Shamsheer e bayniyam Episode 75


❤ *قسط نمبر* *75* ❤
*شمشیر بے نیام*

*ہرقل* نے ان عورتوں کی محض دل جوئی نہیں کی تھی، مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ شکست تسلیم کرنے والا جنگجو تھا ہی نہیں، اور وہ شہنشاہ بعد میں اور سپاہی پہلے تھااور وہ اپنے دور کا منجھا ہوا جرنیل تھا۔یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ خالدؓ کی ٹکر کا جرنیل تھا اور جنگی چالوں میں اس کی مہارت کا انداز اپنا ہی تھا۔اگر وہ صرف شہنشاہ ہوتا تو اپنی سواری کے راستے میں ان عورتوں کی رکاوٹ کو برداشت نہ کرتا۔ انہیں سزا دیتا لیکن اس نے ان عورتوں سے حوصلہ لیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔اس نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ کسی طرف سے شکست کی اور اس کی فوج کی پسپائی کی اطلاع آتی تھی تو اس کے حکام اس کے سامنے آنے سے گریز کرتے تھے۔ایسا ہی ایک موقع تھا کہ اس کا ایک سالار جو مشیر کی حیثیت سے اس کے ساتھ رہتا تھا۔اس کے سامنے گیا۔اس سالار کے چہرے پر مایوسی کا جو تاثر تھا وہ ہرقل نے بھانپ لیا
’’کیا ہے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’مرج الدنیاج سے قاصد آیا ہے۔‘‘ سالار نے کہا۔’’تو کہتے کیوں نہیں کہ وہ ایک اور پسپائی کی خبر لایا ہے۔‘‘ہرقل نے جوشیلے لہجے میں کہا۔’’اپنے دلوں سے میرا خوف نکالتے کیوں نہیں؟شکست اور پسپائی کے نام سے گھبراتے کیوں ہو؟……بولو؟‘
‘’’ہاں شہنشاہ!‘‘سالار نے کہا۔’’قاصد پسپائی کی خبر لایا ہے……اور وہاں سے بھاگے ہوئے سپاہی یہاں آنا شروع ہو گئے ہیں۔‘‘’’آنے دو انہیں!‘‘ ہرقل نے ایسے لہجے میں کہا جس میں غصہ نہیں تھا، اور اس کے لہجے میں شاہانہ جلال بھی نہیں تھا۔’’ان کا حوصلہ بڑھاؤ، کوئی انہیں شکست اور پسپائی کا طعنہ نہ دے۔یہی سپاہی شکست کو فتح میں بدلیں گے۔‘ ‘’’سپاہیوں کا حوصلہ تو بحال ہو جائے گا۔‘‘سالار نے کہا۔ ’’لیکن لوگوں کا حوصلہ ٹوٹتا جا رہا ہے۔لوگ مسلمانوں کو جنات اور بھوت سمجھنے لگے ہیں، ایسی افواہیں پھیل رہی ہیں جو لوگوں کو بزدل بنا رہی ہیں۔‘
‘’’جانتے ہو یہ افواہیں کون پھیلا رہا ہے؟‘‘ہرقل نے کہا۔’’ہمارے اپنے سالار، کماندار، اور سپاہی۔ یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ تو بے جگری سے لڑتے تھے لیکن ان کا مقابلہ جنات سے ہو گیا۔‘ ‘’’شہنشاہِروم!‘‘سالار نے کہا۔’’مسلمانوں کی کامیابی کی ایک اور وجہ بھی ہے……ہمارے جس شہر کے لوگ ان سے صلح کا معاہدہ کرلیتے اور جزیہ ادا کرتے ہیں، ان کے ساتھ مسلمان بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔ان کی عورتوں اور ان کی جوان لڑکیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ان کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں، ان کے مذہب کا بھی احترام کرتے ہیں، یہ خبریں سارے علاقے میں پھیل جاتی ہیں، اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دوسری جگہوں کے لوگ بھی فوج کا ساتھ چھوڑ دیتے اور اسے صلح پر مجبور کردیتے ہیں…… اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے۔‘‘
