Shamsheer e bayniyam Episode 45


🇵🇰 *شمشیر بے نیام* 🇵🇰
❤ *45* *قسط نمبر* ❤

خالدؓ نے اپنے تین بڑے ہی تیز اور پھرتیلے سالاروں ضرار بن الازور، قعقاع اور مثنیٰ بن حارثہ کو ان دستوں کے ساتھ بھیجاتھا۔ان تینوں کا انداز ایسا جارحانہ تھا کہ جدھر جاتے تھے اُدھر لوگ دبک جاتے اور ان کے سردار آگے آکر اطاعت قبول کرلیتے تھے۔
اس طرح جون ۶۳۳ء (ربیع الآخر ۱۲ہجری)میں دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے اسلامی سلطنت میں آگئے۔تخت و تاج کے ہوس کاروں نے اپنی قوموں کو تاریخ کی تاریکیوں میں گم کیا اور اپنے ملک دشمن کے حوالے کیے ہیں۔فارس کی شہنشاہی جو ناقابلِ تسخیر سمجھی جاتی تھی اور جس کی فوج زرہ پوش تھی ،اب زوال پزیر تھی۔مسلمانوں کی فوج کی نفری فارس کی فوج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔یہ نفری زرہ پوش بھی نہیں تھی اور آتش پرستوں کی فوج کی طرح اتنی زیادہ مسلح بھی نہیں تھی مگر آتش پرست شکست پہ شکست کھاتے چلے گئے اور فارس کے دارالحکومت مدائن کو خطرہ پیدا ہو گیا،وہاں اب کسریٰ اُردشیر نہیں تھا وہ صدمے سے مر گیا تھا۔تاریخ گواہ ہے اور یہ قرآن کا فرمان ہے کہ’’ ﷲجس قوم کو اس کے اعمالِ بد کی سزا دینے پر آتا ہے اس پر نااہل اور خود غرض حکمران مسلط کر دیتاہے جو اسی قوم کے افراد ہوتے ہیں ۔‘‘ﷲکا یہ قہر آتش پرستوں پر گرنا شروع ہو گیا تھا ۔مدائن میں اُردشیر کی موت کے بعد اس کے خاندان میں تخت و تاج کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔خالدؓ کے جاسوس مدائن میں ہی نہیں،کسریٰ کے محل میں بھی پہنچ چکے تھے۔وہ جو خبریں بھیج رہے تھے وہ خالدؓ کے لیے امید افزاء تھیں۔
’’مدائن کا تخت اب وہ تختہ بن چکا ہے جس پر میت کو غسل دیا جاتاہے۔‘‘
ایک جاسوس نے مدائن سے آکر خالدؓ کو بتایا۔’’یہ تخت کسریٰ کے تین شہزادوں کی جانیں لے چکا ہے۔اُردشیر کی متعدد بیویاں ہیں اور ہر بیوی کے جوان بیٹے ہیں۔ہر بیوی اپنے بیٹے کے سر پر کسریٰ کا تاج رکھنا چاہتی ہے۔اُردشیر کے مرنے کے بعد ایک شہزادے کو تخت پربٹھایا گیا،دو روز بعد وہ اپنے کمرے میں اس حالت میں مردہ پایا گیا کہ اس کا سر اس کے دھڑ سے الگ تھا۔دو نہایت خوبصورت اور جوان لڑکیوں کو ،دربان کو اور دو پہرہ داروں کو جلاد کے حوالے کر دیا گیا۔اس شہزادے کے قتل کے شبہے میں ان سب کے سر قلم کر دیئے گئے……اس کی جگہ اُردشیر کی ایک اور بیوہ کے بیٹے کے سر پر کسریٰ کا تاج رکھا گیا۔تیسرے دن اس نے شراب پی اور بے ہوش ہو گیا اور ذرا دیر بعد مر گیا۔اب سات آٹھ آدمیوں اور تین جوان عورتوں کو شہزادے کو شراب میں زہر پلانے کے شبہ میں قتل کر دیا گیا……
سالارِ اعلیٰ!تیسرا شہزادہ تخت پر بیٹھا ۔دوسرے روز وہ محل کے باغ میں ایک بڑی دلکش رقاصہ کے ساتھ ٹہل رہا تھا ،کہیں سے بیک وقت دو تیر آئے ۔ایک اس کی آنکھ میں اور دوسرا اس کی شہ رگ میں اتر گیا۔ کسریٰ کا تخت پھر خالی ہو گیا……
تخت ابھی تک خالی ہے۔کسریٰ کے وزیر اور دو سالاروں نے تاجپوشی کا سلسلہ روک دیا ہے۔انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو علاقے فارس کی شہنشاہی میں رہ گئے ہیں،انہیں مسلمانوں سے بچایا جائے۔
انہوں نے دجلہ کے پار اپنی فوج کو اس طرح پھیلا دیا ہے کہ ہم جس طرف سے بھی پیش قدمی کریں ،ہمیں روک لیا جائے۔‘‘
’’ان کی اس فوج کی نفری کتنی ہوگی؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔ ’’ہم سے دگنی ہوگی۔‘‘جاسوس نے جواب دیا۔’’اس سے زیادہ ہوگی کم نہیں ہو سکتی۔مدائن دجلہ کے پار ہے۔آتش پرست ہمیں دریا پار نہیں کرنے دیں گے۔‘‘’’ﷲکے دریا ﷲکی راہ میں لڑنے والوں کو نہیں روک سکتے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’آتش پرست ہمیں روکنے کے قابل نہیں رہے۔جس قوم کے سرداروں میں پھوٹ پڑ جاتی ہے اس قوم کی قسمت میں تباہی کے سوا کچھ نہیں رہتا۔‘‘

