❤ *قسط نمبر* *43* ❤
🇵🇰 *شمشیر بے نیام* 🇵🇰
هم ان فوجوں کو فارس کی فوجوں کی نسبت طاقتور سمجهتے هیں.
خالد کو ان چار قلعوں کی جو معلومات بتائ گئیں . وہ یوں تهیں کہ هر قلعہ کا اپنا ایک نام تها .ایک قلعہ کا نام قصر ابیض تها اس قلعہ دار ایاس بن قبصیہ تها.دوسرے قلعہ کا نام قصر الاتشین تها اسکا قلعدار عدی بن عدی تها. تیسرے قلعہ کا نام قصر بنو مازن تها اور قلعدار کا نام ابن عقال تها.چوتهے قلعہ کا نام قلعدار کے نام پر قصر ابن بقلیہ تها.قلعہ دار کا نام عمرو بن بقلیہ تها.
خالد نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ ان قلعوں کو فتح کرنا لازم هے ورنہ حیرہ پر همارا قبضہ نہیں رہ سکے گا.اسلام کی عسکری روح یہی هے کہ یہاں سے خطرہ کی بو آئے وهاں فورا حملہ کردو. دشمن کاچیلنج قبول کرنا اور تیاری کی حالت میں اس پر ٹوٹ پڑنا حرب و ضرب کی بنیاد هے.اسی اصول کے تحت خالد نے اپنے سالاروں کو بتایا کہ کون کس قلعہ پر حملہ کریگا. قصر ابیض پر حملہ کیلیئے زراز بن الازور کو حکم دیا گیا.انکے هم نام زرار ابن خطاب کو قصر الاتشین پر حملہ کا حکم ملا .قصر ابن بقلیہ مثنی کے حصہ میں آیا .
خالد نے سب سے پہلے چاروں قلعوں کے قلعداروں کو پیغام بهیجے کہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دیں اگر دونو صورتیں منظور نہیں تو مسلمانوں کی تلواروں سے کٹنے کیلیئے تیار هوجائیں.
تمام قلعداروں نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ وہ اپنے قلعوں سے دستبردار نہیں هونگے اور نہ هی اپنے مذهب سے.
مسلمانوں نے چاروں قلعوں پر بیک وقت حملہ کیا .اور قلعوں کو محاسرے میں لے لیا.فورا هی مجاهدین نے قلعوں میں داخل هونے کی بڑی هی دلیرانہ کوششیں کیں.مگر هر قلعہ کی فوج مجاهدین کو ناکام کر رهی تهی .
قصر ابیض کے دفاع نے سالار زرار کو بہت پریشان کیا .قلعہ کی دیواروں سے عیسائیوں نے تیروں کی بارش کردی .
مجاهد دیواروں کے قریب جانے سے بے بس هوگئے.دیوار پر ایک منجیق تهی جس سے مٹی کے بڑے بڑے گولے مجاهدوں پر پهینکے جارهے تهے. زرار نے قلعہ کے چاروں طرف گهوڑا دوڑا کر دیکها. کسی بهی طرف سے قلعہ کو سر کرنے کا امکان نظر نہیں آتا تها.منجیق مٹی کے گولے بڑی تیزی سے پهینک رهی تهی .زرار نے ایسے تیر اندازوں کو الگ کیا جو جسمانی لحاظ سے توانا تهے.اور انہیں حکم دیا کہ منجیق کے جس قدر قریب جا سکتے هیں چلے جائیں اور بیک وقت منجیق چلانے والوں پر تیروں کی بارش تیز کردیں.تیر انداز جوش وخروش سے آگے بڑهے.ان پر اوپر سے تیروں کی بوچهاڑ آئ اور منجیق سے مٹی کے گولے بهی آنے لگے.کئی مجاهدین تیروں سے شدید زخمی هوگئے.اتنے زیادہ تیر اور منجیق کے گولے انکا حوصلہ نہ توڑ سکے.زرار کے مجاهدین اس صورت میں آگے بڑهے کہ ان کے جسموں میں دو دو تین تین تیر اترے هوئے تهے. مگر وہ جرات سے منجیق والوں پر تیر چلاتے رهے .اس سے منجیق چلانے والے تقریبا تمام کے تمام تیر کها کر گرے.
