❤ *قسط نمبر* *41* ❤
🇵🇰 *شمشیر بے نیام* 🇵🇰
*جنہیں هم کیڑے مکوڑوں* سے بڑهکر کچهہ نہیں سمجهتے تهے.وہ مدینہ والوں کے بازو بن گئے هیں اور همارا لشکر انکے آگے بهاگا پهر رها هے.یہ عقیدہ کی طاقت هے.
ملکہ فارس ..طبیب نے کہا.
تو کیا انکا عقیدہ سچا هے
نہیں ملکہ فارس.طبیب نے کہا...ایک بات کہوں جو شاید تمہیں اچهی نہ لگے .مسلمانوں کا عقیدہ یہ هے کہ بادشاهی صرف اللہ کی هے .بندے اس کے حکم کے پابند هیں.وہ کہتے هیں کہ اس اللہ کے سوا کوئ معبود نہیں.کیاتم اس راز کو سمجهی هو ملکہ کسری..
نہیں بزرگ طبیب اس نے کہا میں نہیں سمجهی .
بادشاهی تو ایک خاندان اور اسکے ایک فرد کی هوتی هے. اسکا انجام تم دیکهہ رهی هو.ملکہ کسری..وہ انسان جو اپنے آپ کو انسانوں کا شہنشاہ سمجهتا هے. بے بس اور مجبور اندر پڑا هے.اپنی بادشاهی بچا نہیں سکتا.اسکا لشکر پسپا هوتا چلا آتها هے.ایک سپاهی کو کیا پڑی هے کہ وہ ایک انسان اور اسکی شہنشاهی کیلیئے اپنی جان دے.وہ جو هزاروں کی تعداد میں مر رهے هیں وہ بهاگتے هوئے مر رهے هیں.وہ دیکهتے هیں مال غنیمت تو هے نہیں پهر کیوں لڑیں. وہ خزانہ سے ماهانہ وصول کرنے کیلیئے زندہ رهنا چاهتے هیں.
طبیب نے کہا مسلمان کسی ایک انسان کے آگے جوابدہ نہیں.وہ اللہ کی رضا کیلیئے لڑتے هیں .اور اپنے امیر کا حکم مانتے هیں.یہی وجہ هے کہ وہ اتنی کم تعداد میں بهی طوفان کیطرح بڑهہ رهے هیں.
ملکہ فارس ..عقیدہ اور مذهب اپنا اپنا هوتا هے.علم اور تجربہ کی بات کرتا هوں.ایک خاندان اور ایک انسان اپنے آپ کو شہنشاہ بنا لیتا هے اور انسانوں کو انسان سمجهنا چهوڑ دیتا هے.ایک دن آتا هے کہ وہ خود کو اپنی فوج اور رعایا کو تباهی کے گڑهے میں پهینک دیتا هے.
میں نہیں سمجهہ سکتی ...ملکہ نے کہا..میں سمجهنا بهی نہیں چاهتی.میں صرف یہ چاهتی هوں کہ کسری صحت یاب هو جائے.کچهہ کرو بزرگ طبیب کچهہ کرو.
کچهہ نہیں هوسکتا ملکہ فارس...طبیب نے کہا.صرف یہ خبر لے آؤ کہ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکال دیا گیا هے.یا خالد بن ولید کو زنجیروں میں باندهہ کر دربار میں لے آؤ.کسری اٹهہ کهڑے هونگے.
ایسی خبر کہاں سے لاؤں اے طبیب....ملکہ نے شکست خوردہ لہجہ میں کہا.مدینہ کے اس سالار کو کیسے زنجیروں میں باندهہ کر لے آؤں.اگر میرے سالار شکست کها کر زندہ میرے پاس آجاتے تو میں انکی ٹانگیں زمین میں گاڑ کر ان پر کتے چهوڑ دیتی. اور سر جهکائے هوئے چل پڑی.
ایک گهوڑا سرپٹ دوڑتا آیا اور محل کے باهر رکا.ملکہ دوڑتی باهر گئی اور طبیب بهی. وہ ایک کماندار تها.گهوڑے سے کود کر وہ ملکہ کے سامنے دو زانوں هوگیا.منہ کهلا هوا. آنکهیں سفید هوگئی تهیں.چہرے پر تهکن و گهبراهٹ تهی.
کوئ اچهی خبر لائے هو ملکہ نے پوچها اور شاهانہ جلال سے بولی اٹهو اور فورا بتاؤ.
