❤ *قسط نمبر* *72* ❤
*شمشیر بے نیام*
اطلاع اتنی دیر سے کیوں آئی؟‘‘’’اطلاع جلدی آگئی تھی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے جواب دیا۔’’مدینہ سے قاصد آیا تو اس نے دیکھا کہ ہم نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس نے سوچا کہ محاصرے کے دوران یہ اطلاع دی تو اپنے لشکر میں کہرام بپا ہو جائے گا، اور اس محاصرے پر بہت برا اثر پڑے گا۔اس نے صر ف یہ بتایا کہ مدینہ میں خیریت ہے اور کمک آرہی ہے۔ایک دو دنوں بعد اس نے پیغام مجھے دے دیا اور چلا گیا۔میں نے پڑھا اور یہی بہتر سمجھا کہ دمشق کا فیصلہ ہو جائے تو تجھے اور لشکر کو اطلاع دوں۔‘‘ابو عبیدہؓ نے نئے خلیفہ کا خط جو ابو عبیدہؓ کے نام لکھا گیا تھا، خالدؓ کو دے کر کہا۔’’اور یہ وہ خبر ہے جو میں تجھے لڑائی ختم ہونے تک نہیں دینا چاہتا تھا۔‘‘خالدؓ خط پڑھنے لگے۔یہ خلیفہ عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو لکھا تھا:
’’خلیفہ عمر کی طرف سے ابو عبیدہ کے نام:
بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم
میں تجھے ﷲسے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ﷲلازوال ہے جو ہمیں گمراہی سے بچاتا ہے، اور اندھیرے میں روشنی دِکھاتا ہے۔میں تمہیں خالد بن ولید کی جگہ وہاں کے تمام لشکر کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں۔فوراً اپنی جگہ لو، ذاتی مفاد کیلئے مومنین کو کسی مشکل میں نہ ڈالنا۔انہیں اس پڑاؤ پر نہ ٹھہرانا جس کے متعلق تو نے پہلے دیکھ بھال نہ کرلی ہو۔کسی لڑائی کیلئے دستوں کو اس وقت بھیجنا جب وہ پوری طرح منظم ہوں، اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کرنا جس سے مومنین کا جانی نقصان ہو۔ﷲنے تجھے میری آزمائش کا، اور مجھے تیری آزمائش کا ذریعہ بنایاہے۔دنیاوی لالچوں سے بچتے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح تجھ سے پہلے تباہ ہوئے ہیں تو طمع سے تباہ ہوجائے۔تو جانتا ہے وہ اپنے رتبے سے کس طرح گرے ہیں۔‘‘اس خط کا مطلب یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے خالدؓ کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا۔ اب ابو عبیدہؓ سپہ سالار تھے۔بلکہ وہ ایک مہینہ آٹھ دن پہلے سے سپہ سالار تھے۔’’ﷲکی رحمت ہو ابو بکر پر!‘‘خالدؓنے خط ابو عبیدہؓ کو دے کر کہا۔
رات جو خالدؓ نے مدینہ سے دور دمشق میں خلیفہ اول ابو بکرؓ کی رحلت پر روتے گزاردی تھی، اس رات ڈیڑھ دو مہینے پہلے مدینہ پر ماتم کے بادل چھانے لگے تھے۔امیرالمومنین ابو بکرؓ ایسی حالت میں ٹھنڈے پانی سے نہا بیٹھے جب ان کا جسم گرم اور پسینے میں شرابور تھا۔فوراً انہیں بخار ہو گیا۔ علاج ہوتا رہا لیکن بخار جسم کو کھاتا رہا۔اگر امیرالمومنینؓ آرام کرتے تو شاید بخار کا درجہ حرارت گر جاتا مگر بیماری کی حالت میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو امور سلطنت میں مصروف رکھا۔
ایک روایت یہ ہے کہ ابو بکرؓ نے علاج کروایا ہی نہیں تھا۔ انہیں ایک روز تیمارداروں نے کہا کہ طبیب کو بلا کر علاج کرائیں۔’’میں ن طبیب کو بلایا تھا۔‘‘امیرالمومنینؓنے کہا۔’’اس نے کہا تھا کہ علاج اور آرام کی ضرورت ہے۔میں نے اسے کہا تھا کہ میں جو چاہوں گا کروں گا ، میں نے اسے واپس بھیج دیا تھا۔‘‘’’علاج کیوں نہیں کرایا امیرالمومنین؟‘‘’’آخری منزل پر آن پہنچا ہوں میرے رفیقو!‘‘خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’ﷲنے جو کام میرے سپرد کیے تھے وہ اگر سب کے سب پورے نہیں ہوئے تو میرے لیے یہ اطمینان کیا کم ہے کہ میں نے کوتاہی نہیں کی……میں ﷲکے محبوب کے پاس جا رہا ہوں۔
