انہوں نے اس شاعر کو جو انعام دیا تھا وہ اپنی جیب سے دیا تھا۔ اس وقت سالار اس سے زیادہ امیر ہوتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ دشمن کے جس سالار کو وہ ذاتی مبازرت میں شکست دیتے تھے ان کے تمام تر مال و دولت کے خود حقدار ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں مالِ غنیمت میں سے بھی حصہ ملتا تھا۔ خالدؓ نے دشمن کے بے شمار سالاروں کو ذاتی مقابلوں میں قتل کیا تھا۔ ان کے مال و اموال خالدؓ کے حصے میں آئے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ خالدؓنے اتنا مال و دولت اپنے پاس رکھا ہی نہیں تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ شام کی جنگ ختم ہوئی تو خالدؓ نے اپنے سوار دستے کے سواروں کو اپنی جیب سے نقد انعامات دیئے تھے ۔ان کے سوار دستے نے جو کارنامے کردکھائے تھے وہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ وہ اس سے بھی بڑے انعام کے حقدار تھے لیکن خلافتِ مدینہ کی نگاہ میں انعام کاتصور کچھ اور تھا، اور وہی اسلام کی روح کے عین مطابق تھا۔
عمرؓ بن خطاب نے تاریخِ اسلام کے مشہور مؤذن بلالؓ کے ہاتھ ابو عبیدہؓ کو ایک تحریری حکم نامہ بھیجا۔’’……
خالدبن ولید کو مجاہدین کی جماعت کے درمیان کھڑا کرو۔ اس کے سر سے دستار اتارو۔ دستار سے اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھو، ٹوپی بھی اس کے سر سے اتار دو۔ پھر اس سے پوچھو کہ اس نے ایک شاعر اشعث بن قیس کوانعام اپنی جیب سے دیا ہے یا مالِ غنیمت سے؟
اگر وہ اقبال کرے کہ مالِ غنیمت میں سے دیا ہے تو اسے خیانت میں پکڑو۔ اگر ا س نے اپنی جیب سے دیا ہے تو اس پر اسراف کا الزام عائد کرو۔ان میں سے جس الزام کا بھی وہ اعتراف کرتا ہے۔ اس کی پاداش میں اسے اس کے موجودہ عہدے سے معزول کردو اور اس کی جگہ تم خود کام کرو۔‘‘
یہ عربوں کا رواج تھاکہ جس پر کوئی الزام ہوتا تھا اس کے ہاتھ اسی کی پگڑی سے باندھ کر لوگوں کے سامنے پوچھا جاتا تھا کہ اس نے یہ جرم کیا ہے یا نہیں؟
ایک عام آدمی کے ساتھ یہی سلوک ہوتا تھا۔ لیکن عمرؓ نے خالدؓ جیسے عظیم اور تاریخ ساز سالار کو بھی عام آدمی کی سطح پر کھڑا کر دیا۔
مؤرخوں نے لکھاہے کہ ابو عبیدہؓ نے جب یہ حکم نامہ پڑھا تو ان پر سناٹا طاری ہوگیا۔اگر عمرؓ ابو عبیدہؓ کو تھوڑی سی بھی اجازت دے دیتے کہ وہ یہ تحقیقات اپنے طور پر کریں تو ابو عبیدہؓ خالدؓکے ساتھ یہ طریقہ اختیارنہ کرتے لیکن وہ جانتے تھے کہ عمرؓ ڈسپلن اور عدل و انصاف کے معاملے میں کس قدر سخت ہیں۔
اس وقت ابو عبیدہؓ حمص میں اور خالدؓ قنسرین میں تھے۔ابو عبیدہؓ نے قاصد کو بھیجا کہ وہ قنسرین سے خالدؓکو بلا لائیں۔
