Shamsheer e bayniyam Episode 76


❤ *قسط نمبر* *76* ❤
*شمشیر بے نیام*
سورج طلوع ہوا، لیکن میدان جنگ کی گرد و غبار میں اسے کوئی دیکھ ہی نہ سکا۔مسلمان بھی شہید ہوئے تھے لیکن رومیوں کی اموات زیادہ تھیں۔ میدان میں ان کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ان کے زخمی جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے رینگ رینگ کر گھوڑوں تلے کچلے جانے سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میدان رومیوں کے خون سے لال ہو گیا تھا۔’
’اسلام کے علمبردارو!‘‘ سالار شرجیلؓ کی للکار اٹھی۔’’تم نے رومیوں کو انہی کے خون میں نہلا دیاہے۔تم نے ساری رات ان کے حملے روکے ہیں، اب ہماری باری ہے۔‘‘’’ﷲ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ شرجیلؓ نے اپنے دائیں پہلو کے ایک دستے کو آگے بڑھایا۔ رومی حملہ روکنے کیلئے تیار تھے لیکن رات وہ حملے کرتے اور پیچھے ہٹتے رہے تھے ان کے جسم تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ شرجیلؓ نے اپنی فوج کی جسمانی طاقت کو ضائع نہیں ہونے دیا تھا اسی لیے وہ دفاعی لڑائی لڑاتے رہے تھے۔شرجیلؓ کے دائیں پہلو کے ایک دستے نے باہر کی طرف ہو کرحملہ کیا اس سے رومیوں کے اس طرف کا پہلو پھیلنے پر مجبور ہو گیا۔شرجیلؓ نے فوراً ہی رومیوں کے دوسرے پہلو پر بھی ایسا ہی حملہ کرایا اور اس پہلو کو بھی قلب سے الگ کردیا۔رومیوں کے پہلو دور دور ہٹ گئے تو شرجیلؓ نے قلب کے دستوں کو اپنی قیادت میں بڑے شدید حملے کیلئے آگے بڑھایا۔رومی رات کے تھکے ہوئے تھے، اور ان کا سالار بھی مارا گیا تھا۔صاف نظر آرہا تھا کہ ان میں لڑنے کا جذبہ ماند پڑ چکا ہے۔
مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستے دشمن کے پہلوؤں کو اور زیادہ پھیلاتے چلے گئے وہ اب اپنے قلب کے دستوں کی مدد کو نہیں آسکتے تھے۔مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستوں کے سالار معمولی سالار نہیں تھے،وہ تاریخ ساز سالار ابو عبیدہؓ اور عمروؓ بن العاص تھے،اور قلب کے چندایک دستوں کے سالار خالدؓتھے۔رومیوں کے لیئے خالدؓ دہشت کادوسرا نام بن گیا تھا۔گھوڑ سوار دستوں کے سالار ضرار بن الازور تھے جو سلطنت روم کی فوج میں اس لئے مشہور ہو گئے تھے کہ وہ میدان میں آکر خود اور قمیض اتار کر کمر سے برہنہ ہو جاتے تھے،اورلڑتے تھے۔انفرادی معرکہ ہوتا یا وہ دستے کی کمان کر رہے ہوتے وہ اس قدر تیزی سے پینترا بدلتے تھے کہ دشمن دیکھتا رہ جاتا تھااور ان کی برچھی میں پرویا جاتا تھایا تلوار سے کٹ جاتا تھا۔مسلمانوں کی نفری بہت کم تھی۔ اس کمی کو ان سالاروں نے ذاتی شجاعت، جارحانہ قیادت اور عسکری فہم و فراست سے پورا کیا اور سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی جب رومی نفری افراط کے باوجود منہ موڑنے لگی۔رومیوں میں یہ خوبی تھی کہ وہ تتر بتر ہو کر بھاگا نہیں کرتے تھے۔ان کی پسپائی منظم ہوتی تھی۔ لیکن فحل کے معرکے سے وہ بے طرح بھاگنے لگے۔ان کی مرکزی قیادت ختم ہو چکی تھی اور ان کا جانی نقصان اتنا ہوا تھا کہ نہ صرف یہ کہ ان کی نفری کم ہو گئی تھی بلکہ اتنا زیادہ خون دیکھ کر ان پر خوف طاری ہو گیا تھا-