’’اس کا علاج صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دے کر ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’ اور اس کا بندوبست ہو رہا ہے۔‘‘
ابوالقدس میں ہرقل کو جو چوٹ پڑی تھی، اس نے اسے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔اسے اس معرکے کی تفصیلی اطلاع ملی تھی، ابو عبیدہؓ ایک غلطی کر بیٹھے تھے۔رومی خوش تھے کہ مسلمانوں کا ایک دستہ تو پھندے میں آیا لیکن خالدؓاور ضرار نے بروقت پہنچ کر نہ صرف رومیوں کا پھندہ توڑ ڈالا تھا، بلکہ انہیں ناقابل تلافی جانی نقصان پہنچا کر مالِ غنیمت سے مالامال ہو کر لوٹے تھے۔ہرقل کو مسلمانوں کی برق رفتاری نے پریشان کر دیا تھا۔اس نے دیکھا تھا کہ مسلمانوں کی فوج ایک سے دوسری جگہ حیران کن تیزی سے پہنچتی تھی اور میدانِ جنگ میں سالاروں کی جنگی چالوں پر ان کے دستے بہت ہی تیزی سے جگہ بدلتے اور چالوں کو کامیاب کرتے تھے۔اس کے بعد تو جیسے ہرقل نے راتوں کو سونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اس نے اسی روز اپنی سلطنت کے دور دراز گوشوں تک قاصد دوڑا دیئے تھے۔اس نے حکم یہ بھیجاتھا کہ زیادہ سے زیادہ فوجی دستے انطاکیہ بھیج دیئے جائیں، وہ سلطنت کی تمام تر فوج تو اکٹھی نہیں کر سکتا تھا، ہر جگہ فوج کی ضرورت تھی۔اس نے اتنے دستے مانگے تھے جن کے آجانے سے کسی بھی جگہ کا دفاع کمزور نہیں ہوتا تھا۔جن علاقوں سے دستے آئے، ان میں شمالی شام، یورپ کے چند شہر، اور جزیرے شامل تھے۔ہرقل نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ دستے بہت تیزی سے آئیں۔جب یہ آنے لگے تو ان میں سے بعض کو انطاکیہ میں رکھا گیا اور دوسروں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے سے ذرا ہی دور ایک مقام بیسان پر بھیج دیاگیا۔ہرقل نے اپنے مشیروں اور سالاروں کو بلایا۔ ان میں سقلار، شنس، اور تھیوڈورس خاص طور پر قابلِ ذکر تھے ان تینوں کو محاذوں سے بلایا گیا تھا۔ہرقل نے ان سب کو بتایا کہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کیلئے اس نے کیا بندوبست کیا ہے اور سالاروں نے کیا کرنا ہے۔’
’تم نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمان کس طرح لڑتے ہیں۔‘‘اس نے کہا۔’’شکست اور پسپائیوں سے تمہیں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ان سے تمہیں تجربہ حاصل ہوا ہے۔اگر تم نے کچھ نہیں سیکھا تو تمہارے لیے یہی اک راستہ ہے۔ جاؤ اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلو۔ قیصرِ روم کی عظمت کو مسلمانوں کے قدموں میں ڈال دو اور صلیب کو بحیرہ روم میں پھینک کر مسلمانوں کے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔تمہیں اپنی جانیں اپنی بیویاں اور اپنے مال و اموال زیادہ عزیز ہیں۔اسی کانتیجہ ہے کہ عرب کے لٹیروں کا ایک گروہ تمہیں شکست پہ شکست دیتا چلاجا رہاہے۔‘‘سب پر سناٹا طاری ہو گیا۔ہرقل کی نگاہیں ہر ایک پر گھوم گئیں۔