‘‘تاریخ گواہ ہے کہ خلیفۃ المسلمین ابو بکر ؓنے اپنے دو سال تین ماہ کے دورِ خلافت میں معجزہ نما کام کیے تھے۔رسولِ کریمﷺ کی وفات کے فوراًبعدارتداد کا جو فتنہ تمام تر سر زمینِ عرب میں پھیل گیا تھا وہ ایک جنگی طاقت تھی جسے ختم کرنے کیلئے اس سے زیادہ جنگی طاقت کی ضرورت تھی۔لیکن ابو بکرؓ نے تدبر سے اور جنگی فہم و فراست سے مجاہدینِ اسلام کی قلیل تعداد کو استعمال کیااور تھوڑے سے عرصے میں ارتداد کے فتنے اور اس کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کردیا۔اس کے نتیجے میں ان تمام قبیلوں نے جو ارتداد کی لپیٹ میں آگئے تھے۔اسلام قبول کرلیا۔ابو بکرؓ نے آنے والے مسلمان حکمرانوں ، اُمراء اوروزراء کیلئے یہ سبق ورثے میں چھوڑا کہ ان میں بے لوث جذبہ ہو، اقتدار کی ہوس، اور کوئی ذاتی مفاد نہ ہو تو پوری قوم مجاہدین کا لشکر بن جاتی ہے اور قوم کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو وہ کفر کی چٹانوں کے دل چاک کر دیا کرتی ہے۔یہ سربراہِ سلطنت پر منحصر ہے کہ قوم فتح کامرانی کی رفعتوں تک جاتی ہے یا ذلت و رسوائی کی اندھیری کھائیوں میں۔ارتداد کے علاوہ بھی کہیں بغاوت اورکہیں شورش تھی۔خلیفہ ابو بکرؓ نے ہر سو امن و امان قائم کر دیا تھا۔فتنہ و فساد نہ رہا۔ بغاوت اور شورش نہ رہی تو ابو بکرؓ نے انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو فارس جیسی شہنشاہی کے خلاف اور پھر اسی جیسی دوسری بڑی جنگی طاقت کے خلاف بھیج دیا۔مجاہدین نے کسریٰ کی طاقت کو کچل کر اس کے بے شمار علاقے کو اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا پھر قیصرِ روم کی فوج پر دہشت بن کر چھاگئے اور اس کے کئی علاقے اسلامی سلطنت میں آگئے۔کسریٰ بھی اور قیصر بھی اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔مسلمانوں نے خلیفہ اولؓ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے، ان دونوں دشمنانِ اسلام کا گھمنڈ توڑ دیا اور اسلامی فوج کو ایک طاقت بنا دیا۔انہی جنگوں میں مجاہدین کو فوج کی صورت میں منظم کیا گیاتھا۔ابو بکرؓ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسلام ایک مذہب کی صورت میں ہی عرب سے عراق اور شام میں نہ پھیلا بلکہ اس سے اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب بھی پھیلی بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ ایک نئے کلچر نے جنم لیا جسے لوگوں نے اسلامی کہا اور اسے اپنایا۔اس سے پہلے تو لوگ فارس اور روم کے کلچر کو ہی تہذیب و تمدن سمجھتے تھے اور اسے فوراً قبول کر لیتے تھے-
خلیفہ اولؓ جیسے تھک سے گئے تھے،اور پوری طرح سے مطمئن تھے کہ وہ خالق حقیقی کے حضور جا رہے ہیں، اور سرخرو جا رہے ہیں۔اس دور کی تحریروں سے اور مؤرخین کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابو بکرؓ کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا۔یہ تھا ان کی جانشینی کا مسئلہ۔ انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے اس مسئلہ کا ذکر کیا تھا۔’’میرے ﷲ کے رسول ﷺ کو موت نے اتنی مہلت نہیں دی تھی کہ کسی کو خود خلیفہ مقرر کرتے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا تھا۔’’اور سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف پر فتنہ و فساد پیدا ہو گیا تھا۔یہ تو ﷲ کو منظور نہ تھا کہ اس کے رسولﷺ کی امت جس کی تعداد ابھی بہت تھوڑی ہے، آپس میں لڑ کر ختم ہو جائے۔ﷲنے امت کا اتحاد میرے ہاتھ پر قائم رکھا۔خدا کی قسم!میں رسول ﷺ کی امت کو اس فساد میں نہیں ڈال کر مروں گا کہ میرے بعد خلیفہ کون ہو۔ میں خود خلیفہ مقرر کرکے جان ﷲکے سپرد کروں گا۔‘‘عظیم تھے خلیفہ اولؓ کہ انہوں نے یہ بات سوچ لی تھی۔اس دور کے تھوڑا عرصہ بعد کے وقائع نگار اور مبصر لکھتے ہیں کہ خلیفہ اولؓ نے سوچ لیا تھا کہ قبیلوں یا طبقوں یا افراد میں جب اقتدار کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے تو قوم کا اتحاد پھٹے ہوئے دامن کی مانند ہو جاتا ہے۔ فوجوں کی پیش قدمی پسپائی میں بدل جاتی ہے، پیچھے ہٹتا ہوا دشمن آگے بڑھنے لگتا ہے۔ پھر فوج بھی اقتدار کی جنگ کا ہتھیار بن جاتی ہے اور سالار سلطانی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔مسلمانوں کا وہ دور فتوحات سے مالامال ہو رہا تھا۔درخشاں روایات جنم لے رہی تھیں اور یہی تاریخِ اسلام کی بنیاد بن گئی تھیں۔
ابو بکرؓ کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ قیصرو کسریٰ جو پسپائی اور زوال کے عمل سے گزر رہے ہیں، اور نیست و نابود ہوجانے تک پہنچ گئے ہیں۔وہ مسلمانوں کے نفاق سے فائدہ اٹھائیں گے، اور عفریت بن کر اسلام کو نگل جائیں گے۔’’کیا عمرکو لوگ قبول کرلیں گے؟‘‘ابو بکرؓ نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا۔’’شاید نہ کریں……عمر کا مزاج بہت سخت ہے……اپنے احباب سے مشورہ لے لیتا ہوں۔‘
‘ابو بکرؓ نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو بلایا اور تنہائی میں بٹھایا۔’’ابنِ عوف!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’کیا تو مجھے سچے دل سے بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟تو اسے کیسا سمجھتا ہے؟‘‘’’خدا کی قسم خلیفہ رسول!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’جو میں جانتا ہوں، وہ اس سے بہتر نہیں جو تو جانتا ہے۔‘‘’’جو کچھ بھی تو جانتا ہے کہہ دے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’خلیفہ رسول!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو عمر بن خطاب سے بہتر ہو۔ لیکن اس کی طبیعت میں جو سختی ہے، وہ بھی ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘
’’رائے میری بھی یہی ہے ابنِ عوف!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’تم سب کو عمر کی سختی اس لئے زیادہ محسوس ہو تی ہے کہ میرے مزاج میں بہت نرمی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو گا کہ اپنے بعد خلافت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ڈال دوں تو اس کی سختی کم ہوجائے؟……ایسے ہی ہوگا۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میں کسی پر سختی کرتا ہوں تو عمر اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے؟اور اگر میں کسی کی غلطی یا کوتاہی پر اپنا رویہ نرم رکھتا ہوں تو عمر اس پر سختی کرتا ہے؟وہ سمجھتا ہے کہ کب سختی اور کب نرمی کی ضرورت ہے۔‘‘ ’’بے شک !ایسا ہی ہے۔‘‘عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔’’خلیفہ رسول!بے شک ایسا ہی ہے۔‘‘’
’اس بات کا خیال رکھنا ابو محمد (عبدالرحمٰن بن عوف) !‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میرے تیرے درمیان جو باتیں ہوئی ہیں وہ کسی تک نہ پہنچیں۔‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف چلے گئے تو امیرالمومنینؓ نے اپنے ایک اوررفیق اور مشیر عثمانؓ بن عفان کو بلایا۔’’ابو عبدﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’تجھ پر ﷲکی رحمت ہو۔کیا تو بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟‘‘’’امیرالمومنین!‘‘عثمانؓ بن عفان نے جواب دیا۔’’خدا کی قسم!