کوئ اچهی خبر نہیں کماندار نے هانپتی آواز میں کہا.مسلمانوں نے پورا لشکر کاٹ دیا هے.انہوں نے همارے هزاروں آدمیوں کو پکڑ کر دریائے خثیف کے کنارے اس طرح قتل کردیا کہ دریا میں خون چل پڑا.دریا خشک تها. مسلمانوں کے سالار نے دریا کا بند کهلوا دیا. تو باد قلی خون کا دریا بن گیا.
تم کیوں زندہ واپس آگئے هو.ملکہ نے غضبناک آواز میں پوچها.کیا تم میرے هاتهوں کٹنے کیلیئے آئے هو.
میں اگلی جنگ لڑنے کیلیئے زندہ آگیا هوں.کماندار نے جواب دیا.میں چهپ کر اپنے لشکر کے قیدیوں کے سر جسموں سے الگ هوتے دیکهتا رها هوں..
خبردار ..ملکہ نے حکم دیا. یہ خبر یہیں سے واپس لے جاؤ.
شہنشاہ فارس یہ خبر سننے کیلیئے زندہ هے .ارد شیر کی آواز سنائ دی ..
ملکہ اور طبیب نے دیکها ارشیر ستون کے سہارے کهڑا تها.
دو حسین لڑکیوں نے اسکے هاتهہ اپنے کندهوں پر رکهے هوئے تهے . یہاں آؤ اس نے کماندار کو حکم دیا.میں نے محسوس کرلیا تها کہ کوئ آیا هے. کہو کیا خبر لائے هو.
کماندار نے ملکہ اور طبیب کیطرف دیکها.
ادهر دیکهو اردشیر نے گرج کر کہا .بولو.
کماندار نے وهی خبر سنادی جو ملکہ کو سنائ جا چکی تهی.
کسری ارد شیر آگے کو جهک گیا. دونو لڑکیوں نے اسے سہارا دیا. ملکہ نے لپک کر اسکا سر اوپر اٹهایا.
طبیب بے اردشیر کی نبض پر انگلیاں رکهیں .ملکہ نے طبیب کیطرف دیکها.
طبیب نے مایوسی سےسر هلایا ..فارس کسری سے محروم هو گیا. طبیب نے کہا..
محل میں هڑبونگ مچ گئی.اردشیر کی لاش اٹها کر اسکے اس کمرہ میں لے گئے.جہاں اس نے کئ بار کہا تها کہ مدینہ کے لٹیرے بدوؤں کو فارس کی سرحد میں قدم رکهنے کی جرات کیسے هوئ.اسی کمرہ میں ولید کے بیٹے خالد اور حارثہ کے بیٹے مثنی کو زندہ یا مردہ لانے کا حکم دیا تها .
حکم کی تعمیل سے پہلے هی اس کمرہ میں اسکی لاش پڑی تهی.وہ شکستوں کے صدمہ سے هی مر گیا تها.
ملکہ کسری نے حکم دیا کہ لڑنے والے لشکر تک کسری کے مرنے کی خبر نہ پہنچنے دی جائے.
مسلمانوں کے لشکر میں ایک گهوڑا سرپٹ دوڑتا هوا داخل هوا.اسکا سوار چلا رها تها کہاں هے ابن ولید .گهڑ سوار بازو بلند کرکے لہراتا آرها تها.باهر آ ابن ولید..
خالد بڑی تیزی سے باهر آئے..
ابن ولید تجهہ پر اللہ کی رحمت هو.تیری دهشت نے
ارد شیر کی جان لے لی.
کیا تو پاگل هوگیا هے .ابن حارثہ خالد نے آگے بڑهکر کہا
سوار مثنی بن حارثہ تها. مثنی گهوڑے سے کودا اور بڑے جوش سے خالد سے بغلگیر هوا کہ خالد گرتے گرتے بچے. اسکے محل رو رهے هیں مثنی نے خوشی سے بے قابو هوتے کہا..اردشیر کو مرے آج 4 دن هوگئے هیں.محل میں جو آدمی موجود تهے انکو حکم دیا گیا هے کہ اردشیر کی موت کی خبر لشکر کو نہ دی جائے.خالد نے اپنے دونوں هاتهہ آسمان کیطرف پهیلا دیئے..اور کہا اے اللہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں.اے اللہ فتح کے تکبر اور غرور سے بچانا.
یارب تمام تعریفیں صرف اور صرف تیرے لیئے هیں.
هاتهہ نیچے کرکے ادهر ادهر دیکها اور بلند آواز سے کہا کہ تمام لشکر کو یہ مزدہ سنا دو کہ فارس کی وسیع وعریض شہنشاهی کا ستون گر گیا هے. یہ سب اللہ کی عطا هے
سبکو کہہ دو کہ کسری تمہاری دهشت کا شکار هوا هے
خالد مثنی بن حارثہ کو اپنے خیمہ میں لے گئے. اور پوچها کہ آگے کیا خبر هے.
