❤ *قسط* *78* ❤
*شمشیر بے نیام*
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کر لڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھا اور انہیں محصور ہونا پسند بھی نہیں تھا۔وہ میدان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن سے بھی لڑ جاتے تھے۔رومی چونکہ جنوب مغرب کی طرف سے آرہے تھے اس لیے یزیدؓ نے اپنے دستے کو اسی سمت جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا، رومی فوج سامنے آئی تو پتا چلا کہ اس کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ان رومی دستوں کا سالار تھیوڈورس تھا۔وہ انطاکیہ سے بیروت کے راستے دمشق کو فتح کرنے آرہا تھا۔جب مرج الروم پہنچا تو ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کی زیرِ قیادت مجاہدین کی فوج آگئی۔اسے دمشق پہنچنا تھا وہ وقت ضائع نہیں کر سکتا تھا۔
مؤرخ واقدی ،ابنِ ہشام اور ابو سعید لکھتے ہیں کہ اس نے بڑی کارگر ترکیب سوچ لی، ایک یہ کہ مسلمانوں کے سامنے مرج الروم میں صف آراء رہا لیکن لڑائی سے گریز کرتا رہا۔ رات ہوگئی تو نہایت خاموشی سے اپنے دستوں کو دمشق لے گیا۔ رومی سالار شنس پیچھے رہ گیا۔اس کے ذمے یہ کام تھا کہ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے دستوں کو یہیں روکے رکھے۔اس مقام سے دمشق بیس میل بھی نہیں تھا۔تھیوڈورس صبح کے وقت دمشق کے مضافات تک پہنچ گیا۔وہ جب دمشق کے قریب گیا تو مسلمانوں کو قلعے کے باہر منتظر پایا۔یہ دمشق کے دفاعی دستے تھے جن کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔ تھیوڈورس کو معلوم تھا کہ دمشق کے دفاع میں مسلمانوں کی یہی نفری ہے جو باہر کھڑی ہے۔اس نے اپنے دستوں کو للکار کر کہا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کچل ڈالو۔دمشق تمہارا ہے۔
’’مجاہدو!‘‘ یزیدؓبن ابی سفیان نے اپنے دستوں سے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔’’دمشق تمہاری آبرو ہے۔ دشمن شہر کی دیوار کے سائے تک بھی نہ پہنچے۔کفر کے طوفان کو شہر سے باہر روک لو۔‘‘یہ جوش و جذبات کی للکار تھی۔جس نے مجاہدین کو گرما دیا،
لیکن حقیقت بڑی تلخ تھی۔کہ دشمن کی تعداد کئی گنا زیادہ اور کمک کی کوئی صورت نہیں تھی۔نہ صرف یہ کہ دمشق ہاتھ سے جارہا تھا بلکہ مجاہدین میں سے کسی کا بھی زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔مجاہدین جہاں بھی لڑے کم تعداد میں لڑے لیکن کمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔رومیوں کی نفری اتنی زیادہ تھی کہ وہ یزیدؓ کے دستوں کو آسانی سے گھیرے میں لے سکتے تھے۔ہرقل نے یہی کچھ سوچ کر وہاں زیادہ نفری بھیجی تھی اور تھیوڈورس اس کا آزمودہ سالار تھا۔تھیوڈورس نے مسلمانوں کو دیکھ کر اپنے دستوں کو روکا نہیں ،ا س نے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ دونوں پہلوؤں کی طرف سے ہوا تھا۔یزیدؓ بن ابی سفیان سمجھ گئے کہ رومی انہیں اندر کی طرف سکڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یزیدؓ بن ابی سفیان نے اپنے دستے کو اور زیادہ پھیلا دیا اور سوار دستے سے کہا کہ وہ دشمن کے پہلوؤں پر جانے کی کوشش کریں لیکن رومی تو سیلاب کی مانند تھے مسلمان جذبے سے حملے روک رہے تھے اور وہ اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔وہ دفاعی لڑائی لڑنے پر مجبور تھے جوابی حملہ نہیں کر سکتے تھے-
