❤ *قسط نمبر* *73* ❤
*شمشیر بے نیام*
عمرؓ کا دور، اسلام کی پوری تاریخ کا سنہرا دور ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب مسلمان پوری طرح متحد تھے اور ان کی افواج روم اور ایران کے خلاف فتح پر فتح حاصل کیئے جا رہی تھیں۔ بلوچستان سے لے کر مصر تک علاقہ اسی دور میں فتح ہوا۔ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم نے ان علاقوں کے عام لوگوں کو قیصر و کسری کی غلامی سے نکال کر انہیں مذہبی اور دنیاوی امور میں آزادی عطا کی اور ایک نیا نظام معاشرت ترتیب دیا۔ اس دور میں صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے درمیان کوئی قابل ذکر اختلافات نہیں ہوئے،
اس وجہ سے اس دور کے متعلق تاریخی سوالات بھی بہت کم ہیں۔عمرؓ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ خالدؓکو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر کے ان کی جگہ ابو عبیدہؓ کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے انہیں "سیف من سیوف ﷲ" یعنی ﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا تھا۔ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کے دور میں انہوں نے عراق کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا اور اب شام میں اپنی غیر معمولی جنگی حکمت عملی کے جوہر دکھا رہے تھے۔ مسلم تاریخ میں اگر فوجی جرنیلوں کی رینکنگ کی جائے تو بلاشبہ خالدؓ اس میں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمرؓ نے انہیں معزول کیوں کیا ؟
جبکہ خالدؓ کی کارکردگی غیر معمولی تھی؟
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ عمرؓ نے خالدؓ کو معزول ہرگز نہیں کیا بلکہ انہیں سپہ سالار اعظم کی بجائے سیکنڈ ان کمانڈ بنا دیا۔ اس کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سب سے نمایاں یہ تھی کہ خالدؓ جنگو ں میں اپنی غیر معمولی شجاعت کی وجہ سے بہت زیادہ خطرات مول لے لیا کرتے تھے۔ آپ فی الحقیقت خطروں میں کود پڑنے والے انسان تھے اور بسا اوقات تھوڑی سی فوج کے ساتھ دشمن پر جھپٹ پڑتے اور اسے شکست دے ڈالتے۔ ابوبکر رضی ﷲ عنہ اپنی احتیاط کے باوجود اس معاملے میں خالدؓکو ڈھیل دیتے تھے۔ اس کے برعکس عمرؓ کی طبیعت محتاط تھی اور وہ مسلمانوں کو اندھا دھندخطروں میں ڈالنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عمرؓ نے خالدؓ کو امین الامت ابو عبیدہؓ کے ما تحت کر دیا تاکہ وہ اپنی غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے سبب ، خالدؓ کو ضرورت سے زیادہ خطرات مول لینے سے روکیں اور ان کی جنگی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں۔
خالدؓ کافی عرصہ تک ابو عبیدہؓ کی کمان میں لڑتے رہے۔ ابو عبیدہؓ تمام پلاننگ انہی کے مشورے سے کرتے تھے اور یہ دونوں کمانڈر مل کر جنگی تیاری کرتے تھے۔ تاہم اس پلان پر عمل درآمد خالدؓ کروایا کرتے تھے۔ چار سال بعد عمرؓ نے انہیں تمام جنگی خدمات کو چھوڑ کر مدینہ آنے کا حکم دیا۔ طبری نے اس سلسلے میں سیف بن عمر کی روایت نقل کی ہے جو کہ نہایت ہی ضعیف راوی ہے اور جھوٹی روایات کے لیے مشہور ہے۔ اس روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ معاذ ﷲ عمرؓ، خالدؓ سے متعلق دل میں کینہ رکھتے تھے۔ خلافت سنبھالتے ہی انہوں نے خالدؓ کو معزول کر کے مدینہ واپس بلا لیا، ان کی تذلیل کی اور ان کا آدھا مال لے کر بیت المال میں داخل فرما دیا۔ ان کا خیال تھا کہ خالدؓ نے معاذ ﷲ مال غنیمت میں خیانت کی ہے۔
