❤ *قسط 79* ❤
*شمشیر بے نیام*
ہربیس نامی گرامی جنگجو تھا۔وہ خالدؓکے مقابلے کیلئے بڑھا لیکن گھوڑے سے اتر آیا۔خالدؓ بھی گھوڑے سے اترے اور اس کی طرف بڑھے لیکن ایک رومی دونوں کے درمیان آگیا۔تین چار مؤرخوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے لیکن اس رومی کا نام نہیں لکھا، اتنا ہی لکھا ہے کہ اس کا جسم پہلوانوں جیسا تھا اور وہ شیرکی طرح گرج کر لڑا کرتا تھا، رومی زبان میں وہ ’’شیر کی مانند دہاڑنے والے‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔تاریخ میں یہ واقعہ اس طرح آیا ہے کہ اک رومی اپنے سالار ہربیس کو پیچھے ہٹا کر خالدؓ کے مقابلے میں آیا۔دو تین پینترے دونوں نے بدلے اور خالدؓنے تلوار کا وار کیا، تلوار رومی کی آہنی خودپر پڑی۔ خود اتنی مضبوط اور وار اتنا زوردار تھا کہ خالدؓ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ ان کے ہاتھ صرف دستہ رہ گیا۔ اب خالدؓ خالی ہاتھ تھے اور رومی پہلوان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ خالدؓ اپنے محافظوں کی طرف آنے کی کوشش کرتے تھے کہ ان سے تلوار لے لیں مگر رومی درندوں کی طرح غراتا، دھاڑتا اور خالدؓ کے آگے ہو جاتا تھا تاکہ وہ دوسری تلوار نہ لے سکیں۔ایک محافظ نے خالدؓ کی طرف تلوار پھینکی لیکن خالدؓ سے پہلے رومی تلوار تک پہنچ گیا اور تلوار پرے پھینک دی۔ خالدؓ کا بچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ رومی نے ان پر تابڑ توڑ وار کرنے شروع کر دیئے ۔ خالدؓ اِدھر اُدھر ہو کر وار بچاتے رہے۔ رومی نے ایک وار دائیں سے بائیں کو کیا جسے خالدؓ کی گردن یا اس سے ذرا نیچے پڑنا چاہیے تھالیکن خالدؓ بڑی پھرتی سے بیٹھ گئے۔رومی کا یہ زور دار وار خالی گیا تو اپنے ہی زور سے وہ گھوم گیا۔ خالدؓ اچھل کر اس پر جھپٹے۔ رومی پلک جھپکتے پھر گھوم گیا اور خالدؓ کے بازوؤں کے شکنجے میں آگیا۔ اب صورت یہ تھی کہ دونوں کے سینے ملے ہوئے تھے اور رومی خالدؓ کے بازوؤں میں تھا۔خالدؓ نے بازوؤں کو دبانا اور شکنجہ سخت کرنا شروع کر دیا۔ رومی خالدؓکی گرفت سے نکلنے کے لیے زور لگا رہا تھا لیکن خالدؓ کی گرفت سخت ہوتی جا رہی تھی، اور وہ اس قدر زور لگا رہے تھے کہ خون ان کے چہرے میں آگیا، اور چہرا گہرا لال ہو گیا۔رومی پہلوان کی آنکھیں باہر کو آنے لگیں۔ اس کی سانسیں رکنے لگیں اور چہرے پر تکلیف کا ایسا تاثر تھا کہ اس کے دانت بجنے لگے۔
مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ رومی پہلوان کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں۔ رومی اور زیادہ تڑپنے لگا۔ خالدؓ اور زیادہ زور سے اپنے بازوؤں کے شکنجے کو تنگ کرتے گئے۔ رومی کی پسلیاں ٹوٹتی گئیں اور اس کا تڑپنا ختم ہو گیا حتیٰ کہ اس کا جسم بے جان ہو گیا۔خالدؓ نے اسے چھوڑا تو وہ گر پڑا۔ وہ مر چکا تھا۔ خالدؓ نے اس رومی کی تلوار اٹھا لی اور ہربیس کو للکارا لیکن ہر بیس اپنے پہلوان کا انجام دیکھ کر وہاں سے کھسک گیا، خالدؓ نے گھوڑے پر سوار ہو کر رومی پہلوان کی تلوار بلند کرکے لہرائی اور نعرہ لگایا۔اس مقابلے کے دوران رومیوں کا قتلِ عام جاری رہا۔ ابو عبیدہؓ کو پتا چلا کہ خالدؓنے اس رومی پہلوان کو کس طرح ہلاک کیا ہے تو وہ دوڑے آئے۔’’خدا کی قسم ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے بڑے مسرور لہجے میں کہا۔ ’’تو نے جو کہا تھا کر دکھایا ہے۔ تو نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔‘‘یہ بات اس طرح ہوئی تھی کہ خالدؓ نے جب گذشتہ روز محاصرہ اٹھا کر واپس جانے کی تجویز پیش کی تھی تو ابو عبیدہؓ اور دوسرے سالاروں نے اس تجویز کو پسند نہیں کیا تھا۔
