Shamsheer e bayniyam Episode 42

❤ *قسط نمبر* *42* ❤
🇵🇰 *شمشیر بے نیام* 🇵🇰

*اتنے میں ایک سوار* ان کے پاس آیا .گهوڑے سے اتر کر آداب بجا لایا اور بولا اگر میرا فرض نہ هوتا تو میں کبهی ایسی خبر نہ لاتا.
میں سن چکا هوں کہ کسری اردشیر.......
نہیں جناب عالی! سوار نے کہا.آپکا بیٹا بند پر مارا گیا هے. اسکے تمام سواروں کو بهی مسلمانوں نے کاٹ ڈالا هے
میرا بیٹا.......آرازبہ کے منہ سے نکلا اور اسکا رنگ لاش کیطرح سفید هوگیا...
آزاربہ پر مایوسی اور رنج و ملال کیساتهہ دهشت بهی تاری هوگئی.جیسے آسمان پهٹ گیا هو.اور اسکے پاوں تلے سے زمین نکل گئی هو.وہ جهکا جکها سا چل پڑا اسکے قدم ڈگمگا رهے تهے.اس کے دو محافظ اسکے ساتهہ هوگئے. نا امیدی کے عالم میں دائیں بائیں دیکها اور رک گیا.دو محافظوں کو اپنے پہلو میں دیکهکر اسکا چہرہ غمگین هوگیا.....
میں تمہارے سہارے کے بغیر چل سکتا هوں اس نے محافظوں سے کہا.محافظ پیچهے هٹ گئے.آزاربہ نے جهکے سر کو اوپر اٹهایا اور سیدها هوکر چلنے لگا.مگر اسکے کندهے خود هی سکڑ کر آگے کو جهک گئے جیسے اس پر ایسا بوجهہ آپڑا هو جو اسکی برداشت سے بابر هو.بوجهہ تو اس پر آ هی پڑا تها. یہ ذمہ داریوں کا بوجهہ تها.حیرہ اسکی ذمہ داری میں تها.اسکا بیٹا اسکا دست راست تها.
وہ خود اردشیر کا دست راست تها.اردشیر کے بغیر وہ کچهہ بهی نہ تها.اردشیر نے اسے بہت اهمیت دے رکهی تهی. یہ حیرہ اور اسکے مضافاتی علاقوں کو حاکم تها.بہت حد تک خود مختار تها.مگر اب کسری بهی نہ رها جس نے اسے اتنی خود مختاری دے رکهی تهی. شہنشاهی کے تخت پر بیٹهنے والے نئے شہنشاہ سے آزاربہ اتنی توقع نہیں کرسکتا تها. مثنی کے سپاهیوں نے حقیقت میں اسکے پاوں تلے سے زمین کهینچ لی تهی.
اسکے سالار نے اسے اس وقت کہا جب وہ اپنے شیش محل کے کمرے میں پہنچ چکا تها.لگتا هے آپ نے لڑنے سے پہلے هی شکست تسلیم کر لی هے.
اسکی بیوی نے غضبناک لہجہ میں کہا کیا آپ اپنے بیٹے کا خون مدینہ کے دشمنوں کو بخش دیں گے.
مجهے سوچنے دو ...آزاربہ گرجا...مگر اسکی آواز کانپ رهی تهی.کیا تم سمجهتے هو میں مسلمانوں کے آگے هتهیار ڈال رها هوں.
کیاتم نے سنا نہیں.اسکی آواز دب گئی.بوجهل آوز میں بولا کہ شہشاہ فارس اردشیر مر گیا هے؟؟؟
پورے کمرے میں سناٹا طاری هوگیا.اسکی بیوی نے یوں کہا جیسے هچکیاں لے رهی هو.زرتشت همیں اپنی توهین کی سزا دے رها هے.اب اسی آگ میں جلنا هے جس کی هم پوجا کرتے تهے.زرتشت کی بارگاہ میں اپنی جان اور لہو کا نذرانہ پیش کرسکتے هیں.مسلمانوں کو یہاں سے زندہ نہ جانے دیں.