’’شہنشاہِ روم!‘‘ اس کے سالار تھیوڈورس نے سکوت توڑا۔’’ہم پیچھے ہی نہیں ہٹتے آئیں گے۔میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے زندہ آیا تو شکست کھاکر نہیں آؤں گا۔اگر میں نے شکست کھائی تو میری لاش بھی یہاں نہیں آئے گی۔‘‘اس ایک سالار کے بولنے سے نہ صرف سناٹا ٹوٹا بلکہ سب میں جو تناؤ پیدا ہو گیا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا۔سب نے ہرقل کو یقین دلایا کہ انہیں سلطنت روم سے زیادہ اور کوئی چیز عزیز نہیں -
’’میں نے مسلمانوں کو یہیں پر ختم کرنے کیلئے جو بندوبست کیا ہے وہ ناکام نہیں ہو سکتا۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’اب تک ہماری فوج مختلف جگہوں پر بٹ کر لڑتی رہی ہے۔ ایک جگہ سے ہمارے فوجی بھاگے تو انہوں نے دوسری جگہ جاکر وہاں کے دستوں میں بددلی پھیلائی اور اپنے آپ کوشکست کے الزام سے بچانے کیلئے ایسی باتیں کیں جن سے وہاں کے دستوں پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی۔اب میں فوج کو یکجا کرکے لڑاؤں گا……‘‘’’تم نے دیکھا ہے کہ میں نے کہاں کہاں سے دستے منگوائے ہیں اور کس قدر لشکر جمع ہو گیا ہے۔میری نظر دمشق پر ہے لیکن ہم دمشق پر حملہ نہیں کریں گے نہ اس کا محاصرہ کریں گے۔ہم دمشق سے دور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں زیادہ نفری کے دستوں سے لڑاکر مسلمانوں کے رسد کے وہ راستے بند کردیں گے جو عرب سے دمشق کو جاتے ہیں۔ ہم دمشق میں یا اس کے گردونواح میں کوئی لڑائی نہیں لڑیں گے، بلکہ مسلمان تنگ آکر لڑنا بھی چاہیں گے تو ہم انہیں نظر انداز کریں گے۔ہم ان کے لئے ایسے حالات پیدا کردیں گے کہ وہ لڑنے کے قابل رہ ہی نہیں جائیں گے۔انہیں نہ کہیں سے رسد پہنچ سکے گی نہ کمک۔شہر کے لوگ ہی قحط سے تنگ آکر انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کردیں گے۔اگر وہ دمشق سے نکل گئے تو ہم کہیں بھی ان کے قدم جمنے نہ دیں گے۔یہ بھی خیال رکھو کہ ہماری فوجوں کا اجتماع ایسے خفیہ طریقہ سے ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کو اس کی خبر تک نہیں ہو گی۔
‘‘ہرقل کا تو خیال تھا کہ اس کے لشکر کا اجتماع خفیہ رکھا گیاہے لیکن مسلمانوں کے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ کے ساتھ خالدؓتھے۔خالدؓ نے نہایت مضبوط اور تیز جاسوسی نظام ترتیب دیا هوا تھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ بن ولید کو سوار دستے کا سالار بنا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہیں اپنا مشیر بھی سمجھتے تھے۔مؤرخوں کے مطابق ابو عبیدہؓ سالاری کی مہارت رکھتے تھے اور جنگی امور کو بھی پوری طرح سمجھتے تھے لیکن ان میں وہ تیز رفتاری نہیں تھی جو خالدؓ میں تھی۔خالدؓ اپنے فیصلوں میں بڑے خوفناک قسم کے خطرے بھی مول لے لیا کرتے تھے۔