ان کی ایسی بے ترتیب پسپائی کی وجہ اور بھی تھی۔ان کا سالار سقلار انہیں دلدل میں سے نکال لایا تھا اسے معلوم تھاکہ کہاں سے زمین سخت ہے جہاں پاؤں کیچڑ میں نہیں دھنسیں گے مگر اب ان کے ساتھ وہ سالار نہیں تھا۔اس کی لاش میدانِ جنگ میں پڑی تھی۔سپاہیوں نے اس لئے بھاگنا شروع کر دیا کہ وہ جلدی جلدی دلدل میں وہ راستہ دیکھ کر نکل جائیں۔سالار شرجیلؓ نے دشمن کو یوں بھاگتے ہوئے دیکھا تو انہیں دلدل کا خیال آگیا۔انہوں نے دشمن کے تعاقب کا حکم دے دیا۔مسلمان پیادے اور سوار نعرے لگاتے ان کے پیچھے گئے، تو رومی اور تیز دوڑے لیکن دلدل نے ان کا راستہ روک لیا۔ہڑ بونگ اور افراتفری میں انہیں یاد ہی نہ رہا کہ دلدل میں سے وہ کہاں سے گزر آئے تھے۔ان کے پیچھے بھی موت تھی اور آگے بھی موت تھی وہ دلدل میں داخل ہو گئے اور اس میں دھنسنے لگے۔مسلمان بھی دلدل میں چلے گئے اور انہیں بری طرح کاٹا۔جو رومی دلد ل میں اور آگے چلے گئے تھے انہیں تیروں کا نشانہ بنایا گیا۔دریاکا پانی چھوڑ کر رومیوں نے جو دلدل پیدا کی تھی کہ مسلمان آگے نہ بڑھ سکیں وہ دلدل رومیوں کیلئے ہی موت کا پھندا بن گئی تھی۔
فحل میں لڑے جانے والے اس معرکے کو ذات الروغہ یعنی کیچڑکی لڑائی کہا جاتا ہے۔اس میں سے بہت تھوڑے سے رومی بچ سکے تھے وہ بیسان چلے گئے تھے۔اس معرکے میں دس ہزار رومی مارے گئے تھے،اور جو زخمی ہو کر میدانِ جنگ میں رہ گئے تھے ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔سالار شرجیلؓ نے وہاں زیادہ رکنامناسب نہ سمجھا۔وہ دشمن کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہنا چاہتے تھے۔تاکہ دشمن پھر سے منظم نہ ہو سکے۔انہوں نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کوچند ایک دستوں کے ساتھ فحل میں رہنے دیااور خود باقی ماندہ فوج کے ساتھ آگے بڑھے۔ لیکن دلدل نے پھر ان کا راستہ روک لیا۔انہوں نے دو تین زخمی رومیوں سے پوچھا کہ دلدل سے پار جانے کا راستہ کون سا ہے؟
رومی زخمیوں نے انہیں ایک اور راستہ بتا دیا یہ بڑا ہی دور کا راستہ تھا۔لیکن دلدل سے گزرنے میں بھی اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا دوسرا راستہ اختیار کرنے میں۔شرجیلؓ نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو ان دستوں کے ساتھ فحل میں چھوڑ دیا، اور دلدل سے دور ہٹ کراس راستے سے گزر گئے جو رومی زخمیوں نے انہیں بتایا تھا۔انہیں دریائے اردن بھی عبور کرنا پڑا انہوں نے آگے بڑھ کر بیسان کا محاصرہ کرلیا۔بیسان میں رومیوں کی خاصی نفری تھی۔ ہرقل نے نفری کے بل بوتے پر مسلمانوں کو فیصلہ کن بلکہ تباہ کن شکست دینے کا انتظام کیا تھا۔ اس کے منصوبے کی پہلی ہی کڑی ناکام ہو گئی تھی فحل کے معرکے سے بھاگے ہوئے رومی چند ایک ہی خوش قسمت تھے جو دلدل میں سے نکل گئے تھے۔ان کی پناہ بیسان ہی تھی۔
بیسان کا رومی سالار اس خبر کے انتظار میں تھا کہ اس کے ساتھی سالار سقلار نے مسلمانوں کو بے خبری میں جا لیا ہے اور مسلمانوں کا خطرہ ہمیشہ کیلئے ٹل گیا ہے لیکن چوتھی شام بیسان میں پہلے رومی زخمی داخل ہوئے۔ زخمی ہونے کے علاوہ ان کی ذہنی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔تھکن اور خوف سے ان کی آنکھیں باہر کو آرہی تھیں ان کے ہونٹ کھلے ہوئے تھے اور وہ پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں تھے۔
