❤ *قسط80* ❤
*شمشیر بے نیام* 🏇
اب شہنشاہ ہرقل زیادہ وقت نئی فوج کی تنظیم اور تربیت میں گزارتا ہے اور کہتا ہے کہ مسلمانوں کو آگے آنے دو۔انہیں اور آگے آنے دو۔‘‘
’’اس نے یہ بھی کہا ہے ۔‘‘ ایک اور بولا۔’’ اب میری فوج کی پسپائی میرے دل کو مضبوط کرتی ہے۔ میری فوج کی ہر پسپائی عرب کے ان مسلمانوں کو میرے جال میں لا رہی ہے۔‘‘اس قافلے سے جو صورتِ حال ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو معلوم ہوئی وہ غلط نہیں تھی ۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ہرقل روائتی شہنشاہ نہیں تھا۔ وہ اپنے وقت کا فنِ حرب و ضرب کا ماہر جنگجو تھا اور وہ میدانِ جنگ کا شاطر جرنیل تھا۔
ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو ان اطلاعات نے جو انہیں اس قافلے سے ملیں ، وہیں رکنے پرمجبور کر دیا۔ ’’خدا کی قسم امین الامت!‘‘ خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔ ’’ہم یہاں بیٹھے نہیں رہیں گے اور ہم ہرقل کو اتنی مہلت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی تیاریاں مکمل کرلے۔‘‘
’’آج رات تک اپنے کسی آدمی کو آجانا چاہیے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابو سلیمان! جب تک آگے کی مصدقہ صورتِ حال معلوم نہیں ہو جاتی ہم آگے نہیں جائیں گے۔‘‘اپنے کسی آدمی سے مراد وہ جاسوس تھے جو انطاکیہ تک پہنچے ہوئے تھے۔ خالدؓ نے اپنی سپہ سالاری کے دور میں جاسوسی کے نظام کو باقاعدہ اور منظم کر دیاتھا اور جاسوسوں کو دور دور تک پھیلا دیا تھا۔
مسلمان جاسوس جان کی بازی لگا کر بڑی قیمتی معلومات لے آتے تھے۔مؤرخوں کے مطابق، ہرقل نے اپنی فوج کی پے در پے شکستوں کی خبریں سن سن کر اس حقیقت کو قبول کر لیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بکھری ہوئی لڑائیوں میں شکست نہیں دے سکتا۔ایک شکستیں تو وہ تھیں جو رومی فوج کو خالدؓ پھر ابو عبیدہؓ نے دی تھیں، اور دوسری وہ تھیں جو دوسرے سالار شا م کے دوسرے علاقوں میں رومیوں کو دیتے چلے آرہے تھے۔
مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ انہیں کسی ایک میدان میں اکٹھا ہونے پر مجبور کیا جائے اور ان کے مخالف ان سے کئی گنا زیادہ فوج میدان میں اتاری جائے۔ چنانچہ اس نے نئی اور بہت بڑی فوج تیار کرنی شروع کر دی تھی۔ مسلمانوں نے جب حمص پرقبضہ کیا اس وقت تک اس کی نئی فوج کی نفری ڈیڑھ لاکھ ہو چکی تھی۔ انطاکیہ سے چالیس میل دور ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ رکے ہوئے تھے۔ اس کے دو روز بعد جب انہوں نے رومیوں کا قافلہ پکڑا تھا، مسلمان مغرب کی نماز کی تیاری کر رہے تھے کہ اک گھوڑ سوار پڑاؤ کی طرف آتا دکھائی دیا۔ اتنی دور سے پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ رومیوں کا کوئی فوجی سوار ہے یا کوئی مسافر ہے۔ پڑاؤ سے کچھ دور اس نے گھوڑا موڑ لیا اور پڑاؤ کے اردگرد گھوڑا دوڑانے لگا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کا لباس مسلمانوں جیسا نہیں تھا۔