اور منجیق کے گولے بند هوگئے.اسطرح تیر اندازوں نے اپنے سالار کے حکم کی تعمیل کردی تهی.انہوں نے منجیق کو بیکار کردیا تها. مگر پهر بهی واپس نہ آئے.قلعہ کے تیر اندازوں پر تیر برسانے شروع کردیئے . اب دیواروں کے اوپر تیروں کے سوا کچهہ نظر نہ آتا..ان مجاهدین کی سرفروشی کو دیکهتے هوئے دوسرے تیر انداز بهی آگے چلے گئے.
یہ تیروں کی جنگ تهی جس میں دونو طرف کے آدمی تیروں کا شکار هو رهے تهے. سالار زرار نے جب اپنے تیر اندازوں کی بے خوفی دیکهی.تو قلعہ کے ارد گرد گهوم کر ولولہ دینے لگا کہ اور تیز تیر چلائیں.
باقی تینوں قلعوں کی بهی کیفیت اس جیسی هی تهی. سب سختی سے مقابلہ کر رهے تهے مسلمان گهڑ سوار گهوڑے دوڑاتے هوئے دیوار کے قریب جاتے اور اوپر کو تیر چلاتے هوئے آگے نکل جاتے..اسطرح یہ فائدہ هوتا کہ وہ اوپر والے تیروں سے بچ جاتے.اسکے باوجود کئ سوار تیروں سے زخمی هوتے تهے.
مجاهدین نے یہاں تک بے خوفی کا مظاهرہ کیا کہ وہ دروازوں تک چلے گئے.انہوں نے دروازے توڑنے کی کوشش کی مگر قلعوں کیلیئے لڑنے والوں نے اس سے بهی زیادہ بے جگری سے لڑنے کے مظاهرے کیئے . دیواروں سے جتنے تیرانداز مسلمانوں کے تیروں سے گرتے تهے اتنے هی نئے تازہ دم تیر انداز انکی جگہ آجاتے تهے.
خالد هر قلعہ کے ارد گرد گهوڑا دوڑاتے اور صوتحال کا جائزہ لیتے اور مجاهدین کو یہی ایک بات کہتے کہ هم نے چاروں قلعے شام سے پہلے پہلے سر کرنے هیں.هم زیادہ انتظار نہیں کرسکتے.
خالد پیچهے رہ کر حکم نہیں دیتے بلکہ دیواروں کے اتنا قریب تک جاتے رهے جہاں اوپر والے تیروں کی بوچهاڑیں آرهی تهیں. وہ قلعوں کے دروازوں تک بهی پہنچے تیر انکے ارد گرد گرتے رهے.انہیں خطرہ تها کہ آزاربہ اچانک کسی طرف سے اپنی فوج کیساتهہ نمودار هوگا.اور عقب سے حملہ کردیگا.ملک آتش پرستوں کا تها.زمین انکی تهی .اور وهاں کے باشندے بهی انکے تهے.مسلمانوں کی تعداد بہت کم تهی وهاں انکی کوئ پناہ نہیں تهی.
یہ خالد کی غیر معمولی جنگی فہم و فراست اور انکے سالاروں کی بے پناہ جرات تهی.کہ وہ خطروں میں گرتے چلے جارهے تهے. پیچهے هٹنے کا نام نہیں لیتے تهے.فارس کی فوج کیلیئے وہ دهشت بن گئے تهے.خالد اس خوش فہمی میں مبتلا هونے والے سالار نہیں تهے. کہ دشمن شکست کهاتا اور پسپا هوتا چلا جارها هے وہ جوابی وار نہیں کریگا.
وہ ان چاروں قلعوں کو چال اور جال میں دانہ سمجهہ رهے تهے. جاسوسی کیلیئے دور دور تک آدمی بهیج رکهے تهے.جو اونچائ اور درختوں پر چڑهکر هر طرف دیکهتے تهے انہیں یہ حکم تها کہ اگر انہیں دور سے کوئ فوج آتی نظر آئے تو فورا اطلاع دیں. وہ آئیں گے ..وہ ضرور آئینگے.انکا یہ پیغام هر سپاهی اور سالار تک پہنچ گیا تها.