اس کے برعکس ابو عبیدہؓ احتیاط کے قائل تھے۔اپنی اس عادت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے خالدؓ کو ہر لمحہ اپنے ساتھ رکھا۔وہ کوئی بھی منصوبہ بناتے یا فیصلہ کرتے تھے تو اس میں خالدؓ کے مشوروں کو خاص طور پر شامل کیا کرتے تھے۔
خالدؓ جاسوسی اور دیکھ بھال کے نظام پر زیادہ توجہ دیاکرتے تھے۔اب یہ ان کی ذمہ داری نہیں رہی تھی کیونکہ یہ ذمہ داری سالارِ اعلیٰ کی تھی، اور خالدؓدوسرے سالاروں کی طرح ایک عام سالار تھے، لیکن اپنی معزولی کے باوجود وہ اپنے فرائض سے بے انصافی گوارا نہیں کرتے تھے۔انہوں نے جاسوسی کے نظام پر پہلے کی طرح توجہ دیئے رکھی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان جاسوس رومیوں کی سلطنت کے اندردور تک چلے گئے تھے۔ایک روز ایک جاسوس آیا۔وہ بہت دور سے آیا تھا۔اس نے بتایا کہ رومیوں کاایک لشکر بحیرہ روم کے راستے کشتیوں پر آیا ہے۔اس جاسوس نے اپنے ان جاسوسوں سے رابطہ کیا جو اور آگے تک گئے ہوئے تھے۔ وہ ان سب کی اطلاع لے کر بڑی ہی تیز رفتار سے دمشق پہنچا اور یہ اطلاع دی کہ رومیوں نے کم و بیش ایک لاکھ نفری کا لشکر دریائے اردن کے مغرب میں جمع کر لیا ہے۔

تاریخ کے مطابق بیسان کے مقام پر دسمبر ۶۳۴ء کے آخری اور ذیعقد ۱۳ ھ کے پہلے ہفتے میں رومیوں کی فوج کا یہ اجتماع ہوا تھا۔جاسوس نے اپنے اندازے کے مطابق اس لشکر کی تعداد ایک لاکھ بتائی تھی اصل میں رومی فوج کی تعداد اسّی ہزار تھی۔اتنی بڑی تعداد اکٹھی کرنے کا مطلب یہی لیا جا سکتا تھا کہ رومی بہت بڑی جنگی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔
سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔’’میرے عزیز ساتھیو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے سالاروں سے کہا۔’’تم پر ﷲکی رحمت ہو۔شکر ادا کرو ﷲکی ذاتِ باری کا جس نے ہمیں ہر میدان میں فتح عطا کی ……میں تمہیں احساس دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اتنی دور نکل آئے ہیں جہاں سے ہماری واپسی ناممکن ہو گئی ہے۔ ﷲنے ہمیں بہت سخت امتحان میں ڈالا ہے۔اگرہم اس امتحان میں پورے اترے تو یہ ایک روایت بن جائے گی جو ہماری آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ بنے گی۔مت بھولنا کہ ہم نہ مالِ غنیمت کیلئے لڑ رہے ہیں، نہ ہمارا مقصد اقتدار ہے۔ ﷲ اور اسکے رسول (ﷺ)نے ہمیں بنی نوع انسان کو ظلمت اور غلامی سے نجات دلانے کا فرض سونپا ہے،اب دشمن نے ہمارے سامنے دیواریں کھڑی کر دی ہیں……‘‘’’رومی کم و بیش ایک لاکھ کا لشکر لے کر آئے ہیں۔اس سے ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اور یہی ہو سکتا ہے کہ رومی دمشق پر حملہ کریں گے۔اگر دمشق ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کہیں قدم جمانا ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا۔دشمن نے بحیرہ روم سے انطاکیہ، بیروت اور ایک دو اور بندرگاہوں پر یورپ سے فوج لا اتاری ہے۔ہمیں سب سے پہلے دمشق کے دفاع کو مضبوط کرنا ہے لیکن ہم ایک ہی جگہ پر جمع نہیں ہو جائیں گے۔‘‘
