Shamsheer e bayniyam Episode 44


🇵🇰 *شمشیر بی نیام* 🇵🇰:
❤ *44قسط نمبر* ❤

اےبزرگ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کوئی ایسی بات بتا جو تو ہمیشہ یاد رکھناچاہتا ہے۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ عبدالمسیح گہری سوچ میں کھوگیا۔اس کے چہرے پر اداسی آگئی۔اس نے قلعے کی طرف دیکھا۔’’میں اس وقت کو یاد کیا کرتا ہوں۔‘‘عبدالمسیح نے کہا۔’’جب ان قلعوں کے عقب میں بہتے ہوئے فرات میں چین کے بحری جہاز بادبان پھیلائے آیا کرتے تھے ،پھر مجھے جووقت یاد ہے وہ نوشیرواں کا عہد حکومت ہے۔رعایا خوشحال اور مطمئن تھی ۔کوئی جھونپڑی میں رہتا تھا یا محل میں ،نوشیرواں کا انصاف سب کیلئے ایک تھا۔‘‘’
’محترم بزرگ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم!تو مسلمانوں کے عدل و انصاف کو بھی یاد رکھے گا……اگر تو اپنے لوگوں کے ساتھ اسلام قبول کرلے تو تیری اور تیرے لوگوں کی حفاظت ہمارے ذمے ہوگی۔تم سب کو وہی حقوق ملیں گے جو دوسرے مسلمانوں کو ملتے ہیں۔اگر اسلام قبول کرنے کیلئے تو اپنے آپ کو آمادہ نہیں کرسکتا تو تجھے اور ان تمام قلعہ داروں کو وہ جزیہ ادا کرناہوگا جو میں مقررکروں گا ۔اگرتجھے یہ بھی قبول نہیں تو پھر تم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ مسلمان قلعوں کو کس طرح سر کرتے ہیں اور ان کی تلوار کی کاٹ کیسی ہے۔‘‘
’’ہم سے کچھ اور مانگ ہم دیں گے۔‘‘عبدالمسیح نے کہا۔’’اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے،بتا جزیہ کتنا ہوگا۔‘‘’’تجھ جیسے داناسے مجھے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کفر نے تجھے شکست تک پہنچایا ہے ۔اس عربی کو میں کم عقل سمجھتا ہوں جو عربی راستے سے ہٹ کرعجمی راستہ اختیارکرلے۔‘
‘خالدؓ کے ان الفاظ نے نہ عبدالمسیح کو متاثر کیا نہ دوسرے کسی قلعہ دار یاسردار کو۔وہ اپنے انکار پر قائم رہے جب خالدؓ نے انہیں جزیہ کی رقم بتائی تو انہوں نے اسے فوراً قبول کر لیا۔یہ رقم ایک لاکھ نوے ہزار درہم تھی۔جو عہد نامہ تحریر کیا گیا اس کے الفاظ یہ تھے:
بسم اﷲالرحمٰن الرحیم
’’یہ عہد نامہ خالد بن ولیدنے حیرہ کے سرداروں عدی بن عدی ،عمرو بن عدی،عمرو بن عبدالمسیح ،ایاس بن قبصیہ الطانی اور حیری بن اکال سے کیا ہے۔اس عہد نامے کو حیرہ کے لوگوں نے قبول کرلیاہے اور اپنے سرداروں کو اس کی تکمیل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔اس عہد نامے کے مطابق اہلِ حیرہ خلافتِ مدینہ کو ایک لاکھ نوے ہزار درہم سالانہ ادا کیا کریں گے۔یہ جزیہ حیرہ کے پادریوں اور راہبوں سے بھی وصول کیا جائے گا۔صرف اپاہجوں ،نادار افراد اور تارک الدنیا راہبوں کویہ جزیہ معاف ہوگا……
اگر یہ جزیہ باقاعدگی سے ادا کیا جاتا رہا تو اہلِ حیرہ کے تحفظ کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔اگر مسلمانوں نے اس ذمہ داری میں کوتاہی کی تو جزیہ نہیں لیا جائے گااور اگر اہلِ حیرہ نے اس عہد نامے کی خلا ف ورزی کی تو مسلمان اپنی ذمہ داری سے بری سمجھے جائیں گے۔یہ معاہدہ ربیع الاول ۱۲ ہجری میں تحریر ہوا-

