Shamsheer e bayniyam Episode 77


*شمشیر بے نیام* 🏇
*77* *قسط* ❤
ہرقل کا یہ منصوبہ تباہ ہو چکا تھا کہ دمشق پر حملہ نہیں کرے گا، نہ اس کا محاصرہ کرے گا بلکہ اپنی فوج کو دمشق سے دور رکھ کر دمشق کو جانے والے راستے بند کر دے گا۔ پھر مسلمانوں کو بکھیر کر لڑائے گا۔مگرمسلمانوں نے اس کے منصوبے کی پہلی کڑی کو ہی فحل کے مقام پر توڑ دیاتھا۔

روم کا شہنشاہ ہرقل ہمت ہارنے والا آدمی نہیں تھا۔اس کی زندگی جنگ و جدل میں گزری تھی۔خد انے اسے ایسی عقل دی تھی جس سے اس نے بڑے خطرناک حالات کارخ اپنے حق میں موڑ لیا تھا۔اسے روم کی شہنشاہی ۶۱۰ء میں ملی تھی۔اس وقت روم کی سلطنت میں شمالی افریقہ کا کچھ حصہ ، یونان اور کچھ حصہ ترکی کا شامل تھا۔روم کی شہنشاہی تو اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض تھی لیکن ہرقل کو جب اس کا تخت و تاج ملا اس وقت یہ شہنشاہی سکڑ چکی تھی اور زوال پذیر تھی۔ہرقل نے اپنے دورِ حکومت کے بیس سال دشمنوں کے خلاف لڑتے اور محلاتی سازشوں کو دباتے گزار دیئے تھے۔اس کی شہنشاہی کے دشمن معمولی قوتیں نہیں تھیں۔ایک طرف فارس کی شہنشاہی تھی۔دوسری طرف بربر تھے۔جو بڑے ظالم اور جنگجو تھے،ان کے علاوہ ترک تھے جن کی جنگی طاقت اور مہارت مسلمہ تھی۔ہرقل کی غیر معمولی انتظامی فہم و فراست اور عسکری قیادت کی مہارت تھی کہ اس نے تینوں دشمنوں کو شکست دے کر روم کی شہنشاہی کو شام اور فلسطین تک پھیلایا اور مستحکم کیا تھا۔اتنے طاقتور دشمنوں کے خلاف متواتر معرکہ آراء رہنے سے ہرقل کی فوج تجربہ کار اور منظم ہو گئی تھی۔منظم بھی ایسی کہ پسپا ہوتے وقت بھی تنظیم کو برقرار رکھتی تھی۔ہرقل کی فوج میں صرف رومی ہی نہیں تھے ، کئی اور اقوام کے لوگ اس میں شامل تھے ۔شام اور فلسطین کے عیسائی بھی تھے، ان عیسائیوں پر اسے کلی طور پر بھروسہ نہیں تھا۔ان کے متعلق ہرقل کی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ مالِ غنیمت کیلئے لڑتے ہیں اور جہاں دشمن کا دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے یہ بھاگ اٹھتے ہیں۔مسلمانوں کو وہ عرب کے بدو کہا کرتا تھا،اس نے مسلمانوں کو لٹیرے بھی کہا تھا لیکن اس نے جلد ہی تسلیم کر لیا تھا کہ اب اس کا مقابلہ ایک ایسے دشمن کے ساتھ ہے جو اس سے زیادہ عسکری فہم و فراست کا مالک ہے اور اس کے سامنے ایک مقصد ہے۔ہرقل مسلمانوں کے مقصد کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔یہ مذہب کا معاملہ تھا لیکن وہ جان گیا تھا کہ مسلمان زمین کی خاطر اور اپنی شہنشاہی کے قیام اور وسعت کی خاطر گھروں سے نہیں نکلے بلکہ وہ ایک عقیدے پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔

’’میں اپنی فوج میں وہ جذبہ پیدا نہیں کر سکتا جو مسلمانوں میں ہے۔‘‘اسی روز اس نے اپنے ان سالاروں کو جو انطاکیہ میں موجود تھے، بلا کر کہا۔’’اپنے سپاہیوں سے کہو کہ اپنے اپنے عقیدے کی خاطر لڑیں۔انہیں بتاؤ کہ جن جگہوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے ، وہاں کے لوگ اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرتے جا رہے ہیں۔انہیں کہو کہ کچھ اور نہیں تو اپنے ذاتی وقار کی خاطر لڑو۔اپنی جوان بہنوں اور بیٹیوں کو مسلمانوں سے بچانے کیلئے لڑو۔‘‘اس نے اپنے سالاروں کو محاذ کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کیا۔’’تو کہا...