ایک محافظ اندر آیا اس نے گهٹنہ ٹیک کر آزاربہ کو آداب کیا.اور بولا باهر قاصد آیا هے
اندر بهیج دو آزاربہ بولا....محافظ خاموشی سے واپس چلا گیا. ایک سپاهی اندر آیا.اسنے بهی گهٹنہ ٹیک کر آداب کیا آزاربہ نے اداس نگاهوں سے اسکی طرف دیکها. اور بولا کیا خبر لائے هو........ مسلمانوں کی کشتیاں بند سے بہت آگے نکل آئ هیں.
انکی رفتار بہت تیز هے.
لشکر کی تعداد کتنی هوگی آزاربہ نے پوچها؟؟
هم سے آدهی بهی نہیں سالار اعلی مقام..قاصد نے جواب دیا
میرے اندازے کے مطابق بیس هزار سے زیادہ نہیں هوگی. سالار اعلی حکم دیں تو هم انہیں اپنے گهوڑوں کے سموں تلے کچل دیں.ان پر تیروں کی بارش کردیں گے.انکی کشتیاں لاشوں سے بهر دیں گے.
تیروں کی بارش برسانے سے پہلے دریا کے کنارے تک پہنچنے کیلیئے ایک لڑائ لڑنی پڑیگی.آزاربہ نے کہا .انکے گهڑ سوار کشتیوں کیساتهہ ساتهہ کناروں پر آرهے هیں میں نے یہ بهی معلوم کرلیا هے کہ گهڑ سواروں کا کمانڈر مثنی بن حارثہ هے.اور زیادہ تر سوار فارس کی شہنشاهی کے مسلم باشندے هیں .اور وہ کشتیاں بهی همارے بزدلوں سے چهینی گئ هیں.
آزاربہ نے کہا ان بزدلوں نے ایسے دشمن کیلیئے راستہ صاف کردیا جو بالکل کمزور تها.مدینہ کے ان عربوں کو هم نے کبهی پلے نہیں باندها تها.
هم آج بهی انہیں کمزور سمجهتے هیں سالار نے کہا .هم آپکےحکم کے منتظر هیں..بتائیں انہیں کہاں روکنا هے. یا آپ قلعہ بند هوکر رهنا چاهتے هیں...
   اگر میں کہوں کہ میں لڑنا هی نہیں چاهتا آزاربہ نے کہا .
هم تسلیم هی نہیں کریں گے کہ آپ نے ایسی بات کہی هے سالار نے کہا.آپ اپنے بیٹے اور اردشیر کی موت پر اتنے غمگین هیں کہ اچهی طرح سوچ بهی نہیں سکتے.
       اس غم کے باوجود همیں سوچنا پڑیگا.آزاربہ کی بیوی نے کہا. همارے پاس نہ کسی چیز کی کمی هے نہ فوج کی. عرب عیسائ بهی همارے ساتهہ هیں.هم نے اسی لیئے انہیں اکٹها کیا هے کہ مسلمانوں کو هیرہ سے آگے نہ بڑهنے دیا جائے.انہیں یہیں ختم کردیا جائے.
    همارے پاس فوج کی کمی نہیں آزاربہ نے کہا.مگر کوئ کمی ضرور هے کہ هم هر میدان میں شکست کها رهے هیں.
میں اپنے پیچهے شکست کی تہمت چهوڑ کر نہیں جانا چاهتا. فتح کا کوئ اور طریقہ سوچوں گا..میں مدائن جاونگا.  دیکهونگا وهاں کے حالات کیا هیں اور یہ بهی دیکهنا هے کہ کسری کے مرنے کے بعد همیں کوئ مدد دینے والا بهی هے یا نہیں..
   نہیں سالار اعلی...اسکے سالار نے کہا.ابهی مدائن نہ جائیں دشمن سر پر آگیا هے.