حیرہ پر مسلمانوں کے قبضےکی تکمیل ہو گئی۔معاہدے کے بعد تمام قلعہ داروں اور امراء نے خالدؓ کی اطاعت قبول کرلی۔یہ دراصل خلیفۃ المسلمین حضرت ابو بکرؓ کی اطاعت تھی۔خالدؓ نمائندگی کر رہے تھے۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنی تمام تر فوج کے ساتھ آٹھ رکعت نفل شکرانے کے پڑھے۔فارغ ہونے کے بعد خالدؓ نے اپنی فوج سے مختصر سا خطاب کیا۔’’مُوتہ کی لڑائی میں میرے ہاتھ میں نَو تلواریں ٹوٹی تھیں لیکن آتش پرستوں نے جس جوانمردی سے مقابلہ کیا ہے اسے میں ہمیشہ یادرکھوں گا۔انہوں نے الیّس میں ہم سے جو لڑائی لڑی ہے ایسی لڑائی میں نے پہلے نہیں دیکھی……اسلام کے پاسبانو!فتح و شکست اﷲکے اختیارمیں ہے۔اس کے نام کو اس کی نعمتوں کو اور اس کے رسولﷺ کو ہر وقت دل میں رکھو۔حیرہ بہت بڑی نعمت ہے جو اﷲتعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے۔یہ بھی دل میں رکھو کہ ہمارا جہاد ابھی ختم نہیں ہوا۔جب تک کفر کا فتنہ باقی ہے جہاد ختم نہیں ہوگا۔‘‘خالدؓ نے شہیدوں کیلئے دعائے مغفرت کی ،پھرزخمیوں کی عیادت کوگئے۔شہیدوں کی نمازِ جنازہ بڑا ہی رقت آمیز منظر تھا۔وطن سے اتنی دور جاکر شہید ہونے والوں کیلئے ہر آنکھ میں آنسو تھے۔شہیدوں کو قبروں میں اتارا گیا تو یہ قبریں تاریخ کے سنگ ہائے میل بن گئیں ۔خالدؓ جب حیرہ کا نظم و نسق سنبھالنے کیلئے اس محل نما مکان میں گئے جو ازادبہ کا رہائشی مکان تھا تو بے شمار رؤسا ء اور امراء تحفے لئے کھڑے تھے جو انہوں نے خالدؓکو پیش کیے۔ان میں بیش قیمت اشیاء تھیں ہیرے اور جواہرات بھی تھے۔مدینہ کے مجاہدین حیران ہو رہے تھے کہ کوئی قوم اتنی دولت مند بھی ہو سکتی ہے۔خالدؓنے یہ تحفے قبول تو کر لیے لیکن بوریا نشینوں کی قوم کے اس سالارِ اعلیٰ نے اپنے لیے ایک بھی تحفہ نہ رکھا۔تمام تحفے مالِ غنیمت کے ساتھ امیر المومنینؓ کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے مدینہ بھیج دیئے۔مالِ غنیمت زیادہ نہیں تھا کیونکہ حیرہ والوں نے جزیہ تسلیم کرلیا اور اطاعت بھی قبول کرلی تھی۔

ایک دلچسپ او رعجیب واقعہ ہو گیا۔کہ کچھ برس پہلے کی بات ہے۔رسولِ کریمﷺ صحابہ کرامؓ میں بیٹھے تھے اور اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔باتوں کا رخ کفار کے علاقوں کی طرف مڑ گیااور ذکر فارس کی شہنشاہی کا چل نکلا۔حیرہ اس شہنشاہی کا بڑا ہی اہم مقام تھا۔کسی صحابیؓ نے کہا کہ حیرہ ہاتھ آجائے تو اسے فوجی اڈا بنا کر کسریٰ پر کاری ضربیں لگائی جا سکتی ہیں۔دو مؤرخوں بلاذری اور طبری نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا کہ تھوڑے عرصے بعد حیرہ ہمارے قبضے میں ہوگا۔یہ دونوں مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس محفل میں حیرہ کی اہمیت اور اس علاقے کی خوبصورتی کی باتیں ہونے لگیں۔عبدالمسیح مشہور آدمی تھا۔اس کی ایک بیٹی تھی جس کا نام کرامہ تھا۔اس کے حسن کے چرچے تاجروں وغیرہ کی زبانی دور دور تک پہنچے ہوئے تھے۔اس کے اپنے ملک میں اس کا حسن و جمال ضرب المثل بن گیا تھا۔