قاصدنےجب خالدؓ کو پیغام دیا، تو خالدؓ اچھل کر اٹھے۔ ’’خداکی قسم! ‘‘خالدؓ نے نعرہ لگانے کے انداز میں کہا۔’’ مجھے ایک اور جنگ لڑنے کیلئے بلایا گیا ہے۔‘‘ خالدؓاس خوشی کو دل میں بسائے حمص پہنچے کہ رومیوں یا بازنطینیوں کے خلاف کوئی بڑی جنگ لڑی جانے والی ہے۔ لیکن وہ جب ابو عبیدہؓ کے سامنے گئے تو ابو عبیدہؓ کے چہرے پر اداسی کے آثار دیکھے۔
’’امین الامت!‘‘ خالدؓ نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔’’ کیا وہ غلط ہے جو میں سمجھ کر آیا ہوں؟‘‘
’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے غم سے بوجھل آواز میں خالدؓ سے کہا۔
’’امیرالمومنین نے تجھ پر الزام عائد کیاہے کہ تو نے دس ہزار درہم اشعث کو دیئے ہیں۔ وہ اگر مالِ غنیمت سے دیئے ہیں تو یہ خیانت کاجرم ہے اور اگر اپنی جیب سے دیئے ہیں تو یہ فضول خرچی ہے ۔جو اسلام کی نگاہ میں ناجائز ہے۔
بلال یہی جواب لینے آیا ہے۔‘‘ خالدؓ کا ردِ عمل یہ تھا کہ ان پر خاموشی طاری ہو گئی۔ ابو عبیدہؓ نے ایک بار پھر پوچھا۔ لیکن خالدؓ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔
دراصل ابو عبیدہؓ چاہتے تھے کہ خالدؓ کچھ نہ کچھ ضرور کہیں تاکہ وہ طریقہ اختیار نہ کرنا پڑے جو امیرالمومنینؓ نےاختیار کرنے کو لکھا تھا۔خالدؓ پر ایسااثرہوا کہ انہوں نے بلالؓ کی طرف دیکھا بھی نہیں۔آخر ابو عبیدہؓ نے بلالؓ کی طرف دیکھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بلالؓ عربوں کے رواج کے مطابق خالدؓ سے بیان لیں۔ بلالؓ پورا حکم لے کر آئے تھے۔ انہوں نے کارروائی مکمل کرکے جانا تھا۔ خالدؓ نے تھوڑی سی مہلت مانگی جو انہیں دے دی گئی۔ یہ مہلت تو انہیں ملنی ہی تھی۔ کیونکہ دستور کے مطابق تمام فوج کو اکٹھا کرنا تھا۔ جس کے سامنے خالدؓ سے اعترافِ جرم کرانا تھا۔ خالدؓکی ایک بہن فاطمہ حمص میں رہتی تھیں۔ خالدؓ ان کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ عمرؓ نے ان پر کیا الزام عائد کیا ہے۔ بہن سے مشورہ لینے کی ضرورت یہ پیش آئی تھی کہ عمرؓ خالدؓ کے قریبی رشتے دار تھے۔ فاطمہ نے بڑے دکھ سے عمرؓ کے خلاف ایک بات کہہ دی ۔خالدؓ پہلے ہی مغموم تھے اورکسی حد تک مشتعل بھی۔ انہیں اپنی بہن کامشورہ اچھا لگا اور وہ واپس ابو عبیدہؓ کے پاس چلے گئے۔
’’امین الامت!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔میں کوئی بیان نہیں دوں گا۔‘‘
اس کے بعد زمین و آسمان نے جو منظر دیکھا۔اسے دیکھ کر بھی کوئی فرد یقین نہیں کرتا تھا کہ یہ سلوک اس عظیم شخصیت کے ساتھ ہو رہا ہے جو عظمتِ اسلام کا ستون ہے اور جس کے بغیر اسلام اس جگہ تک نہ پہنچتا۔ جہاں خالدؓ کے ہاتھ ان کی پیٹھ کے پیچھے ان کی دستار سے بندھے ہوئے تھے۔ ان کے سر سے ٹوپی اتری ہوئی تھی اور وہ زمین پر دو زانو بیٹھے ہوئے تھے اور بلالؓ ان کے سامنے کھڑے اعترافِ جرم کرارہے تھے۔