   کیا تم مجه سے زیادہ بہتر جانتے هو آزاربہ نے چلا کر کہا .کیا تم یہ سوچتے هو کہ میں بهاگ رها هوں.جو میں سوچ رها هوں وہ تم نہیں سوچ سکتے.مجهے لازمی یہ دیکهنا هے کہ وہ کونسی کمزوری هے جو هر میدان میں هماری شکست کا باعث بنتی هے.کیا تم غور نہیں کرتے کہ هرمز جیسا جنگجو مسلمانوں کے هاتهوں مارا گیا. انوشجان اور قباز معمولی سالار نہیں تهے. درغزر کو کیا هوگیا. جابان کدهر گیا 
اتنا هونے کے بعد بهی فیصلہ کن جنگ اور فتح کی توقع کیوں کی جارهی هے. میں لڑونگا مگر سوچ سمجهہ کر تمام سالاروں نائب سالاروں کو بلاؤ. 

ادهر خالد کا لشکر دریائے فراط کے سینہ پہ سوار آگے هی آگے بڑهتا جا رها تها.گهڑ سوار دریا کی دونو جانب پهیلے هوئے تهے.هر لمحہ یہ توقع تهی کہ کسی بهی وقت حیرہ کی فوج حملہ کریگی.مگر اس فوج کا دور دور تک کوئ نام و نشان نظر نہ آیا.مثنی بن حارثہ کے سوار دور تک چلے جاتے دشمن کا کهوج ڈهونڈنے کی کوشش کرتے.
   خالد کو معلوم تها کہ حیرہ کی جنگ بڑی خونریز هوگی. مثنی نے معلوم کرلیا تها.آزاربہ نے حیرہ میں  بہت بڑا لشکر جمع کر رکها هے. یہ خالد کا جذبہ هی تها کہ دشمن کی اتنے بڑے فوجی  اڈے کیطرف بڑهے جارهے تهے ورنہ مسلمانوں اور فارس کی جنگی تناسب تو یہ تها کہ خالد کو ایک قدم آگے بڑهانے کے بجائے واپس آجانا چاهئیے تها.خالد ملک گیری کیلیئے یہ خطرہ مول نہیں لے رهے تهے.وہ تو اللہ کے حکم کی تعمیل کیلیئے کر رهے تهے.کیونکہ اسلام کے پڑوس میں اتنے بڑے باطل کی موجودگی اسلام کیلیئے اتنا بڑا خطرہ تهی کہ اسلام آگے بڑهنے کے بجائے پیچهے هٹتا هٹتا ختم هوجاتا.

ابن ولید....خالد کو دریا کے کنارے سے مثنی کی آواز سنائ دی.منزل قریب آگئی هے.
  خالد نے اپنے لشکر کو رکنے کا حکم دیا.اور کہا کہ کشتی کنارے کیساته لگا کر انہیں اتار کر کشتی آگے لے جائیں.
مثنی اس علاقہ کا واقف تها مگر پهر بهی اس نے علاقہ کے دو آدمیوں کو انعام و کرام دیکر جاسوس بنا لیا.
     خالد جب کشتی سے اترے تو مثنی نے ایک سوار سے کہا کہ وہ گهوڑا خالد کو دے دے.
گهوڑے پر سوار هوکر خالد اور مثنی پہلو بہ پہلو جارهے تهے. مثنی کی نظریں خالد کے چہرے پر جمی هوئ تهیں. خالد ادهر ادهر کا جائزہ لے رهے تهے. خالد کی نظریں مثنی کی طرف گئیں تو بهی مثنی کی نظریں خالد کے چہرہ پر جمی رهیں.
   هاں ابن حارثہ خالد نے مسکراتے هوئے کہا  کیا تو مجهے پہچاننے کی کوشش کر رها هے.هاں ولید کے بیٹے.مثنی نے سنجیدہ اور ٹهہرے لہجہ میں کہا.تجهے پہچاننے کی کوشس کر رها هوں .تم مجهے انسان نہیں اور کوئ اور مخلوق لگتے هو. تمہارے چہرے پر گهبراهٹ و پریشانی هونی چاهیئے تهی. 
    میں دل هی دل میں فکر مند هوں خالد نے کہا مگر میں پریشانی کو چہرہ پر نہیں آنے دیتا.یہ پورے لشکر کا چہرہ هے. یہ چہرہ اسلام کا چہرہ هے
    میں سمجهتا هوں ابن ولید..مثنی نے کہا.اگر سالار کاچہرہ اتر جائے تو پورے لشکر پر مایوسی چها جاتی هے.