ابنِ خطاب کو تو مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہے پھر تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے؟‘‘’’اس لئے کہ میں اپنی رائے رسول ﷲ ﷺ کی امت پر نہیں ٹھونسنا چاہتا۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں تیری رائے ضرور لوں گا۔‘‘’’امیرالمومنین !‘‘ عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’عمر کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہے، اور جو علم و دانش اس کے پاس ہے وہ ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘’’ایک اور سوال کا جواب دے دے ابو عبدﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’اگر میں اپنے بعد خلافت عمر کے سپرد کرجاؤں تو تیرا کیا خیال ہے کہ وہ تم سب پر سختی کرے گا؟‘‘’’ابنِ خطاب جو کچھ بھی کرے گا ہم اس کی اطاعت میں فرق نہیں آنے دیں گے۔‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’ابو عبدﷲ! ﷲ تجھ پررحم و کرم کرے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں نے جو تجھے کہا اور تو نے جو مجھے کہا۔یہ کسی اور کے کانوں تک نہ پہنچے۔‘
‘ابو بکرؓ نے کئی اور صحابہؓ سے عمرؓ کے متعلق رائے لی۔ان میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی۔ابو بکرؓ نے ہر ایک سے کہا تھا کہ وہ کسی اور سے اس گفتگو کا ذکر تک نہ کرے، لیکن یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بات کی۔یہ آئندہ خلافت کامعاملہ تھا اور صحابہ کرامؓ کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ ابو بکرؓ عمرؓ کو خلیفہ مقرر کر رہے تھے۔عمرؓ سخت طبیعت کے مالک تھے۔ان کے فیصلے بڑے سخت ہوتے اور وہ بڑی سختی سے ان پر عمل کراتے تھے۔
ان سب نے ایک وفد اس مقصد کیلئے بنایا کہ ابو بکرؓ کو قائل کریں کہ عمرؓ بن خطاب کو خلیفہ مقرر نہ کریں۔جب وفد خلیفہ اولؓ کے پاس گیا تو وہ لیٹے ہوئے تھے۔بخار نے انہیں اتنا کمزور کر دیا تھا کہ اپنے زور سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔’’امیرالمومنین!‘‘وفد کے قائد نے کہا۔’’خدا کی قسم!عمر خلیفہ نہیں ہو سکتا۔اگر تو نے اس کو خلیفہ مقرر کر دیاتو ﷲکی باز پرس کا تیرے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔عمر تیری خلافت میں سب پر رعب اور غصہ جھاڑتا ہے وہ خود خلیفہ بن گیا تو اس کا رویہ ظالموں جیساہو جائے گا۔‘‘ابو بکرؓ کو غصہ آگیا۔انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکے۔’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ انہوں نے غصیلی آواز میں کہا۔انہیں سہارا دے کر بٹھادیا گیا۔’’کیا تم سب مجھے ﷲکی باز پرس سے اور اس کے غضب سے ڈرانے آئے ہو؟‘‘ ابو بکرؓ نے غصے اور نقاہت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’میں ﷲکے حضور جا کرکہوں گا کہ میرے رب! میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین بندے کو خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے، اور میں نے جو کہا ہے وہ تمام لوگوں کو سنا دو۔میں نے عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘وہ جو سب ابو بکرؓ کو ان کے فیصلے کے خلاف قائل کرنے آئے تھے خاموش ہو گئے،اور شرمسار بھی ہوئے کہ انہوں نے امیرالمومنینؓ کو بیماری کی حالت میں پریشان کیا ہے۔وہ سب اٹھ کر چلے گئے۔ اس سے اگلے روز ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان کو بلایا، عثمانؓ خلیفہ کے کاتب تھے۔ ’’ابو عبدﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’لکھ جو میں بولتا ہوں۔‘‘ انہوں نے لکھوایا۔