’’ہم مدائن کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ہم دشمن کو سنبھلنے کی مہلت نہیں دیں گے۔ ‘‘خالدؓاپنے سالاروں کو کوچ کے احکام دے ہی رہے تھے کہ انہیں اطلاع دی گئی کہ مدینہ سے خلیفۃ المسلمینؓ کا قاصد آیا ہے ۔خالدؓنے فوراً قاصد کو اندر بلا لیا۔
’’کیا مدینہ کے لوگ ہمیں اچھے نام سے یاد کرتے ہیں؟‘‘خالدؓنے قاصد سے پوچھا۔’’خدا کی قسم!مدینہ کی ہوائیں بھی آ پ کو یاد کرتی ہیں۔‘‘قاصد نے کہا۔’’امیر المومنین ؓمسجد میں آپ کا ذکر کرتے ہیں۔وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کیا اب مائیں خالد جیسا ایک اور بیٹا جَن سکیں گی؟لوگ ہر روز آپ کی خبر کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘’’پیغام کیا ہے؟‘‘
قاصد نے پیغام خالدؓ کو دے دیا۔خالدؓ پڑھتے جا رہے تھے اور ان کے چہرے کا تاثر بدلتا جا رہا تھا۔وہاں جو سالار موجود تھے وہ پیغام سننے کیلئے بیتاب ہو گئے۔’’امیر المومنین کے سوا مجھے کون روک سکتا تھا؟‘‘خالدؓ نے کہا اور سالاروں سے مخاطب ہوکر بولے۔’’امیرالمومنین نے حکم بھیجا ہے کہ عیاض بن غنم دومۃ الجندل میں لڑ رہا ہے۔
ﷲاسے فتح عطا فرمائے۔اُدھر سے فارغ ہوکر وہ ہمارے پاس آجائے گا۔ امیرالمومنین نے کہا ہے کہ جب عیاض اپنی فوج لے کر ہمارے پاس آجائے تو ہم آگے بڑھیں ۔اُس کے آنے تک ہم جہاں ہیں وہیں رکے رہیں۔‘‘خالدؓ کے چہرے پر جو رونق اور آنکھوں میں فتح و نصرت کی جو چمک ہر وقت رہتی تھی وہ بجھ گئی اور وہ گہری سوچ میں کھو گئے،سالاروں کے اس اجلاس پر سناٹا طاری ہو گیا جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ خلیفۃ المسلمینؓ نے پیش قدمی روک دی تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ خالدؓ کے چہرے پر ایسا تاثر کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور یہ تاثر ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتا تھا۔کسی بھی سالار کو خلیفہ کے اس حکم کے متعلق کوئی بات کہنے کی جرات نہ ہوئی۔چند منٹ بعد خالدؓ گہری سوچ سے بیدار ہوئے اور قاصد کی طرف دیکھا۔’’ﷲتجھے سفر میں سلامتی اور رحمت عطا کرے!‘‘خالدؓنے کہا۔’’
آرام کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور واپسی کا سفر اختیار کر… …امیر المومنین سے میرا اور میرے ساتھیوں کا سلام کہنا، پھر کہنا کہ جنگ کے حالات کو وہی بہتر سمجھتے ہیں جو میدانِ جنگ میں ہوتے ہیں۔محاذ سے اتنی دور بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرنا لڑنے والوں کیلئے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے… …پھر کہنا کہ ولید کا بیٹا خلافت کی حکم عدولی کی جرات نہیں کرے گا.لیکن حالات نے مجبور کیا اور اسلام کو خطرہ لاحق ہوا تو میں حکم کی پرواہ نہیں کروں گا۔میں خلافتِ مدینہ کا امین اور اسلام کا پاسبان ہوں۔میں دشمن کو اپنے اوپر آتا دیکھ کر ایک شخص کے حکم کو ایک طرف رکھ دوں گا۔مجھے خوشنودی ﷲکی درکار ہے ﷲ کے کسی بندے کی نہیں

میں معلوم کروں گا کہ سالار عیاض کے محاذ کی صورتِ حال کیا ہے،ہو سکتا ہے اسے مدد کی ضرورت ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے محاذ سے جلدی فارغ نہ ہو سکے اور آتش پرست اس عرصے میں سنبھل جائیں۔اور خلیفۃ المسلمین سے کہنا کہ ہم نے زرتشت کی آگ کو سرد کر دیا ہے ﷲنے ہمیں ایسی فتح عطا کی ہے کہ جس نے کسریٰ کے محل کو شیطان کا بسیرا بنادیا ہے۔اُردشیر کے تخت پر جو کوئی بیٹھتا ہے وہ دو روز بعد اپنے بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔فارس کی شہنشاہی اور اس کی شان و شوکت کو ہم نے دجلہ اور فرات میں ڈبو دیا ہے۔حیرہ جسے فارس کا ہیرا کہتے ہیں ،ہمارا فوجی اڈہ ہے، ہمارے لیے دعاکرتے رہیں۔