خالدؓنے انہیں بتایا کہ انہوں نے کیا سوچا ہے ، پھر بھی ابو عبیدہؓ محاصرہ اٹھانے کے حق میں نہیں تھے ۔ تب خالدؓ نے کہا تھا۔’’ میری تجویز پر عمل کریں ، میں ان کی ہڈیاں توڑ دوں گا۔ ان کی کمر توڑ دوں گا۔‘‘خالدؓ نے صرف ایک پہلوان کی نہیں بلکہ رومی فوج کی ہڈیاں توڑ دی تھیں۔مارچ ۶۳۶ء
(صفر ۱۵ھ) مسلمان فاتح کی حیثیت سے حمص میں داخل ہوئے۔حمص پر خوف وہراس طاری تھا۔ وہ اس وقت بھگدڑ اور نفسانفسی کی صورت اختیار کر گیا جب مسلمان حمص میں داخل ہوئے تھے۔انہوں نے سنا تو یہی تھا کہ مسلمان شہریوں کو پریشان نہیں کرتے ہیں لیکن جس شہر کی فوج ہتھیار نہ ڈالے اور مسلمان بزور شمشیر شہر کو فتح کریں تو وہ ہر گھر سے مال و اموال اٹھا لیتے ہیں اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتے ہیں۔مسلمانوں نے حمص تو بڑی ہی مشکل سے فتح کیا تھا۔ رومیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے بلکہ مسلمانوں نے محاصرہ اٹھایا تو پانچ ہزار سوار رومی ان کے تعاقب میں گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ محاصرہ اٹھانا مسلمانوں کی چال تھی لیکن رومیوں نے اسے ان کی کمزوری سمجھ کر ان پر حملہ کیا تھا۔ اس معرکے میں رومیوں کے صرف ایک سو سوار زندہ بچے تھے اور مسلمان جو شہید ہوئے ان کی تعداد ۲۳۵ تھی۔اتنی خونریز لڑائی لڑ کر مسلمانوں نے حمص کو فتح کیا تھا ۔حمص والوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے وہ پانچ ہزار سوار مسلمانوں کے تعاقب میں گئے تھے ان میں سے بہت تھوڑے بھاگتے ہوئے واپس آرہے ہیں تو ان پر خوف و ہراس طاری ہو گیا تھا اور جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک سوار دستہ رومیوں اور حمص کے دروازوں کے درمیان آگیا ہے اور رومی سوار نہ بھاگ سکتے ہیں نہ شہر میں داخل ہو سکتے ہیں تو وہ اور زیادہ خوفزدہ ہو گئے۔ شہر میں اتنی فوج نہیں رہ گئی تھی جو ان کی مدد کو پہنچتی۔ یہ سوار مسلمان سواروں کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ گئے۔ابو عبیدہؓ اور خالدؓ جب حمص میں داخل ہوئے تو چند ایک شہری ان کے استقبال کیلئے کھڑے تھے ۔ دونوں مسلمان سالاروں کو دیکھ کر وہ سجدے میں گر پڑے۔ دونوں سالاروں نے گھوڑے روک لیے۔’’ اٹھو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے گرجدار آواز میں کہا۔’’کھڑے ہو جاؤ۔‘‘وہ سب سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
ان سب کے چہروں پر خوف و ہراس اور رحم طلبی کا گہرا تاثر تھا۔’’بولو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’ اگر تمہاری فوج ہمارے کہنے پر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتی تو تمہیں ہمارے آگے سجدہ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔‘‘’’ہم رحم کے طلب گار ہیں!‘‘ ایک نے التجا کی۔’’ وہ رومی فوج تھی جو آپ سے لڑی ہے، ہم رومی نہیں۔ ہم آپ کا ہر مطالبہ پورا کریں گے۔‘‘
’’ہم صرف یہ بتانے کیلئے آئے ہیں کہ سجدہ صرف ﷲ کے آگے کیا جاتا ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ ہم کسی کو اپنا غلام بنانے نہیں آئے ہیں۔‘‘ابو عبیدہؓ کے حکم سے حمص کے لوگوں سے صرف ایک دینار فی کس جزیہ لیا گیا اور مسلمانوں کی طرف سے اعلان ہوا کہ کوئی شخص شہر چھوڑ کر نہ جائے، شہر کے لوگوں کے جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔اس اعلان نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ بعض اسے مسلمانوں کی ایک چال سمجھے۔ وہ رات بھر اس خوف سے جاگتے رہے کہ مسلمان رات کو ان کے گھروں پر ٹوٹ پڑیں گے لیکن رات گزر گئی اور کچھ بھی نہیں ہوا۔