یہ ایک نہایت ہی ناقابل اعتماد اور ضعیف روایت ہے اور ان دونوں بزرگوں پر بہتان ہے۔ہاں ایسا ضرور ممکن ہے کہ خالدؓ سے مال غنیمت کے حصوں کی تقسیم میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ عمرؓ نے حساب کیا تو ان کی طرف کچھ رقم زائد نکلی جو عمرؓ نے ان سے لے کر بیت المال میں داخل کر دی اور شام کے لوگوں کو تحریر لکھ کر بھیجی جس میں خالدؓ کی معزولی کی وجوہات بیان کیں۔
روایت یہ ہے:جب خالد، عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ان سے شکایت کی اور کہا: "میں نے آپ کی یہ شکایت مسلمانوں کے سامنے بھی بیان کی تھی۔ وﷲ! آپ نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا۔"
عمرؓ نے فرمایا: "یہ بتائیے کہ آپ کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟" انہوں نے جواب دیا: "مال غنیمت اور میرے مقرر حصوں سے۔ ساٹھ ہزار سے زائد جو رقم ہو ، وہ
(بیت المال) کی ہے۔" اس پر عمرؓ نے ان کے ساز و سامان کی قیمت لگائی تو ان کی طرف بیس ہزار نکلے۔ اس رقم کو انہوں نے بیت المال میں داخل کر دیا تو عمرؓ نے فرمایا: "خالد! وﷲ! آپ میرے نزدیک نہایت ہی معزز شخصیت ہیں۔ میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں اور آج کے بعد آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔"
عدی بن سہیل کی روایت ہے کہ عمرؓر نے تمام شہر والوں کو لکھ کر بھیجا: "میں نے خالد کو ناراضگی یا بددیانتی کی وجہ سے معزول نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ان سے محبت کرنے لگے ہیں۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ ان پر بے حد بھروسہ اور اعتماد نہ کریں اور کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اس لیے میں نے چاہا کہ انہیں حقیقت معلوم ہو جائے کہ درحقیقت ﷲ تعالی ہی کارساز ہے ، اس لیے انہیں کسی فتنے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔")
طبری(دلچسپ بات ہے کہ یہ روایت بھی سیف بن عمر ہی نے روایت کی ہے اور ان صاحب کی دونوں روایتوں میں تضاد موجود ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دوسری روایت ہی درست ہے۔ اس روایت سے خالدؓ کی معزولی کی ایک اور وجہ سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مسلمانوں کے اندر یہ تصور پیدا ہو گیا تھا کہ جو فتوحات ہو رہی ہیں، وہ خالدؓ کی موجودگی کی وجہ سے ہیں۔ اس طرح سے ان میں شخصیت پرستی پیدا ہو سکتی تهی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگلا معرکہ ایک ہی ہفتے بعد آگیا۔ابو عبیدہؓ کو فوج کی کمان لیے ابھی ایک ہی ہفتہ گزرا تھا انہیں اطلاع دی گئی کہ ایک اجنبی ان سے ملنے آیا ہے۔اپنے آپ کو عربی ظاہر کرتا ہے لیکن عیسائی ہے۔ابو عبیدہؓ نے اسے بلالیا۔اجنبی تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا۔ابو عبیدہؓ نے سب کو باہر نکال دیا۔’’
کیا مسلمان سالارِ اعلیٰ ایک عیسائی عرب پر اعتبار کرے گا؟‘‘اس عیسائی نے کہا۔’’اگر مالِ غنیمت کی ضرورت ہے تو ایک جگہ بتاتا ہوں حملہ کریں اور مالامال ہوجائیں۔‘‘’