بلا ذری اور طبری نے لکھاہے کہ رسولِ کریمﷺ کی اس محفل میں سیدھا سادہ اور عام سا ایک آدمی شویل بھی موجود تھا۔’’یا رسول ﷲ!‘‘شویل نے عرض کی۔’’اگر حیرہ فتح ہوگیا تو عبدالمسیح کی بیٹی کرامہ مجھے دے دی جائے۔‘‘رسولِ کریم ﷺ مسکرائے اور ازراہِ مزاق کہا۔’’حیرہ فتح ہو گیا تو کرامہ بنتِ عبدالمسیح تیری ہوگی۔‘‘ان مؤرخوں نے یہ نہیں لکھا کہ حیرہ کی فتح سے کتنا عرصہ پہلے یہ بات ہوئی تھی۔اب حیرہ فتح ہوگیا ۔خالدؓ کی فوج کا ایک ادھیڑ عمر سپاہی اس وقت ان کے سامنے جا کھڑا ہوا جب کچھ شرائط عبدالمسیح اور خالدؓ کے درمیان طے ہو رہی تھیں’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘خالدؓ نے اپنے اس سپاہی سے پوچھا۔’’اورمیرےپاس کیوں آئے ہو؟‘‘’’سالارِاعلیٰ!‘‘سپاہی نے کہا۔’’میرا نام شویل ہے۔خدا کی قسم!رسول ﷲﷺنے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ عبدالمسیح کی بیٹی کرامہ تجھے دے دی جائے گی۔آج حیرہ فتح ہوگیا ہے ۔شہزادی کرامہ مجھے دی جائے۔‘‘’’کیا تو کوئی گواہ پیش کر سکتا ہے؟‘‘خالدؓنے کہا۔’’خدا کی قسم! میں رسول ﷲ ﷺ کے وعدے کی خلاف ورزی کی جرات نہیں کر سکتا لیکن گواہ نہ ہوئے تو میں تیری بات کو سچ نہیں مان سکتا۔‘‘شویل کو دو گواہ مل گئے۔وہ حیرہ کی فاتح فوج میں موجود تھے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ رسول ﷲ ﷺنے ان کی موجودگی میں شویل سے یہ وعدہ فرمایا تھا۔’’رسول ﷲﷺ کا وعدہ میرے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘خالدؓ نے عبدالمسیح سے کہا۔’’تجھے اپنی بیٹی اس شخص کے حوالے کرنی ہو گی۔

‘‘’’یہ بھی شرائط میں لکھ لو۔‘‘عبدالمسیح نے کہا۔’’کہ میری بیٹی کرامہ اس سپاہی کو دے دی جائے۔‘‘یہ حکم عبدالمسیح کے گھر پہنچا کہ کرامہ مسلمانو ں کے سالارِ اعلیٰ کے پاس آجائے۔کرامہ نے پوچھاکہ اسے کیوں بلایا جا رہاہے؟اسے بتایاگیا کہ ایک مسلمان سپاہی نے اس کی خواہش کی ہے اور اسے اس سپاہی کے حوالے کیا جائے گا۔’’ایسا نہ ہونے دو۔‘‘گھر میں جو ایک محل کی مانند تھا ،دوسری عورتوں کا شور اٹھا۔’’ایسا نہ ہونے دو۔شاہی خاندان کی ایک عورت کو حوالے نہ ہونے دو جو عرب کا وحشی بدو ہے۔‘‘’’مجھے اس کے پاس لے چلو۔‘‘کرامہ نے کہا۔’’اس مسلمان سپاہی نے میری جوانی کے حسن کی باتیں سنی ہوں گی۔وہ کوئی جاہل اور احمق لگتا ہے ۔اس نے کسی سے یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ یہ کب کی بات ہے کہ جب میں جوان ہوا کرتی تھی۔
‘‘بلاذری کی تحریر کے مطابق کرامہ کو خالدؓ کے سامنے لے جایا گیا۔شویل موجود تھا۔اس نے ایک ایسی بڑھیا دیکھی جس کے چہرے پر جھریاں تھیں اور بال سفید ہو چکے تھے۔مؤرخ طبری نے کرامہ کی عمر اسّی سال لکھی ہے۔اس کے باپ عبدالمسیح نے خالدؓ کو اپنی عمر دو سو سال بتائی تھی۔بعض مؤرخ ان عمروں کو تسلیم نہیں کرتے۔عبدالمسیح کی عمر ایک سو سال سے ذرا ہی زیادہ تھی اور کرامہ کی عمر ساٹھ ستر سال کے درمیان تھی۔بہرحال کرامہ ضعیف العمر تھی۔شویل نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر جو خوشی کے آثار تھے وہ اڑ گئے اور وہ مایوس ہو گیا۔اچانک اسے ایک خیال آگیا۔

’’امیرِ لشکر!‘‘شویل نے کہا۔’’یہ شرط لکھ لی گئی ہے کہ کرامہ بنتِ عبدالمسیح میری لونڈی ہے۔اگر یہ مجھ سے آزادی چاہتی ہے تو مجھے رقم ادا کرے۔‘‘’’کتنی رقم؟‘‘کرامہ نے پوچھا۔’’ایک ہزار درہم!‘‘شویل نے کہا۔’’میں اپنی ماں کا بیٹا نہیں ہوں گا کہ ایک درہم بھی بخش دوں۔‘‘