’’ہماری تعداد اس وقت کتنی ہوگی؟‘‘ایک سالار نے پوچھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓکی طرف دیکھا۔’’ہماری تعداد پہلے سے کچھ زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’پچھلی لڑائیوں میں جو مجاہدین زخمی ہوئے تھے وہ الحمدﷲصحت یاب ہو کر واپس آچکے ہیں۔میرے اندازے کے مطابق ہماری نفری تیس ہزار تک ہو جائے گی۔ہمیں ایک سہولت اور حاصل ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ مجاہدین نے کافی آرام کر لیا ہے۔‘‘

ابو عبیدہؓ نے اور خالدؓ نے مل کر منصوبہ تیار کیا کہ رومیوں کے اس لشکر کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا۔امیر المومنین عمرؓ نے محاذ پرلڑنے والے سالاروں پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ کسی بڑی جنگ کا منصوبہ بنا کر ان سے منظور کرایا جائے۔عمرؓ غیر معمولی فہم و فراست کے مالک تھے۔بعض جگہوں کی پلاننگ وہ خود مدینہ بیٹھ کر کرتے اور محاذ کو بھیجتے تھے۔ابو عبیدہؓ نے اس پابندی کے مطابق ایک تیز رفتار قاصد مدینہ کو روانہ کر دیا۔ اسے جو پیغام دیا گیا اس میں نئی صورتِ حال لکھی گئی تھی اور مجوزہ منصوبہ بھی تحریر تھا۔وقت بہت تھوڑا تھا۔دشمن بے تحاشا نفری ساتھ لایا تھا۔کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا کہ کس لمحے وہ کیا کارروائی شروع کرد ے، لیکن مسلمانوں نے پیغام رسانی کا نظام اتنا تیز اور محفوظ بنا رکھا تھا کہ تھوڑے سے وقت میں دور کے فاصلے پر پیغام پہنچ جاتاتھا۔

امیرالمومنینؓ نے صورتِ حال اور منصوبے کا جائزہ لیا۔اس میں کچھ ردوبدل کیا، اور منصوبے کی منظوری دے دی، یزیدؓ بن ابی سفیان دمشق میں تھے،وہ سالار بھی تھے اور دمشق کے حاکم بھی۔انہیں پیغام بھیجا گیا کہ دشمن کیا صورتِ حال پیدا کر رہا ہے،اور وہ بدستور دمشق میں رہیں۔انہیں یہ ہدایت بھی دی گئی کہ دمشق کے شمال مغرب پر جاسوسوں کی دیکھ بھال کرنے والے آدمیوں کے ذریعہ نظر رکھیں کیونکہ توقع یہی ہے کہ رومی ادھر سے حملہ کریں گے۔سالار شرجیلؓ بن حسنہ اپنے دستوں کے ساتھ اس علاقے میں تھے جس میں بیسان اور فحل واقع تھے۔خلیفہ عمرؓ نے خاص طور پر لکھا تھا کہ سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو اس جنگ کیلئے سالار مقرر کیا جائے جس کی رومی تیاری کر کے آئے ہیں۔خالد کو اس فوج کے ہراول دستے کی سالاری سونپی گئی تھی۔جنوری ۶۳۵ء کے دوسرے ہفتے میں ان دستوں نے جن کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی، کوچ کیا۔ انہیں بیسان سے کچھ دور فحل کے مقام تک پہنچنا تھا۔
یہ دستے جب فحل پہنچے تو دیکھا کہ وہاں رومی فوج نہیں تھی۔ وہاں روم کی پوری فوج کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ خبر ملی کہ چند ایک دستے وہاں موجود ہیں لیکن یہ دستے جا چکے تھے۔وہاں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ رومیوں کے دستے بیسان چلے گئے ہیں جہاں ان کے پورے لشکر کا اجتماع ہے۔