   مجهے بتا ابن حارثہ تونے یہ باتیں کیوں کی هیں . خالد نے پوچها. کیا تو مجهے پریشانی اور گهبراهٹ میں دیکهنا چاهتا هے.
    ابن ولید شاید تجهے علم نہیں کہ تو کتنے بڑے اور طاقتور دشمن کے سامنے جارها هے. 
   میں اپنے لیئے جارها هوتا تو مجهے غم اور فکر هوتا. کہ بادشاہ بننے سے پہلے هی نہ مارا جاوں.. خالد نے کہا ..
میں اللہ کے حکم پر جا رها هوں مجهے اور تجهے گهبرانے کی کیا ضرورت هے. مجهے یہ بتاو آگے کیا هے؟؟ 
    مثنی نے ان آدمیوں کو بلایا جو اس علاقہ کے رهنے والے تهے.انہوں نے بتایا کہ تهوڑا آگے حیرہ هے.اور بتایا کہ ارد گرد زمین کیسی هے 
   خالد نے دونو آدمیوں کو هٹا دیا اور مثنی کیساتهہ حملہ کی سکیم بنانے لگے. حیرہ  دریائے فراط کے کنارے پر واقع تها. خالد نے اپنے سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کو کشتیوں سے کنارے پر بلایا.
   میں نہیں مانتا کہ آتش پرست همیں حیرہ کے راستہ میں نہ روکیں.خالد نے کہا....انکے پاس اتنی زیادہ فوج هے کہ وہ پورے علاقہ میں پهیلا سکتے هیں.عیسائ بهی انکے ساتهہ هیں .اگر هم حیرہ کے سامنے جاکر کشتیوں سے اترے تو دشمن وهیں هم پر حملہ کر دیگا.اسلیئے حیرہ سے دور هی کشتیاں چهوڑ دیں گے.
    خالد بیٹهہ گئے اور اپنی تلوار کی نوک سے حیرہ کا محل وقوع اور اپنی پیش قدمی کا نقشہ بنانے لگے. جس مقام پر کهڑے تهے وهاں سے حیرہ تک راستہ کی لکیر بنائ. لکیر سیدهی نہیں تهی بلکہ نیم دائرہ تها. یہ لکیر جہاں ختم کی وهاں ایک قصبہ تها .حیرہ سے تین میل دور تها.خالد نے کہا هم اس قصبہ  کے قریب سے گزر کر تیزی سے حیرہ کیطرف بڑهیں گے. توقع یہی هے کہ آتش پرست شہر سے کچه دور هی هماری طرف آجائیں گے.
    میرے بهائیو یہ لڑائ بہت سخت  هوگی.زرتشت شکست کا خطرہ مول نہیں لے سکتے.میں تمہیں بہت سخت امتحان میں ڈال رها هوں .دشمن کی تعداد هم سے کئ گنا زیادہ هے.
اگر همیں حیرہ کو محاصرہ میں لینے کا موقع مل گیا تو محاصرہ بہت لمبا هوگا.اپنے دلوں میں اللہ سے عہد کرو کہ حیرہ کو فتح کرنا هے.کشتیاں چهوڑدو اور تمام لشکر کنارہ پر لے آؤ.
    مسلمانو کی تعداد 18 هزار تهی.لشکر کشتیوں سے نکل کر کنارہ پر آگیا.بڑی تیزی سے پیش قدمی کیلیئے منظم هوگیا. خالد نے سالار عاصم بن عمرو کو آگے اور عدی بن حاتم کوپیچهے رکها .مثنی بن حارثہ کا سوار دستہ کم و بیش ایک میل آگے نکل گیا. خالد کا لشکر خاموشی سے تیز جا رها تها.جنگی ترانوں کی ممانعت کردی گئی.تاکہ پتہ نہ چلے کہ لشکر آرها هے.ایسا راستہ اختیار کیا تها جو جنگل اور ویران علاقہ سے گزرتا تها.مسافروں کی گزر گاهیں نہیں تهیں.