مثنی نے کہا کہ تهوڑی دور فارس کا ایک بہت بڑا شہر امنیشیا هے .اس میں فارس کی فوج رهتی هے.اسے فوج کی بہت بڑی چهاونی سمجهہ لو.اور یہ شہر تجارتی مرکز بهی هے.اردگرد کی زمین بہت زرخیز هے .اناج اور پهلوں کے باغوں کی وجہ سے امنیشیا امیروں کا شہر کہلاتا هے.
شہر بے پناہ مضبوط هے.اسکے دروازے بہت مضبوط هیں قریب جاؤ گے تو دیواروں سے تیروں کا مینہ برسے گا. ولید کے بیٹے اس شہر کیلیئے جانوں کی قربانی دینا پڑے گی.اگر تونے یہ شہر لے لیا. تو سمجهہ لو دشمن کی ایک موٹی رگ اپنے هاتهہ میں لے لی..
کیا اب بهی وهاں فوج هے خالد نے پوچها.اگر هے تو کتنی هوگی ؟ اتنی نہیں هوگی جتنی پہلے تهی.مثنی نے جواب دیا.
جہاں تک مجهے بتایا گیا هے الیس کی لڑائ میں کچهہ فوج وهاں سے بهی آئ تهی.دریائے فراط میں ایک چهوٹا دریا آکر گرتا هے اسے دریائے بادقلی کہتے تهے.جہاں یہ دریا ملتے تهے وهاں شہر امنیشیا آباد تها.
خالد بڑی شدت سے یہ محسوس کررهے تهے کہ انکا هر اگلا قدم پچهلے قدم سے دشوار هوتا جارها هے.انہوں نے حکم دیا کہ فورا امنیشیا کیطرف کوچ کیا جائے.انکا مقصد تها کہ آتش پرستوں کو سنبهلنے کا موقع نہ دیا جائے.
یہ مئ 633 ربیع الاول 12 هجری کے تیسرے هفتہ کا ابتدائ دن تها.خالد نے الیس سے کوچ کیا.مدینہ کے سپاهی فتح ونصرت سے سر شار تهے.علاقہ سرسبز و شاداب تها
گهوڑوں اور انسانوں کیلیئے خوراک کی کوئ کمی نہ تهی.
امنیشیا کا دفاع خالد کو پریشان کررها تها.جب شہر کی دیوار اور برج نظر آنے لگے.خالد نے اپنے لشکروں کو روک دیا مثی بن حارثہ ان سے الگ هوگیا تها.وہ چهاپہ مار جنگ کا ماهر تها اور اپنے جانباز دستہ کو ساتهہ لے گیا تها.
خالد نے اسے اس مقصد کیلیئے بهیجا تها کہ وہ کسی طرح اپنے دو چار آدمیوں کو امنیشیا بهیج کر معلوم کرے کہ آتش پرستوں کا کتنا لشکر هے.زیادہ دیر نہیں گزری تهی کہ مثنی آگیا.ابن ولید یہ دهوکہ معلوم هوتا هے .اللہ کی قسم آتش پرست آمنے سامنے کی لڑائ سے منہ موڑ گئے هیں.وہ دهوکہ اور فریب کی لڑائ چاهتے هیں.
تو یہ نہیں بتائیگا کہ تونے کیا دیکها.خالد نے پوچها.اور وہ کیسا دهوکہ هے.جو آتش پرست همیں دے رهے هیں.
شہر خالی هے مثنی بن حارثہ نے کہا دروازے کهلے هوئے هیں برجوں اور دیواروں پر کوئ نظر نہیں آتا .
کیا تیرے آدمی شہر کے اندر گئے تهے.خالد نے پوچها.
وہ دروازوں تک گئے تهے مثنی نے بتایا.وہ تو قبرستان لگتا هے.دروازوں میں انہیں نہ انسان نظر آیا اور نہ جانور.
کیا تم اسے انکی چال نہیں سمجهتے ابن ولید ؟
خالد نے کہا میں تیرے آدمیوں پر شک نہیں کرونگا کہ وہ جهوٹ بول رهے هیں.انہوں نے خواب نہیں دیکها تو همیں احتیاط سے آگے جانا هوگا.
اللہ کی قسم وہ جهوٹ بولنے والے نہیں.مثنی نے کہا. اگر انکا ایمان اتنا کمزور هوتا تو وہ ایرانیوں کے ظلم سے بچنے کیلیئے کبهی کا اپنا مذهب چهوڑ چکے هوتے.اور سنو ابن ولید ...سب سے پہلے میرے آدمی شہر میں داخل هونگے. یہ دهوکہ هے پهندہ هے جال هے پہلے میرے آدمی اس میں جائیں گے.تاکہ همارا لشکر محفوظ رهے.