کرامہ کے بوڑھے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔اس نے اس خادمہ کو جو اس کے ساتھ آئی تھی ،اشارہ کیا۔خادمہ دوڑی گئی اور ایک ہزار درہم لے آئی۔کرامہ نے یہ درہم شویل کے حوالے کردیئے اور آزاد ہو گئی۔شویل کا یہ عالم تھا کہ ایک ہزار درہم دیکھ کر حیران ہو رہا تھا جیسے اس کے ہوش گم ہو گئے ہوں۔اس نے اپنے ساتھیوں کو جاکر فاتحانہ لہجے میں بتایا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا تھا کہ اس نے ایک ضعیف العمر عورت کو جوان سمجھ لیا تھا لیکن اس نے اس سے ایک ہزار درہم کما لیے۔
’’صرف ایک ہزار درہم؟‘‘اس کے ساتھی نے اسے کہا۔’’تو ساری عمر احمق ہی رہا۔کرامہ شاہی خاندان کی عورت ہے۔اس سے تو کئی ہزار درہم لے سکتا تھا۔ ‘‘’’اچھا؟‘‘شویل نے مایوس ہو کر کہا۔’’میں تو سمجھتا تھا کہ ایک ہزار درہم سے زیادہ رقم ہوتی ہی نہیں۔‘‘اس کے ساتھیوں کے ایک زور دار قہقہے نے اسے اور زیادہ مایوس کر دیا۔
خالدؓنے مالِ غنیمت کے ساتھ تمام تحفے مدینہ بھیج دیئے۔مدینہ سے خالدؓ کیلئے امیر المومنینؓ نے پیغام بھیجاکہ یہ تحفے اگر مالِ غنیمت میں شامل ہیں یا جزیئے میں تو قابلِ قبول ہو سکتے ہیں،اگر نہیں تو جنہوں نے یہ تحفے دیئے ہیں ان سے ان کی قیمت معلوم کرکے جزیئے میں شامل کر لو۔اگر تم جزیہ وصول کر چکے ہو تو تحفوں کی رقم ان لوگوں کو واپس کردو۔خالدؓ نے ان سب کو بلا کر انہیں تحفوں کی قیمت ادا کر دی۔حیرہ کی فتح کے بعد چند دنو ں میں خالدؓ نے وہاں کا نظم و نسق رواں کر دیا اور حیرہ کے امراء کو ہی انتظامیہ کا ذمہ دار بنا دیا۔’
’میرے بھائیو!‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’میرے پاس وقت نہیں کہ میں یہاں بیٹھا رہوں لیکن نظم و نسق کی بحالی بہت ضروری ہے۔اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نظم و نسق کو اس بنیاد پر رواں کیا جائے کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے۔وہ سکون اور اطمینان محسوس کریں کہ ان کی جان و مال اور ان کی عزت و آبرو کو تحفظ حاصل ہے ۔خدا کی قسم!میں ان لوگوں پر، عیسائیوں پر اور ان آتش پرستوں پر ثابت کروں گا کہ اسلام وہ مذہب ہے جو ظلم کو بہت بڑا گناہ سمجھتا ہے۔رعایا کو اپنی اولاد سمجھو۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں نے نظم و نسق انہی لوگوں کے سپرد کر دیا ہے ؟رب ِ کعبہ کی قسم!میں ان پر اپنا حکم نہیں ٹھونسوں گا۔‘‘اپنا حکم نہ ٹھونسنے کے نتائج چند دنوں میں سامنے آگئے۔اسلام کا بنیادی اصول یہی تھا کہ لوگوں کے دل جیتو مگر دل جیت کر انہیں دھوکا نہ دو۔انہیں ان کے حقوق دو۔خالدؓ اسلام کے پہلے سالار تھے جنہوں نے مدینہ سے نکل کر کسی دوسری قوم کے علاقے فتح کیے اور انہیں اسلام کے اس بنیادی اصول پر عمل کرنے کا موقع ملا ۔مصر کے محمد حسین ہیکل نے بہت سے مؤرخوں کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ خالدؓ نے دشمنوں کے سر اڑانے شروع کیے تو فرات کو لال کر دیا اور ایسے کسی آدمی کو زندہ نہ چھوڑا جس کی طرف سے دینِ اسلام کو ذرا سا بھی خطرہ تھا۔