کیا اب تم محسوس نہیں کرتے کہ ہمیں اپنا منصوبہ بدلنا پڑے گا؟‘‘
اس نے اپنے سالاروں سے پوچھا۔’’ہمیں مسلمانوں پر زیادہ سے زیادہ طاقت سے حملہ کرنا چاہیے۔‘‘ایک سالار نے کہا۔’’وہ تو میں کرنا ہی چاہتا ہوں۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں اتنی زیادہ اور ہر لحاظ سے اتنی طاقتور فوج تیار کر رہا ہوں جسے دیکھ کر پہاڑ بھی کانپیں گے۔ہم جو علاقے کھو چکے ہیں۔ ان کا ہمیں غم نہیں ہو نا چاہئیے۔یہ سب واپس آجائیں گے۔میں تم میں سے کسی کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھنا چاہتا۔میں نے بیس سال مسلسل لڑ کر سلطنتِ روم کی عظمت کو بحال کیا تھا۔اب بھی کرلوں گا، لیکن تم مسلمانوں سے مرعوب ہو گئے تو میری ناکامی یقینی ہے۔‘
‘سالاروں نے باری باری اسے جوشیلے الفاظ میں یقین دلایا کہ وہ اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔’
’جوش باتوں میں نہیں میدانِ جنگ میں دکھایا جاتا ہے۔‘ ‘ہرقل نے کہا۔’’یہ میں جانتا ہوں کہ تم جانیں قربان کر دو گے لیکن تاریخ یہ دیکھے گی کہ تمہاری جانیں کس کام آئیں اور تم دشمن کو مار کر مرے تھے یا لڑائی میں مارے جانے والے سپاہیوں کی طرح صرف مارے گئے تھے……‘‘’
’اب سنو ہمیں کیا کرنا ہے۔میں نے دمشق پر حملہ نہیں کرنا تھا لیکن اب ہمیں دمشق کو محاصرے میں لے کر اس شہرپر قبضہ کرنا ہے۔وہاں سے جو اطلاعیں آئی ہیں ان سے پتا چلا ہے کہ دمشق کا دفاع کمزور ہے۔وہاں مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے۔یہ ہمارا فوجی مرکز تھا جسے مسلمانوں نے اپنا مرکز بنالیا ہے۔یہ ہمیں واپس لینا چاہیے۔
‘‘اس نے ایک سالار شنس سے کہا کہ وہ حمص سے اپنے دستے لے کر دمشق پہنچے۔’
’اور تھیوڈورس! ‘‘اس نے اپنے ایک اور سالار سے کہا۔’’تم اپنے ساتھ زیادہ نفری لے کر دمشق کو روانہ ہو جاؤ۔کوچ بہت تیز ہو تاکہ مسلمانوں کا کوئی امدادی دستہ تم سے پہلے دمشق نہ پہنچ جائے۔شنس تمہاری مدد کیلئے تمہارے قریب رہے گا۔دمشق پر قبضہ کر کے ہم اسے اڈہ بنالیں گے ……اب دنیا کو بھول جاؤ۔ اپنی بیویوں اور اپنی داشتاؤں کو بھول جاؤ۔جسے ایک بار شکست ہو جائے اسے کھانے پینے کابھی ہوش نہیں رہنا چاہیے۔
‘‘ہرقل نے تاریخی اہمیت کے الفاظ کہے۔’’جو قوم اپنی شکست کو بھول جاتی ہے۔اسے زمانہ بھول جاتا ہے،اور جو قوم اپنے دشمن سے نظریں پھیر لیتی ہے وہ ایک روز اسی دشمن کی غلام ہو جاتی ہے……تمہاری عظمت سلطنت کی عظمت کے ساتھ وابستہ ہے۔سلطنت کی عظمت کا دفاع نہیں کرو گے تو بے وقار زندگی بسر کرو گے،اور گمنام مرو گے۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہرقل کے بولنے کے انداز میں رعب، عزم اور ٹھہراؤ تھا۔اس کا انداز تحکمانہ نہیں تھا لیکن اس کے الفاظ اس کے سالاروں پر وہی تاثر پیدا کر رہے تھے جو وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔سالار تھیوڈورس اور سالار شنس اسی وقت نئے احکام اور ہدایات کے ساتھ روانہ ہو گئے۔