خالد نے اپنے سالاروں کو بلایا اور بتایا کہ امنیشیا خالی پڑا هے.اور یہ دهوکہ هوگا.کہ هم اپنے لشکر کو شہر میں لے جائیں گے وهاں کوئ نہیں هوگا هم اندر داخل هونگے اور دروازے بند هوجائیں گے.هم محاصرے میں آجائیں گے.
هم شہر پر هلہ بول رهے هیں ابن حارثہ...
خالد مثنی سے مخاطب هوئے.تیرا دستہ لشکر سے دور رهیگا اور تیری نظر لشکر پر هوگی.دشمن کہیں سے نکل آیا تو اس پر تیرا دستہ اپنے انداز سے حملہ کریگا.اور چهاپہ مار حملے کرتا رهیگا .تمہیں مزید بتانے کی ضرورت نہیں.
خالد نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا.دائیں اور بائیں سالار عاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو رکها..مگر اب انکے طریقے مختلف تهے. دروازے کهلے هونے کی صورت میں خالد کے دستہ نے شہر کے اندر جانا تها. عاصم بن عمرو نے انکے پیچهے رهنا تها.کہ بوقت ضرورت خالد کی مدد کو پہنچ سکے.عدی بن حاتم کو اپنے دستے قلعہ کے ارد گرد پهیلا دینے تهے.
احکامات دیکر خالد نے پیش قدمی کا حکم دے دیا.فوج کے تینو حصے شہر کے قریب جاکر الگ الگ هوگئے.مثنی کے چهاپہ مار شہر کے ارد گرد کے علاقوں میں گهوم پهر رهے تهے.قریب ایک جنگل تها..کچهہ علاقہ میدانی تها.مثنی نے اپنے ساتهیوں کو ٹولیوں میں تقسیم کردیا تها.ٹولیوں نے هر وہ علاقہ چهان مارا جہاں دشمن کے چهپنے کا امکان تها . دشمن کا کہیں کوئ نام ونشان نہیں مل رها تها. یہ ٹولیاں دور دور تک گشت کر رهی تهیں .باقی تینو دستے شہر کے قریب پہنچ گئے.عدی بن حاتم نے اپنے دستوں کو شہر کے ارد گرد پهیلا دیا.
خالد نے شہر کے دروازے کے پاس جا کر بلند آواز سے اعلان کروایا کہ لوگ شہر سے بابر آجائیں.لوگ باهر نہ آئے تو شہر کا کوئ مکان سلامت نہ رهنے دیا جائیگا.آتش پرستو زندہ رهنا هے تو باهر آجاؤ.
: اپنے سالاروں سے کہو بزدل نہ بنیں. اسطرح کے اعلان هوتے رهے. مگر شہر کے اندر خاموشی طاری تهی.خالد نے میان سے تلوار نکالی اور بلند آواز سے کہا میرے پیچهے آؤ. اور گهوڑے کو ایڑ لگا دی. انکے پیچهے فوج کے جو دستے تهے وہ شہر کے دروازے سے یوں داخل هوئے جیسے کسی دریا کا بند ٹوٹ جاتا هے. سب آگے سوار دستے تهے اندر جاکر گهوڑے پهیل گئے.انکو حکم دیا گیا کہ گهر گهر کی تلاشی لی جائے. خالد خود ایک اونچی جگہ پر کهڑے هوگئے.اور احکام دینے لگے انہوں نے ایک قاصد سے کہا کہ سالار عاصم بن عمرو کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ دستے اندر لے آؤ. اور پیادہ تیر اندازوں کو شہر کی دیواروں پر پهیلا دو .دیکهتے هی دیکهتے عاصم بن عمرو کے تمام تیر انداز دیواروں پر پهیل گئے.وہ اندر بهی دیکهہ رهے تهے اور باهر بهی.
خالد دیوار کے اوپر گئے اور ساره شہر کے گرد گهوم کر آئے.شہر میں انہیں اپنے دستوں کے سوا اور کوئ بهی نظر نہیں آرها تها.باهر عدی بن حاتم کے دستے تهے خالد کی نظر جہاں تک کام کرتی تهی دشمن کے لشکر کا کوئ کهوج نہیں مل رها تها. انہیں گهڑ سواروں کی تین ٹولیاں دکهائ دیں.وہ مثنی کے سوار تهے .