‘‘قاصد کی روانگی کے بعد خالدؓ نے ایک کماندار کو بلا کر کہا کہ اپنے ساتھ دو بڑے تیز اور توانا سپاہی لے کر بہت تیز رفتار سے دومۃ الجندل جائے اور غور سے دیکھے کہ وہاں کیا صورتِ حال ہے اور سالار عیاض بن غنم کب تک فارغ ہو سکیں گے اور کیا ان کے جلدی فارغ ہونے کا امکان ہے بھی یا نہیں۔کماندار اسی وقت روانہ ہو گیا۔’’خلیفۃ المسلمین کے اس حکم کو جو تم نے سنا ہے، ذہن سے اتار دو۔‘‘خالدؓنے اپنے سالاروں سے کہا۔’’دل میں خلافتِ مدینہ کا پورا احترام رکھتے ہوئے ان حالات کو دیکھوجو ہم نے آتش پرستوں کیلئے پیدا کر دیئے ہیں۔اگر ہم عیاض کے انتظار میں یہیں بیٹھے رہے تو کسریٰ کی فوج کے سنبھلنے کا موقع مل جائے گا۔خدا کی قسم!تم سب یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہو کہ کسریٰ کی فوج پر تم نے جو خوف طاری کر دیا ہے وہ انہیں کسی میدان میں تمہارے مقابلے میں نہیں ٹھہرنے دے گا……اور مدائن کے محلات میں تخت نشینی پر جو قتل و غارت ہو رہی ہے وہ ہمارے حق میں جاتی ہے۔
قوم کے سرداروں میں جب تخت نشینی وجہ پیکار بن جاتی ہے تو فوج ایسی تلوار کی مانند ہو جاتی ہے جو بڑے ہی ڈھیلے اور کمزور ہاتھوں میں ہو۔‘‘’’ہاں ابنِ ولید!‘‘سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔’’کسریٰ کے جن سالارں نے فارس کے بچے ہوئے علاقوں میں اپنی فوج پھیلا دی ہے وہ سالار بھی تخت کے خواہشمند ہوں گے ۔وہ ہم پر فتح حاصل کرکے فارس کے تخت پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔‘‘’’اگرایساہوا تو فارس جلدی تباہ ہوگا۔‘‘سالار عدی بن حاتم نے کہا۔’’سالاروں کے دماغوں پر جب تخت و تاج سوار ہو جاتا ہے تو وہ اپنے ملک اور قوم کو بڑی جلدی تباہ کر دیتے ہیں۔‘‘’’جب توجہ تخت کے لفظ اور اپنی ذات پر مرکوز ہو جاتی ہے تو نگاہیں دشمن سے ہٹ جاتی ہیں۔‘‘
خالدؓ نے کہا۔’’میں ان حالات سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ اپنی فوج کو تیاری کی حالت میں رکھو۔ہم آخری فیصلہ دومۃالجندل کی صورتِحال معلوم ہو جانے پر کریں گے۔‘‘دومۃ الجندل کی صورتِ حال سالار عیاض بن غنم کیلئے مخدوش تھی۔دومۃ الجندل اس دور کا مشہور تجارتی مرکز تھا۔آج کے عراق اور شام کی شاہراہیں یہیں آکر ملتی تھیں۔رسولِ اکرمﷺنے تبوک پر چڑھائی کی تھی تو اس دوران خالدؓ دومۃ الجندل تک پہنچے اور یہاں کے قلعہ سے قلعہ داراُکیدربن مالک کو گرفتار کرکے رسولِ اکرمﷺ کے حضور پیش کیا تھا۔

اُکیدر بن مالک نے اسلام تو قبول نہ کیا، رسول ﷲﷺ کی اطاعت قبول کر لی تھی لیکن حضور ﷺ کی وفات کے بعد ارتدار کا فتنہ اٹھا تو اس شخص نے مدینہ کی وفاداری ترک کردی اور عیسائیوں اور بت پرستوں کو ساتھ ملا کر اس کا سردار بن گیا تھا۔ابو بکرؓ نے اُکیدر بن مالک کی سرداری کو ختم اور اس کے زیرِ اثر غیر مسلم قبائل کو اپنے زیرِ نگیں کرنے کیلئے سالار عیاض بن غنم کو بھیجا تھا۔عیاض تجربہ کار سالار تھے لیکن دومۃ الجندل پہنچے تو دیکھا کہ عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ جو کلب کہلاتا تھا ،اپنے علاقے کے دفاع کیلئے تیار تھا۔یہ قبیلہ جنگ و جدل میں شہرت رکھتا تھا ۔عیاض نے قلعے کو محاصرے میں لے لیا لیکن عیسائیوں نے باہر سے مسلمانوں کو محاصرے میں لے لیا۔عیاض کی فوج کو آگے بھی اور عقب میں بھی لڑنا پڑا۔ اس صورتِ حال نے جنگ کو ایسا طول دیا جوختم ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔اور یہ صورتِ حال عیاض کیلئے روز بروز مخدوش ہوتی جا رہی تھی۔خالدؓ کا بھیجا ہوا کماندار واپس آیا تو اس نے خالدؓکو بتایا کہ عیاض بن غنم کیسے آئے گا؟ اسے تو خود مدد کی ضرورت ہے۔کماندار نے دومۃ الجندل میں عیاض اور دشمن کی فوجوں کی پوزیشنیں تفصیل سے بیان کیں۔’’خدا کی قسم! میں یہاں انتظا رمیں فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘خالدؓنے پر جوش آواز میں کہا۔’’پیشتر اس کے کہ دشمن آگے آجائے۔میں آگے بڑھوں گا۔مدائن کی شہر پناہ مجھے پکار رہی ہے……کوچ کی تیاری کرو۔