’پہلے یہ بتا کہ تو ہم پر اتنی مہربانی کرنے کیوں آیا ہے؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’رومی تیرے ہم مذہب ہیں تو انہیں کیوں نقصان پہنچا رہا ہے؟
‘‘’’اپنے وطن کی محبت کی خاطر۔‘‘ عیسائی نے جواب دیا۔ ’’رومی میرے ہم مذہب تو ہیں لیکن زندہ عیسائیوں کو شیروں کے آگے رومیوں نے ہی ڈالا تھا اور عیسیٰ کو مصلوب کرنے والے بهی رومی ہی تھے۔ میں ان کی شہنشاہی دیکھ رہا ہوں ۔یہ رعایا کو انسان نہیں سمجھتے۔میں نے مفتوحہ علاقوں میں آپ کی حکومت بھی دیکھی ہے آپ رعایا کو انسانیت کا درجہ دیتے ہیں۔میں رومیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوں۔میرے دل میں صرف اپنا ہی نہیں پوری انسانیت کا درد ہے۔میں مسلمان نہیں لیکن میں یہ تو فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں عربی ہوں،اور عرب کے لوگ اچھے ہوتے ہیں۔
‘‘اس عیسائی عرب نے ابو عبیدہؓ کو متاثر کر لیا۔ ابو عبیدہؓ نے اس سے پوچھا کہ وہ کون سی جگہ بتا رہا ہے؟جہاں حملہ کرنا ہے۔’’ابوالقدس!‘‘ عیسائی عرب نے جواب دیا اور یہ بتا کر کہ یہ مقام ابوالقدس سے کتنی دور اور کہاں ہے، ابو عبیدہؓ کو بتایا۔’’دو تین دنوں بعد وہاں ایک میلہ شروع ہونے والا ہے۔اس میں دور دور کے تاجر بیچنے کیلئے مال لائیں گے۔ بڑی قیمتی اشیاء کی دکانیں لگیں گی۔ بڑے دولت مند اور خریدار آئیں گے۔اگر آپ کو مالِ غنیمت چاہیے تو چھوٹا سا ایک دستہ بھیج کر سارے میلے کا مال سمیٹ لیں۔
‘‘’’کیا اس میلے کی حفاظت کیلئے رومی فوج کا کوئی دستہ وہاں ہے؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’نہیں ہو گا۔‘‘عیسائی عرب نے جواب دیا۔’’میں یہ جانتاہوں کہ بحیرہ روم کے ساحلی شہر طرابلس میں رومی فوج موجود ہے۔ وہاں سے فوج اتنی جلدی ابوالقدس نہیں پہنچ سکتی۔آپ کیلئے میدان صاف ہے
۔‘‘وہ جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا۔اور کہنے لگا۔’’ مجھے زیادہ دیر یہاں نہیں رکنا چاہیے۔‘‘وہ چلا گیا۔
ابو عبیدہؓ نے اس میلے کو موٹا اور آسان شکار سمجھا۔ انہوں نے اپنے مشیر سالاروں کو بلایا جن میں خالدؓ بھی شامل تھے۔ابو عبیدہؓ نے انہیں تفصیل سے بتایا کہ عیسائی عرب انہیں کیا بتا گیا ہے۔
’’یہ مالِ غنیمت ہاتھ سے جانا نہیں چاہیے۔ ‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابوالقدس دشمن کا علاقہ ہے،اور اس دشمن کے ساتھ ہماری جنگ ہے۔جنگ کی صورت میں میلے پر ہمارا چھاپہ جائز ہے۔اس سے رومیوں پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے باری باری سب کو دیکھا اور کہنے لگے۔’’تم میں کون اس چھاپہ مار کاروائی کیلئے جانا چاہتا ہے؟
‘‘ ابو عبیدہؓ کی نظریں خالدؓ کے چہرے پر ٹھہر گئیں۔نظریں خالدؓ پر جما لینے کا مطلب یہی تھا کہ خالدؓ اپنے آپ کو اس چھاپہ کیلئے پیش کریں گے۔لیکن خالدؓ اس طرح خاموش بیٹھے رہے جیسے اس کام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ظاہر ہے ابو عبیدہؓ کو خالدؓ کی خاموشی اور بے رُخی سے بہت مایوسی ہوئی ہو گی۔انہیں یہ خیال بھی آیا ہو گا کہ خالدؓ کا یہ رویہ ان کی معزولی کا ردِ عمل ہے۔
وہاں ایک نوجوان بھی موجود تھا۔اس کے چہرے پر داڑھی ابھی ابھی آئی تھی۔’’میں جاؤں گا۔‘‘یہ نوجوان بول اٹھا۔’’یہ فیصلہ سالارِ اعلیٰ کریں گے کہ میرے ساتھ کتنی نفری ہو گی۔‘‘ ’’کیا تو ابھی کم سن نہیں ابنِ جعفر!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔ اور ایک بار پھر خالدؓکی طرف دیکھا۔مگر خالدؓ لاتعلق بیٹھے تھے۔