’’اے ابنِ ولید!‘‘ بلالؓ پوچھ رہے تھے۔’’ تو نے اشعث کو دس ہزاردرہم اپنی جیب سے دیئے ہیں یا مالِ غنیمت سے؟‘‘خالدؓ کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ وہ خاموش رہے۔ بلالؓ نے ایک بار پھر پوچھا۔خالدؓ پھر بھی خاموش رہے۔ ’’ابنِ ولید!‘‘بلال نے کہا۔ ’’میں امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں۔جواب دے۔ تو نے دس ہزار درہم اشعث کو اپنی جیب سے دیئے تھے یا مالِ غنیمت سے؟
‘‘’’اپنی جیب سے۔‘‘ خالدؓ نے آخر جواب دیا۔ بلالؓ نے ان کے ہاتھ کھول دیئے اور اپنے ہاتھوں پگڑی ان کے سر پر رکھی۔ ’’ہم سب پر امیرالمومنینؓ کے حکم کی تعمیل فرض ہے۔‘‘ بلالؓ نے کہا۔’’ ہم ہر سالارکی عزت کرتے ہیں۔‘‘ وہاں جتنی فوج تھی ۔اس پر خاموشی طاری تھی۔ اس خاموشی میں اضطراب چھپا ہوا تھا۔ ہر کسی کے چہرے پر گلہ اور شکوہ تھا۔ کم از کم خالدؓ کے ساتھ ایساسلوک نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نظم و ضبط کا تقاضا تھا کہ ایک جائز کارروائی کے خلاف کوئی نہیں بول سکتا۔
ابو عبیدہ ؓاور بلالؓ کی بھی کیفیت یہ تھی کہ وہ آنکھیں اوپر کر کے نہیں دیکھتے تھے۔ ان کی نظریں زمین پر لگی ہوئی تھیں۔ خالدؓ اس خیال سے گھوڑے پر سوار ہوئے اور وہاں سے نکل آئے کہ معاملہ یہیں پر ختم ہو گیا ہے ۔ سات آٹھ دن گزر گئے۔ خالدؓ کو کوئی حکم نہ ملا۔ وہ حمص گئے اور ابو عبیدہؓ سے ملے۔ ’’ابو سلیمان! ‘‘ابو عبیدہؓ نے امیر المومنینؓ کا حکم نامہ خالدؓ کے سامنے کرتے ہوئے کہا ۔’’یہ پڑھ لو۔‘‘ یہ وہ حکم نامہ تھا جو امیرالمومنینؓ نے ابو عبیدہؓ کی طرف بھیجا تھا کہ خالدؓ جو بھی اعتراف کریں انہیں معزول کردیا جائے۔
’’تجھ پر ﷲکی رحمت ہو امین الامت !‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔’’امیر المومنین کا یہ حکم مجھے اسی روزکیوں نہ سنا دیا۔‘‘
’’خد اکی قسم ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’مجھے اندازہ تھا اس دکھ کا جو تجھے ہونا تھا۔ میں اپنی زبان سے تجھے دکھ نہیں دے سکتا تھا۔ یہ دکھ میرے لیے بھی کم نہیں کہ تجھے معزول کر دیا گیا ہے۔‘‘
خالدؓخاموشی سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور حمص سے نکل آئے۔ تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس وقت خالدؓ کیا سوچ رہے تھے؟ ان کی جذباتی دنیا میں کیسے کیسے زلزلے آرہے تھے۔ انہوں نے اپنی جیب سے یہ انعام دیا تھا۔اسے وہ جرم نہیں سمجھتے تھے۔ وہ یہی سمجھتے تھے کہ انہیں جو سزا دی گئی ہے وہ بہت سنگین ہے۔ ان کی زندگی میں یہ دوسرا موقع تھا کہ وہ سوچوں اور خیالوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے سفر کر رہے تھے۔ ایک روز جب وہ مکہ سے مدینہ کو تن تنہا جا رہے تھے۔ انہوں نے مدینہ جاکر
رسوِ ل اکرمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنا تھا۔ اور اب وہ حمص سے اپنی معزولی کاحکم سن کر قنسرین کو جا رہے تھے۔