رومی شہر کی طرف جانے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔یزیدؓ نے اس کا انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا۔انہوں نے شہر کے ہر دروزے کے سامنے اور کچھ دور تیر انداز کھڑے کر رکھے تھے اور ان کے ساتھ تھوڑی تھوڑی تعداد میں گھوڑ سوار بھی تھے۔ سورج سر کے اوپر آگیا ۔آدھا دن گزر گیا تھا مجاہدین ابھی تک رومیوں کے موج در موج حملے روک رہے تھے اور ان کے نعروں اور للکار میں ابھی جان موجود تھی،اس وقت تک زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے ان کی تعداد مزید کم ہو گئی تھی۔
رومی نفری کی افراط کے باوجود مسلمانوں پر غالب نہیں آسکے تھے لیکن مسلمانوں کے جسم اب جواب دینے لگے تھے۔گھوڑے بھی تھک گئے تھے۔دوپہر کے بعد مجاہدین کو صاف طور پرمحسوس ہونے لگا کہ شکست ان کے بہت قریب آگئی ہے۔وہ پسپائی کے عادی نہیں تھے۔انہوں نے کلمہ طیبہ کا بلند ورد شروع کر دیا اور اس کوشش میں لہو لہان ہونے لگے کہ حملہ روک کر حملہ کریں بھی ۔ان کی تنظیم ٹوٹ گئی تھی اور وہ اب انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔سالار یزیدؓ بن ابی سفیان سپاہی بن چکے تھے ۔وہ اپنے علم بردار اور محافظوں سے کہتے تھے کہ علم نہ گرنے دینا۔بڑی جلدی وہ وقت آگیا جب مجاہدین کو یقین ہو گیا کہ ایک طرف دشمن کی قید اور دوسری طرف موت ہے۔وہ جیتے جی یہ نہیں سننا چاہتے تھے کہ دشمن دمشق پر قابض ہو گیاہے۔
عین اس وقت جب مجاہدین نے زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کیلئے جانوں کی بازی لگا دی تھی ،رومیوں کے عقب میں شور اٹھااور دیکھتے ہی دیکھتے رومیوں میں بھگدڈ مچ گئی۔ دمشق کے دفاع میں لڑنے والوں کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے اور رومیوں پر کیاآفت ٹوٹی ہے۔ان کی تنظیم درہم برہم ہو گئی اور ان کے حملے بھی ختم ہو گئے۔
’’اسلام کے جانثارو !‘‘ یزیدؓ بن ابی سفیان نے بلند آواز سے کہا۔’’ﷲکی مدد آگئی ہے۔ حوصلے بلند رکھو۔‘‘حقیقت یہ تھی کہ یزیدؓ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ رومیوں کے عقب میں کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے رومیوں پر حملے کاحکم دے دیا۔ رومیوں کو حملہ روکنے کا بھی ہوش نہ رہا ۔یزیدؓ بن ابی سفیان پہلو کی طرف نکل گئے۔ محافظ ان کے ساتھ تھے، وہ رومیوں کے عقب میں جار ہے تھے۔ شوروغوغا اس قدر زیادہ تھا کہ اپنی آواز بھی نہیں سنائی دیتی تھی صرف یہ پتا چلتا تھا کہ رومیوں میں بھگدڑ اور افراتفری بپا ہو گئی ہے۔
کچھ اور آگے گئے تو یزیدؓ کے کانوں میں آواز پڑی:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
’’دمشق کے محافظو! ‘‘یزیدؓ بن ابی سفیان گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کرتے ہوئے پیچھے آئے۔’’خدا کی قسم! ابنِ ولید آگیا ہے۔ابو سلیمان پہنچ گیاہے۔ﷲکی مدد پہنچ گئی ہے۔ﷲکو پکارنے والوں! ﷲنے ہماری سن لی ہے۔خداکی قسم !رومی اپنی قبروں پر لڑ رہے ہیں۔فتح حق پرستوں کی ہوگی۔
‘‘ اس دور کی تحریری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یزیدؓ پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی اور ایسی ہی دیوانگی ان کے دستے پر طاری ہو گئی اور ا س کے ساتھ ہی رومیوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔یزیدؓ بن ابی سفیان کیلئے خالدؓ کا آجانا ایک معجزہ تھا۔لیکن خالدؓ اتنی جلدی آ کیسے گئے؟ ہم پھر گزشتہ رات مرج الروم چلے چلتے ہیں جہاں خالدؓ چھپ چھپ کر رومیوں کے کیمپ دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ رومیوں کی فوج کا وہ حصہ جو دن کے وقت ان کے سامنے صف آراء تھا وہاں نہیں ہے۔خالدؓ کو یقین ہو گیاکہ یہ حصہ کہیں چلا گیا ہے۔تو انہوں نے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ سے بات کی۔ خالدؓ دور اندیش تھے انہیں شک ہوا کہ رومیوں کی فوج کا یہ حصہ دمشق کی جانب گیا ہے اور رومیوں کا مقصد صرف یہ ہو سکتا ہے کہ دمشق پر قبضہ کر لیا جائے۔