‘‘مشہور مؤرخ طبری ار بلاذری نے لکھا ہے کہ خالدؓ کی خود سری اور سرکشی مشہور تھی ۔وہ بچَین سے بیٹھنے والے سالار نہیں تھے۔اس صورت میں کہ دشمن چار شکستیں کھا چکا تھا اور اس کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا اور مدائن کے شاہی ایوان میں ابتری پھیلی ہوئی تھی ،خالدؓ فارغ بیٹھ ہی نہیں سکتے تھے۔خالدؓکا جاسوسی نظام بڑا تیز اور ذہین تھا۔ اس میں زیادہ تر وہ مسلمان تھے جو فارس میں غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔وہ ان علاقوں سے واقف تھے اور مختلف قبیلوں کی زبانیں بول سکتے تھے اور ان کا بہروپ دھار سکتے تھے۔وہ مدائن کے محلات کے اندر کی خبریں لے آئے تھے۔ انہوں نے خالدؓ کو خبریں دینی شروع کر دیں کہ فارس کی فوج کہاں کہاں موجود ہے اور کس جگہ کیا کیفیت ہے۔ان کی اطلاعوں کے مطابق ایرانیوں کی فوج کی زیادہ تر نفری دو شہروں میں تھی۔ایک تھا عین التمر اور دوسرا انبار۔عین التمرحیرہ کے قریب تھا اور انبار اس سے دگنے فاصلے پر آگے تھا،عین التمر دریائے فرات سے دور ہٹ کر واقع تھا اور انبار فرات کے کنارے پر تھا۔خالدؓنے فیصلہ کیا کہ پہلے انبار پرحملہ کیاجائے،یہ بھی تجارتی شہر تھاجس میں غلّے کے بہت بڑے بڑے ذخیرے تھے۔

جون ۶۳۳ء کے آخر (ربیع الاول ۱۲ ھ کے وسط)میں خالدؓ نے حیرہ سے کوچ کیا۔ان کے ساتھ ان کی آدھی فوج یعنی نو ہزار نفری تھی جو حملے کیلئے بہت ہی تھوڑی تھی لیکن خالدؓکو ﷲپر اور اپنی جنگی فہم و فراست پر بھروسہ تھا۔ وہ مفتوحہ علاقوں کو فوج کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔عیسائی اور دیگر قبیلوں نے اطاعت تو قبول کر لی تھی لیکن مسلمانوں کو بڑے تلخ تجربے ہوئے تھے۔اطاعت قبول کرنے والے موقع ملتے ہی اطاعت سے منکر اور باغی ہو جاتے تھے۔حیرہ میں خالدؓ نے قعقاع بن عمرو اور اقرع بن حابس کو چھوڑا تھا۔
یہاں ایک غلطی کی وضاحت ضروری ہے۔دو چار تاریخ دانوں نے لکھاہے کہ خالدؓحیرہ میں سالار عیاض بن غنم کے انتظار میں ایک سال رکے رہے۔یہ غلط ہے،اس دور کی تحریروں سے صاف پتا چلتا ہے کہ خالدؓنے حیرہ میں پورا ایک مہینہ بھی انتظار نہیں کیا نہ انہوں نے امیر المومنینؓ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ ان کے حکم کے خلاف سالار عیاض بن غنم کا انتظار کیے بغیر مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔خالدؓ اپنی نَو ہزار سپاہ کے ساتھ فرات کے کنارے کنارے بڑی تیزی سے بڑھتے گئے ۔ان کے جاسوس مختلف بہروپوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر آگے آگے جا رہے تھے۔انبار سے تھوڑی دور رہ گئے تو خالدؓ نے فرات عبور کیا اور اس کنارے پر چلے گئے جس پر انبار واقع تھا۔وہاں انہوں نے مختصر سا قیام کیا اور دو خط تحریر کرائے۔ایک کسریٰ کے نام اور دوسرا مدائن کے حکام اور امراء وغیرہ کے نام۔کسریٰ کے نام خالدؓ نے لکھوایا:
’’بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم۔خالد بن ولید کی جانب سے شاہِ فارس کے نام۔میں شکر ادا کرتا ہوں ﷲکا جس نے تمہاری بادشاہی کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے اور تہاری عیاریوں کو کامیابی سے محروم رکھا ہے اور تم آپس میں ہی دست و گریبان ہو رہے ہو۔ﷲاگر تمہیں مزید مہلت دیتا تو بھی گھاٹے میں تم ہی رہتے۔اب تمہاری نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ مدینہ کی اطاعت قبول کر لو۔اگر یہ منظور ہے تو میں شرائط طے کرنے کیلئے دوستوں کی طرح آؤں گا۔پھر ہم تمہارے علاقے سے آگے نکل جائیں گے۔اگر پس و پیش کرو گے تو تمہیں ایسی قوم کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑیں گے جسے موت اتنی عزیز ہے جتنا تم زندگی کو عزیز رکھتے ہو۔‘‘
خالدؓ نے مدائن کے حکام اور امراء کے نام لکھوایا:’
’بسم ﷲالرحمٰن الرحیم۔خالد بن ولید کی جانب سے فارس کے امراء کے نام۔تمہارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ اسلام قبول کر لو۔ہم تمہاری سلامتی اور تحفظ کے ذمہ دار ہوں گے ۔اسلام قبول نہ کرو تو جزیہ ادا کرو ،ورنہ سوچ لو کہ تمہارا سامنا ایک ایسی قوم سے ہے جو موت کی اتنی ہی شیدائی ہے جتنے فریفتہ تم شراب پر ہو.