خالدؓ ذاتی دشمنی کے قائل نہیں تھے ۔متعصّب تاریخ دانوں نے خالدؓ کو ظالم سالار کہا ہے لیکن خالدؓ نے جو بھی علاقہ فتح کیا وہاں کا انتظام مفتوحہ امراء و رؤسا کے سپرد کر دیا۔البتہ ان کے نگران یعنی بالائی حکام مسلمان مقرر کیے جاتے تھے۔حیرہ کو فتح کر کے خالدؓ نے سارے فارس کو فتح نہیں کر لیا تھا۔بلکہ خالدؓ خطروں میں گھر گئے تھے۔آتش پرست ان پر چاروں طرف سے حملے کر سکتے تھے۔اگر بڑے پیمانے پر حملہ نہ کرتے تو شب خون مار مار کر مسلمانوں کی فوج کو نقصان پہنچا سکتے تھے لیکن آتش پرستوں نے ایسی کوئی کارروائی نہ کی۔اس کی اور کئی وجوہات تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ مفتوحہ علاقوں کے لوگ مسلمانوں کے سلوک سے متاثر ہوکر ان کے حامی اور معاون بن جاتے تھے۔
حیرہ اور نواحی علاقے میں دیر ناطف نام کی ایک بستی تھی جو عیسائیوں کی بستی کہلاتی تھی ۔وہاں ایک بہت بڑا گرجا تھا جس کے پادری کا نام صلوبابن نسطوناتھا۔وہ عیسائیوں کا مذہبی پیشوا ہی نہیں ان کا عسکری قائد بھی تھا۔وہ میدان ِ جنگ میں کبھی نہیں گیا تھا لیکن جنگ و جدل کے فن میں مہارت رکھتا تھا۔فارس کے عیسائی للکار کر مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تھے اور مسلمانوں کی تلواروں او برچھیوں سے بری طرح کٹے تھے۔ایسے عیسائیوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی تھی جو لڑنے کے قابل تھے۔ بوڑھے زندہ رہ گئے تھے یا عورتیں زندہ تھیں،صلوبابن نسطونا اکثر کہا کرتا تھا کہ مذہب صرف ایک زندہ رہے گا اور یہ عیسائیت ہوگی۔’
’زرتشت رہے گا نہ مدینہ کا اسلام!‘‘اس نے اپنے وعظ میں کئی بار کہا تھا۔’’سب مٹ جائیں گے اور زمین پر یسوع مسیح کی حکومت ہوگی۔‘‘حیرہ فتح ہونے تک لڑنے والے ہزار ہا عیسائی مٹ گئے تھے،باقی مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر اِدھر اُدھرجا چھپے تھے۔ان کے سرکردہ افراد نے پادری صلوبابن نسطونا کے ساتھ رابطہ رکھا ہوا تھا۔صلوبا نے کوشش کی تھی کہ عیسائیوں کو یکتا اور متحد کرکے مسلمانوں پر شبخون مارنے کیلئے تیار کرے لیکن عیسائیوں پر مسلمانوں کی ایسی دہشت بیٹھ گئی تھی کہ وہ شب خون اور چھاپہ مار جنگ کیلئے تیار نہ ہوئے۔
’’مقدس باپ! ‘‘ایک رات ایک نامور جنگجو عیسائی شمیل بورزانہ نے پادری صلوبابن نسطونا سے کہا۔’’کیا تم اس پر یقین رکھتے ہو کہ گرجے کی گھنٹیاں اور تمہارے وعظ اس تباہی کو روک لیں گے جو ہماری طرف تیزی سے بڑھی آرہی ہے؟‘‘’’نہیں!‘‘ پادری صلوبا نے کہا۔’’میرے وعظ اور گرجے کے گھنٹے کی آوازیں اب اس تباہی کو نہیں روک سکتیں۔‘‘’’پھر تم ہمیں اجازت کیوں نہیں دیتے کہ ہم مسلمانوں کی فوج پر ہر رات شبخون ماریں؟‘‘شمیل بورزانہ نے کہا۔’’مدینہ کے مسلمان جن نہیں، بھوت نہیں، انسان ہیں۔ہماری طرح کے انسان ہیں۔‘‘’’شمیل!‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’بے شک وہ انسان ہیں لیکن تمہاری طرح نہیں۔میں نے ان میں کچھ اور ہی بات دیکھی ہے……وہ فتح کا عزم لے کرآئے ہیں۔اگر انہوں نے اپنے جسموں کے متعلق یہی رویہ رکھا توآخری فتح بھی انہی کی ہوگی۔‘‘