الله کے شیرو ان سے قلعے لے لو اگر دشمن آئے تو ان پر تمہارے تیر قلعہ کی دیواروں سے برسیں. پیش قدمی سے تهکے هوئے مجاهدین اپنے جسموں کو جیسے بهول هی گئے تهے.وہ اب روحانی قوت سے لڑ رهے تهے.ایک دوسرے کو پکارتے اور حوصلے دے رهے تهے.دشمن کو للکار رهے تهے.
قلعوں کے اندر یہ صورت حال تهی کہ دیواروں سے زخمی تیر اندازوں کو اتار رهے تهے.انکے چہروں آنکهوں اور گردنوں میں تیر لگے هوئے تهے.چیخ وپکار سے انکے حوصلے ٹوٹنے شروع هوگئے . مسلمانوں کی للکار اور نعرے دیواروں کے اندر تک سنائ دے رهے تهے.قلعہ بند لوگوں پر خوف طاری هو رها تها.وہ سمجهہ رهے تهے کہ قلعوں کو بہت بڑے لشکر نے گهیرے میں لے رکها هے.
مؤرخوں کے حوالہ سے محمد حسین هیکل نے لکها هے کہ چاروں قلعوں میں جو پادری اور مذهبی پیشوا تهے .انہوں نے جب دیکها کہ دیواروں سے اتنے زخمی اتارے جارهے هیں تو وہ قلعداروں کے پاس گئے.
ان میں سے ایک قلع کی اندرونی حالت ذرا تفصیل سے ملتی هے یہ قلعہ بقلیہ تها جسکا قلعدار عبدالمسیح بن عمرو بن بقلیہ تها. عبدالمسیح کے متعلق یہ بتانا ضروری هے کہ
وہ کوئ معمولی قلعہ دار نہ تها. اسے عراق کا شہزادہ بهی کہا گیا هے .عراق پر آتش پرست قابض هوگئے مگر عبدالمسیح کے باپ دادا نے یہ قلعہ اپنے پاس هی رکها. اسے شہنشاہ کیطرف سے اختیار نہیں ملا تها. بلکہ وہ خود هی خود مختار بنا هوا تها .بلکہ اس نے باقی قلعوں کو بهی اپنے ماتحت رکها هوا تها . وہ غیر معمولی ذهین اور جرات میں بهی بے مثال تها.اسکی سب سے بڑی خوبی حاضر دماغی اور حاضر جوابی تهی. وہ کافی عمر رسیدہ هوچکا تها مگر حوصلے اور جذبہ کے لحاظ سے اب بهی جوان تها. اس نے نوشیرواں عادل کا زمانہ بهی دیکها تها.جس سے اندازہ هوتا هے کہ اسکی عمر بهی زیادہ تهی.دلیری اور ذهانت کی وجہ سے ارشیر کا دادا نوشیرواں عبدالمسیح کو بہت پسند کرتا تها .اس نے نوشیرواں سے کہا کہ میں اور میرے کچهہ سردار تمہاری اطاعت قبول نہیں کریں گے. هم اپنے قلعوں میں رهیں گے جس سے تمہیں بهی شاید کچهہ فائدہ هو.
نوشیرواں عادل نے کہا تمہیں اور تمہارے سرداروں کو چار قلعے دے دیتا هوں.لیکن میرے مرنے کے بعد فارس میں تمہارے ساتهہ کیا سلوک هوگا میں نہیں جانتا.
تمہارے مرنے کے بعد فارس کی شہنشاهی کا زوال شروع هوگا. عبدالمسیح نے کہا تها.
اتنی اچهی باتیں کرنے والے کی زبان سے میں ایسی باتیں نہیں سن سکتا.ابن بقلیہ ...نوشیروں نے کہا. تو مجهے بد دعا دے رها هے یا فارس کے زوال کا سبب تو خود بنے گا.
دونو باتیں نہیں عبدالمسیح نے کہا ..تو شہنشاہ هے اور عادل بهی هے تیرے بعد عدل مر جائیگا .پیچهے صرف شہنشاهی رہ جائیگی. تیسری یا چوتهی نسل تیرا نام ڈبو دے گی.فارس کی سرحدیں سکڑنے لگیں گی.پهر کوئ اور قوم آکر حکمران بنے گی.