خالدؓ نے شاہِ فارس کے نام حیرہ کے رہنے والے ایک آدمی کے ہاتھ بھیجا اور امراء وغیرہ کے نام خط لے جانے والا انبار کا رہنے والا ایک آدمی تھا۔کسی بھی مؤرخ نے ان دونوں آدمیوں کے نام نہیں لکھے۔انبار جس علاقے میں تھاوہ ساباط کہلاتا تھا۔ساباط آج کل کے ضلعوں کی طرح تھا اور انبار اس ضلعے کا سب سے بڑا شہر تھا۔ساباط کا حاکم یا امیر شیر زاد تھا جو اس وقت انبار میں مقیم تھا۔وہ دانشمند اور عالم تھا۔اس میں عسکری صلاحیت ذرا کم تھی ،لیکن انبار میں فوج اتنی زیادہ تھی کہ اسے عسکری سوجھ بوجھ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اپنی فوج کے علاوہ اسکے ساتھ عیسائیوں کی بے شمار نفری تھی۔اتنی زیادہ فوج کے علاوہ انبار کی شہر پناہ بڑی مضبوط تھی اور دفاع کا یہ انتظام بھی تھا کہ شہر کے اردگرد گہری خندق تھی جس میں پانی تھا۔اس طرح انبار کو ناقابلِ تسخیر شہر بنا دیا گیا تھا۔

خالدؓکیلئے تو یہ اس لئے بھی ناقابلِ تسخیر تھا کہ ان کی فوج کی کل نفری نو ہزار تھی۔انبار کے جاسوسوں نے مسلمانوں کی فوج کو شہر کی طرف آتے دیکھا تو انہوں نے شیرزاد کو جا بتایا، پھر سارے شہر میں خبر پھیل گئی کہ مدینہ کی فوج آ رہی ہے۔
شیرزاد دوڑاگیا اور دیوار پر جا چڑھا۔اسے جاسوسوں نے مدینہ کی فوج کی نفری دس ہزار بتائی تھی۔’’نہیں!یہ دھوکا ہے۔‘‘دیوارپر کھڑے شیرزاد نے مسلمانوں کی فوج کو دیکھ کر کہا۔’’جنہوں نے ہماری اتنی زبردست فوج کو یکے بعد دیگرے چار لڑائیوں میں شکست دی ہے وہ اتنے احمق نہیں ہو سکتے کہ اتنے بڑے قلعے بند شہر پر حملہ کرنے کیلئے اتنی قلیل فوج لائیں۔یہ ان کی فوج کا ہراول ہوگا۔اگر ہراول نہیں تو اتنی ہی فوج پیچھے آرہی ہو گی یا کسی اور سمت سے آرہی ہوگی۔‘‘شہر کے لوگوں میں افراتفری مچ گئی تھی۔

انہوں نے مسلمانوں کے بڑے دہشت ناک قصے سنے تھے۔انہوں نے اپنی شکست خوردہ فوج کے زخمیوں کو اور میدانِ جنگ سے بھاگ کر آنے والوں کو دیکھا تھا۔ان کا خوف و ہراس بھی دیکھا تھا۔پسپائی میں اپنے آپ کو حق بجانے ظاہر کرنے کیلئے انہوں نے لوگوں کو جنگ کے ایسے واقعات سنائے تھے جیسے مسلمان جن بھوت ہوں۔اب وہ مسلمان ان کے اتنے بڑے شہر کو محاصرے میں لینے آئے تھے۔انہوں نے اپنے زیورات اور رقمیں اور اپنی جوان لڑکیا ں چھپانی شروع کر دیں۔شہر میں خوف و ہراس اور بھگدڑ زیادہ دیر نہ رہی کیونکہ دیوار کے اوپر سے بلند آوازیں سنائی دینے لگی تھیں کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ وہ ساری عمر شہر کی دیوار تک نہیں پہنچ سکیں گے ۔پھر دیوار کے اوپر قہقہے بلند ہونے لگے۔’’مسلمانو!‘‘آتش پرست مسلمانوں پر آوازے کَس رہے تھے ۔’’تمہیں موت یہاں تک لے آئی ہے۔‘‘’’زندہ رہنا ہے تو مدینہ کو لَوٹ جاؤ۔‘‘شہرِ پناہ پر تیر اندازوں کا ہجوم کھڑا تھا۔مسلمانوں نے شہر کو محاصرے میں لے لیا تھااور خندق نے انہیں روک لیا۔طبری اور یاقوت لکھتے ہیں کہ خندق دیوار کے اتنا قریب تھی کہ اس کے قریب آنے والے اوپر سے چھوڑے ہوئے تیروں کی زد میں آجاتے تھے۔ایسا نہ ہوتا تو بھی خندق کو پھلانگنا ممکن نہ تھا۔یہ بہت چَوڑی تھی۔تیر انداز مسلمانوں پر ہنس رہے تھے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں دیوار پر یوں کھڑے تھے جیسے مسلمانوں کا تماشہ دیکھ رہے ہوں۔