اس وقت ابو عبیدہؓ اور خالدؓ فحل کے شمال کی طرف جا رہے تھے۔مسلمانوں کی فوج اب پہلے والی فوج نہیں رہی تھی۔خالدؓ جب سالارِ اعلیٰ تھے تو انہوں نے اسے منظم کر دیا تھا۔مجاہدین تو پہلے بھی منظم ہی تھے۔ان کا خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک، نظریہ اور عقیدہ ایک تھا۔اور سالار سے سپاہی تک جنگ کے مقصد سے آگاہ تھے۔پھر بھی اسے فارس اور روم کی فوجوں کی طرح منظم کرناضروری تھا۔وہ خالدؓنے کر دیا تھا۔جاسوسی اور دیکھ بھال کو بھی باقاعدہ اور موثر بنا دیا گیا تھا۔اسکے علاوہ خالدؓنے ایک سوار دستہ تیار کیا تھا جو متحرک رہتا اور انتہائی رفتار سے وہاں پہنچ جاتا جہاں مدد کی ضرورت ہوتی تھی مگر ان کی تعداد تھوڑی تھی۔وہ روز بروز تھوڑی ہوتی جا رہی تھی اور وہ اپنے وطن سے دور ہی دور ہٹتے جارہے تھے۔وہ اسلام کا تاریخ ساز دور تھا۔ﷲ نے انہیں یہ فرض سونپا تھا کہ وہ روایات تخلیق کریں اور اس راستے کا تعین کریں جو آنے والے ہر دور میں مسلمانوں کی روایات اور فتح اسلام کا راستہ بن جائے۔شمع رسالت مسلمانوں کے لہو سے ہی فروزاں رہ سکتی تھی اور مسلمانوں کو ہر دور اور ہر میدان میں قلیل تعداد میں رہنا تھا۔وہ جو ۶۳۵ء کے اوائل میں شام اور فلسطین میں آگے ہی آگے بڑھے جا رہے تھے۔انہوں نے اپنا آپ اور اپنا سب کچھ اسلام کی قربان گاہ میں رکھ دیا تھا۔وہ ایک مقدس لگن سے سرشار تھے۔تلواروں کی جھنکار اور تیروں کے زناٹے اور زخمیوں کی کربناک آوازیں ان کیلئے وجد آفریں موسیقی بن گئی تھیں۔ان کے رکوع و سجود بھی تلواروں کی چھاؤں میں ہوتے تھے۔وہ اب گوشت پوست کے جسم نہیں، دین و ایمان اور جذبہ ایثار کے پیکر بن گئے تھے جو روح کی قوتوں سے حرکت کرتے تھے اور یہ حرکت بہت ہی تیز تھی۔
ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ حمص کی جانب جا رہے تھے۔وہ فحل سے چلے تھے جہاں سے حمص تقریباً اسّی میل دور تھا۔ان کے راستے میں دمشق پڑتا تھا جو کم و بیش تیس میل دور تھا۔لیکن ان سالاروں نے دمشق سے کچھ دور سے گزر جاناتھا۔دمشق اور فحل کے درمیان ایک سر سبز علاقہ تھا،جو بہت خوبصورت اور روح پرور تھا،اس سبزہ زار کا نام مرج الروم تھا۔مسلمان دستوں کو کچھ دیر کیلئے وہاں رکنا تھا۔وہ اس سے تھوڑی ہی دور رہ گئے تھے کہ ایک گھوڑ سوار جو فوجی معلوم نہیں ہوتا تھا راستے میں کھڑا ملا۔وہ کوئی شکاری معلوم ہوتا تھا۔جب دونوں سالار اس کے سامنے سے گزرے تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پہلو میں کر لیا اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
’’کیا خبر ہے؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے اس سے پوچھا۔’’رومی ہمارے منتظر ہیں۔‘‘گھوڑ سوار نے جواب دیا۔’’تعداد ہم سے زیادہ ہے۔حمص کی طرف دشمن کا ایک لشکر آرہا ہے۔‘‘یہ گھوڑ سوار کوئی شکاری یا اجنبی نہیں تھا یہ ایک مسلمان جاسوس تھا، جو شکاریوں کے بہروپ میں بہت آگے نکل گیا تھا،وہ اکیلا نہیں تھا۔اس کے چند اور ساتھی بھی آگے گئے ہوئے تھے ۔