’’امین الامت !‘‘نوجوان نے جواب دیا۔’’میں مدینہ سے آیا ہی کیوں ہوں۔میں کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہوں۔کیا میرے بزرگ بھول گئے ہیں کہ میرے سر پر اپنے شہید باپ کا قرض ہے۔ امین الامت میں کم سن ضرور ہوں لیکن اناڑی نہیں ہوں ۔ بزدل نہیں ہوں۔کچھ سیکھ کر آیا ہوں۔ کیا میرے بزرگ میری حوصلہ شکنی کریں گے؟‘‘
’’خداکی قسم ابنِ جعفر!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’تیری حوصلہ شکنی نہیں ہو گی،پانچ سو سواروں کا دستہ لے لے۔تو اس دستے کا سالار ہو گا۔‘‘ابو عبیدہؓ نے ایک کم سن لڑکے کو پانچ سو سواروں کا سالار غالباً یہ سوچ کر بنا دیا تھاکہ یہ چھاپہ نہایت آسان تھا وہاں پر کوئی فوج نہیں تھی جو ان سواروں کے مقابلے میں آتی۔یہ نوجوان کوئی عام سا لڑکا نہیں تھا۔ اس کا نام عبدﷲتھا اور وہ رسولِ کریمﷺ کے چچا زاد بھائی جعفرؓ کا بیٹھا تھا۔جعفرؓ موتہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے
اس رات چاند پورا تھا۔شعبان کی پندرہ تاریخ تھی۔ عیسوی سن کے مطابق یہ ۱۴ اکتوبر ۶۳۴ء کی رات تھی۔نوجوان عبدﷲپانچ سو سواروں کو ساتھ لے کر رات میں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ محب رسولﷺ اور نامور مجاہد ابو ذر غفاریؓ بھی تھے۔یہ دستہ اس وقت روانہ کیا گیا تھا جب میلہ شروع ہو چکا تھا۔عبدﷲکا دستہ صبح طلوع ہو چکی تھی جب وہاں پہنچا۔میلہ کیا تھا وہ تو خیموں شامیانوں اور قناطوں کا ایک گاؤں آباد تھا اور یہ گاؤں بہت ہی خوبصورت تھا۔دکانوں پر بڑا ہی قیمتی مال سجا ہوا تھا میلے کی رونق جاگ اٹھی۔عبدﷲنوجوان تھا وہ اپنے آپ کو اناڑی نہیں سمجھتا تھا لیکن اناڑی پن کا ہی مظاہرہ کیا۔سب سے پہلے انہیں ایک دو جاسوس یہ دیکھنے کیلئے بھیجنے چاہیے تھے کہ رومی فوج کا کوئی دستہ قریب کہیں موجود ہے یا نہیں،اور میلے میں جو لوگ آئے ہوئے ہیں وہ بہروپ میں رومی فوجی تو نہیں۔اس نے وہاں جاتے ہی حملے کاحکم دے دیا۔پانچ سو مسلمان سوار میلے کے اردگرد گھیرا ڈالنے لگے،اور اچانک کم و بیش پانچ ہزار رومی سوار جانے کہاں سے نکل آئے،اور وہ میلے اور مسلمان سواروں کو نرغے میں لینے لگے۔پانچ سو کا مقابلہ پانچ ہزار سے تھا اور صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ مسلمان سوار گھیرے میں آگئے تھے۔ ان کی تباہی لازمی تھی۔یہ پانچ ہزار رومی سالار میلے کی حفاظت کیلئے وہاں قریب ہی موجود تھے۔انہیں معلوم تھا کہ مسلمان بہت تیز پیشقدمی کیا کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان فوج اچانک آجائے اور میلے کو لوٹ لے۔
مسلمان سوار رومی سواروں کے گھیرے سے نکلنے کیلئے گھوڑے دوڑا رہے تھے۔ لیکن کہاں پانچ سو اور کہاں پانچ
ہزار ؟ مسلمان جدھر جاتے تھے ادھر سے روک لیے جاتے تھے۔میلے میں بھگدڑ مچ گئی۔ لوگوں کی چیخ و پکار تھی۔ دکاندار اپنامال سمیٹ رہے تھے،اور جن کے پاس رقمیں تھیں وہ بھاگ رہے تھے۔کئی ایک گھوڑوں تلے کچلے گئے۔مسلمان ہر میدان میں قلیل تعداد میں لڑے ہیں۔اس سے انہیں اپنے سے کئی گنا زیادہ لشکر سے لڑنے اور فتح یاب ہونے کا تجربہ تھا انہوں نے پانچ سو کی تعداد میں پانچ ہزار کا گھیرا توڑنے کی کوشش کی لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ انہوں نے کسی کی ہدایت کے بغیر ہی اپنے آپ کو گول ترتیب میں کر لیا اور رومیوں کا مقابلہ کرنے لگے۔