’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓنے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’یہ لوگ نہیں جانتے جنگ کیا ہے اور کس طرح لڑی جاتی ہے۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ انبار ہر لحاظ سے ناقابلِ تسخیر تھا لیکن خالدؓ کے چہرے پر پریشانی کاہلکاسا بھی تاثر نہیں تھا۔وہ پر سکون تھے۔رات کو انہوں نے اپنے خیمے میں اپنے سالاروں کو یقین دلایا کہ فتح انہی کی ہوگی لیکن قربانی بہت دینی پڑے گی۔انہیں صرف یہ بات فتح کی امید دلا رہی تھی کہ شہر کی دیوار اتنی اونچی نہیں تھی جتنی قلعوں کی ہوا کرتی ہے۔صبح طلوع ہوتے ہی خالدؓ گھوڑے پر سوار ہوئے اور شہر کے اردگرد گھوڑا دوڑانے لگے۔وہ دیوار اور خندق کا جائزہ لے رہے تھے ۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ انہیں ایک ہزارایسے تیر اندازوں کی ضرورت ہے جنہیں اپنے نشانے پر پورا پورا اعتماد ہو اور جن کے بازوؤں میں اتنی طاقت ہو کہ کمانوں کو کھینچیں تو کمانیں دوہری ہو جائیں اور عام تیر اندازوں کی نسبت ان کے تیر بہت دور جائیں۔
’’جلدی۔‘‘ خالدؓنے کہا۔’’بہت جلدی ہمیں شام تک اس شہر میں داخل ہونا ہے ۔‘‘تھوڑی سی دیر میں ایک ہزار تیر انداز آگئے۔ یہ چُنے ہوئے تھے اور سب کے سب جوان اور بڑے مضبوط جسموں والے تھے۔’’تم سب خندق تک اس طرح ٹہلتے ہوئے جاؤ کہ کمانیں تمہارے ہاتھوں میں لٹک رہی ہوں۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’ایسا لگے کہ تم ٹہلتے ٹہلتے خندق کے قریب چلے گئے ہو۔جوں ہی خندق کے قریب جاؤ،نہایت تیزی سے ترکشوں سے تیر نکالو ،کمانوں میں ڈالو اور دیوار پر کھڑے دشمن کے تیر اندازوں کی آنکھوں کا نشانہ لے کر تیر چلاؤ۔پیشتر اس کے کہ وہ جان سکیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ایک ایک، اس کے بعد پھر ایک ایک تیر چلاؤ۔‘‘مورخ طبری کے مطابق خالدؓنے حکم دیاتھا۔’’صرف آنکھیں ……صرف آنکھیں۔
‘‘ایک ہزار تیر انداز خالدؓ کے حکم کے عین مطابق آہستہ آہستہ خندق تک گئے۔دیوار پر دشمن کے سپاہی ہنس رہے تھے اور بے پروائی سے کھڑے تھے ۔انہیں مسلمانوں کا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ وہ خندق کو پھلانگنے کی کوشش کریں گے۔خندق کے قریب پہنچ کر ان ایک ہزار تیر اندازوں نے اوپر دیکھا ،اِدھر اُدھر دیکھا، خندق میں دیکھا اور احمقوں کی سی حرکتیں کیں۔آتش پرستوں کے تیر اندازوں نے ان پر تیر چلانے کی ضرورت محسوس نہ کی حالانکہ مسلمان تیر انداز ان کی زد میں تھے۔اچانک مسلمان تیر انداز وں نے ترکشوں میں سے ایک ایک تیر نکالا ،پلک جھپکتے تیر کمانوں میں ڈالے، کمانیں آگے ر کھ کے دشمن کی آنکھوں کے نشانے لیے اور تیر چھوڑ دیئے۔ایک ہزار تیروں سے بیشتر آتش پرستوں کے تیر اندازوں کی ایک ایک آنکھ میں اتر گئے۔معا ًبعد مسلمان تیر اندازوں نے ایک ہزار تیر چھوڑے ،پھر ایک ہزار اور……‘‘
…‘‘یہ کہنا صحیح نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کا کوئی بھی تیر خطا نہیں گیا تاریخوں میں لکھاہے کہ زیادہ تیر دشمن کی آنکھوں میں لگے اور شہر میں یہ خبر تیز ہوا کی طرح پھیل گئی ہمارے سینکڑوں سپاہیوں کی آنکھیں ضائع ہو گئی ہیں۔اب ان سینکڑوں سپاہیوں کو شہرِپناہ سے اتارا گیا تو شہر کے لوگوں نے ہر ایک کی ایک ایک آنکھ میں تیر اترا ہوا اور ان زخمیوں کو کرب ناک آہ و زاری کرتے دیکھا۔ایک انگریز مبصر سر والٹر نے متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار تیر اتنی تیزی سے چلے کہ آتش پرست اپنے آپ کو بچا ہی نہ سکے اور تیر جن کی آنکھوں میں نہ لگے ان کے چہروں میں اتر گئے چونکہ فارس کے یہ سپاہی اور ان کی مدد کو آئے ہوئے عیسائی شہر پناہ پر گھنے ہجوم کی طرح کھڑے تھے اس لئے کوئی تیر ضائع نہ گیا ہو۔تیر نے ایک ایک آدمی کو زخمی کیا۔طبری کی تحریر کے مطابق انبا ر کے محاصرے کو ’’ذات العیون‘‘ یعنی آنکھوں کی تکلیف بھی کہا جاتا رہا ہے۔