مسلمان آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن دریاکے دونوں طرف دور دور تک دلدل تھی، جس میں گزرنا ممکن نہیں تھا۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ دلدل دریا کے دونوں کناروں سے لے کر ایک ایک میل دور تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ علاقہ سطح سمندر سے کئی سو فٹ نیچیے اور وہاں اُس دور میں نشیب زیادہ تھے۔دیکھاگیا کہ وہاں دریاکے کنارے ٹوٹے ہوئے نہیں تھے پھر یہ پانی کہاں سے آگیا تھا جس نے اس نشیبی علاقے کو دلدل بنا ڈالا تھا؟’’کچھ دور اوپر جا کر دیکھیں۔ ‘‘اک مقامی آدمی نے بتایا۔’’فحل میں رومی فوج کے دستے رہتے تھے۔وہ یہاں سے چلے گئے۔اوپر کی طرف جا کر انہوں نے دریا میں پتھروں کا بند باندھا اور دونوں کنارے توڑ دیئے۔اس طرح اوپر سے یہ پانی یہاں آکر جمع ہو گیااور پھیلتا چلا گیا۔‘‘رومیوں نے مسلمانوں کو روکنے کا بڑا سخت انتظام کیا تھا۔رومیوں نے غالباً یہ سوچا تھا کہ مسلمان صحرا میں یا میدان میں چلنے اور لڑنے کے عادی ہیں اور وہ دلدل میں سے نہیں گزرسکیں گے۔اگر انہوں نے یہ سوچا تھا تو بالکل ٹھیک سوچا تھا۔دلدل مسلمانوں کیلئے بالکل نئی چیز تھی۔ان کیلئے تو چٹانیں اور پہاڑیاں بھی نئی چیز تھیں۔ لیکن انہوں نے پہاڑی علاقوں میں بھی لڑائیاں لڑی تھیں اور دشمن کو شکست دی تھی۔وہ دلدل میں سے بھی گزر جاتے لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔
سالار شرجیلؓ نے دلدل سے کچھ دور ہٹ کر اپنے دستوں کو ایک ترتیب میں کر دیا۔دائیں اور بائیں پہلوؤں پر ابو عبیدہؓ اور عمروؓ بن العاص تھے۔سوار دستے کی کمان ضرار بن الازور کو دی گئی تھی۔خالدؓکو وہ دستے دیئے گئے جنہیں بیسان کی طرف جانا تھا۔خالدؓ ہراول میں تھے کچھ آگے گئے تو دلدل نے ان کے پاؤں جکڑ لیئے۔خالدؓ اپنی عادت کے مطابق دلدل میں سے گزرنے کی کوشش کرنے لگے لیکن دلدل زیادہ ہی ہوتی گئی اور وہ مقام آگیا جہاں دلدل میں سے پاؤں نکالنا بھی ناممکن ہو گیا۔چنانچہ وہ دلدل میں سے نکلنے لگے۔نکلنا بھی دشوار ہو گیا۔بڑی کوشش کے بعد خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ دلدل سے نکلے اور واپس فحل آگئے۔

رومی سالار سقلار تجربہ کار سالار تھا۔وہ جنگ کیلئے بالکل تیارتھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس دھوکے کو کامیاب سمجھتا تھا کہ مسلمان دلدل میں سے نہیں نکل سکیں گے۔اسی دلدلی علاقے میں ایسی جگہ بھی تھی جہاں پانی کے نیچے زمین بہت سخت تھی اور وہاں کیچڑ نہیں تھا۔ وہاں سے آسانی سے گزرا جا سکتا تھا-
اس قسم کے راستے کا علم صرف رومیوں کو تھا۔سقلار نے اپنے لشکر سے کچھ دستے الگ کیے اورانہیں ایک جگہ اکٹھا کیا۔’’عظمتِ روم کے پاسبانو!‘‘ اس نے اپنے لشکرسے کہا۔’’آج تمہارا دشمن پھندے میں آگیا ہے۔مسلمان دلدل میں سے نہیں گزر سکے۔انہوں نے دلدل سے پرے فحل کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا ہے۔ہم اسی دلدل میں سے جس میں سے مسلمان نہیں گزر سکے انہیں گزر کر دکھائیں گے۔وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کے آگے دلدل ہے جو انہیں ہم سے محفوظ رکھے گی ہم رات کو حملہ کریں گے۔ اس وقت وہ اپنے پڑاؤ میں گہری نیند سوئے ہوئے ہوں گے……‘