ماننے کو جی نہیں چاهتا نوشیرواں عادل نے کہا . فارس ایک طاقت کا نام هے
غور سے سن عادل بادشاہ...عبدالمسیح نے کہا. جس دماغ میں شہنشاهی گهر کر لیتی هے اس دماغ سے عدل و انصاف نکل جاتا هے .تخت پر بیٹه کر رعایا کی محبت دل سے نکل جاتی هے. تیرے بعد آنیوالے اگر فوج پر بهروسہ کرتے هوئے رعایا کا خیال نہیں رکهیں گے تو وہ اپنے زوال کو تیز کریں گے. ان سے تنگ آئ هوئ رعایا انکا ساتهہ دیگی جو باهر سے حملہ آور هونگے.
میری عمر ابهی اتنی زیادہ نہیں کہ تجربہ کی بنا پر بات کروں.میں محسوس کر رها هوں کہ آنیوالا وقت اپنے ساتهہ فارس کیلیئے کیا لا رها هے .عبدالمسیح نے کہا تها.
اب عبدالمسیح کی عمر اتنی زیادہ هوگئ تهی کہ کمر جهک گئی تهی.کندهے سکڑ گئے تهے. سر هلتا تها .اور هاتهہ کانپتے تهے..عادل شہنشاہ کی دوسری نسل کا شہنشاہ شکست کے صدمہ سے مر چکا تها.فارس کا زوال شروع هوچکا تها. ابن ولید اور اور اسکے مجاهدوں نے انکے چاروں قلعوں کو محاصرہ میں لے رکها تها.قلعہ بند فوج کا حوصلہ کمزور هوتا جارها تها.عبدالمسیح میں اتنی طاقت نہ رهی تهی کہ دیوار پہ جاکر دیکهتا کہ محاصرے اور مسلم فوج کی کیفیت کیا هے.مسلمانوں کی نفری کتنی هے.
مسلمان صرف 18000 تهے اور انہوں نے چار قلعے محاصرہ میں لیئے هوئے تهے.اور بڑهہ چڑهکر حملے کر رهے تهے.
عبدالمسیح اپنے کمرہ میں داخل هوا تو دو پادری اسکے انتظار میں کهڑے هوئے تهے.
کیا اپنی فتح اور دشمن کی تباهی کی دعائیں هورهی هیں.عبدالمسیح نے پادریوں سے کہا.
هورهی هیں بڑے پادری نے جواب دیا.
پهر تم یہاں کیوں آگئے هو..جاؤ اور گرجہ کے گهنٹوں کو خاموش نہ هونے دو.
هم اپنی فوج اور لوگوں کے قتل عام سے اور ان گهروں کو لٹ جانے سے بچانے آئے هیں.پادری نے کہا.
کیا تم دیکهہ نہیں رهے کہ همارے کتنے سپاهی هلاک اور زخمی هوچکے هیں .کیا تم دشمن کی للکار نہیں سن رهے. تم مجهے یہ کہنے آئے هو کہ میں هتهیار ڈال دوں .
آپکی جگہ کوئ اور قلعدار هوتا تو هم ایسا مشورہ کبهی نہ دیتے.دوسرے پادری نے کہا.آپ دانشمند اور تجربہ کار هیں. جو آپ سمجهہ سکتے هیں وہ کوئ اور نہیں سمجهہ سکتا.
حقیقت کو دیکهیں..اس سے پہلے کہ مسلمان قلعہ فتح کر لیں اور قلعہ میں داخل هوکر قتل عام اور لوٹ مار کریں. هماری عورتوں کو اپنے ساتهہ لے جائیں . آپ کچهہ شرائط پیش کرکے قلعہ انکے حوالہ کردیں یہ بہت بڑی نیکی هوگی.
مجهے سوچنے دیں عبدالمسیح نے کہا.
سوچنے کا وقت کہاں هے پادری نے کہا.دیکهیں مسلمانوں کے تیر دیواروں سے اندر آرهے هیں.وہ دیکهیں زخمیوں کو اٹها کر اوپر سے نیچے لا رهے هیں..آپ دیکهہ نہیں رهے کہ برجوں اور دروازوں میں همارے تیر اندازوں کی تعداد کتنی تیزی سے کم هوتی جارهی هے.ناحق خون نہ هونے دیں.