ان کے ذہن میں اضطراب کا رنج و الم کا اور نا جانے کیسی کیسی سوچوں کا طوفان اٹھتا تھا اور وہ اس طوفان کے زناٹے سنتے جا رہے تھے۔ گھوڑے نے انہیں قنسرین پہنچا دیا۔ شہر کے اندر جاتے ہی انہوں نے اپنے اس گھوڑ سوار دستے کو بلایا جو انہوں نے اپنے ہاتھوں تیار کیا تھا۔ یہ چنے ہوئے سواروں کا دستہ تھا۔ اس دستے نے اپنے سے کئی گناقوی دشمن کے پاؤں اکھاڑے تھے۔ اس دستے سے خالدؓ کو بہت ہی پیار تھا۔ ابھی کل ہی کی بات تھی کہ اس دستے کے سامنے کھڑے ہو کر خالدؓ کہا کرتے تھے کہ دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ آج وہ اسی دستے کے سامنے رنج و الم کا مرقع بنے اپنے گھوڑے پر بیٹھے تھے۔خالدؓ اپنے اس محبوب دستے سے نہ جانے کیسی کیسی باتیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بولنا چاہا تو ان پر رقت سی طاری ہو گئی۔ وہ اس دستے کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے انتہائی مختصر الفاظ میں سواروں کی کامیابیوں کی ان کی برق رفتاریوں کی جانبازی اور سرفروشی کی دل کھول کر تعریف کی۔ پھر انہیں بتایا کہ وہ ہمیشہ کیلئے ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔
سواروں کا ردِ عمل یہ تھا کہ جیسے ان کی سانسیں رُک گئی ہوں۔ درد ناک سا ایک سکوت تھا جو ان پر طاری ہو گیاتھا ۔اس سکوت کو سواروں کی سسکیوں نے توڑا ۔خالدؓ نے گھوڑا موڑا اور وہاں سے ہٹ آئے۔ یہ منظر ان کی برداشت سے باہر تھا۔وہاں سے خالدؓ حمص گئے۔ تمام مجاہدین سے ملے۔بوجھل دل سے سب کو خدا حافظ کہا اور مدینہ کو روانہ ہوگئے۔
خالدؓ مدینہ میں داخل ہوئے لیکن ایک فاتح سالار کی حیثیت سے نہیں کہ لوگ گھروں سے باہر آکر ان کا استقبال کرتے ان کی حیثیت ایک سزا یافتہ مجرم کی سی تھی۔ اتفاق سے عمرؓ انہیں ایک گلی میں آتے مل گئے۔ ’’ابو سلیمان!‘‘عمرؓ نے خالدؓکے جنگی کارناموں کو ان الفاظ میں سراہا۔’’ تو نے وہ کام کیا ہے جو کوئی اور نہیں کر سکتاتھا۔ مگر ہر کام ﷲکرتا ہے۔‘‘’’اور تو نے جو کام کیا ہے وہ کسی بھی مسلمان کو پسند نہیں آیا۔‘
‘ خالدؓ نے کہا۔’’ اے ابن ِخطاب تو نے میرے ساتھ بے انصافی کی ہے ۔‘‘’
’کہاں سے آئی یہ دولت کہ تو اسے ناجائز اسراف میں پھینکتا پھرتا ہے؟ ‘‘عمرؓنے کہا۔ ’’ابو سلیمان!کیا تو رومیوں اور فارسیوں جیسا بادشاہ بننا چاہتا ہے؟ خدا کی قسم !تو میرے لیے قابلِ احترام ہے۔ تو مجھے عزیز ہے۔ اب تجھے مجھ سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ خدا کی قسم! میں کسی سالار، کسی امیر اور کسی حاکم کو بادشاہوں جیسا بننے نہیں دوں گا کہ جس نے مدح سرائی کی اس کی جھولی انعام سے بھر دی۔
‘‘خالدؓ ایک دو دن مدینہ میں رہ کر قنسرین چلے گئے۔ وہ مدینہ کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئے تھے۔ ﷲ کی تلوار نیام میں بند ہو گئی۔ا س واقعے کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا تھا۔ بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ تاریخ دانوں نے اپنی اپنی رائے دی ہے۔ بعض نے عمرؓ کے اس فیصلے کے خلاف لکھا ہے۔