جاسوسی اتنا آسان کام نہیں تھا کہ دشمن کی نقل وحرکت دیکھی اور واپس آکر اپنے سالاروں کر اطلاع دے دی۔دشمن کے جاسوس بھی آگے آئے ہوئے ہوتے تھے،وہ جاسوسی کے علاوہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ دوسری طرف کا کوئی جاسوس ان کے علاقے میں نہ آیا ہوا ہو۔پتہ چل جانے کی صورت میں وہ جاسوس پکڑا یا مارا جاتا تھا۔اس جاسوس نے سبزہ زار میں جس رومی فوج کی موجودگی کی اطلاع دی تھی، مؤرخوں کے مطابق وہ رومی سالار تھیوڈورس کے دستے تھے اور وہ رومی فوج آرہی تھی اس کا سالار شنس تھا۔’
’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے پوچھا۔’’کیا تو یہ نہیں سوچ رہا کہ ہم ان رومیوں کو نظر انداز کرکے آگے نکل جائیں؟ ہماری منزل حمص ہے۔‘
‘’’نہیں!‘‘ خالدؓ نے جواب دیا۔’’ان دو فوجوں کے ادھر آنے کا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ دمشق کے راستوں کی ناکہ بندی کر رہے ہیں۔مجھے دمشق خطرے میں نظر آرہاہے۔‘‘’’اگر رومی دو حصوں میں آرہے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی دو حصوں میں ہو جائیں؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’

’دو حصوں میں ہی ہونا پڑے گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’ﷲہمارے ساتھ ہے۔ہماری راہنمائی ﷲکرے گا۔‘
‘’’ﷲتجھے سلامت رکھے! ‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ مجاہدین کو بتا دیں؟‘‘
خالدؓ رکابوں میں کھڑے ہو گئے اور اپنی فوج کو رکنے کا اشارہ کیا۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘ ابوعبیدہؓ نے بڑی ہی بلند آواز میں اپنی فوج سے کہا۔’’د شمن نے ہمارا راستہ روک لیا ہے۔کیا تم نے کفر کے پہاڑوں کے سینے چاک نہیں کیے؟ کیا شرک اور ارتداد کی چٹانوں کو تم نے پہلے روندا نہیں؟ یہ رومی لشکر جو ہمارے راستے میں کھڑ اہے۔ تعداد میں زیادہ ہے۔لیکن اس میں ایمان کی طاقت نہیں جو تم میں ہے۔ﷲتمہارے ساتھ ہے۔باطل کے ان پجاریوں کے ساتھ نہیں۔ﷲکی خوشنودی کو اپنے دل میں رکھو اور اپنے آپ کو ایک اور معرکے کیلئے تیار کرو۔‘‘
’’ہم تیار ہیں۔‘‘مجاہدین کے نعرے گرجنے لگے۔’’ہم تیار ہیں… …لبیک ابو عبیدہ……لبیک ابو سلیمان!‘‘ایسا جوش و خروش جس میں گھوڑے بھی کھر مارنے لگے ہوں او ایسے گرجدار نعرے جیسے مجاہدین کا یہ لشکر تروتازہ ہو اور پہلی بار کوچ کر رہا ہو۔یہ ایمان کی تازگی اور روحوں کا جوش تھا۔ بعض مؤرخوں نے مرج الروم کی لڑائی کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔اس کی جنگی تفصیلات دو یورپی مؤرخوں نے لکھی ہیں جن میں ہنری سمتھ قابلِ ذکر ہے۔اس نے اسے جنگی مبصر کی نگاہوں سے دیکھا اور لکھا ہے-

ان تحریروں کے مطابق ابو عبیدہؓ اور خالدؓ نے اپنے دستوں کو الگ کر کے اس طرح تقسیم کر لیا کہ دونوں سالار ایک دوسرے کی مدد کو بھی پہنچ سکیں۔دونوں حصوں کا ہر اول دستہ مشترک تھا اور ہراول دستہ سے آگے دیکھ بھال کا بھی انتظام تھا۔دونوں سالار اس زمین پر اجنبی تھے۔دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہو سکتا تھا۔