خالد نیچے آیا.انہیں بتایا گیا کہ ایک گهر میں ایک بوڑها آدمی چارپائ پر پڑا اونگهہ رها هے . خالد اس گهر میں گئے جہاں ایک بوڑها جس کی آنکهیں ادهہ کهلی تهیں اور منہ بهی کهلا هوا تها.چار پائ پر پڑا لاش لگ رها تها .اس کی آواز سرگوشی سے بلند نہ تهی .وہ کچهہ کہہ رها تها .خالد نے اپنے ایک محافظ سے کہا .کان لگا کر سنو.
کیاتم وهی لوگ هو جن کے ڈر سے شہر خالی هوگیا هے. بوڑهے نے پوچها.......هم مسلمان هیں محافظ نے کہا..
مدینہ کے مسلمان بوڑهے نے کہا.اور کہنے لگا میں یہاں کا عیسائ هوں اور وہ مجهے مرنے کیلیئے چهوڑ گئے هیں.سب بهاگ گئے هیں
کہاں چلے گئے هیں؟؟؟
بهاگ گئے هیں بوڑهے نے کہا.جب سالار بهاگ جائے. فوج بهاگ جائے.تو لوگ کیوں نہیں بهاگیں گے.کیا خالد بن ولید تمہارا سالار هے. جسے جن اور دیو کہتے هیں .جس نے کسری کی اتنی طاقتور فوج کو بهگا دیا هے .وہ انسان هو هی نہیں سکتا....
خالد نے اسے نہ بتایا کہ وہ جن اس کے سامنے کهڑا هے .
خالد نے حکم دیا کہ بوڑهے کے منہ میں دودهہ ڈالا جائے. فوج کہاں گئ هے بوڑهے سے پوچها گیا. آگے ایک شہر هے جسکا نا حیرہ هے. آزادبہ وهاں کا حاکم هے. اس نے حکم دیا تها کہ سب لوگ حیرہ آجاؤ. همارے آدمی مدینہ والوں کیخلاف لڑنے گئے تهے بہت سارے مارے گئے هیں جو زندہ بچ کر آگئے تهے وہ حیرہ چلے گئے تهے.صرف بوڑهے بچے اور عورتیں رہ گئ تهی. سب خالد بن ولید سے ڈرتے هیں.بهاگ کر آنے والے جوانوں نے لوگوں کو اور بهی ڈرا دیا .کہا کہ مسلمان خون کا دریا بہا دیتے هیں اور اب ادهر آرهے هیں.
یہ سن کر سب بهاگ گئے..میں نہیں بهاگ سکا.میں تو اٹهہ بهی نہیں سکتا.مجهے مرنے کیلیئے چهوڑ گئے هیں.
منیشیا شہر خالی پڑا تها.دروازے کهلے پڑے تهے. کمروں میں قیمتی سامان پڑا تها.ایسے لگتا تها جیسے لوگ ابهی تهوڑی دیر کیلیئے باهر گئے هوں.لوگ اتنی عجلت میں بهاگے تهے کہ رقمیں اور سونا بهی چهوڑ گئے تهے.خالد کے حکم سے تمام فوج کو شہر میں بلا لیا گیا. انہیں مال غنیمت اکٹها کرنے کا حکم دیا.
یہ امیروں کا شہر تها گهروں میں قیتی اشیاء اور کپڑوں کی افراط تهی . سب یہ چیزیں دیکهکر حیران هوئے.وہ ان چیزوں کو اپنے ساتهہ لیجانا چاهتے تهے.جب سامان جمع هوگیا تو خالد نے کہا کہ اس سامان کو آگ لگا دو.یہ عیش وعشرت کا سامان هے جو انسان کو بزدل بنا دیتا هے. ان لوگوں کا انجام دیکهہ لو .اللہ کی قسم رب جسے تباہ کرنا چاهتا هے اسے عیش وعشرت میں ڈال دیتا هے.
همیں آگے حیرہ جانا هے اسے جلادو. سونا جواهرات اور رقمیں الگ کردو.
طبری نے لکها هے کہ خالد نے اسلیئے کپڑے اور زیبائش و آرائش کا سامان جلانے کا حکم دیا تها کہ مجاهدین اس مال کی محبت میں جہاد سے منہ نہ موڑ جائیں.
مؤرخین نے لکها هے جتنا مال غنیمت اس شہر سے ملا اتنا کہیں سے نہ ملا تها.خالد نے دستور کے مطابق مال پانچ حصوں میں تقسیم کیا. چار حصے فوج میں تقسیم کردیئے اور پانچواں حصہ مدینہ میں خلیفتہ المسلمین ابوبکر کے پاس بهیج دیا.