خلفائے راشدینؓ کو رسوا کرنے والوں نے لکھا ہے کہ عمرؓ کے دل میں خالدؓ کے خلاف ذاتی رنجش تھی ۔جسے انہوں نے یوں مٹایا کہ خلیفہ بنتے ہی خالدؓ کو معزول کر دیا۔ حقیقت کچھ اور تھی۔ اگر ہم آج کے دور میں اور آج کے حکمرانوں کو سامنے رکھ کر سوچیں تو عمرؓ کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگتااور اگر ہم اس دور کو تصور میں لائیں اور گہرائی میں جائیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عمرؓ کا فیصلہ صحیح تھا۔
غور کیجئے عمر ؓنے کہا تھا کہ’’ تم بادشاہ بننا چاہتے ہو؟ بادشاہوں کے انداز یہی ہوتے ہیں کہ جس نے تعریف میں دو کلمے کہہ دیئے تو اسے انعام و اکرام سے مالا مال کردیا۔‘‘ غور کیجیے عمرؓ بن الخطاب کی نظر آنے والے وقت کے پردے چاک کرکے کتنی دور چلی گئی تھی۔
خلفائے راشدینؓ کے بعد آنے والے خلفاء نے انعام و اکرام کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ عباسی تو روائتی بادشاہ بن گئے تھے۔ اندلس کے آخری دور کو دیکھیے۔ دربار لگا ہوا ہے۔ شاعر اور ادیب منظوم اور نثری قصیدے پڑھ رہے ہیں اور انعامات سے جھولیاں بھر رہے ہیں۔ خوشامد ایک فن اور ایک پیشہ بن گیا ہے اور ان انعام خوروں، مدح سراؤں اور خوشامدیوں نے سلطنتِ اندلس کو سقوطِ غرناطہ تک پہنچایا۔ اس کے بعد سلطنتِ اسلامیہ بادشاہیوں میں بٹ گئی۔
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے انعام مشہور ہوئے اور اس سلطنت کو زوال آیا۔ اب پاکستان میں دیکھ لیں۔ انعام و اکرام کا وہی مذموم سلسلہ چل رہا ہے ۔جسے اسلام نے ناجائز اسراف قرار دیا تھا۔
خالدؓ بن ولید نے تو اپنی جیب سے انعام دیا اور معزولی کی سزا پائی تھی۔ لیکن ہمارے حکمران سرکاری خزانے سے انعام دیتے چلے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ غیر ممالک سے لیے ہوئے قرضوں کی رقم ہے ۔جس پر ہم سود اد اکر رہے ہیں۔
عمرؓ کی دوربین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ انعام و اکرام کا سلسلہ چل نکلا تو اس کا نتیجہ زوال کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔عمرؓ نے اس لئے بھی خالدؓ کو نہیں بخشا تھا کہ عدل و انصاف اور سزا میں چھوٹے بڑے کا فرق نہ رہے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ انہوں نے خالدؓ کو معاف کر دیا تو یہ دستور بن جائے گا کہ سالار امیر حاکم اور حیثیت والے افراد کو سزا مل ہی نہیں سکتی۔ اس طرح عدل و انصاف ختم ہوجائے گا۔ اور اسلامی معاشرہ چھوٹے اور بڑے میں بٹ جائے گا۔عمرؓ احکام منوانے میں اس قدر سخت تھے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اسّی کوڑے مارے گئے تو ان کا بیٹا مر گیا۔ عمرؓ کو اطلاع دی گئی۔ انہوں نے حکم دیا کہ ایک سو کوڑے پورے کرو۔ باقی بیس کوڑے اس کی لاش پر مارو۔