’’مقدس باپ!‘‘شمیل نے کہا۔’’میں جسموں والی بات نہیں سمجھا۔‘‘’’سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’یہ لوگ جنہیں کسریٰ اُردشیر عرب کے بدُّو کہتا رہا ہے، جسمانی آسائشوں اور لذتوں کو قبول نہیں کرتے۔‘‘’’مقدس باپ کی زبان سے دشمن کی تعریف اچھی نہیں لگتی۔‘‘شمیل نے کہا۔’’اگر تم اپنے آپ میں دشمن کے اچھے اوصاف پیدا کرلوتو تم شکست سے بچ سکتے ہو۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’کیا تمہارے دوستوں نے مسلمانوں کو جال میں پھانسنے کیلئے پندرہ حسین لڑکیاں نہیں بھیجی تھیں؟کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اس کا مجھے علم نہیں ہوتا؟تمہاری تلواروں کی دھار کند ہو چکی ہے اس لیے تم لوگوں نے عورتوں کو استعمال کیا ہے۔کیا تم انکار کرو گے؟

‘‘’’نہیں مقدس باپ!‘‘شمیل نے شرمسار سا ہوکہ کہا۔’’ہمارے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ ایک تلوار ایک وار میں ایک آدمی کو کاٹ سکتی ہے لیکن ایک حسین عورت کا ایک وار ایک سو آدمیوں کو گھائل کر دیتا ہے۔مسلمان سوار گھوڑوں کو جھیل سے پانی پلانے لایا کرتے ہیں۔وہ چار چار چھ چھ کی ٹولیوں میں آتے ہیں۔جھیل کے اردگرد اونچی چٹانیں اور گھنا جنگل ہے۔ہماری لڑکیوں نے مسلمان سواروں کو اپنی طرف کھینچنے کی بہت کوشش کی لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ہماری بعض لڑکیاں نیم برہنہ ہو کر انہیں چٹانوں کے پیچھے چلنے کے اشارے کرتی رہیں لیکن ہوا یہ کہ بعض سوار منہ پھیر لیتے اور بعض ہنس پڑتے تھے۔‘‘
’’اور مجھے یہ بھی معلوم ہے شمیل!‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’کہ تم لوگوں نے مسلمانوں کے گشتی سنتریوں کو بھی پھانسنے کی کوشش کی تھی اور تم لوگوں نے یہ بھی سوچا تھا کہ مسلمانوں کے سالاروں اور خالدبن ولید کو قتل کرنے کیلئے لڑکیوں کو استعمال کیاجائے۔‘‘’’ہاں مقدس باپ!‘‘شمیل نے کہا۔’’ہم نے ایسا سوچا تھا۔‘‘’’پھر اس سوچ پر عمل کیوں نہ کیا؟‘‘’’اس لیے نہ کیا کہ جس فوج کے سپاہیوں کا کردار اتنا مضبوط ہے اس کے سالار تو فرشتوں جیسے ہوں گے۔‘‘شمیل نے جواب دیا۔’’اب ہمارے سامنے یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ مسلمان فوج پر شب خون مارنے شروع کر دیں اور انہیں اتنا نقصان پہنچائیں کہ یہ پسپائی پر مجبور ہو جائیں۔‘

‘’’کیا تم کسریٰ کی فوج سے زیادہ طاقتور ہو؟‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’وہ جو کہتے تھے کہ زمین پرکوئی طاقت ان کے مقابلے میں اٹھنے کی جرات نہیں کر سکتی اب کہاں ہیں۔ آگ کو پوجنے والوں کے تمام نامور سالار مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئے ہیں ۔ہم نے ان کی خاطر مسلمانوں سے لڑکر غلطی کی ہے۔‘‘’’تو کیا مقدس باپ!تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھیں؟‘‘شمیل نے حیران سا ہو کر پوچھا۔’’ہاں!‘‘پادری صلوبا نے جواب دیا۔’’میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔بلکہ میں مسلمانوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘’’مقدس باپ!‘‘شمیل نے کہا۔’’پھر تم کہو گے کہ مسلمانوں کے مذہب کو بھی قبول کرنا چاہتے ہو۔‘‘