محمد حسین هیکل نے مختلف مؤرخوں کے حوالے سے لکها هے کہ مال غنیمت کا جو حصہ مدینہ کو بهیجا گیا اس کارواں کا امیر قبیلہ بنی عجل کا ایک شخص جندل تها. اس نے فارسیوں کیخلاف تینو جنگوں میں حصہ لیا تها جنگی قیدیوں کو بهی اسی قافلہ کیساتهہ مدینہ بهیجا گیا. ابوبکر نے ان قیدیوں سے ایک خوبصورت لونڈی جندل کو بطور انعام دے دی .
طبری نے لکها هے کہ خلیفہ المسلمین نے مدینہ کے لوگوں کو مسجد نبوی میں بلایا اور خالد کی فتوحات کے قصے سنائے..انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ اے مسلمانوں تمہارا شیر ایک اور شیر پر جهپٹ پڑا اور اسے مار گرایا . اب عورتیں خالد جیسا بیٹا پیدا کرنے سے قاصر هیں.
ولید کے بیٹے....مثنی بن حارثہ نے کہا. آگے فارس کی شہنشاهی کا بہت بڑا شہر حیرہ هے اسے تو فارس کا "هیرا" سمجهہ. مگر اسے لینا آسان نہیں هوگا.
هاں حارثہ کے بیٹے خالد نے کہا .امنیشیا کی تمام فوج اور تمام عیسائ حیرہ پہنچ گئے هیں وہ سب همارے مقابلہ میں آئیں گے.مدائن کی کیا خبر هے ؟
آج هی میرا ایک جاسوس آیا هے مثنی نے کہا.کہتا هے کہ مدائن میں مایوسی پهیلی هوئ هے. محل میں ماتم پهیلا هوا هے. اچهی خبر یہ هے کہ وهاں سے اب فوج کا کوئ دستہ نہیں آئیگا.
کیا یہ لوگ اب بهی نہیں سمجهے کہ تخت و تاراج اور خزانے طاقت نہیں هوتے کہ دشمن سے بچا لیں.خالد نے کہا.
کیا هم پر فرض نہیں کہ انکو اللہ کے سچے رسول عیلہ السلام کا پیغام دیں.کہ طاقت صرف اللہ کے هاتهہ میں هے. اللہ هی عبادت کے لائق هے.اسکا کوئ شریک نہیں.
هاں ابن ولید .مثنی نے کہا.هم پر فرض هے کہ هم اللہ کا پیغام ان تک پہنچائیں.
اسکے ساتهہ هی مجهے اس فتنہ کو بهی کچلنا هے جو اسلام کو نقصان پہنچا سکتا هے.خالد نے کہا.
دشمن کا سر کچلنا تاریخ اسلام کا یہ ابتدائ دور بڑا هی خطر ناک تها.اس دور میں اسلام کی عسکری روایات کی بنیاد رکهنی تهی.امت رسول اللہ علیہ وسلم کیلیئے جذبہ کی شدت اور اهمیت کا تعین کرنا تها.اس روائیت کی بنیاد اس اصول پر رکهنی تهی کہ نفری اور طاقت کی کمی شکست کا باعث نہیں بن سکتی.جذبہ اور دین سے محبت اس کمی کو پورا کر دیتی هے.
خالد کو احساس تها کہ وہ اس خیال سے پیچهے هٹ آئے کہ لشکر مسلسل لڑ کر تهک گیا هے نفری بهی کم هوتی جارهی هے.وہ اپنے مستقر یعنی مدینہ سے بهی دور هٹتے جارهے هیں . تو آنیوالی نسلوں کیلیئے یہی روائیت بن جائیگی کہ جہاں مشکل اور دشواری پیش آگئ وهیں سے سالار اپنی فوج کو واپس لے آئینگے.وہ ایسی روائیت قائم کرنا نہیں چاهتے تهے.
خالد کو خلیفتہ المسلمین کی پشت پناهی حاصل تهی . اس وقت کی خلافت کی پالیسی میں کفار کیساتهہ دوستی یا مذاکرات کا ذرہ بهی دخل نہیں تها..دشمن کو دشمن هی سمجها جاتا تها.یہ نہیں دیکها جاتا تها کہ دشمن کتنی دور اور کتنا طاقتور هے. اصول یہ تها کہ دشمن کے سر پہ سوار هوکر اسکیلیئے دهشت بن جاؤ. کسری کی شہنشاهی کوئ معمولی طاقت نہ تهی.مگر خالد نے اتنی بڑی طاقت کے اندر جاکر بهی پیچهے هٹنے کا نہ سوچا.یہ بهی نہ سوچا کہ لشکر کو کچهہ آرام کا وقت دے.اور اسکی تربیت میں اگر کچهہ خامیاں رہ گئ تهیں تو انہیں دور کر لیتے .