مدینہ سے خالدؓ قنسرین گئے۔ وہاں سے حمص چلے گئے اور ان کی عمر کے باقی چار سال وہیں گزرے۔ ایک وقت آیا کہ خالدؓ تنگ دست ہو گئے۔ اہلِ قریش کا شہزادہ ،میدانِ جنگ کا بادشاہ، دل کا سخی اور فیاض ہزاروں درہم حقداروں میں تقسیم کردینے والا انسان مفلسی کے چنگل میں آگیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد امیر المومنین عمرؓ نے کچھ مسلمانوں کیلئے وظیفہ مقررکیا تھا۔ جو تین ہزار درہم سالانہ تھا۔ یہ خالدؓ کو بھی ملنے لگا جس سے وہ حمص میں اپنے کنبے کے ساتھ زندگی کے دن پورے کرنے لگے۔ خالدؓ اب وہ خالدؓ نہیں رہے تھے جن کی اس للکار ۔۔۔انا فارس الضدید۔۔۔۔انا خالد بن ولید۔۔۔۔سے دشمن پر دہشت طاری ہو جایا کرتی تھی ۔وہ گوشہ نشین ہو گئے۔ ان کی زندہ دلی خوش ذوقی اور شوخی ختم ہو گئی۔ وہ چپ اور اداس رہنے لگے۔
جنوری ،فروری ۶۳۹ء )۱۸ھ( میں انہیں ایک اور صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ فلسطین کے ایک قصبے عمواس میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی جو دیکھتے ہی دیکھتے تمام فلسطین اور شام میں پھیل گئی۔ لوگ بڑی تیزی سے موت کا شکار ہونے لگے۔ یہاں ابو عبیدہؓ کے کرداد کا ذکر بے مہل نہ ہوگا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ امیر المومنین عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو پیغام بھیجا کہ وہ مدینہ آجائیں کچھ ضروری مشورہ کرنا ہے۔ ابو عبیدہؓ نے جواب دیا کہ میرے جن ساتھیوں نے میدانِ جنگ میں کبھی ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ انہیں میں طاعون کے ڈر سے چھوڑ کر نہیں آؤں گا۔چنانچہ وہ اپنی فوج کے ساتھ رہے اور طاعون کی وبا میں شہید ہو گئے۔
خالدؓ کے تمام ساتھی سالار جن کے ساتھ انہوں نے بڑی خوفناک جنگیں لڑی تھیں، طاعون سے انتقال کر گئے۔ ان میں ابوعبیدہؓ، شرجیلؓ بن حسنہ، ضرار بن الازور، یزیدؓ بن ابی سفیان بھی شامل تھے۔ خالدؓ کے اپنے بہت سے بیٹے طاعون کا شکار ہو گئے۔ ایک باپ کیلئے یہ صدمہ ناقابلِ برداشت تھا۔ طاعون کی اس وبا میں پچیس ہزار مسلمان ﷲکو پیارے ہو گئے۔
خالدؓ پہلے بھی چپ ہی رہتے تھے مگر اب تو جیسے ان کی قوتِ گویائی ختم ہی ہوگئی ہو۔ مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ چل رہا تھا۔ ابو عبیدہؓ کے انتقال کے بعد سپاہ سالاری عرھوؓ بن العاص کوملی۔ خالدؓ جب مسلمانوں کی نئی فتح کی خبرسنتے تھے تو ان کے چہرے پر رونق آجاتی تھی مگرکچھ دیر بعد وہ پھر سے بجھ کے رہ جاتے۔ غالباً انہیں یہ خیال آجاتا تھا کہ وہ اس جنگ میں شریک نہیں تھے۔ ۶۴۲ء )۲۱ھ( میں خالدؓ کوایسی بیماری نے آلیا جو انہیں بڑی تیزی سے کھانے لگی۔ یہ صدموں کا اثر تھا۔ ان کاجسم گھلتا چلا گیا۔