دو مسلمان جاسوسوں کو جو بہت آگے چلے گئے تھے ، ایک شتر سوار ملا اور رک گیا۔’’میرے دوستو!‘‘اس نے مسلمان جاسوسوں سے کہا۔’’تم اُدھر سے آرہے ہو اور میں اُدھر جا رہا ہوں۔سنا ہے اُدھر سے مسلمان لشکر آرہا ہے۔اگر تم نے اس لشکر کو دیکھا ہو تو بتا دو۔ میں راستہ بدل دوں گا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرا اونٹ مجھ سے چھین لیں۔‘‘

’’اور تو یہ بتا کہ آگے کہیں رومی لشکر موجود ہے؟‘‘مسلمان جاسوس نے پوچھا اور کہنے لگا۔’’ہمیں بھی وہی ڈر ہے جو تجھے ہے۔رومی ہم سے گھوڑے چھین لیں گے۔‘‘’’رومی لشکر کا تو کہیں نام و نشان نہیں۔‘‘شتر سوار نے جواب دیا۔

’’کس نے بتایا ہے تمہیں؟‘‘’مرج الروم سے آنے والوں نے!‘‘ایک مسلمان جاسوس نے جواب دیا۔’’کسی نے غلط بتایا ہے۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’میں اُدھر ہی سے آرہا ہوں۔‘
‘دونوں مسلمان جاسوس کسی بہروپ میں گھوڑوں پر سوار تھے ۔ایک نے شتر سوار کی ٹانگ پکڑکر اتنی زور سے کھینچی کہ وہ اونٹ کی پیٹھ سے زمین پر جا پڑا۔دونوں مسلمان بڑی تیزی سے گھوڑوں سے کودے اور شتر سوار کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔تلواریں نکال کر نوکیں اس کی شہہ رگ پر رکھ دیں۔’’تم عیسائی عرب ہو۔‘‘ایک جاسوس نے اسے کہا۔’’اور رومیوں کے جاسوس ہو……انکار کیا تو ہم تمہارے دونوں بازو کندھوں سے کاٹ دیں گے……موج الروم کی پوری خبر سناؤ۔‘
‘اس نے جان بخشی کے وعدے پر تسلیم کر لیا کہ وہ رومیوں کا جاسوس ہے اور ا س نے یہ بھی بتا دیا کہ رومی سالار تھیوڈورس اپنے دستوں کے ساتھ پہلے ہی مرج الروم میں موجود تھا اور دوسرا سالار شنس بھی کچھ دیر پہلے پہنچ گیا ہے۔اس رومی جاسوس کو پکڑ کر پیچھے لے گئے اور اسے سالار ابو عبیدہؓ اور سالار خالدؓ کے حوالے کر دیا گیا۔
جب مجاہدین کا لشکر مرج الروم کے سبزہ زار کے قریب گیا تو رومی لشکر دو بڑے حصوں میں لڑائی کیلئے تیار کھڑا تھا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے دستوں کو اس جگہ رومی لشکر کے سامنے روکا جہاں رومی سالار تھیوڈورس کے دستے تھے اور خالدؓ نے اپنے دستوں کو رومی سالار شنس کے دستوں کے سامنے صف آراء کیا۔رومیوں نے کوئی حرکت نہ کی۔وہ شاید مسلمانوں کو حملے میں پہل کا موقع دینا چاہتے تھے۔لیکن خالدؓ نے پہل نہ کی۔ابو عبیدہؓ کو بھی انہوں نے پہلے حملہ نہ کرنے دیا۔دونوں مسلمان سالار حیران تھے کہ رومی آگے بڑھ کر حملہ کیوں نہیں کرتے۔حالانکہ ان کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔مسلمان اسے ایک چال سمجھ کر آگے نہ بڑھے۔
سورج غروب ہو گیا۔دونوں طرف کی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں اور سپاہیوں کو کچھ دیر سونے کی اجازت دے دی گئی۔