’’ہرقل معمولی دماغ کا آدمی نہیں۔‘‘ خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔’’اسے معلوم ہو گا کہ دمشق میں ہمای نفری بہت تھوڑی ہے میں اس کے سوااور کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ دمشق خطرے میں ہے۔اگر تو مجھے اجازت دے تو میں دمشق پہنچ جاؤں۔‘‘’’تجھ پر ﷲکی سلامتی ہو ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ میں تجھے اجازت دیتا ہوں اور تجھے ﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔یہ جو رومی پیچھے رہ گئے ہیں، انہیں میں سنبھال لوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔اپنے سوار دستے کو تیار کر کے دمشق کو روانہ ہو گئے۔ راستے میں کئی نشانیاں اور کئی آثا ر انہیں یقین دلاتے رہے کہ اس راستے پر ایک فوج گزری ہے۔
تھیوڑورس آدھی رات سے پہلے مرج الروم سے روانہ ہو گیا۔ خالدؓ رات کے آخری پہر روانہ ہوئے اور دمشق اس وقت پہنچے جب مسلمان ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں کمک کی ذرا سی بھی توقع نہیں تھی۔خالدؓ کو وہاں وہی نظر آیا جو انہوں نے سوچا تھا۔ انہوں نے عقب سے رومیوں پر ہلہ بول دیا۔ خالدؓ کو رومیوں کا پرچم نظر آیا تو اپنے محافظوں کے ساتھ وہاں جا پہنچے۔انہیں تھیوڈورس بوکھلاہٹ کے عالم میں دکھائی دیا۔ اسے دمشق اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا۔وہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور اس کی فوج فتح کے قریب پہنچ کر کٹنے لگی تھی۔
’’میں رومیوں کا قاتل ہوں۔‘‘ خالدؓ نے تھیوڈورس کو للکارا۔ ’’میں وہیں سے آیا ہوں جہاں سے رات کو تو آیا تھا۔‘ ‘تھیوڈورس نے تلوار نکال لی۔دونوں سالاروں کے محافظ الگ ہٹ گئے۔ خالدؓ نے تھیوڈورس کے دو تین وار بے کار کر دیئے اور اس کے اردگرد گھوڑا دوڑاتے رہے۔تھیوڈورس کو بھرپور وار کر نے کیلئے موزوں پوزیشن نہیں مل رہی تھی۔ وہ خالدؓ کے رحم و کرم پر تھا وہ مانا ہوا جنگجو سالار تھا لیکن اس کا مقابلہ ایسے سالار کے ساتھ آپڑا تھا جو ہر لمحہ شکار کی تلاش میں رہتا تھا۔
آخر اس نے بڑے غصے میں خالدؓ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ نے ایک پینترا بدل کر اپنے آپ کو تھیوڈورس کی زد سے دور کر لیا اور دوسرے پینترے میں ایسا وار کیا کہ تھیوڈورس گھوڑے پر بھی دوہرا ہو گیا۔خالدؓ کے دوسرے وار نے اسے ختم کر دیا۔اب رومیوں کے کرنے کا ایک ہی کام رہ گیا تھا کہ بھاگیں اور اپنی جانیں بچائیں۔