مثنی نے بتایا کہ حیرہ میں مقابلہ بڑا سخت هوگا.پهر بهی خالد نے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کا نہ سوچا.اسی وقت اپنے سالاروں کو بلایا.
خدا کی قسم مجهے یقین هے کہ تم یہ نہیں سوچ رهے.کہ هم جتنا آگے بڑهتے جارهے هیں همارے لیئے خطرے بڑهتے جارهے هیں.
ابن ولید ایک سالار نے کہا هم سے کوئ بهی ایسا نہیں سوچ رها.
اور هم میں سے کوئ بهی ایسا نہیں سوچے گا. دوسرے سالار نے کہا
اور مجهے یہ بهی یقین هے کہ تم میں سے کوئ بهی یہ نہیں سوچے گا کہ دشمن کتنا طاقتور هے.
کوئ نہیں سوچے گا عاصم بن عمرو نے کہا.مجهے یہ بتا آج تو یہ سب کیوں پوچهہ رها هے.؟
تم پر اللہ کی رحمت هو خالد نے کہا. اگلی منزل بہت دشوار هے الله کے سوا کوئ نہیں جانتا کہ هم میں سے کون زندہ رهتا هے اور کون دنیا سے چلا جاتا هے.اپنے ذهن میں نقش کرلو کہ اگر فرض سے منہ موڑ کر الله کے پاس جاؤگے تو ٹهکانہ بہت برا هوگا.تم جانتے هو وہ ٹهکانہ کیسا هے.
جو تم آج قائم کرو گے وہ ورثہ هوگا جو آنیوالی نسلوں کیلیئے چهوڑ جاؤگے.اور یہ روائیت اسلام کی بقا کا باعث بنے گی.هم نے اسلام کی بقا اور سربلندی کیلیئے لڑنا هے.اللہ کا حکم یاد رکهو کہ لڑو اس وقت تک جب تک کفر کا فتنہ موجود هے دشمن کو معاف اس وقت کرو جب وہ هتهیار ڈال کر تمہارے سامنے جهک جائے.پهر اس سے وہ شرطیں منواؤ کہ دشمن کا ڈنگ مر جائے .اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے شیدائیوں کے خوف سے کانپتا رهے.
سالاروں کے جذبہ میں نئ روح پهونک کر خالد نے انہیں بتایا کہ آگے آتش پرستوں کا بڑا مضبوط اڈہ حیرہ هے اور اسکا حاکم آزاربہ هے اس نے بہت بڑا لشکر جمع کررکها هے
آتش پرست پہلی لڑائیوں میں بیشمار کشتیاں لائے تهے جو اب مسلمانوں کے قبضہ میں تهیں .خالد نے کشتیوں میں اپنے لشکر کو حیرہ تک لیجانے کا فیصلہ کیا. دریائ راستہ آسان بهی تها فاصلہ بهی کم تها. پہلا موقع تها کہ ریگزاروں میں لڑنے والے دریا کے سینہ پر سوار هوئے.کشتیوں میں سوار لشکر کی حفاظت کیلیئے خالد نے یہ انتظام کیا کہ دونوں کناروں پر 100 ڈیڑهہ سو سواروں کو رکها. جنہوں نے کشتیوں کیساتهہ ساتهہ جانا تها.فتح ونصرت سے سرشار لشکر اسلام کی محبت اور جذبہ سے دریائے فراط کے سینہ پر چلا جارها تها. جنگی ترانوں کی گونج فراط کے پانی پہ وجد طاری کر رهی تهی.پهر یہ جنگی ترانہ کلمہ طیبہ میں بدل گیا. اٹهارہ هزار مسلم مجاهدین کی آواز ایک پر عزم جذبہ تها.ان کے دلوں میں ایک اللہ اور رسول اللہ علیہ وسلم کی محبت تهی.