مؤرخوں نے لکا ہے کہ خالدؓ دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے عادی تھے لیکن سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے اس لیے خالدؓ ان کی موجودگی میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔لیکن ان کی فطرت میں جو جنگجو سپاہی تھا وہ انہیں سونے نہیں دے رہا تھا۔خالدؓ بے چینی سے کروٹیں بدلتے رہے۔دشمن ان کے سامنے موجود تھا اور لڑائی نہیں ہوئی تھی۔ایک تو وجہ یہ تھی کہ انہیں نیند نہیں آرہی تھی اور ایک وجہ اور تھی جو انہیں بے قرار کرتی جا رہی تھی۔یہ شاید ان کی چھٹی حس تھی ۔انہوں نے رومیوں کے پڑاؤ کی طرف سے ہلکی ہلکی آوازیں بھی سنی تھیں۔انہیں شک ہونے لگا کہ دشمن سویا نہیں اور کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف ہے۔
آدھی رات کے بہت بعدکا وقت تھا، جب خالدؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے پڑاؤ میں خراماں خراماں چلتے پڑاؤ سے نکل گئے۔وہاں سبزہ ہی سبزہ تھااور درخت بہت تھے۔خالدؓ جھاڑیوں اوردرختوں کی اوٹ میں دشمن کے پڑاؤ کی طرف چلے گئے۔وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں رومی سالار تھیوڈورس کے دستوں کو ہونا چاہیے تھا لیکن وہاں رومی فوج کا ایک بھی سپاہی نہیں تھا۔کوئی سنتری نہ تھا جو انہیں روکتا۔ شام کے وقت انہوں نے وہاں رومی دستوں کو پڑاؤ ڈالتے دیکھا تھا۔رات ہی رات وہ کہاں چلے گئے؟ کچھ اور آگے جا کر انہیں ایسی نشانیاں ملیں جن سے صاف پتا چلتا تھا کہ فوج نے یہاں قیام کیا تھا۔خالدؓ اس طرف چلے گئے جدھر رومیوں کی فوج کے دوسرے حصے کا پڑاؤ تھا۔خالدؓ کو دور سے ہی پتا چل گیا کہ فوج وہاں موجود ہے۔وہ چھپتے چھپاتے اور آگے چلے گئے۔رومی سنتری گھوم پھر رہے تھے۔خالدؓدشمن کے پڑاؤ کے اردگرد بڑھتے گئے۔ چاندنی میں انہیں دشمن کا کیمپ دکھائی دے رہا تھا۔خالدؓ کو یقین ہو گیا کہ رومیوں کی آدھی فوج کہیں چلی گئی ہے۔خالدؓ بڑی تیزی سے چلتے ابوعبیدہؓ کے پاس چلے گئے اور انہیں بتایا کہ رومیوں کی آدھی فوج لاپتا ہو گئی ہے۔

’’کہاں چلی گئی ہو گی؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’جہاں بھی گئی ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اسے وہیں پہنچانے کیلئے دن میں رومیوں نے لڑائی سے گریز کیا تھا۔‘‘کچھ دیر دونوں سالار اسی پر تبادلہ خیال کرتے رہے،کہ رومیوں کی فوج کا ایک حصہ کہاں غائب ہو گیا ہے
،مؤرخوں کے مطابق یہ سالار تھیوڈورس کے دستے تھے جو چلے گئے تھے۔پیچھے سالار شنس رہ گیا تھا۔اس کے دستوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی۔صبح ہوتے ہی رومی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔ابو عبیدہؓ پہلے ہی تیار تھے۔انہوں نے رومیوں پر حملہ کر دیا۔انہوں نے اپنے دستوں کو حسبِ معمول تین حصوں میں تقسیم کر لیا تھا اور حملہ دشمن کے پہلوؤں پر کیا تھا۔خود انہوں نے دشمن کے قلب پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ جہاں انہیں سالار شنس کا پرچم دکھائی دے رہا تھا۔