مثنی بن حارثہ کے سوار پهیل کر جارهے تهے تاکہ راستہ میں کہیں بهی گهات کا شک هوتو پیچهے اطلاع کر دیں.خالد کا لشکر اس چهوٹے گاوں تک پہنچ گیا.دشمن کا کہیں نام ونشان نہ ملا .خالد نے اپنا لشکر روک لیا اور جاسوس سے کہا کہ وہ گاوں کے اندر جائے اور دیکهے کہ دشمن کی فوج اندر تو نہیں . جاسوسی کا نظام ذهین اور جراتمند آدمیوں پر مشتمل تها. ان میں ان مسلمانوں کی تعداد زیادہ تهی جو فارس کے غلام تهے.وہ دجلہ و فراط کے سنگم والے علاقوں کے رهنے والے تهے.ان میں سے ایک آدمی بهیس بدل کر گاوں کے اندر چلا گیا اور خبر لایا کہ وهاں کوئ فوج نہیں امن و امان هے.

  ( اس گاوں میں امیر ترین اور تاجر لوگ رهتے تهے .عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنے والے محلات میں رهتے تهے. مگر آج نہ یہ قصبہ باقی هے نہ رهنے والے لوگوں کا نام نشان باقی هے.ان ترتشت کے پجاریوں  کا نام و نشان مٹی میں مل گیا.  مگر خالد بن ولید.عاصم بن عمرو.عدی بن حاتم. مثنی بن حارثہ و اٹهارہ هزار مسلم مجاهدین کا نام تاریخ میں زندہ هے. کفار کی کتابوں میں زندہ هے..امت کے دلوں میں زندہ هے. ان کے گهوڑوں کے سموں کی گرد کو سورج نے چوما.
 ان مجاهدین کا کیا مقصد تها ؟؟؟جو اس دشمن سے ٹکر لینے جارهے تهے جو اٹهارہ هزار نفوس کو نگل لینے کی طاقت رکهتا تها...خالد بن ولید...اور اسکے لشکر کے دلوں میں تخت و تاراج کی حوس نہیں تهی.دولت وجواهرات کا لالچ نہیں تها.کفر کو ختم کرنے اور اللہ کی توحید کا علم بلند کرنے کا عزم تها.وہ همیشہ زندہ رهنے والی روایات اپنے خون سے لکهنے جارهے تهے.)
  روایات لکهنے والے مؤرخ لکهتے هیں کہ اس قصبہ سے نکلنے کے وقت خالد پر خاموشی تهی.کوئ سپاهی انکی طرف دیکهتا تو وہ مسکرا دیتے.اور پر عزم دکهائ دیتے.
    مثنی بن حارثہ اس علاقہ کے واقف اور چهاپہ مار جنگ کے ماهر تهے. وہ خالد سے کہتا کہ وہ یوں کریگا وہ ایسا کریگا...... تو خالد کے منہ سے یہی نکلتا تم پر اللہ کی رحمت هو حارثہ کے بیٹے.اللہ تجهے اجر دیگا.
   خالد لشکر کو قصبہ سے آگے لے گئے .انہیں بالکل توقع نہیں تهی کہ دشمن کو بے خبری میں جا دبوچیں گے. انہیں پورا یقین تها کہ دشمن ضرورت سے زیادہ خبردار هوگا. اسلیئے خالد نے حکم دیا کہ اس قصبہ پر نظر رکهنے کیلیئے چند آدمی پیچهے رهیں.تاکہ یہاں سے کوئ یہ اطلاع حیرہ نہ پہنچائے کہ مسلمانوں کا لشکر آرها هے.
   یہ ایک پهندہ تها جس میں مدینہ کا لشکر جارها تها. گهات کیلیئے بهی بہت موزوں تها.مگر گهات کے بهی کوئ آثار نظر نہ آئے..اب صرف یہی چانس تها کہ دشمن کا لشکر اچانک آئے اور مسلمانوں کو گهیرے میں لیکر ختم کردے..تهوڑا مزید آگے گئے تو ایک ٹیکری آگئ.خالد نے گهوڑے کو ایڑ لگائ اور ٹیکری پر چڑهکر لشکر کو رکنے کا حکم دیا.