رومی شہنشاہ ہرقل حمص سے تقریباً اسّی میل دور انطاکیہ میں تھا۔اسے جب خبر ملی کہ حمص بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اس کے ہونٹوں پرہلکا سا تبسم آگیا جیسے وہ اسی خبر کا منتظر تھا۔ اس کے سالار مشیر اور شاہی خاندان کے افراد یہ جانتے تھے کہ ہرقل کا یہ تبسم موت کی مسکراہٹ ہے اور اس تبسم میں قہر بھرا ہوا ہے۔
’’کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ عرب کے ان مسلمانوں نے حمص کس طرح لیا ہے؟‘‘ ہرقل نے خبر لانے والے سے پوچھا۔’’ تم سالار تو نہیں، کماندار ہو، جنگ کو سمجھتے ہو گے……تمہارا نام کیا ہے؟‘‘’’سب سمجھتا ہوں قیصرِ روم!‘‘ خبر لانے والے نے کہا۔’’ میرا نام سازیرس ہے، ایک جیش کا کماندار ہوں…… حمص اک دھوکے نے ہم سے چھینا ہے۔ ہمارے سالاروں کو توقع تھی کہ مسلمان اتنی سردی برداشت نہیں کر سکیں گے اور محاصرہ اٹھا کر چلے جائیں گے، انہوں نے سردی کی شدت محاصرے میں گزار دی اور محاصرہ اس وقت اٹھا کر چلے گئے جب سردی کی شدت گزر گئی تھی اور درختوں کی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔‘‘’’اور ہمارے سالار اس وقت قلعے میں بیٹھے رہے، جب دشمن باہر سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’ ہمارے سالار دشمن پر اس وقت نہ جھپٹے جب سردی نے ان کی رگوں میں خون منجمند کر دیا تھا……
پھر کیا ہوا؟
‘‘’’قیصرِ روم!‘‘ سازیرس نے کہا۔’’ جب وہ کوچ کر گئے تو سالار ہربیس نے پانچ ہزار سواروں کے ایک دستے کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے تعاقب میں جاؤ اور ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ رہے …… ہم ان کے تعاقب میں گئے ۔جب ہم ان کے قریب گئے تو انہوں نے پلٹ کر ہمیں گھیرے میں لے لیا۔‘‘ سازیرس نے ہرقل کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں نے انہیں کس طرح گھیرے میں لیا اور ان کے سواروں کو تباہ و برباد کر دیا۔’’ہمارا سالار ہربیس کہاں ہے؟ ‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’……کیا وہ……‘‘’’وہ زندہ ہیں۔‘‘ سازیرس نے کہا۔’’ وہ اس وقت وہاں سے نکل گئے تھے جب مسلمانوں کے سالار خالدبن ولید نے ہمارے ایک پہلوان کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا تھا اور پہلوان کی آنکھیں باہر آگئی تھیں۔‘‘’’
کیا ہمارے پہلوان کو خالد بن ولید نے مار ڈالا ہے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔سازیرس کچھ دیر ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا، پھر اس نے دائیں بائیں آہستہ آہستہ سر ہلایا۔’’مسلمان سالار نے ہمارے پہلوان کو بازوؤں میں دبوچ کر اس کی پسلیاں توڑ ڈالی تھیں۔‘‘ سازیرس نے کہا۔’’ اور وہ مر گیا
‘‘’’آفرین!‘‘ہرقل کے ہونٹوں سے سرگوشی پھسل گئی۔’’یہ طاقت جسم کی نہیں۔ ‘‘وہ اچانک جیسے بیدار ہو گیا ہو۔ اس نے جاندار آواز میں کہا۔ ’’میں ا نہیں کچل دوں گا…… انہیں آگے آنے دو۔ ‘‘اس کی آواز اور زیادہ بلند ہو گئی۔ ’’انہیں اور آگے آنے دو…… اور آگے جہاں سے وہ بھاگ نہیں سکیں گے۔