عبدﷲ لڑ سکتا تھا،مگر اس خطرناک صورتِ حال میں اپنے سواروں کی قیادت نہیں کر سکتا تھا۔وہ سپاہیوں کی طرح بے جگری سے لڑ رہا تھا۔ ابوذرغفاریؓ بھی جان پر کھیل کر لڑ رہے تھے۔تمام سوار آگے بڑھ بڑھ کر رومیوں پر حملے کر رہے تھے،اور رومیوں کے حملے روکتے بھی تھے۔ان کی گول ترتیب اس طرح تھی کہ سب کے منہ باہر کی طرف تھے یعنی ان کا عقب تھا ہی نہیں۔جس پر دشمن کے حملے کا خطرہ ہوتا۔
رومیوں نے جب مسلمان کو اس انوکھی ترتیب میں دیکھا تو وہ سٹپٹائے اور آگے بڑھنے میں محتاط ہو گئے۔لیکن ان کی تعداد دس گنا تھی،اور وہ لڑناجانتے تھے۔ان کے محتاط ہونے سے صرف یہ فرق پڑا تھا کہ مسلمانوں کی تباہی تھوڑی سی دیر کیلئے ملتوی ہو گئی تھی۔یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پانچ سو سوار پانچ ہزار سواروں کے نرغے سے زندہ نکل آتے۔یہ پانچ سو مجاہدین اپنے سالارِ اعلیٰ کی ایک خطرناک لغزش کی سزا بھگت رہے تھے۔ابو عبیدہؓ امین الامت تھے، زہدوتقویٰ میں بے مثال تھے۔ صحابہ کرامؓ میں ان کا مقام سب سے بلند تھا۔لیکن حکومت کرنے کیلئے اور فوج کی قیادت کیلئے اور جنگی امور اور کاروائیوں میں فیصلے کرنے کیلئے صرف ان اوصاف کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ اوصاف بعض حالات میں قوم اور فوج کو لے ڈوبتے ہیں۔ابو عبیدہؓ کی سادگی کا یہ اثر کہ انہوں نے ایک عیسائی پر اعتماد کیا اور محض مالِ غنیمت کی خاطر پانچ سو سواروں کو ایک نوجوان کی قیادت میں یہ معلوم کیے بغیر بھیج دیا کہ وہاں دشمن کی فوج موجود ہے یا نہیں۔ابو عبیدہؓ اپنے سالاروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ دمشق فتح ہو چکا تھا،اگلی پیش قدمی کا منصوبہ تیار ہو رہا تھا،اور فوج آرام کر رہی تھی۔ایک گھوڑ سوار گھوڑا سر پٹ دوڑاتا ابو عبیدہؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا ۔سوار کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خیمہ میں داخل ہو گیا۔وہ ہانپ رہا تھا۔اس کے چہرے پر گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی۔سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔’’سالارِ اعلیٰ !‘‘ اس نے ابو عبیدہؓ کو مخاطب کیا۔’’وہ سب مارے جا چکے ہوں گے،وہ گھیرے میں آئے ہوئے ہیں۔‘‘’’کون؟ ‘‘ابو عبیدہؓ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔’’کس کی بات کر رہے ہو؟کون کس کے گھیرے میں آیا ہوا
ہے؟‘‘’’ابوالقدس!‘‘سوار نے کہا۔’’ابو القدس کے پانچ سو سواروں کی بات کررہا ہوں……ان کی مدد کو جلدی پہنچیں۔ایک بھی زندہ نہیں رہے گا۔‘‘جن مؤرخوں نے یہ واقعہ لکھا ہے ان سب نے لکھا ہے کہ یہ واحد سوار تھا جو میلے میں بھگدڑ مچ جانے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رومیوں کے گھیرے سے نکل آیا تھا۔ابھی گھیرا مکمل نہیں ہوا تھا۔اس مجاہد نے اندازہ کر لیا تھا کہ اس کے ساتھیوں کا کیا انجام ہو گا۔اس نے انتہائی تیز رفتار سے گھوڑا دوڑایا اور دمشق پہنچا تھا۔اس نے بڑی تیزی سے بولتے ہوئے تفصیل سے بتایا کہ ابو القدس کے میلے میں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے۔ابو عبیدہؓ کا رنگ زرد ہو گیا۔انہوں نے خالدؓکی طرف دیکھا۔خالدؓ کے چہرے پر پریشانی کا گہرا تاثر تھا۔’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے التجا کے لہجے میں کہا۔’’اﷲکے نام پر ابو سلیمان!تیرے سوا انہیں گھیرے سے اور کوئی نہیں نکال سکتا۔جاؤ فوراً جاؤ۔