مسلمانوں کے اس وار نے شہر کے لوگوں پر ہی نہیں فارس کی فوج پر بھی خوف طاری کر دیا۔ مسلمانوں نے تو جادو کا کرتب دکھا دیا تھا۔ساباط کا آتش پرست حاکم شیرزاد دانش مند اور دور اندیش آدمی تھا۔اس نے بھانپ لیا کہ اس کی فوج میں جو لڑنے کا جذبہ موجو دتھا وہ ماند پڑ گیا ہے۔اسے یہ بھی احساس تھا کہ اس کی فوج پہلی شکستوں کی بھی ڈری ہوئی ہے۔چنانچہ مزید قتل و غارت کو روکنے کیلئے اس نے خالدؓ سے صلح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اس نے دو امراء کو قلعے کے باہر بھیجا۔خندق کے قریب آکر ان دو امیروں نے مسلمانوں سے پوچھا کہ ان کا سالارِ اعلیٰ کہاں ہے ۔ خالدؓ کو اطلاع ملی تو وہ آگئے۔’’ہمارے امیر شیر زاد نے ہمیں بھیجا ہے۔‘‘شیر زاد کے بھیجے ہوئے دو آدمیوں میں سے ایک نے خالدؓ سے کہا۔’’ہم آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسی شرائط پر جو ہمارے لیے قابلِ قبول ہوں۔اگر صلح ہوجائے تو شیرزاد اپنی فوج کو ساتھ لے کر انبار سے چلا جائے گا۔‘‘’
’شیر زاد سے کہو کہ شرطیں منوانے کا وقت گزر گیا ہے۔ ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اب شرطیں ہماری ہوں گی اور تم لوگ ہتھیار ڈالو گے۔‘‘دونوں آدمی واپس چلے گئے اور شیرزاد کو خالدؓ کا پیغام دیا،شیرزاد نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھا۔’’ہم اتنی جلدی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔‘‘ایک سالارنے کہا۔’’ہمارے پاس فوج کی کمی نہیں۔‘‘دوسرے سالارنے کہا۔’’مسلمان خندق سے آگے نہیں آسکتے۔‘‘شیرزاد نے سر ہلایا۔یہ ایسا اشارہ تھا جس سے پتہ نہیں چلتا کہ وہ شہر کا دفاع جاری رکھنا یا خالدؓ کے پیغام پر غور کرکے کوئی اور فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔اس کے سالاروں نے اس کے اشارے کو جنگ جاری رکھنے کا حکم سمجھا اور وہ شہرِ پناہ پر آگئے۔ایک ہزار مسلمان تیر انداز جنہوں نے انبار کے دوہزار سے زائد سپاہیوں کی آنکھیں نکال دی تھیں ،پیچھے ہٹ گئے۔خالدؓ نے شہر کے اردگرد ایک اور چکر لگایا۔اب وہ صرف خندق کو دیکھ رہے تھے ۔انہوں نے خندق پار کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی لیکن اتنی کم نہیں تھی کہ دور سے گھوڑا دوڑاتے لاتے اور وہ خندق پھاند جاتا۔خالدؓ کے دماغ میں ایک طریقہ آگیا۔انہوں نے حکم دیا کہ اپنی فوج کے ساتھ جتنے اونٹ کمزور یا بیمار ہوگئے ہیں انہیں آگے لے آؤ۔ایسے بہت سے اونٹ تھے جو پورا سامان اٹھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔خالدؓ کے حکم سے ان اونٹوں کو ذبح کرکے خندق میں اس جگہ پھینکتے گئے جہاں خندق کم چوڑی تھی۔اتنے اونٹ ذبح کرکے خندق میں ترتیب سے پھینک دیئے گئے کہ ایک پُل بن گیا۔’’ﷲنے تمہارے لیے گوشت اور ہڈیوں کا پُل بنا دیا ہے۔ ‘‘خالدؓ نے بلند آواز سے کہا ۔’’اب ہم خندق کے پار جا سکتے ہیں۔‘‘اونٹوں کا یہ پل ہموار نہیں تھا۔ان کے ڈھیر پر چلنا خطرناک تھا۔پاؤں پھسلتے تھے لیکن گزرنا بڑی تیزی سے تھا۔ اشارہ ملتے ہی پیادہ مجاہدین کودتے پھلانگتے اس عجیب پُل سے گزرنے لگے۔چند ایک مجاہدین پھسلے اور گِرے اور وہ پانی میں سے نکل کر اونٹوں کی ٹانگیں گردنیں وغیرہ پکڑتے اوپرآگئے۔شہرِ پناہ سے دشمن کے تیر اندازوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔ادھر ’’آنکھیں پھوڑنے والے ‘‘مسلمان تیر اندازوں نے بڑی تیزی اور مہارت سے تیر اندازی جاری رکھی۔اب ان کی تعداد ایک ہزار نہیں خاصی زیادہ تھی۔