قلعہ کے باهر مسلمانوں کے هلے اور تیروں کی بوچهاڑیں تیز هوگئ تهیں .حالانکہ شہیدوں کی تعداد بهی بڑهتی جارهی تهی.
عبدالمسیح نے پادریوں کی موجودگی میں ایک محافظ کو بهیجا کہ وہ قلعہ کے دفاع کی صورتحال فورا معلوم کرکے آئے.
قاصد نے واپس آکر جو صورتحال بتائ وہ امید افزا نہیں تهی. باقی قلعوں کی کیفیت بهی ایسی هی تهی جو عیسائیوں کے حق میں نہیں جاتی تهی .
قلعہ کا دروزہ کهلا ایک ضعیف العمر آدمی گهوڑے پر سوار باهر نکلا.اسکے ساتهہ دو تین سردار تهے.ایک سردار نے هاتهہ بلند کرکے اونچی آواز میں کہا کہ وہ دوستی کا پیغام لیکر بابر نکلے هیں.انکے پیچهے قلعہ کا دروازہ بند هوگیا . هم آپکے سالار سے ملنا چاهتے هیں .عبدالمسیح کے سردار نے بلند آواز سے کہا. اوپر سے تیر آنے بند هوگئے مسلمانوں نے بهی تیر اندازی روک لی.
خالد کو پیغام ملا کہ دشمن باهر آگیا هے...کون هے وہ خالد نے پوچها.
قلعدار عبدالمسیح خود آیا هے.خالد کو جواب ملا. مجهے اس سے ملنے کی کوئ خواهش نہیں خالد نے کہا .میں جانتا هوں وہ سب کا سردار هے.اسے کہو شام تک باقی تینو قلعوں والوں نے بهی هتهیار نہ ڈالے تو هم انہیں اس حال میں پہنچا دیں گے کہ وہ هماری هر شرط قبول کرنے پر مجبور هو جائیں گے.کسی ایک کو بهی زندہ نہیں چهوڑا جائیگا.
جب عبدالمسیح کو یہ پیغام ملا تو وہ جان گیا کہ فتح مسلمانوں کی هی هوگی.اس نے فورا اپنے سرداروں کو دوسرے قلعوں کیطرف دوڑایا. ان قلعوں کی بهی یہی کیفیت تهی .جو عبدالمسیح کے قلعہ کے اندر تهی.فوجوں کا حوصلہ کمزور پڑ چکا تها.لوگوں پر خوف و حراس طاری تها. قلعوں کے سردار هتهیار ڈالنے کیلیئے تیار تهے .مگر کوئ قلعدار یہ نہیں چاهتا تها کہ هتهیار ڈالنے میں وہ پہل کرے. کہ اس پر تہمت لگے کہ اس نے سب سے پہلے هتهیار ڈالے.
عبدالمسیح کا پیغام پہنچتے هی انہوں نے تیر اندازی بند کر دی .تینو قلعوں کے قلعدار باهر آگئے. سب خالد کے سامنے آئے .اس وقت خالد ایک گهنے درخت کے نیچے کهڑے تهے.
کیا تم نے همیں کمزور سمجهہ کر هم سے مقابلہ کیا تها.خالد نے ان قلعداروں سے پوچها.تم بهول گئے تهے کہ تم بهی عرب هو.اور تمہیں یہ بهی یاد نہ رها کہ هم بهی عرب هیں.اگر تم عجمی بهی هوتے تو بهی تمہیں یہ امید نہیں رکهنی چاهیئے تهی کہ تم اس قوم کو شکست دے سکو گے جو عدل و انصاف میں یکتا هے اور اسکی تلوار کی بهی دهاک بیٹهی هوئ هے.
تو جو چاهے کہہ سکتا هے ضعیف العمر عبدالمسیح نے کہا .