‘’’اے رومیو!یہ رات کی لڑائی ہو گی جو آسان نہیں ہوتی لیکن آج تمہیں اپنے ان ساتھیوں کے خون کا بدلہ لینا ہے جو اب تک مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، تمہیں اپنا شکار سویا ہوا ملے گا۔کوئی ایک بھی زندہ نہ نکل کر جائے۔ان کے گھوڑے ان کے ہتھیار اور ان کے پاس ہمارا لوٹا ہوا جومال ہے یہ سب تمہارا ہے۔اگر تم ان سب کو ختم کر دو گے تو سمجھو تم نے اسلام کو ختم کر دیا اور یہی ہمارا مقصد ہے۔ شہنشاہ ہرقل کا یہ وہم دور کر دو کہ ہم مسلمانوں کو شکست دے ہی نہیں سکتے۔‘
‘رومی سپاہی یہ سن کر کہ وہ اپنے دشمن کو بے خبری میں جالیں گے، جوش سے پھٹنے لگے۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پہلی لڑائیوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے کئی بھاگے بھی تھے۔وہ دانت پیس رہے تھے۔وہ انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اور وہ مسلمانوں کو اپنی تلواروں سے کٹتا اور برچھیوں سے چھلنی ہوتا دیکھ رہے تھے۔

۲۳جنوری ۶۳۵ء بمطابق ۲۷ ذیعقد ۱۳ھ کا سورج غروب ہوگیا تورومیوں کے سالار سقلار نے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا۔ شام بڑی تیزی سے تاریک ہوتی گئی۔سقلار نے پیش قدمی کا حکم دے دیا۔اسے دلدل میں سے گزرنے کا راستہ معلوم تھا۔اپنے دستوں کو اس نے اس راستے میں سے گزارا۔ جب تمام دستے گزر آئے تو سقلار نے انہیں اس ترتیب میں کر لیا جس ترتیب میں حملہ کرنا تھا۔یہ حملہ نہیں شبخون تھا اور یہ یک طرفہ کارروائی تھی۔اس ترتیب میں سقلار نے اپنے دستوں کو فحل کی طرف پیش قدمی کاحکم دیا۔وہ خود سب سے آگے تھا۔اس نے پیش قدمی کی رفتارتیز رکھی تاکہ مسلمانوں کو ان کے آنے کی خبر ہوبھی جائے تو انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی جائے۔رومی اس جگہ پہنچ گئے جہاں مسلمانوں کا پڑاؤ تھا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا، سقلارجاسوسوں کو کوسنے لگا جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ پڑاؤ فلاں جگہ ہے۔
اسے ﷲاکبر کے نعرے کی گرج سنائی دی۔اس کے ساتھ ہی مشعلیں جل اٹھیں۔سقلار نے دیکھا کہ مسلمان نہ صرف بیدار ہیں بلکہ لڑنے کی ترتیب میں کھڑے ہیں۔سالار شرجیلؓ محتاط سالا رتھے۔انہیں یہاں آکر جب معلوم ہوا تھا کہ یہ دلدل کہاں سے آگئی ہے تو انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ رومیوں نے ان کا صرف راستہ ہی نہیں روکا بلکہ وہ کچھ اور بھی کریں گے۔رومی یہی کر سکتے تھے کہ حملہ کردیں۔ چنانچہ شرجیلؓ نے شام کے بعد اپنی فوج کو سونے کے بجائے لڑائی کیلئے تیار کرا لیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے جاسوس دلدل کے اردگرد پھیلا دیئے تھے۔رومی جب دلدل میں سے گزر رہے تھے، ایک جاسوس نے شرجیلؓ کو اطلاع دے دی کہ دشمن آرہا ہے۔ شرجیلؓ نے اپنے دستوں کو ایک موزوں جگہ جو انہوں نے دیکھ لی تھی، جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا۔’’