’’بسم ﷲالرحمٰن الرحیم۔ یہ وصیت ہے جو ابو بکر بن ابو قحافہ نے اس وقت لکھوائی ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہوکر موت کے بعد کی زندگی میں داخل ہو رہا تھا۔ایسے وقت پکا کافر بھی ایمان لے آتا ہے، اور جس نے کبھی سچ نہ بولا ہو، وہ بھی سچ بولنے لگتا ہے۔میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے، میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔اگر عمر نے تم پر زیادتی کی اور عدل و انصاف نہ کیا تو وہ ہر انسان کی طرح ﷲکے حضور جواب دہ ہو گا۔مجھے امید ہے کہ عمر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا۔میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں تمہاری بھلائی اور بڑائی کے سوا اور کچھ نہیں سوچا۔
‘‘وصیت لکھواتے لکھواتے ابو بکرؓ پر غشی طاری ہو گئی تھی، انہوں نے یہاں تک لکھوایا ۔’’ میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو……‘‘اور وہ غشی میں چلے گئے۔عثمانؓ بن عفان نے خود یہ فقرہ مکمل لکھ دیا ۔’’ تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے۔ میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔‘‘
ابو بکرؓ ہوش میں آگئے-
’’ابو عبدﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’پڑھ جو میں نے لکھوایا ہے۔‘‘ عثمانؓ بن عفان نے پڑھ کر سنایا۔’’ﷲاکبر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم! تم نے جو سوچ کرلکھا ہے وہ سوچ غلط نہیں تھی۔تو نے یہ سوچ کر عبارت پوری کردی، کہ میں غشی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا تو نا مکمل وصیت خلافت کیلئے جھگڑے کا باعث بن جائے گی۔‘
‘’’بے شک امیرالمومنین!‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’میں نے یہی سوچ کر عبارت مکمل کرلی تھی۔‘‘’’ﷲتجھے اس کی جزا دے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’انہوں نے عثمانؓ بن عفان کے الفاظ نہ بدلے اور وصیت مکمل لکھوادی۔’’
مجھے اٹھا کر مسجد کے دروازے تک لے چلو۔‘‘ امیرالمومنینؓ نے کہا۔ان کے مکان کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا۔ وہ دروازہ کھولا گیا، نماز کا وقت تھا، بہت سے لوگ مسجد میں آچکے تھے۔ ابو بکرؓ کی زوجہ اسماء بنت عمیس دونوں ہاتھوں سے سہارا دے کر مسجد والے دروازے تک لے گئیں۔ نمازیوں نے انہیں دیکھاتو متوجہ ہوئے۔
’’میرے بھائیو!‘‘ابو بکرؓ نے نقاہت کے باوجود بلند آواز سے بولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’کیا تم اس شخص پر راضی ہو گے جسے میں خلیفہ مقررکروں؟ میں نے اس میں تمہاری بھلائی سوچی ہے اور اپنے کسی رشتے دار کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ میرے بعد عمر بن خطاب خلیفہ ہوگا۔ کیا تم سب اس کی اطاعت کرو گے؟‘‘’
’ہاں امیرالمومنین!‘‘بہت سی آوازیں سنائی دیں۔’’ ہم اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔ہم ابنِ خطاب کی اطاعت قبول کریں گے۔‘‘اس کے بعد ابو بکرؓ نے وصیت پر اپنی مہر ثبت کردی۔ابو بکرؓ کا پیشہ تجارت تھا لیکن خلافت کابوجھ کندھوں پر آپڑا تو تجارت کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ گزر اوقات تو کرنی ہی تھی، انہوں نے اپنے کنبے کیلئے بیت المال سے کچھ الاؤنس منظور کرا لیا تھا، اب جب انہوں نے محسوس کرلیا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکیں گے، تو انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا، کہ ان کی جو تھوڑی سی زمین ہے وہ ان کی وفات کے بعد بیچ کر یہ تمام رقم جو وہ گزارے کیلئے بیت المال سے لیتے رہے ہیں، بیت المال میں جمع کرادیں۔’