    فرمایا...اے اللہ کے سپاهیو.خالد نے بلند آواز سے کہا تم پر الله کی رحمت هو. الله تعالی نے تمہیں بڑے سخت امتحان میں ڈال دیا هے.تم ایک پہاڑ سےٹهکرانے اور اسے ریزہ ریزہ کرنے جارهے هو.کیونکہ جس لشکر سے تمہارا مقابلہ هے وہ پہاڑ سے کم نہیں . مجاهدین اسلام اگر تم نے پیٹهہ دکهائ تو نہ اللہ تمہیں بخشے گا اور نہ دشمن ..اس نیت سے آگے بڑهو کہ یا فتح یا موت....هتهیاروں کی کمی شکست کا باعث نہیں بن سکتی اور نہ هی نفری کی کمی. 
فتح جذبہ اور ایمان سے حاصل هوتی هے.اس یقین سے آگے بڑهو کہ اللہ تمہارے ساتهہ هے.
    خالد نے مجاهدین کے جذبہ کو گرمادیا.اور آگے بڑهنے کا حکم دےدیا.جب شہر کے قریب گئے تو بهی دشمن کا کوئ سپاهی نظر نہ آیا.دیواروں کے اوپر اور برجوں میں بهی کوئ نظر نہیں آرهاتها. منیشیا میں بهی ایسے هی هوا تها.جسے خالد نے دهوکہ سمجها تها. حیرہ میں بهی کہیں فوج نظر نہیں آرهی تهی شہر کے دروازے کهلے تهے. مثنی بن حارثہ اپنے سواروں کیساتهہ شہر کے ارد گرد چکر لگا کر آیا.
 ابن ولید...مثنی نے کہا سامنے والا دروازہ بهی کهلا هے لوگ گهومتے پهرتے بهی دکهائ دیتے هیں.
    ایسا نہیں هوسکتا..امنیشیا تو خالی تها.مگر یہاں توکہتا هے کہ لوگ موجود هیں.خالد نے کہا .ابن حارثہ یہ پهندہ هے یہ جال هے.
 عدی بن حاتم اور عاصم بن عمرو کو بلاو .دونو سالار آئے تو خالد نے انہیں بتایا کہ شہر کی کیا کیفیت هے.کچهہ دیر تبادلہ خیالات هوئے.بحث و مباحثہ هوا.فیصلہ هوا کہ تمام دروازوں سے لشکر کے دستے طوفان کیطرح امڈ جائیں. اور چاروں طرف پهیل جائیں.یہ معمولی خطرہ نہ تها.خالد نے یہ خطرہ مول لے لیا اور لشکر شہر میں داخل کردیا. گهڑ سوار اور پیدل مجاهدین تیزی سے اندر داخل هوئے تو شہر کے لوگ چهپنے کے بجائے گهروں سے باهر آگئے.عورتیں چهتوں پر چڑهہ گئیں .اور کئ لوگوں نے دروازے بند کر لیئے تهے.
جب قتل وغارت اور لوٹ مار نہ هوئ تو چهپے هوئے لوگ بهی باهر آگئے.
    شہر میں اعلان کیا کہ جس گهر میں آتش پرست فوج کا کوئ آدمی هو اسے باهر نکال دو.جس گهر سے حملہ هوا یا ایک تیر بهی چلایا گیا اس گهر کو آگ لگادی جائیگی.

شہر کے معززین کا ایک وفد خالد کے پاس آیا. انہوں نے بتایا کہ کسی گهر میں فوج کا آدمی نہیں هے.
کہاں چلی گئ فوج..خالد نے پوچها..حاکم آزاربہ کہاں هے؟
  وفد کے سردار نے کہا فوج مدائن چلی گئ هے اور حاکم بهی.
   مجهے کون یقین دلا سکتا هے کہ همارے ساتهہ دهوکہ نہیں هوسکتا . کون مان سکتا هے کہ حاکم بهی چلا جائے.فوج بهی چلی جائے.اور رعایا دشمن کی فوج کو اپنے شہر میں دیکهہ کر بهی امن و امان سے هو.اسے ذرہ بهی خوف اور دهشت نہ هو.