’’نہیں !ایسانہیں ہوگا۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’جب سے حیرہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا ہے۔میں یہی دیکھ رہا ہوں کہ ان سے ہمارے مذہب کو کتنا کچھ خطرہ ہے۔میں نے دیکھ لیا ہے کہ عیسائیت کو کوئی خطرہ نہیں۔مسلمان اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں ،وہ زبردستی اپنا مذہب مفتوحہ لوگوں پر نہیں ٹھونستے……کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہاں ایک گرجا ہے۔جس میں مجھ جیسا جہاندیدہ اور مذہب پر مر مٹنے والا پادری موجود ہے؟……انہیں معلوم ہے شمیل!میں دو اتوار گرجے میں آنے والے عیسائیوں کے ہجوم میں دو اجنبی آدمیوں کو دیکھتا رہا ہوں۔میں نے ان کے گلوں میں صلیبیں لٹکتی دیکھی تھیں۔وہ ہر لحاظ سے عیسائی لگتے تھے لیکن میری دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ وہ دونوں مسلمان ہیں اور وہ مدینہ کے نہیں فارس کے رہنے والے ہیں۔وہ ولید کے بیٹے خالد کے جاسوس تھے ۔میں اپنے وعظ میں محتاط رہا۔‘‘
’’مقدس باپ!‘‘شمیل نے کہا۔’’اگر تم مجھے اشارہ کر دیتے تو وہ دونوں زندہ واپس نہ جاتے۔‘‘
’’پھر اس گرجے کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔‘‘پادری صلوبانے کہا۔’’عقل اور جوش میں یہی فرق ہے شمیل!تم میں جوش ہے اور میں عقل سے کام لے رہا ہوں……میں تم لوگوں کو مسلمانوں پر شب خون مارنے اور لڑنے کی اجازت نہیں دوں گا۔‘
‘دو تین روز بعد پادری صلوبابن نسطوناگرجے میں تمام عیسائی سرداروں سے کہہ رہا تھا’’ ……حقیقت کو دیکھو۔ کسریٰ کی اتنی زبردست فوج مدینہ کی قلیل سی فوج کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکی۔تم نے بھی مسلمانوں کا مقابلہ کرکے دیکھ لیا ہے۔اب مسلمانوں سے ٹکرا کرتم تباہ ہوجانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔وقت کا ساتھ دو۔ مسلمانوں نے تمہارے مذہب کیلئے کوئی خطرہ پیدا نہیں کیا۔انہوں نے ہمیں اور آتش پرستوں کو بھی اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی اجازت دے رکھی ہے ۔مسلمانوں نے عدل وانصاف میں جو مساوات قائم کی ہے وہ تم خود دیکھ رہے ہو……اور تم یہ بھی دیکھ رہے ہو کہ تم ان کے خلاف آتش پرستوں کے دوش بدوش لڑے تھے لیکن مسلمانوں نے تمہارے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کی۔انہوں نے کاشتکاروں کی زمینوں پر قبضہ نہیں کیا۔ان کی فصلوں میں اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں چھوڑے بلکہ آتش پرست حاکم ان غریب کسانوں پر جو ظلم و تشدد کرتے اور ان کی کھیتیوں کی پیداوار اٹھالے جاتے تھے۔
یہ لوٹ کھسوٹ ختم ہو گئی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہ کرو کہ مسلمان رعایا کو پورے حقوق دے رہے ہیں۔‘‘’’تم پر خدائے یسوع مسیح کی رحمت ہو!‘‘ایک سردار نے پادری صلوبا کو ٹوکتے ہوئے کہا۔’’کیا تم ہمیں یہ ترغیب دے رہے ہو کہ ہم مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لیں؟‘‘’’کیا یہ ہماری بے عزتی نہیں؟‘‘ایک اور سردار نے کہا۔’’مسلمانوں نے تمہاری عزت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’کیا تم نے انہیں پھانسنے اور گمراہ کرنے کیلئے اپنی لڑکیوں کو نہیں بھیجا تھا؟کیا وہ تمہاری لڑکیوں کو اٹھا کر نہیں لے جا سکتے تھے؟……اور مت بھولو کہ کسریٰ کے حاکموں نے تمہاری کتنی لڑکیوں کے ساتھ زبردستی شادی کی تھی۔جسے جو لڑکی اچھی لگی، وہ اسے حکماً لے گیا……