’’اﷲ کی مدد سے میں ہی انہیں گھیرے سے نکالوں گا۔‘‘خالدؓنے جوش سے اٹھتے ہوئے کہا۔’’میں تیرے حکم کے انتظار میں تھا امین الامت!‘‘’’مجھے معاف کر دینا ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’میں نے تیری نیت پر شک کیا تھا۔اس لیے حکم نہ دیا۔میرا خیال تھا کہ معزولی نے تیرے اوپر بہت برا اثر کیا ہے۔‘‘’’خدا کی قسم! مجھ پر ایک بچے کو سالارِ اعلیٰ مقرر کر دیا جائے گا تو میں اس کا بھی مطیع رہوں گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’مجھے تو رسول اﷲ)ﷺ( کے امین الامت نے کہا ہے۔کیا میں ایسے گناہ کی جرات کر سکتا ہوں کہ تیرا حکم نہ مانوں؟میں تو تیرے قدموں کی خاک کی برابری بھی نہیں کر سکتا……اور بتا دے سب کو کہ ابو سلیمان ابن الولید نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کر دی ہے۔‘‘مورخ واقدی لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،اور وہ کچھ دیر ابن الولیدؓ کو دیکھتے رہے۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’جا ابو سلیمان! اپنے بھائیوں کی جانیں بچا۔‘‘تاریخوں میں ایسی تفصیلات نہیں ملتیں کہ خالدؓ اپنے ساتھ کتنے سَو یا کتنے ہزار سوار لے کر گئے تھے۔باقی حالات مختلف تاریخوں میں بیان کیے گئے ہیں۔خالدؓنے برہنہ مجاہد ضرار بن الازور کو ساتھ لے لیا تھا اور ان دونوں کے پیچھے مسلمان رسالہ سر پٹ گھوڑے دوڑاتا جا رہا تھا۔خالدؓ اور ضرار تو گھرے ہوئے مجاہدین کی مدد کو چلے گئے ، پیچھے ابو عبیدہؓ کی حالت بگڑ گئی۔’’اﷲ، اﷲ، اﷲ! ‘‘وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر گڑگڑانے لگے۔’’خلیفۃ المسلمین عمر نے مجھے لکھا تھا کہ مالِ غنیمت کے لالچ میں مجاہدین کو ایسی مشکل میں نہ ڈالنا کہ ان کی جانیں ضائع ہو جائیں۔عمر نے لکھا تھا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے دیکھ بھال کر لینا……مجھے معاف کر دینا اﷲ! مجھ سے یہ کیا فیصلہ ہوا ہے۔میں نے ایک عیسائی کی بات کو سچ مانا اور میں نے ایک کمسن لڑکے کو پانچ سو سواروں کی کمان دے دی اور اسے اتنابھی نہ کہا کہ وہ اپنے دستے کو دور روک کر ہدف کی دیکھ بھال ضرور کرلے۔‘‘ابو عبیدہؓ کے رفیق سالار انہیں تسلیاں دیتے رہے لیکن ابو عبیدہؓ نے جو پانچ سو قیمتی سواروں کو اپنی لغزش کی بھٹی میں جھونک دیا تھا اس پر وہ مطمئن نہیں تھے۔خالدؓ اور ضرار اپنے سواروں کے ساتھ انتہائی رفتار سے ابوالقدس پہنچ گئے۔وہاں مجاہدین کی حالت بہت بری تھی۔خالدؓ کے حکم سے ان کے سواروں نے تکبیر کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ان نعروں سے ان کا مقصد یہ تھا کہ گھیرے میں آئے ہوئے مسلمان سواروں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اور رومیوں پر دہشت طاری ہو۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنانعرہ بلند کیا:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
💚💛💜💙💖💗💟💗💖💙💜💛💚
Tags
Shamsheer e Bayniyam