وہ رومی خوش قسمت تھے جو زندہ نکل گئے۔ مالِ غنیمت میں زرہ، خودیں ،ہتھیار، اور گھوڑے قابلِ ذکر تھے۔ادھر ابو عبیدہؓ نے دوسرے رومی سالار شنس کو ختم کر دیا تھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کو اس حکم کے ساتھ روانہ کر دیا کہ وہ حمص پہنچ کر وہاں کا محاصرہ کر لیں۔ ابو عبیدہؓ خود ایک اور اہم مقام بعلبک کی طرف روانہ ہو گئے۔ توقع یہ تھی کہ ان دونوں جگہوں کا محاصرہ طول پکڑے گا اور مقابلہ بڑا سخت ہو گا لیکن (مؤرخوں کے مطابق) مسلمانوں کی تلوار کی دہشت وہ کام نہیں کر سکتی تھی جو ان کے حسنِ اخلاق نے کیا۔ مسلمان جدھر جاتے تھے وہاں کے لوگوں میں پہلے ہی مشہور ہو چکا ہوتا تھا کہ مسلمان کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرتے اور وہ انہی شرطوں کے پابند رہتے ہیں جو وہ پیش کرتے ہیں۔اس دور کی فاتح فوجیں سب سے پہلے مفتوح شہر کی خوبصورت عورتوں پر ہلہ بولتی تھیں۔ پھر لوگوں کے گھر لوٹ لیتیں اور گھروں کو آگ لگا دیتی تھیں۔یہ اس زمانے کا رواج تھا اور اسے فاتح فوجوں کا حق سمجھا جاتا تھا لیکن مسلمانوں نے اس رواج کو نہ اپنایا بلکہ نہتے لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ ابو عبیدہؓ بعلبک پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا تو وہاں جو رومی دستہ تھا اس نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔
خالدؓ نے حمص کا محاصرہ کیا تو رومی سالار ہربیس باہر آگیا اور امن کے سمجھوتے کی پیش کش کی۔ابو عبیدہؓ بھی پہنچ چکے تھے ان کے حکم سے رومی سالار سے دس ہزار دینار اور زر بفت کی ایک سو قباؤں کا مطالبہ کیا گیا جو رومی سالار نے قبول کر لیا۔معاہدہ یہ ہوا کہ مسلمان ایک سال تک حمص پر حملہ نہیں کریں گے اور اگر اس دوران روم کی فوج نے اس علاقے میں مسلمانوں کے خلاف کوئی معمولی سی بھی جنگی کارروائی کی تو مسلمان صلح کے معاہدے کو منسوخ سمجھ کر جوابی کارروائی کریں گے۔
اس معاہدے پر دستخط ہوتے ہی شہر کے دروازے کھل گئے اور مسلمان فوج داخل ہوئی۔
مؤرخ ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حمص کے لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ مسلمان دکانوں میں جاتے اور جو چیز لیتے اس کی قیمت ادا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے مجاہدین کو تحفے پیش کیے تو مجاہدین نے ان کی بھی قیمت ادا کی۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان تحفے کو مالِ غنیمت سمجھتے ہیں اور کوئی مسلمان اپنے طورپر کوئی مالِ غنیمت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ صلح کے معاہدے کے بعد اسلام مالِ غنیمت کو جائز نہیں سمجھتا۔ایسے مقامات بھی آئے جہاں کے لوگوں نے مسلمان فوج کا باقاعدہ استقبال کیا، مثلاً نومبر ۶۳۵ ء (رمضان ۱۴ ھ) مسلمان فوج حمص سے حما گئی تو شہری باہر آگئے اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ۔معرۃ النعمان کے شہریوں نے مسلمانوں کا استقبال اس طرح کیا کہ پہلے سازندے ساز بجاتے اور خوشی کے گیت گاتے باہر آئے۔ان کے پیچھے معززین آئے اور جزیہ پیش کرکے شہر ابو عبیدہؓ کے حوالے کر دیا۔اس کے بعد ان قصبوں اور شہروں کے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔’
’مسلمان ہمارے جال میں آگئے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا۔’’میں سردیوں کے انتظار میں تھا۔ عرب کے یہ مسلمان اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں اور اونٹنی کا ہی دودھ پیتے ہیں۔ ریگستان کے ان باشندوں نے کبھی اتنی سردی نہیں دیکھی۔یہ سردی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس ملک کی سردی ان کے جوش اور جذبے کو منجمند کر دے گی۔پھر موسم سرما ختم ہونے تک مسلمان ختم ہو جائیں گے۔ہم انہیں بڑی آسانی سے شکست دیں گے۔ ان کے خیمے انہیں سردی سے نہیں بچا سکیں گے۔‘‘ ہرقل نے حکم دیا کہ حمص سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیاجائے۔