بیسان میں داخل ہوتے ہی انہیں بیسان کے فوجیوں نے گھیر لیا اور پوچھنے لگے کہ آگے کیا ہوا ہے؟
’’کاٹ دیا!‘‘ ایک سپاہی نے خوف اور تھکن سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’سب کو کاٹ دیا۔‘
‘’’مسلمانوں کو کاٹ دیا؟‘‘ان سے پوچھا گیا۔’’
نہیں! ‘‘سپاہی نے جواب دیا۔’’مسلمانوں نے کاٹ دیا۔کیچڑ نے مروادیا۔‘‘اس کے ساتھ کچھ اور سپاہی بھی تھے۔ان کی جسمانی اور ذہنی حالت بھی اسی سپاہی جیسی تھی انہوں نے بھی ایسی ہی باتیں سنائیں جن میں مایوسی اور دہشت تھی۔ ان کی یہ باتیں اس رومی فوج میں پھیل گئیں جو بیسان میں مقیم تھی۔اس فوج میں ایسے سپاہی بھی تھے جو کسی نہ کسی معرکے میں مسلمانوں سے لڑ چکے تھے انہوں نے فحل سے آئے ہوئے سپاہیوں کی باتوں میں رنگ آمیزی کی۔اس کااثر رومیوں پر بہت برا پڑا۔’

’میں کہتا ہوں وہ انسان ہیں ہی نہیں۔‘‘ایک سپاہی نے مسلمانوں کے متعلق کہا۔’’ہماری فوج جہاں جاتی ہے مسلمان جیسے وہاں اڑ کر پہنچ جاتے ہیں۔‘‘’’ان کی تعداد ہم سے بہت کم ہوتی ہے۔‘‘ایک اور سپاہی نے کہا۔’’لیکن لڑائی شروع ہوتی ہے تو ان کی تعداد ہم سے زیادہ نظر آنے لگتی ہے۔‘‘دہشت کے مارے ہوئے ان زخمی سپاہیوں کی باتیں جوہوا کی طرح بیسان کے کونوں کھدروں تک پہنچ گئی تھیں جلد ہی سچ ثابت ہو گئیں۔
ایک شور اٹھا۔’’ مسلمان آگئے ہیں۔مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔‘‘اور اس کے ساتھ ہی بیسان کے اندر ہڑبونگ مچ گئی۔ان لوگوں میں سے کوئی بھی قلعے سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔دروازے بند ہو چکے تھے ۔ وہ اب اندر ہی چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔درہم و دینار اور سونا وغیرہ گھروں کے فرشوں میں دبانے لگے۔
رومی فوج قلعے کی دیواروں پر اور بُرجوں میں جا کھڑی ہوئی۔
’’رومیو!‘‘سالار شرجیلؓ نے للکار کر کہا۔’’خون خرابے کے بغیر قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘اس کے جواب میں اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں لیکن مسلمان ان کی زد سے دور تھے۔’ ’رومیو!‘‘سالار شرجیلؓ نے ایک بار پھر اعلان کیا۔’’ہتھیار ڈال دو۔جزیہ قبول کرلو۔نہیں کرو گے تو بیسان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔تم سب مردہ ہو جاؤ گے یا ہمارے قیدی۔ ہم کسی کو بخشیں گے نہیں۔‘‘رومی فوج میں تو مسلمانوں کی دہشت اپنا کام کر رہی تھی لیکن اس فوج کے سالار اور دیگر عہدیدار جنگجو تھے۔اپنی عسکری روایات سے اتنی جلدی دستبردار ہونے والے نہیں تھے۔انہوں نے نہ ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی نہ جزیہ کی ادائیگی قبول کی۔

مسلمان ایک رات اور ایک دن مسلسل لڑے تھے، پھر انہوں نے بھاگتے رومیوں کا تعاقب بهی کیا، پھر بیسان تک آئے تھے۔انہیں آرام کی ضرورت تھی۔شرجیلؓ نے انہیں آرام دینے کیلئے فوری طور پر قلعے پر دھاوا نہ بولا۔البتہ خود قلعے کے اردگرد گھوڑے پر گھوم پھر کر دیکھتے رہے کہ دیوار کہیں سے کمزور ہے یا نہیں یا کہیں سے سرنگ لگائی جا سکتی ہے؟سات آٹھ روز گزر گئے۔