‘‘سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اور آگے چلے گئے تھے، انہوں نے حمص کے انتظامات کیے۔ کچھ نفری وہاں چھوڑ دی تھی۔ حمص سے وہ اپنے دستوں کے ساتھ حمص سے آگے حما پھر اس سے آگے شیرز تک جا پہنچے تھے۔ وہاں سے انطاکیہ کا فاصلہ پینتیس چالیس میل کے درمیان تھا۔ انطاکیہ اہم ترین مقام تھا کیونکہ اسے ہرقل نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا یا تھا، اور وہیں رومیوں کی فوج کا اجتماع اور فوج کی تقسیم ہوتی تھی۔مسلمانوں نے شیرز سے کوچ کیا، تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ رومیوں کا ایک قافلہ سا آتا نظر آیا۔ اس کی حفاظت کیلئے رومی فوجیوں کا ایک چھوٹا سا دستہ تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اونٹوں اور گاڑیوں کے اس قافلے میں فوجی سامان جا رہا ہے۔ خالدؓ کے اشارے پر مجاہدین نے قافلے کو گھیرے میں لے لیا۔ رومی فوجیوں نے مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فوج کے کھانے پینے کا سامان ہے۔ اس میں ہتھیار بھی تھے۔ ان سب کو پکڑ لیا گیا اور انہیں یہ تاثر دیا گیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔
’’ہم نے آپ کا مقابلہ نہیں کیا۔‘‘ اس رومی فوجی قافلے کے کماندار نے جان بخشی کی التجا کرتے ہوئے کہا۔’’ ہم رومی نہیں، ہم تو رعایا ہیں۔ہماری آپ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔‘‘’’پھر دوستی کا ثبوت دو۔‘‘انہیں کہا گیا۔’’یہ بتا دو کہ انطاکیہ میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘’’آپ کی تباہی کا سامان تیار ہو رہا ہے۔‘‘ قافلے کے کماندار نے جواب دیا۔’’ وہاں بہت بڑی فوج اکٹھی کی جا رہی ہے۔ دور دور سے عیسائی قبیلے آپ کے مخالف لڑنے کیلئے جمع ہو رہے ہیں اور انہیں میدانِ جنگ میں لڑنے کے ڈھنگ سکھائے جا رہے ہیں۔‘
‘’’آپ نے ہماری جانیں ہمیں واپس کر دی ہیں تو ہم آپ کی جانیں بچاتے ہیں۔ ‘‘قافلے کے ایک اور آدمی نے کہا۔’’ آپ آگے نہ جائیں۔ آپ کی نفری بہت تھوڑی ہے اور انطاکیہ میں شہنشاہ ہرقل جو فوج اکٹھی کر چکا ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ آپ کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں رہے گا۔‘‘’
’کیا اتنی زیادہ شکستوں نے اس کی کمر ابھی توڑی نہیں؟ ‘‘مسلمانوں کے ایک سالار نے پوچھا۔’’ہم اتنے بڑے لوگ نہیں کہ شہنشاہ تک رسائی حاصل کر سکیں۔‘‘ رومیوں کے کماندار نے کہا۔’’ہم اس کے ساتھ بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتے لیکن اپنے سالاروں سے جو پتا چلتا ہے وہ آپ کو بتاتے ہیں
…… ہرقل کی کمر اتنی کمزور نہیں کہ چند ایک شکستوں سے ٹوٹ جائے۔ اس نے اپنا دماغ اپنے ہاتھ میں رکھا ہو اہے۔ اسے فتح حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے اوپر اس کا نشہ طاری نہیں ہونے دیتا اور شکست سے وہ مایوس نہیں ہواکرتا۔ وہ جو حسین ترین اور نوجوان لڑکیوں اور شراب کا رسیا ہے، اب شراب تو پیتا ہو گا لیکن اپنی پسندیدہ لڑکیوں کو بھی اپنے سامنے نہیں آنے دیتا۔‘‘’’وہ تو شاید راتوں کو سوتا بھی نہیں ہوگا۔‘
‘ دوسرے نے کہا۔’’اس پر ایک جنون سا سوار ہے۔ فوج اکٹھی کرو۔ اس کے آدمی بستی بستی جا کر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ مسلمان طوفان کی طرح آرہے ہیں اور وہ تمہارے مذہب کو اور تہاری عورتوں کو اپنے ساتھ اڑا لے جائیں گے …… لوگ قبیلہ در قبیلہ مذہب کے نام پر اور اپنی عورتوں کو مسلمانوں سے بچانے کی خاطر انطاکیہ میں آرہے ہیں۔ آپ نے آگے جانا ہے تو زیادہ فوج لے کر آئیں ورنہ رک جائیں……
🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🌟🌟
Tags
Shamsheer e Bayniyam