کچھ دنوں بعد ابو عبیدہؓ کو اطلاع ملی کہ رومیوں کی کمک حمص پہنچ گئی ہے۔ رومیوں کی اس کارروائی کے بعد حمص کا معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓکہیں اور تھے اور اطلا ع ملتے ہی وہ اپنے دستوں کو ساتھ لے کر حمص جا پہنچے۔ خالدؓ پہلے پہنچے تھے وہ حمص کے قریب گئے تو باہر رومی فوج لڑنے کیلئے تیار کھڑی تھی۔خالدؓ نے اس فوج پر حملہ کر دیا۔ رومی پیچھے ہٹتے گئے اور قلعے میں داخل ہو کر انہوں نے دروازے بند کردیئے۔اس کے فوراً بعد ابو عبیدہؓ بھی اپنے دستوں کے ساتھ آن پہنچے۔
’’ابو سلیان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا ۔’’یہ محاصرہ تیرا ہے اور تو اس کا سالار ہے۔‘‘ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ابوعبیدہؓ نے خالدؓ کو دیا۔خلیفۃ المسلمین عمرؓ کے احکام کے مطابق سالارِ اعلیٰ ابوعبیدہؓ ہی تھے-
یہ دسمبر کا مہینہ تھا، سردی کا عروج شروع ہو چکا تھا ۔مسلمان اتنی زیادہ سردی کے عادی نہیں تھے۔ ان پر سردی بڑا برا اثر کر رہی تھی۔یہ سب سے بڑی وجہ تھی کہ محاصرہ طول پکڑتا گیا اس دوران خلیفۃ المسلمینؓ کا حکم آگیا اس کے تحت کچھ دستے عراق کو بھیجنے تھے۔ یہ دستے چلے گئے تو رومی سمجھے کہ مسلمان محاصرہ اٹھا رہے ہیں۔لیکن ایسا نہ ہوا۔رومی یہی توقع لیے قلعے میں بیٹھے رہے کہ مسلمان محاصرہ اٹھا لیں گے۔مارچ ۶۳۶ ء کا مہینہ آگیا۔سردی کی شدت ختم ہو چکی تھی۔رومی سالار ہربیس روم کے شاہی خاندان کا آدمی تھا۔ اسے کسی کے حکم کی ضرورت نہیں تھی۔
اس نے اپنے نائب سالاروں اور کمانداروں سے کہا کہ سردی کا موسم گزر گیا ہے پیشتر ا س کے کہ مسلمانوں کو کمک مل جائے اور یہ سردی سے بھی سنبھل جائیں ان پر حملہ کر دیا جائے۔چنانچہ ایک روز شہر کا ایک دروازہ کھلا اور پانچ ہزار نفری کی رومی فوج نے باہر آکر مسلمانوں کے اس دستے پر حملہ کر دیا جو اس دروازے کے سامنے موجود تھا۔حملہ بڑا تیز اور شدید تھا، مسلمان اس حملے کیلئے پوری طرح تیار نہیں تھے۔ا س کے علاوہ ان پر سردی کا بھی اثر تھا اس لئے وہ مقابلے میں جم نہ سکے۔پیچھے ہٹ کر وہ منظم ہوئے اور آگے بڑھے۔لیکن رومیوں کے دوسرے حملے نے انہیں پھر بکھیر دیا۔
’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا ۔’’کیا تو دیکھتا رہے گا کہ رومی فتح یاب ہو کر واپس قلعے میں چلے جائیں۔ ‘‘خالدؓ تماشہ دیکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔لیکن وہ اس دروازے کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتے تھے جس کے سامنے وہ موجود تھے۔پھر بھی انہوں نے اپنا سوار دستہ ساتھ لیا اور رومیوں پر حملہ کر دیا رومیوں نے جم کر مقابلہ کیا اور سورج غروب ہو گیا۔رومی قلعے میں چلے گئے ان کی بہت سی لاشیں او ر شدید زخمی پیچھے رہ گئے۔دوسرے دن ابوعبیدہؓ نے سالاروں کو بلایا۔’’کیا تم نے خود محسوس نہیں کیا کہ کل رومیوں نے باہر آکر حملہ کیا تو ہمارے آدمی بے دلی سے لڑے؟ ‘‘ابو عبیدہؓ نے شکایت کے لہجے میں کہا۔’’کیا ہم میں ایمان کی حرارت کم ہو گئی ہے؟ سردی سے صرف جسم ٹھنڈے ہوتے ہیں۔‘‘
’’سالارِ اعلیٰ !‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ہارے آدمی بے دلی سے نہیں لڑے دراصل جن رومیوں نے حملہ کیا تھا وہ ان رومیوں سے زیادہ جرات و ہمت والے تھے جن سے ہم اب تک لڑتے رہے ہیں۔‘‘’’پھر تو ہی بتا ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’ہمیں اتنے لمبے محاصرے میں یہیں بیٹھے رہنا چاہیے؟‘