اونٹوں کے پل سے گزرنے والوں میں سے کئی مجاہدین تیروں سے زخمی ہو رہے تھے لیکن وہ رُکے ہوئے سیلاب کی طرح خندق سے پار جاتے اور پھیلتے رہے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اقدام غیر معمولی طور پر دلیرانہ تھا۔ وہ زخمی تو ہوئے، شہید بھی ہوئے ۔لیکن انبار کی فوج پر اس اقدام کا جو اثر ہوا وہ اس کے سپاہیوں کے لڑنے کے جذبے کیلئے مہلک ثابت ہو رہا تھا۔ان پر مسلمانوں کی دہشت پہلے ہی غالب تھی،اب انہوں نے مسلمانوں کا یہ عجیب طریقہ دیکھا کہ اپنے اونٹ ذبح کرکے پُل بنا دیا اور تیروں کی بوچھاڑوں میں اس پُل سے گزرنے لگے تو دیوار سے برسنے والے تیروں میں کمی آگئی۔دشمن کے تیر انداز زخمی ہو کر کم ہو رہے تھے اور ان میں بھگدڑ کی کیفیت بھی پیدا ہو گئی تھی۔خندق پھلانگنے والا صرف ایک دستہ تھا۔اس دستے کا جوش و خروش اس وجہ سے بھی زیادہ تھا کہ خود خالدؓ ان کے ساتھ تھے اور سب سے پہلے مرے ہوئے اونٹوں پر سے گزرنے والے خالدؓ تھے۔تیر ان کے دائیں بائیں سے گزر رہے تھے اور ان کے قدموں میں زمین میں لگ رہے تھے۔مگر خالدؓ یوں بے پرواہ تھے جیسے ان پر بارش کے قطرے گر رہے ہوں۔ﷲاکبر کے نعروں کی گرج الگ تھی اور اس کی گرج میں ﷲکی رجعت اور برکت تھی۔
شہر کے لوگوں کا یہ عالم تھا کہ بھاگتے دوڑتے پھر رہے تھے۔شہرِ پناہ سے ان کے زخمی سپاہیوں کو اتارتے تھے تو لوگ ان کی گردنوں میں ،چہروں میں اور سینوں میں ایک ایک ،دودو اور تین تین تیر اترے ہوئے دیکھتے تھے۔زخمیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور شہر میں خوف و ہراس زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔لوگوں نے چلّانا شروع کر دیا ۔سمجھوتہ کرلو۔صلح کرلو،دروازے کھول دو۔شیرزاد کیلئے صورتِ حال بڑی تکلیف دہ تھی۔وہ دانشمند آدمی تھا۔اس نے جب لوگوں کی آہ و زاری سنی اور جب بچوں اورعورتوں کو خوف کی حالت میں پناہوں کی تلاش میں بھاگتے دوڑتے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ یہ معصوم بے گناہ مارے جائیں گے۔انہیں بچانے کا اس کے پاس ایک ہی ذریعہ تھا کہ ہتھیار ڈال دے۔اس نے اپنے سالارِ اعلیٰ کو بلا کر کہا کہ وہ مزید خون خرابہ روکنا چاہتا ہے۔’’نہیں!‘‘سالارِ اعلیٰ نے کہا۔’’ابھی کوئی فیصلہ نہ کریں ۔مجھے ایک کوشش کر لینے دیں۔‘‘شیرزاد خاموش رہا۔سالارِ اعلیٰ شہرِ پناہ کے اوپر اپنی سپاہ کی کیفیت دیکھ رہا تھاجو بڑی تیزی سے مخدوش ہوتی چلی جا رہی تھی۔اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ مسلمان خندق عبور کر آئے ہیں۔اس نے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا۔اس نے ایک دستہ چنے ہوئے سپاہیوں کا تیار کیا اور قلعے کا دروازہ کھول کر اس دستے کو باہر لے آیا۔اس دستے نے ان مسلمانوں پر ہلّہ بول دیا جو خندق عبور کر آئے تھے۔خندق کے دوسرے کنارے کھڑے مسلمانوں نے دشمن کے اس دستے پر تیر چلانے شروع کر دیئے ۔اس دستے کا مقابلہ مسلمانوں کے ایسے دستے کے ساتھ تھا جس کے قائد خالدؓ تھے۔مسلمانوں کے تیروں کی بوچھاڑوں سے آتش پرستوں کے دستے کی ترتیب اور یکسوئی ختم ہو گئی۔خالدؓ نے اس دستے کو اس طرح لیا کہ اپنے دستے کو دیوار کی طرف رکھا تاکہ خندق کی طرف سے مسلمان تیر اندازدشمن پر تیر برساتے رہیں۔
🇵🇰🇵🇰🇵🇰


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form