اور یہ بھی سوچو کہ فارس کے وہ سالار اور کماندار کہاں ہیں جن کے ساتھ مل کر تم مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے ؟کیا انہوں نے تم سے پوچھا ہے کہ تم کس حال میں ہو؟کیا انہوں نے آکر دیکھا ہے کہ تم میں سے جو مارے گئے ہیں ان کی بیویاں کس حال میں ہیں؟ان کے بچے کس حال میں ہیں؟اور مسلمان تمہیں سزا تو نہیں دے رہے؟‘‘’
’بے شک وہ ہمیں بھول گئے ہیں۔‘‘ایک بوڑھے سردار نے کہا۔’’تو بجا کہتا ہے مقدس باپ!‘‘ایک اور سردار بولا۔’’اب بتا ہمیں کیا کرنا چاہیے۔تم ہمیں کس راستے پر لے جانا چاہتا ہے؟‘‘’’یہ تمہاری سلامتی کا راستہ ہوگا۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’اس میں تمہارے جان و مال کی اور تمہارے مذہب کی سلامتی ہے……میں مسلمانوں کی اطاعت قبول کر رہا ہوں اور میں بانقیا اور بسما کے علاقے کی تمام قابلِ کاشت اراضی کا لگان وصول کرکے مسلمانوں کو ادا کیا کروں گا۔‘‘تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے حسنِ سلوک ،عدل و انصاف اور اسلوبِ حکومت سے متاثر ہو کر دیرناطف کے پادری صلوبا بن نسطونانے سب سے پہلے خالدؓکے سامنے جاکر اطاعت قبول کی اور دس ہزار دینار خالدؓ کو پیش کیے۔اس رقم کے ساتھ وہ ہیرے اور بیش قیمت موتی بھی تھے جو کسریٰ اُردشیر نے پادری صلوبا کو تحفے کے طور پر دیئے تھے ۔یہ موتی دراصل رشوت تھی جو اُردشیر نے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑانے کیلئے پادری صلوبا کو دی تھی۔
خالدؓ کے حکم سے ایک معاہدہ لکھا گیا:’’یہ معاہدہ مدینہ کے سالار خالد بن ولید اور صلوبا بن نسطونا کی قوم کے ساتھ طے ہوا اور تحریر کیا جاتا ہے۔اس کے مطابق صلوبابن نسطونا عیسائی قوم کی طرف سے دس ہزار دینار سالانہ بطور جزیہ ادا کرے گااور کسریٰ کے ہیرے اور موتی اس رقم کے علاوہ وصول کیے جائیں گے۔جزیہ کی رقم صرف ان عیسائیوں سے ہر سال وصول کی جایا کرے گی جو اس کی استطاعت اور توفیق رکھتے ہیں اور جو کمانے کے قابل ہوں گے۔ہرکسی کو جزیہ کا اتنا ہی حصہ دینا پڑے گا جتنا وہ آسانی سے ادا کرسکے گا۔اس معاہدہ کے رُو سے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عیسائیوں کی بستیوں بانقیا اور بسما کو ہر طرح کا تحفظ مہیا کریں۔پادری صلوبا بن نسطونا کو اس کی قوم کا نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے جیسا کہ اسے اس کی قوم نے تسلیم کیا ہے۔
اس معاہدے پر جو خالد بن ولید نے کیا ہے،تمام مسلمان رضا مند ہیں اور وہ اس پر عمل کریں گے۔‘‘پادری صلوبا اس علاقے کی نامور شخصیت تھی۔اردگرد کے بڑے بڑے سرداروں اور سرکردہ افراد نے جب دیکھا کہ صلوبا نے خالدؓ کی اطاعت قبول کرلی ہے تو وہ سب حیرہ پہنچے اور خالدؓ کی اطاعت قبول کرنے لگے۔انہوں نے جو نقد جزیہ ادا کیا وہ بیس لاکھ درہم تھا۔مسلمانوں کی شجاعت کی دھاک دور دور تک بیٹھ گئی۔بڑا ہی وسیع علاقہ مسلمانوں کے زیرِ نگین آگیا۔خالدؓ نے وقت ضائع کیے بغیر اس علاقے میں اسلامی حکومت قائم کردی اور انہی سرداروں میں امراء منتخب کرکے مختلف علاقوں میں مقررکر دیئے۔اس کے ساتھ ہی اپنی فوج کے کچھ دستے اس مقصد کیلئے سارے علاقے میں پھیلا دیئے کہ کہیں سے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت نہ اٹھ سکے۔یہ دستے گھوڑ سوارتھے


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form