’سب میرے قریب آجاؤ!‘‘ ابو بکرؓ نے آخری وقت اہلِ خانہ کو بٹھا کر کہا۔’’ مجھے صرف دو کپڑوں کا کفن پہنا کر دفن کرنا، تم دیکھتے رہے ہو کہ میں ایک ہی کپڑا پہنا کرتا تھا، اس کے ساتھ ایک کپڑا اور ملالینا، ان کپڑوں کو پہلے دھو لینا۔‘‘’’ہم تین نئے کپڑے لے سکتے ہیں۔‘‘عائشہؓ نے کہا۔’’کفن تین کپڑوں کا ہوتا ہے۔‘‘
’’نہیں عزیز بیٹی!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’کفن تو اس لئے ہوتا ہے، کہ جسم سے کوئی مواد اور نمی نکلے تو اسے کفن چوس لے۔کفن پرانے کپڑوں کا ہوا تو کیا؟نئے کپڑے پہننے کا حق زندہ لوگوں کا ہے۔مجھے غسل اسماء بنت عمیس (زوجہ)دے گی، اگر اکیلے غسل نہ دے سکے تو اپنے بیٹے کو ساتھ لے لے۔‘‘
اتنے میں اندر اطلاع دی گئی کہ عراق کے محاذ سے مثنیٰ بن حارثہ آئے ہیں۔ گھر کے کسی فرد نے کہا کہ امیرالمومنینؓ اس وقت بات کرنے کے قابل نہیں۔امیرالمومنینؓ نے قدرے درشت لہجے میں کہا۔’’اسے آنے دو۔وہ بہت دور سے آیا ہے۔جب تک میرا سانس چل رہا ہے، میں اپنے فرائض سے کوتاہی نہیں کر سکتا۔‘‘مثنیٰ کو اندر بلا لیا گیا۔انہوں نے جب ابو بکرؓ کی حالت دیکھی تو پشیمان ہو گئے، اور بات کرنے سے جھجکنے لگے۔’’مجھے گناہگار نہ کر ابنِ حارثہ!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’ہو سکتا ہے تو مدد لینے آیا ہو۔میں اگر تیرے لیے کچھ نہ کر سکا تو ﷲکی باز پرس پر کیا جواب دوں گا؟‘‘
’’یا امیرالمومنین!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’محاذ ہمارے قابو میں ہے۔حالات ہمارے حق میں ہیں لیکن تعداد کی کمی پریشان کرتی ہے۔مسلمان اب اتنے نہیں رہے کہ انہیں فوج میں شامل کرکے محاذوں پر بھیجا جائے۔جو جہاد کے قابل تھے وہ پہلے ہی محاذوں پر ہیں۔امیرالمومنین کے حکم سے ان لوگوں کو مجاہدین کی صفوں میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا جو مرتد ہو گئے تھے۔میں یہ درخواست لے کر آیا ہوں کہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو سچے دل سے اسلام قبول کر چکے ہیں اور محاذوں پر جانا چاہتے ہیں۔کیا امیرالمومنین انہیں فوج میں شامل ہونے کی اجازت دیں گے؟‘‘’
’ابنِ خطاب کو بلاؤ۔‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔عمرؓ دور نہیں تھے، جلدی آگئے۔’’ابنِ خطاب!‘‘امیرالمومنینؓ نے عمرؓ سے کہا۔’’ابنِ حارثہ مدد مانگنے آیا ہے۔یہ جو کہتا ہے ایسا ہی کر اور اسے فوراً مدد دے کر محاذ پر روانہ کر……اور اگر میں اس دوران فوت ہو جاؤں تو اس کام میں رکاوٹ نہ ہو۔‘‘عربوں میں رواج تھا کہ باتیں شاعرانہ الفاظ اور انداز سے کیا کرتے تھے۔خلیفہ اول ابو بکرؓ کی نزع کے وقت کی چند باتیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ان کی بیٹی عائشہؓ ان کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔انہوں نے باپ کو نزع کے عالم میں دیکھ کر اس وقت کے ایک شاعر حاتم کا ایک شعر پڑھا:’’نزع کا عالم طاری ہوتا ہے، سانس نہ آنے سے سینہ گھٹنے لگتا ہے، تو دولت انسان کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔‘‘
’’نہیں بیٹی!‘‘ابو بکرؓ نے نحیف آواز میں کہا۔’’ہمیں دولت سے کیا کام؟اس شعر کے بجائے تو نے قرآن کی یہ آیت کیوں نہ پڑھی……تجھ پر نزع کا عالم طاری ہو گیا ہے ۔یہی ہے وہ وقت جس سے تو ڈرا کرتا تھا۔‘‘ابو بکرؓ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو انہیں آخری ہچکی آئی۔انہوں نے سرگوشی میں یہ دعا کی۔’’یا ﷲ!مجھے مسلمان کی حیثیت میں دنیا سے اٹھانا اور بعد از مرگ مجھے صالحین میں شامل کرنا۔‘‘یہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کے آخری الفاظ تھے۔دن سوموار تھا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء )بمطابق ۲۱جمادی الآخر ۱۳ ہجری(تھی۔