‘’’نہیں ابو عبیدہ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’کل صبح ہم محاصرہ اٹھالیں گے۔‘‘دوسرے سالاروں نے حیرت سے خالدؓکی طرف دیکھا۔ ’’ہاں میرے دوستو!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ کل ہم یہاں نہیں ہوں گے اور میری تجویز غور سے سن لو۔‘‘ خالدؓنے انہیں محاصرہ اٹھانے کے متعلق کچھ ہدایات دیں۔ اگلی صبح شہر کی دیوار کے اوپر سے آوازیں آنے لگیں ۔ ’’وہ جا رہے ہیں۔ محاصرہ اٹھ گیا ہے۔ وہ دیکھو مسلمان جا رہے ہیں۔‘‘ سالار ہربیس کو اطلاع ملی تو وہ دوڑتا ہوا دیوار پر آیا اس کے ساتھ بڑا پادری تھا۔
’’سردی نے اپنا کام کر دیا ہے۔‘‘ ہربیس نے کہا۔’’ ان میں لڑنے کی ہمت نہیں رہی۔ میں انہیں زندہ نہیں جانے دوں گا۔ ان کے تعاقب میں جاؤں گا انہیں ختم کر کے آؤں گا۔‘‘
’’محترم سالار!‘‘ پادری نے کہا۔’’ مجھے یہ مسلمانوں کی چال لگتی ہے۔ یہ منہ موڑنے والی قوم نہیں۔ وہ دیکھو۔ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو یہیں چھوڑ گئے ہیں۔‘‘ ’’میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ ہربیس نے کہا۔’’ اپنی بیویوں اور بچوں کو وہ ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ان کی حفاظت کیلئے انہوں نے بہت کم سپاہی پیچھے چھوڑے ہیں، وہ ساما ن باندھ رہے ہیں۔ لیکن انہیں ہم جانے نہیں دیں گے۔ میں پہلے ان کے تعاقب میں جاؤں گا جو حوصلہ ہار کر چلے گئے ہیں۔‘
‘ ہربیس نے فوراً پانچ ہزار سوار تیار کیے، اور ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے دستوں کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ انہوں نے دو اڑھائی میل فاصلہ طے کر لیا تھا۔ جب رومی ان تک پہنچ گئے۔ جونہی ہربیس اپنے دستے کے ساتھ مسلمانوں کے قریب پہنچا۔ مسلمان اچانک دو حصوں میں بٹ گئے۔خالدؓ نے گزشتہ روز سالاروں کو یہی بتایا تھا کہ رومی ان کے تعاقب میں ضرور آئیں گے اور انہیں گھیرے میں لے کر ختم کرنا ہے۔اس کے مطابق مسلمان چلتے چلتے دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک حصہ دائیں کو ہو کر پیچھے کو مڑا، اور دوسرا بائیں طرف ہو کر گھوم گیا۔رومی ایسی صورتِ حال کیلئے تیار نہیں تھے وہ بوکھلا گئے۔ مسلمانوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا، اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کیلئے کچھ مجاہدین کو پیچھے چھوڑ آنا بھی اسی دھوکے کا ایک حصہ تھا۔ رومی پیچھے کو بھاگے تو یہی مجاہدین جو عورتوں اور بچوں کے ساتھ تھے، رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔ پھر انہوں نے رومیوں کی پسپائی کا راستہ روک لیا۔ایک اور سالار معاذؓ بن جبل خالدؓ کی پہلے سے دی ہوئی ہدایات کے مطابق پانچ سو سوار ساتھی لے کر حمص کے راستے میں آگئے تاکہ کوئی رومی شہر کی طرف نہ آسکے۔رومی اتنی جلدی بھاگنے والے نہیں تھے لیکن وہ مجاہدین کے پھندے میں آگئے تھے۔ وہ تازہ دم تھے۔ کچھ اپنی روایات کے مطابق کچھ اپنی جانیں بچانے کیلئے وہ بے جگری سے لڑ رہے تھے۔خالد ؓان کے سالار ہربیس کو ڈھونڈ رہے تھے ، ان کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ، ان کے راستے میں جو آتا تھا کٹتا جاتا تھا ، آخر وہ انہیں نظر آگیا۔
’’میں ہوں ابنِ ولید!‘‘ خالدؓ نے للکار کر کہا۔’’فارسیوں کا قاتل ابن الولید…… رومیوں کا قاتل ابن الولید ــــــــ
🇵🇰❤🇵🇰❤🇵
Tags
Shamsheer e Bayniyam