رومی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ مسلمان قلعے پر ہلہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ لیکن رومی سالار یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اس کی اپنی فوج کی ہمت ماند پڑی ہوئی ہے۔اس نے اپنی فوج کے جذبے کو بیدار کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کر دے اور قلعے کی لڑائی کا فیصلہ قلعے سے باہر ہی ہو جائے۔اگلے ہی روز قلعے کے تمام دروازے کھل گئے اور ہر دروازے سے رومی فوج رکے ہوئے سیلاب کی طرح نکلی۔اس میں زیادہ تر سوار دستے تھے،انہوں نے طوفان کی مانند مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ مسلمانوں کیلئے یہ صورتِ حال غیر متوقع تھی۔ان کی نفری بھی دشمن کے مقابلے میں کم تھی۔پہلے تو ایسے لگتا تھا جیسے رومی مسلمانوں پر چھا گئے ہیں اور مسلمان سنبھل نہیں سکیں گے لیکن سالار شرجیلؓ عام قسم کے سالار نہیں تھے۔انہوں نے دماغ کو حاضر رکھا اور قاصدوں کو دوڑا دوڑا کر اور خود بھی دوڑ دوڑ کر اپنے دستوں کو پیچھے ہٹنے کو کہا۔مسلمانوں نے اس حکم پر فوری عمل کیا، اور پیچھے ہٹنے لگے،اس کے ساتھ ہی شرجیلؓ نے بہت سے مجاہدین کو قلعے کے دروازوں کے قریب بھیج دیا۔ان میں زیادہ تر تیر انداز تھے۔ان کیلئے یہ حکم تھا کہ رومی واپس دروازوں کی طرف آئیں تو ان پر اتنی تزی سے تیر پھینکے جائیں کہ وہ دروازوں سے دور رہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شرجیلؓ اور ان کے کمانداروں نے اپنے دستوں کو محاصرے کی ترتیب سے میدان کی لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔وہ اتنا پیچھے ہٹ آئے تھے کہ رومی قلعے سے دور آگئے۔اب شرجیلؓ نے اپنے انداز سے جوابی حملہ کیا۔رومی اپنے حملے میں اتنے مگن تھے کہ وہ بکھرے رہے۔مسلمانوں نے حملہ کیا تو رومی بے ترتیبی کی وجہ سے حملے کا مقابلہ نہ کر سکے۔وہ قلعے کی طرف دوڑے تو اُدھر سے مسلمانوں کے تیروں نے انہیں گرانا شروع کر دیا۔مسلمانوں کی تیر اندازی بہت ہی تیز اور مہلک تھی۔رومیوں کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا، اب جذبہ بالکل ہی ختم ہو گیا،رومیوں کا جانی نقصان اتنا زیادہ تھا جسے وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

آخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور شرجیلؓ کی شرطیں ماننے پر آمادگی ظاہر کر دی۔انہوں نے جزیہ اور کچھ محصولات کی ادائیگی کرنے کی شرط بھی قبول کر لی،اور قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔فروری ۶۵۳ء )ذی الحج ۱۳ھ(کے آخری ہفتے میں بیسان مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔اس وقت ابو عبیدہ ؓاور خالدؓ فحل کے شمالی علاقے میں پیشقدمی کر رہے تھے۔انطاکیہ کے بڑے گرجے کا گھنٹہ بج رہا تھا۔یہ بہت بڑا گھنٹہ تھا۔اس کی آواز سارے شہر میں سنائی دیتی تھی۔نور کے تڑکے کی خاموشی میں اس کی ’’ڈن ڈناڈن‘‘ اور زیادہ اونچی سنائی دے رہی تھی۔یہ ۶۳۵ء )۱۴ھ( کے مارچ کا مہینہ تھا۔گرجے کا گھنٹہ تو بجا ہی کرتا تھااور لوگ اس کی آواز میں تقدس محسوس کرتے تھے۔ان پر ایسا اثر طاری ہو جاتا تھا جو ان کی روحوں کو سرشار کر دیا کرتا تھا۔