تو فاتح هے. هم کچهہ کہنے کا حق نہیں رکهتے کیونکہ هم نے تیرے آگے هتهیار ڈال دئیے هیں
مشہور مؤرخ ابو یوسف نے عبدالمسیح اور خالد کا مکالمہ لکها هے کہ عبدالمسیح اتنا بوڑها هوچکا تها کہ اس بهنویں دوده کیطرح سفید اور اتنی نیچے آگئ تهیں کہ اسکی آنکهیں ڈهک گئ تهیں .
خالد عبدالمسیح سے متاثر هوئے اور پوچها.تمہاری عمر کتنی هے
دو سو سال عبدالمسیح نے جواب دیا.
خالد یہ سن کر بہت حیران هوئے اس بوڑهے قلعدار کو اور زیادہ غور سے دیکها .جیسے انہیں یقین نہ آرها هو کہ یہ شخص دو سو سال سے زندہ هے
( کسی بهی مؤرخ نے عبدالمسیح کی صحیح عمر نہیں لکهی واقعات سے پتہ چلتا هے اسکی عمر سو سال سے کچهہ زیادہ هوگی.)
تو نے بڑی لمبی عمر پائ هے خالد نے کہا.اتنی لمبی زندگی میں تم نے سب سے زیادہ عجیب چیز کیا دیکهی هے.
نوشیرواں کا عدل و انصاف بوڑهے نے کہا.اس دور میں حکومت اسکی هوتی هے جسکے هاتهہ میں طاقت و تلوار هو.مگر نوشیرواں نے عدل انصاف کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر فتح پائ تهی .تم کہتے هو کہ مسلمان عدل و انصاف میں یکتا هیں .مگر میں کہتا هوں کہ عدل و انصاف میں نوشیروں کے برابر کوئ نہیں هوگا.
تم کہاں سے آئے هو خالد نے پوچها.کہاں کے رهنے والے هو.
ایک گاؤں سے عبدالمسیح نے جواب دیا جہاں تک کوئ عورت سفر کرے تو اسکیلیئے روٹی کا ایک ٹکڑا بهی کافی هوتا هے.
تم احمق تو نہیں هو خالد نے کہا...میں کیا پوچهہ رها هوں تم کیا بتا رهے هو.
میں پوچهتا هوں کہ تم کہاں سے آئے هو
اپنے باپ کی پشت کی هڈی سے بوڑها بولا
تم قلعدار بننے کے قابل کب هوئے خالد نے جهنجهلا کر کہا.
میں پوچهتا هوں تم کہاں سے آئے هو
اپنی ماں کے بطن سے اس نے جواب دیا.
خالد نے جب دیکها کہ اسکا جواب دینے کا انداز مضحکہ خیز هے تو خالد نے بهی تفریحا ایسے هی سوال شروع کردئیے.
تم کہاں جاؤگے
آگے کو.
تمہارے آگے کیا هے
آخرت
تم جانتے هو کہاں کهڑے هو
زمین پر
خالد اسکی بےرخی اور لا پرواهی دیکهکر اسے یہ احساس دلانا چاهتے تهے کہ وہ ایک فاتح سالار کے سامنے کهڑا هے.
معلوم نہیں کیا سوچ کر خالد نے پهر پوچها
تم کس چیز کے اندر هو
اپنے کپڑوں کے اس نے جواب دیا
اب خالد کو غصہ آنے لگا انہوں نے طنزیہ لہجہ میں کہا
دنیا کم عقلوں کو تباہ کرتی هے مگر دانا لوگ دنیا کو تباہ کرتے هیں .
مجهے معلوم نہیں تم کم عقل هو یا دانا مجهے صحیح جواب تیرے لوگ هی دے سکتے هیں
یہ سن کر عبدالمسیح نے کہا اے فاتح سالار
چیونٹی بہتر جانتی هے اسکے بل کے اندر کیا رکها هے.اونٹ نہیں بتا سکتا.
خالد نے چونک کر عبدالمسیح کیطرف دیکها انکا غصہ ختم هوگیا. انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ شخص احمق یا کم عقل نہیں .انہوں نے عبدالمسیح کو اپنے برابر بٹها لیا .
اب خالد کے دل میں احترام تها....اے بزرگ خالد نے کہا
کوئ ایسی بات بتاؤجو تم همیشہ یاد رکهنا چاهتے هو.
❤💟❤💟❤💟❤💟
Tags
Shamsheer e Bayniyam