مجاہدین نے دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کیا اور ابو عبیدہؓ آگے بڑھے اور شنس کو مقابلے کیلئے للکارا۔شنس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے گیا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ا س کی طرف گئے ۔دونوں سالاروں نے ایک دوسرے پر وار کیااور دونوں کی تلواریں ٹکرائیں۔شنس نے ذرا دور جا کر گھوڑا موڑا لیکن ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا۔فوراً ہی موڑ کر پھر ایڑ لگائی۔شنس ابھی سیدھا بھی نہیں ہوا تھا کہ ابو عبیدہؓ کی تلوار ا س کے کندھے پر پڑی لیکن اس کی زرہ نے اسے بچا لیا۔دونوں کے گھوڑے پھر دوڑتے ایک دسرے کی طرف آئے تو شنس نے وار کرنے کیلئے تلوار اوپرکی۔ابو عبیدہؓ نے برچھی کی طرح وار کر کے تلوار اس کی بغل میں اتاردی۔ذرا ہی آگے جا کر گھوڑے کو موڑا۔شنس کو زخم پریشان کر رہا تھا۔وہ اپنے گھوڑے کو بروقت نہ موڑ سکا۔ابو عبیدہؓ نے اس کی ایک ٹانگ پر بھر پور وار کیا اور ٹانگ کاٹ ڈالی۔شنس گر رہا تھا جب ابو عبیدہ ؓپھر واپس آئے اور شنس کی گردن کو ڈھلکا ہوا دیکھ کر گردن پر وار کیا۔شنس کا پورا سر تو نہ کٹا لیکن الگ ہو کرلٹکنے لگا۔پھر اس کی لاش گھوڑے سے اس طرح گری کہ ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔
ابو عبیدہؓ نے شنس کے گھوڑے کو تلوار کی نوک چبھوئی ۔ گھوڑا بدک کر دوڑ پڑا اور اپنے سوار کی لاش گھسیٹتا پھرا۔ اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہؓ نے اپنے قلب کے دستوں کو دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دے دیا جہاں کھلبلی بپا ہو چکی تھی۔کیونکہ اس کا سالار مارا گیا تھا۔رومی پیچھے ہٹنے لگے لیکن مجاہدین نے ان کے عقب میں جاکر ان کیلئے بھاگ نکلنا مشکل کر دیا۔پھر بھی بہت سے رومی نکل گئے اور حمص کا رخ کرلیا۔یہ معرکہ مارچ ۶۳۵ء (محرم الحرام ۱۴ ھ ) میں لڑا گیا تھا۔اسی صبح دمشق کے باہر بھی خونریزی ہو رہی تھی۔
پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ دمشق مسلمانوں کے قبضے میں تھا لیکن وہاں مسلمان فوج کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ دمشق میں حاکمِ شہر اور سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔ شہنشاہِ ہرقل کا منصوبہ یہ تھا کہ دمشق میں مسلمان فوج کی تعداد کم ہے اس لیے اسے آسانی سے ختم کیا جا سکے گا۔اس نے یہ کام اپنے ایک تجربہ کار سالار تھیو ڈورس کو سونپا تھا۔دمشق کے دفاع کا ایک انتظام یہ بھی تھا کہ دیکھ بھال کیلئے چند آدمی شہر سے دور دور گھومتے پھرتے رہتے تھے۔اس صبح یزیدؓ بن ابی سفیان کو اطلاع ملی کہ رومی فوج آرہی ہے ۔دمشق پر ہر لمحہ حملے کی توقع رہتی تھی، رومی کوئی ایسے گئے گزرے تو نہیں تھے کہ اپنی شہنشاہی کا کھویا ہوا اتنا بڑاشہر واپس لینے کی کوشش نہ کرتے۔ یزیدؓ بن ابی سفیان ہر وقت تیاری کی حالت میں رہتے تھے، انہوں نے رومی فوج کے آنے کی اطلاع ملتے ہی اپنے دستوں کو شہرکے باہر صف آراء ہونے کا حکم دیا۔
💗💖💙💜💛💚❤💚💛💜💙💖


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form