   هم سالار مدینہ کو یہی یقین دلانے آئے هیں .کہ حیرہ کی رعایا امن و امان سے رهے گی .اور امن و امان کی درخواست کرتی هے.سردار نے کہا...دهوکہ آپکے ساتهہ نہیں همارے ساتهہ هوا هے . جس رعایا کو اسکا حاکم اور فوج دشمن کے رحم وکرم پر چهوڑ کر چلا جائے وہ رعایا دشمن کو دوست بنانے کی کوشش کرے گی.دهوکہ دینے یا دشمن بنانے کا خطرہ مول نہیں لیگی . هم اس فوج کا ساتهہ کیوں دیں گے جس نے کاظمہ سے شکست کهائی الیس سے بهاگی.منیشیا جیسا شہر خالی کرکے بهاگ آئ اور اب اس اتنے بڑے شہر اور رعایا کو چهوڑ کر بهاگ گئی.
    تم کیا چاهتے ....خالد نے پوچها...
امن..وفد نے جواب دیا. باشندے  امن ،عزت اور اپنی جان و مال کے تحفظ کی قیمت دیں گے.
   هم قیمت نہیں لیا کرتے خالد نے کہا. اللہ کی قسم هم امن کے جواب میں امن دیں گے. کیا میرے لشکر کے کسی آدمی نے کسی کے گهر سے کوئ چیز اٹهائ هے .کسی کی عزت پر هاتهہ ڈالا هے.
 نہیں بالکل نہیں وفد کے سردار نے کہا
 هم صرف اس شہر کے مال کو مال غنیمت سمجهتے هیں جس شہر کے باشندے بهاگ گئے هوں یا مقابلہ کیا هو.
  تم اپنے گهروں میں هو اور مقابلہ میں بهی نہیں آئے. اسلیئے یہ میرا فرض هے کہ میں اس شہر کے باشندوں کو اپنی پناہ میں لے لوں.میں اسکی کوئ قیمت نہیں لونگا.
  آپ امن سے آئے هو اور امن سے جاؤ یہی وہ طاقت هے جو آپکو فتح دیتی هے سردار نے کہا.
  تاریخ میں یہ اسارہ نہیں ملتا کہ خالد نے حیرہ کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی تهی.البتہ یہ شہادت بڑی صاف  ملتی هے کہ حیرہ کے باشندوں کو یہ توقع تهی کہ مسلمانوں کی فوج انکے گهروں کو لوٹے گی اور انکی خوبصورت عورتوں کو اپنے قبضہ میں لے گی.مگر مسلمان ان کے گهروں میں گئے بهی تو صرف یہ دیکهنے کیلیئے کہ وهاں کوئ دشمن تو نہیں چهپا هے.
حیرہ والوں نے مسلمانوں کا یہ کردار دیکها .اور خالد نے انکو یقین دلایا کہ وہ مسلمانوں کی پناہ میں هیں تو وہ اتنے متاثر هوئے کہ بعض نے اسلام قبول کرلیا.
خالد کو حیرہ کے لوگوں سے ایک یہ فائدہ بهی هوا کہ نو مسلموں اور چند سرکردہ افراد نے بهی انکو بڑی قیمتی معلومات دیں.
   یہ شہر آپکا هے مگر آپ اس شہر پر قبضہ کرکے امن سے نہیں رہ سکیں گے.انہوں نے بتایا. کہ آپکو شاید علم نہ هو حیرہ کے ارد گرد چار قلعے هیں .اور انکے قلعہ دار مختلف قبیلوں کے سردار هیں. هر قلعہ میں عرب عیسائوں کی فوج موجود هے.
اگر هم نے فارس کے نامور سپہ سالاروں کو شکست دے دی هے تو شاید انکو شکست دینا مشکل نہ هوگا.خالد نے کہا اور پوچها قلعوں کی فوجیں لڑنے میں کیسی هیں.
   انکا هر سپاهی اپنی جان لڑا دیگا مجوسی سردار نے کہا


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form