مگر مارچ ۶۳۵ء کی ایک صبح اس گھنٹے کی مترنم آواز میں کچھ اور ہی تاثر تھا۔اس تاثر میں مایوسی بھی تھی اور خوف بھی۔اس گھنٹے کی آوازیں شہنشاہ ہرقل کے محل میں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ہرقل سونے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ تو جاگنے کا وقت تھا لیکن وہ ساری رات نہیں سویا تھا۔محاذ کی خبریں اسے سونے نہیں دیتی تھیں،اس نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکنے اور انہیں ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے جو منصوبے بنائے تھے وہ بیکار ثابت ہو رہے تھے۔مسلمان بڑھے چلے آرہے تھے،ہرقل راتوں کو جاگتا اور نئے سے نئے منصوبے بناتا تھا۔
لیکن اس کا ہر ارادہ اور ہر منصوبہ مسلمانوں کے گھوڑوں کے سموں تلے رونداجاتا تھا۔ایک نہایت حسین اور جوان عورت اس کے کمرے میں آئی، وہ اس کی نئی بیوی زاران تھی۔’’شہنشاہ آج رات بھی نہیں سوئے۔‘‘زاران نے کہا۔’’کیوں نہیں آپ ان سالار اور سپاہیوں کو سب کے سامنے تہہ تیغ کردیتے جو شکست کھا کر واپس آتے ہیں؟وہ اپنی جانیں بچا کربھاگ آتے ہیں اور دوسرے سپاہیوں میں بددلی پھیلاتے ہیں۔‘
‘شہنشاہِ ہرقل پلنگ پر لیٹا ہوا تھا، زاران اس کے پاس بیٹھ گئی۔ہرقل اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔’’زاران!‘‘ اس نے رُک کر کہا۔’’وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، تم کہتی ہو کہ بچ کہ آنے والوں کو میں قتل کردوں۔میں ان کا خدا نہیں۔یہی ہیں جنہوں نے فارسیوں کو میرے قدموں میں بٹھادیا تھا۔فارسی ایسے کمزور تو نہیں تھے،ہماری ٹکرکی قوم ہے۔مسلمانوں نے انہیں بھی ہر میدان میں شکست دی ہے۔اب وہ ہمیں بھی شکست دیتے چلے آرہے ہیں۔میں مسلمانوں کی قدر کرتا ہوں۔اگر ہمارے سالاروں نے ہتھیار ڈالے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزور ہیں۔بلکہ مسلمان زیادہ طاقتور ہیں۔ان کے سالاروں میں عقل زیادہ ہے۔‘‘’’
تو کیا شہنشاہ مایوس ہو گئے ہیں؟‘‘زاران نے پوچھا۔’ ’نہیں!‘‘ہرقل نے کہا۔’’یہ مایوسی نہیں۔ایک جنگجو ایک جنگجو کی تعریف کر رہا ہے۔مسلمان اوچھے دشمن نہیں۔اگر وہ مجھ سے ہتھیار ڈلوالیں گے تو تم میرے پاس ہی رہو گی۔وہ تمہیں مجھ سے نہیں چھینیں گے۔‘‘زاران اس کا دل بہلانے آئی تھی۔اس کے کچھے تنے اعصاب کو سہلانے آئی تھی۔وہ ہرقل کی چہیتی بیوی تھی۔وہ ہرقل کو بہلانا جانتی تھی۔ لیکن ہرقل نے اسے زیادہ توجہ نہ دی۔

گرجے کا گھنٹہ بج رہاتھا۔’’لوگ گرجے کو جا رہے ہیں۔‘‘زاران نے کہا۔’’سب آپ کی فتح کیلئے دعائیں کریں گے۔‘‘ہرقل نے زاران کو کن اکھیوں دیکھاجیسے اس عورت نے اس پر طنز کیا ہو۔ہرقل نے زاران کی بات کوبھونڈا سا مذاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔’
’صرف دعائیں شکست کو فتح میں نہیں بدل سکتیں زاران!‘‘ ہرقل نے کہا۔’’جاؤ! مجھے کچھ سوچنے دو۔ابھی مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔‘‘شہنشاہ ہرقل کو اطلاع مل چکی تھی کہ اس کے سالار سقلار نے مسلمانوں کا راستہ روکنے اور انہیں پھنسانے کیلئے جو دلدل پھیلائی تھی، اسی دلدل میں اس کے اپنے سپاہیوں کی لاشیں پڑی ہیں اور فحل کے مقام پر سالار سقلار مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے،اور بیسان پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے-
❤💚💛💜💙💖💗💟💗💖💙💜💛💚❤


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form