دشمن سویا هوا نہیں تها.حیرہ کا حاکم آزادبہ راتوں کو بهی نہ سوتا تها . حیرہ میں یہ خبر نہیں پہنچی تهی کہ شہنشاہ فارس مر گیا هے. آزادبہ هر بات میں اردشیر کا نام لیتا تها. اس روز وہ حیرہ شہر کی سیکورٹی کا معائنہ کر رها تها .اس نے بہت سا لشکر جمع کر رکها تها.وہ جس لشکر کے سامنے جاتا چلا چلا کر کہتا زرتشت کی رحمت هو تم پر
وہ جو کاظمہ اور الیس میں بدوؤں کے هاتهوں پٹ گئے تهے وہ قاهر تهے انکے مردہ جسموں کو زرتشت کے شعلے چاٹ رهے هیں .اے یسوع مسیح کے نام لیواؤ تم همارے کندها سے کندها ملاکر مسلمانوں کیخلاف لڑنے آئے هو. یاد کرو اپنی بیٹیوں کو جو لونڈیاں بن کر مدینہ پہنچ گئ هیں.یاد کرو ان جوان بیٹوں کو جن کا گوشت گیدڑ بهیڑئیے کها گئے هیں.اور جو قیدی هوکر مدینہ کی غلامی میں چلے گئے هیں.مسلمان فتح کے نشہ میں بے خطر آگے بڑه رهے هیں .
انکیلیئے ایسا خطرہ بن جاؤ کہ زندہ واپس نہ جائیں.
شہنشاہ فارس تمہیں خود مبارک دینے آئیں گے.تمہیں انعام و اکرام سے مالا مال کر دیں گے.
برجوں کے معائنے کے دوران اس نے دیکها کہ دور ایک گهڑ سوار گهوڑے کو انتہائ تیز رفتار سے بهگاتا هوا آرها تها.
دروازہ کهول دو آزاربہ چلایا.یہ سوار امنیشیا کیطرف سے آرها هے.آوازیں سنائ دیں.آزاربہ بڑی تیزی سے دیوار پہ اتر گیا.سوار کے پہنچنے تک دروازہ کهول دیا گیا.سوار رفتار کم کیئے بغیر هی اندر آگیا.آزاربہ گهوڑے پر سوار هوا اور تیزی سے سوار کیطرف کیا.گهوڑے پہلو بہ پہلو رک گئے.
کوئ خبر آزاربہ نے پوچها.
وہ آرهے هیں سوار نے هانپتی هوئ آواز میں کہا.مسلمانوں کا لشکر کشتیوں میں آرها هے.سوار لشکر کی پیش قدمی کی خبر دے رها تها.
کشتیاں بند سے کتنی دور هیں .
بہت دور سوار نے جواب دیا.
آزاربہ کا بیٹا سالار تها.اس نے اپنے بیٹے کو بلایا.کسی بهی تاریخ میں اسکے بیٹے کا نام نہیں ملتا.
آج تیری آزمائش کا وقت هے میرے بیٹے.ایک سوار دستہ ساتهہ لے اور هوا کی طرح بند تک پہنچ .دریا کا پانی اس طرح پی لے کہ فراط سوکهہ جائے. دشمن کا لشکر کشتیوں میں آرها هے دیکهتا هوں تو پہلے پہنچتا هے یا دشمن.
اسکا بیٹا سوار دستہ لیکر تیز رفتار سے شہر سے نکل گیا.خالد کا لشکر اچهی خاصی رفتار میں آرها تها.بارش کا موسم نہیں تها دریا میں پانی کم تها.مگر کشتیوں کیلیئے کافی تها.اچانک پانی کم هونے لگا.اور پهر پانی ختم هوگیا اور کشتیاں کیچڑ میں پهنس گئیں.خالد کے مجاهدین پر خوف طاری هوگیا.کیونکہ دریا کا اچانک خشک هو جانا خوف والی بات تهی.
مت گهبراؤ ولید کے بیٹے کنارے سے مثنی کی آواز سنائ دی. تهوڑے فاصلہ پر بند هے.دشمن نے پانی روک دیا هے.بڑی تیزی سے مجاهد گهوڑے کشتیوں سے اتار لائے. مثنی کا دستہ سرپٹ دوڑتا هوا بند تک پہنچا آزاربہ کا بیٹا ابهی تک وهیں تها. مثنی کے سواروں نے ان پر هلہ بول دیا.ان میں سے کسی ایک کو بهی زندہ نہ چهوڑا.بند کهول دیا .پانی کشتیوں تک پہنچا تو کشتیاں اٹهنے لگیں ملاحوں نے چپو تهام لیئے.اور کشتیاں چلانے لگے.
آزاربہ اچهی خبر کے انتظار میں دیوار پہ کهڑا انتظار کر رها تها.اسکا ایک سالار اسکے پاس آیا اور بولا بہت بری خبر آئ هے.
آزاربہ گهبرا کر بولا کیا میرا بیٹا ؟؟؟؟
مدائن سے خبر هے کہ شہنشاہ اردشیر مرگئے هیں.
سالار نے بتایا.
یہ خبر خفیہ رکهنی هے آزاربہ نے حکم دیا
Tags
Shamsheer e Bayniyam