اسی رات دفن کر دینے کا فیصلہ ہوا۔ابو بکرؓ کی وصیت کے مطابق ان کی زوجہ اسماء بنتِ عمیس نے غسل دیا۔میت پر پانی ان کے بیٹے عبدالرحمٰن ڈالتے جاتے اور عبدالرحمٰن کی والدہ غسل دیتی جاتی تھیں۔غسل کے بعد وہ چارپائی لائی گئی جس پر رسولِ کریمﷺ کا جسدِ مبارک قبر تک پہنچایا گیا تھا۔
اس چارپائی پر خلیفہ رسول کا جنازہ اٹھا،اور جنازہ مسجدِ نبوی میں رسول ﷲﷺکے مزار اور منبر کے درمیان رکھا گیا۔نمازِ جنازہ کی امامت عمرؓ نے کی۔مدینہ کی وہ رات سوگوار تھی۔گلیوں میں ہچکیاں اور سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔رات بھی رو رہی تھی،وہ عٖظیم ہستی اس دنیا سے اٹھ گئی تھی جس نے اسلامی سلطنت کی نہ صرف بنیادیں مضبوط بنائی تھیں۔بلکہ ان پر مضبوط عمارت کھڑی کر دی تھی۔ابو بکرؓ کو رسولِ کریمﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔قبر اس طرح کھودی گئی کہ ابو بکرؓ کا سر رسولِ کریمﷺ کے کندھوں کے ساتھ تھا۔اس طرح رسولِ کریمﷺ اور خلیفہ رسول کی وہ رفاقت جو انہوں نے زندگی میں قائم رکھی تھی ، وفات کے بعد بھی قائم رہی۔ابو بکرؓ سب سے پہلے آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔
اب خلیفۃ المسلمین عمر فاروقؓ تھے۔انہوں نے اپنی خلافت کے پہلے روز ہی جو پہلا حکم نامہ جاری کیا وہ خالدؓ کی معزولی کا تھا۔انہوں نے تحریری حکم نامہ ابو عبیدہؓ کے نام قاصد کے ہاتھ بھیج دیا۔خالدؓ اب سالارِ ااعلیٰ نہیں بلکہ نائب بنا دیئے گئے تھے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ کسی مفتوحہ علاقے کے امیر نہیں بن سکتے تھے۔مدینہ میں عمرؓ نے اپنی خلافت کے دوسرے دن مسجد نبوی میں نماز کی امامت کی اور خلیفہ کی حیثیت سے پہلا خطبہ دیا۔انہوں نے سب سے پہلے یہ بات کہی:’’قوم اس اونٹ کی مانند ہے جو اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔اسے جہاں بٹھا دیا جاتا ہے وہ اسی جگہ بیٹھا اپنے مالک کا انتظار کرتا رہتا ہے۔رب کعبہ کی قسم!میں تمہیں صراطِ مستقیم پر چلاؤں گا۔‘‘انہوں نے خطبے میں اور بھی بہت کچھ کہااور آخر میں کہا۔’’میں نے خالد بن ولید کو اس کے عہدے سے معزول کر دیا ہے، اور ابو عبیدہ اس فوج کے سالارِ اعلیٰ اور شام کے مفتوحہ علاقوں کے امیر ہیں۔‘‘مسجد میں جتنے مسلمان موجود تھے ان کے چہروں کے رنگ بدل گئے۔بعض کے چہروں پر حیرت اور بعض کے چہروں پر غصہ صاف دکھائی دے رہا تھا، وہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔خالدؓ کی فتوحات تھوڑی اور معمولی نہیں تھیں۔ابو بکرؓ ان کی ہر فتح اور ہر کارنامہ مسجد میں بیان کیا کرتے تھے اور یہ خبر تمام تر عرب میں پھیل جاتی تھی۔خالدؓ کی زیادہ تر فتوحات معجزہ نما تھیں،اس طرح خالدؓ سب کیلئے قابلِ احترام شخصیت بن گئے تھے مگر عمرؓ نے خلیفہ بنتے ہی خالدؓ کو معزول کر دیا۔ہر کوئی عمرؓ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ خالدؓ نے کیا جرم کیا ہے جس کی اسے اتنی سخت سزا دی گئی ہے؟ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پوچھے بغیر عمرؓ کے فیصلے کی مخالفت کرناچاہتے تھے لیکن کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ عمرؓ سے باز پرس کرتا۔سب جانتے تھے کہ عمرؓ ابو بکرؓ جیسے نرم مزاج نہیں،اور ان کی طبیعت میں اتنی درشتی ہے جو بعض اوقات برداشت سے باہر ہو جاتی ہے-
💚💛💜💙💖💗💟💗💖💙💜💛💚
Tags
Shamsheer e Bayniyam