مدینہ والو!‘‘ سقلار نے بلند آواز سے مسلمانوں کو للکارا۔’’آگے آؤ۔ اپنا اور اپنی فوج کا انجام دیکھو۔‘‘’’حملہ کرنے تم آئے ہو۔‘‘شرجیلؓ نے للکار کا جواب للکار سے دیا۔’’آگے تم آؤ۔ تم اس دلدل سے تو نکل آئے ہو، اب ہماری دلدل سے نکل کر دیکھو ……رومیو! کل صبح کا سورج نہیں دیکھ سکو گے۔‘

‘للکار کا تبادلہ ہوتا رہا۔آخر سقلار نے اپنے ایک دستے کو حملے کاحکم دے د یا۔اس نے یہ چال چلی تھی کہ اس کا دستہ حملہ کرکے پیچھے ہٹ آئے گا تو مسلمان بھی اس کے ساتھ الجھے ہوئے آگے آجائیں گے۔ لیکن شرجیلؓ نے پہلے ہی حکم دے رکھا تھا کہ دفاعی لڑائی لڑنی ہے۔اس کے مطابق مسلمان جہاں تھے وہیں رہے۔رومی موجوں کی صورت میں ان پر حملہ کرتے تھے اور مسلمان حملہ روکتے تھے۔اپنی ترتیب نہیں توڑتے تھے۔سالار شرجیلؓ رات کے وقت چال چلنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ان کی نفری رومیوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔اسے وہ کارگر انداز سے دن کی روشنی میں ہی استعمال کر سکتے تھے۔سقلار غالباً اس دھوکے میں آگیا تھا کہ مسلمانوں میں لڑنے کی تاب نہیں رہی۔اس خیال سے اس نے موج در موج حملوں میں اضافہ کر دیا۔لیکن مسلمانوں نے اپنی صفوں کو ٹوٹنے نہ دیا۔ وہ آگے بڑھ کر حملہ روکتے پھر اپنی جگہ پرآجاتے۔رومی ہر حملے میں اپنے زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتے۔ایک حملے کی قیادت سقلار نے خود کی۔وہ اپنے دستے کو للکارتا ہوا بڑی تیزی سے آگے گیا۔مشعلوں کی روشنی میں مسلمانوں نے رومیوں کا پرچم دیکھ لیا۔چند ایک مجاہدین رومیوں میں گھس گئے اور سقلار کو گھیر لیا۔اس کے محافظوں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔محافظ بے جگری سے لڑے،اور اس دوران سقلار نکلنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ اپنے محافظوں کے حصار سے جہاں بھی نکلتا مسلمان اسے روک لیتے تھے۔ ایک مجاہد اس معرکے سے نکل گیا اور اس نے سالار شرجیلؓ کو بتایا کہ اب کے رومیوں کو اتنی جلدی پیچھے نہ جانے دینا کیونکہ کچھ مجاہدین نے رومیوں کے سالار کو نرغے میں لے رکھا ہے۔شرجیلؓ نے اس اطلاع پر اپنے چند ایک منتخب جانباز رومیوں کے قلب میں گھس جانے کیلئے بھیج دیئے۔تھوڑی ہی دیر بعد مجاہدین کے نعرے سنائی دینے لگے۔’’خدا کی قسم!ہم نے رومی سالار کو مار ڈالا ہے۔‘‘’’رومیو اپنا پرچم اٹھاؤ۔‘‘’’اپنے سالار کی لاش لے جاؤ رومیو!‘
‘رومیوں نے دیکھا ان کا پرچم انہیں نظر نہیں آرہا تھا اور انہیں اپنے سالار کی للکار بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ان میں بددلی پھیلنے لگی، لیکن کسی نائب سالار نے پرچم اٹھا لیااور لڑائی جاری رکھی۔
🇵🇰💚🇵🇰💚🇵🇰🇵🇰💚


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form