ایک روز ایک دوست انہیں دیکھنے آیا۔’’غور سے دیکھ!‘‘ خالدؓنے اپنی ایک ٹانگ ننگی کرکے اپنے دوست کو دکھائی اور پوچھا۔’’ کیا میری ٹانگ پر کوئی جگہ تجھے نظر آتی ہے جہاں تیر تلوار یا برچھی کا زخم نہ ہو؟‘‘دوست کو ایسی کوئی جگہ نظر نہ آئی۔ جہاں زخم نہ تھا۔ خالدؓ نے دوسری ٹانگ ننگی کر کے دوست کو دکھائی اور یہی سوال پوچھا۔پھر دونوں بازو باری باری ننگے کیے اور یہی سوال پوچھا پھر سینہ اور پیٹھ دکھائی۔ دوست کو ایک بالشت سے زیادہ کوئی جگہ نظر نہ آئی جہاں زخم کا نشان نہ ہو۔’’
کیا تو نہیں جانتا میں نے کتنی جنگیں لڑی ہیں؟‘‘ خالدؓ نے بڑی نحیف آواز میں کہا۔ ’’پھر میں شہید کیوں نہ ہوا؟میں لڑتے ہوئے کیوں نہ مرا؟‘‘ ’’تو میدانِ جنگ میں نہیں مر سکتا تھا ابی سلیمان !‘‘دوست نے کہا۔’’ تجھے رسول ﷲ ﷺ نے ﷲکی تلوار کہا تھا۔ یہ رسول اکرم ﷺ کی پیشن گوئی تھی کہ تو میدان جنگ میں نہیں مارا جائے گا۔ اگر تو مارا جاتا تو سب کہتے تھے کہ کافر نے اسلام کی تلوار توڑ دی ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔تو اسلام کی شمشیر بے نیام تھا۔‘‘
انتقال کے وقت خالدؓ کے پاس ان کا ایک ملازم حمام تھا۔ نزع کے عالم میں خالدؓ نے کہا۔’’ میں ایک اونٹ کی طرح مر رہا ہوں۔ بستر پر مرنامیرے لیے شرمناک ہے۔‘‘ اور خالدؓ اس ﷲکے حضور پہنچ گئے جس کی وہ شمشیر تھے۔ خالدؓ بن ولید سیف ﷲ دنیا سے اٹھ گئے۔خالدؓ کی عمر اٹھاون سال تھی۔
ان کی وفات کی خبر مدینہ پہنچی تو بنی مخزوم کی عورتوں میں کہرام مچ گیا۔مدینہ کی دوسری عورتیں بھی باہر آگئیں اور مدینہ کی فضا سوگوار ہو گئی۔ عورتوں کی آہ و بکا سے مدینہ کی فضائیں گونج اٹھیں۔
امیر المومنین عمرؓ نے خلافت کی مسند پر بیٹھتے ہی یہ حکم جاری کیا تھا کہ کسی کی وفات پر گریہ و زاری نہیں کی جائے گی۔ ان کے اس حکم پر سختی سے عمل ہوتا رہا تھا، مگر خالدؓکی وفات پر عورتیں گھروں سے باہر آکر بین کر رہی تھیں۔ عمرؓ نے اپنے گھر میں بیٹھے یہ آوازیں سنیں تو وہ غصے سے اٹھے اور دیوار کے ساتھ لٹکتا ہوا دُرّہ لے کر تیزی سے باہر کو چلے لیکن دروازے میں رُک گئے۔ کچھ دیر سوچ کر واپس آگئے اور دُرّہ وہیں لٹکا دیا جہاں سے اٹھایا تھا۔ ’’بنی مخزوم کی عورتوں کو رونے کی اجازت ہے۔‘‘عمرؓ نے اعلان کیا۔’’ انہیں ابو سلیما ن پہ رونے دو۔ ان کا رونا دکھاوے کا نہیں۔ رونے والے ابو سلیمان جیسوں پر ہی رویا کرتے ہیں۔‘‘
حمص میں بڑا ایک حسین باغ ہے ۔پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ درمیان میں راستے ہیں۔ درخت ہیں، اس باغ میں ایک مسجد ہے۔ جو’’ مسجدخالدؓ بن ولید‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ بہت دلکش مسجد ہے اور اس مسجد کے ایک کونے میں خالدؓ کی قبر ہے ۔خالدؓ کی داستانِ شجاعت جاننے والوں کو جیسے اب بھی اس مسجد میں جا کر للکار سنائی دیتی ہے
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید ؓ
Tags
Shamsheer e Bayniyam