’’پکڑ لاؤ اسے!‘‘ کسی کماندار نے اپنے سواروں کو حکم دیا۔ سوار ابھی گھوڑوں پر زینیں ڈال رہے تھے کہ اس اجنبی سوار نے گھوڑا پڑاؤ کی طرف موڑ دیا۔ ’’ﷲ اکبر! اس نے نعرہ لگایا اور قریب آکر اس نے بڑی بلند آواز میں کہا۔’’میں اپنے پرچم کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘ ’’ابنِ احدی!‘‘ کسی نے کہا اور چند ایک مجاہدین اس کی طرف دوڑے۔ ایک نے کہا۔’’ خدا کی قسم! ہم اب بھی تجھے رومی فوج سمجھ رہے ہیں۔‘‘’’کیا یہ لباس اس رومی کا ہے جسے تو نے قتل کیا ہوگا؟‘‘ ایک نے پوچھا۔ابنِ احدی کسی کو بتا نہیں سکتا تھا۔ کہ وہ جاسوس ہے اور انطاکیہ سے آیا ہے۔ وہ ابو عبیدہؓ کے خیمے میں چلا گیا۔ وہ ان تین چار جاسوسوں میں سے ایک تھا جو ڈیڑھ دو مہینوں سے انطاکیہ گئے ہوئے تھے۔ ’’تجھ پر ﷲ کی سلامتی ہو ابنِ احدی!‘‘ ابو عبیدہؓ نے اسے گلے لگا کر کہا ۔’’ہم انطاکیہ کی خبر کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔‘‘ ابنِ احدی نے خالدؓکے ساتھ مصافحہ کیا۔خالدؓ نے بھی اسے گلے لگا لیا۔ ’’
کیا خبر لائے ہو؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔’’سیاہ کالی گھٹا ہے جو انطاکیہ کے افق سے اٹھ رہی ہے۔‘‘ ابنِ احدی نے عربوں کے مخصوص شاعرانہ انداز میں کہا۔’’ اس گھٹا سے جو مینہ برسے گا وہ زمین پر سیلاب بن کر چٹانوں کو بھی بہا لے جائے گا۔ امین الامت اور ابن الولید! ﷲ نے تمہیں اشارہ دیا ہے کہ آگے نہ جانا۔‘‘ ’’ہمیں یہ اشارہ دشمن کے ایک قافلے نے دیا ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’یہ رومیوں کا فوجی قافلہ ہے جسے ہم نے پکڑ لیا ہے۔‘‘ ’’اسے ﷲکا بھیجا ہوا قافلہ سمجھ امین الامت!‘‘ ابنِ احدی نے کہا۔’’ اب پوری بات مجھ سے سن۔ انطاکیہ کے اندر اور باہر لشکر کے سپاہیوں اور گھوڑوں کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ انطاکیہ کے گردونواح میں دور دور تک خیموں کا جنگل ہے۔ جو بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ہرقل نے جو منصوبہ بنایا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔‘‘ ’’کیا تیری خبر مصدقہ ہو سکتی ہے؟‘‘
خالدؓ نے پوچھا۔’’میں ہرقل کی فوج کے ایک ٹولے کا کماندار ہوں ابو سلیمان!‘‘ ابنِ احدی نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ رومیوں کی اس وقت یہ حالت ہے کہ جو کوئی انطاکیہ کے دروازے پر جا کر کہے کہ فوج میں بھرتی ہونے آیا ہوں تو اس کیلئے شہر کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔‘‘ ابنِ احدی جس طرح انطاکیہ کی فوج میں شامل ہوا تھا اس کی اس نے تفصیلات بتائیں۔
وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ عیسائی عرب بن کر انطاکیہ گیا تھا۔ انہیں اسی وقت فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ اس روز گھوڑ دوڑ کے میدان میں شہسواری، تیغ زنی اور دوڑتے گھوڑے سے تیر نشانے پر چلانے کے مقابلے ہورہے تھے ان میں ہر کوئی شامل ہو سکتا تھا۔ ابنِ احدی اپنی فوج کا مشہور شہسوار تھا اور بڑا ہی خوبصورت جوان۔ وہ مقابلے میں اس طرح شریک ہوا کہ میدان میں جا کر گھوڑا چکر میں دوڑایا اور تلوار نکال کر تیغ زن سواروں کو مقابلے کیلئے للکارا۔ ایک سوار اس کے مقابلے میں اترا وہ رومی تھا۔ ’’اگر تجھے اپنے بازوؤں اور اپنے گھوڑے پر پورا بھروسہ ہے تو میرے مقابلے میں آ اے اجنبی سوار! ‘‘ابنِ احدی نے اس سے کہا۔ ’’میری تلوار تیرے خون کی پیاسی تو نہیں لیکن اس کے سامنے تیری تلوار آئے گی تو……‘‘’’تیری تلوار کے مقابلے میں میری برچھی آئے گی اے بد قسمت اجنبی! ‘‘دوسرے سوار نے کہا۔’’ اگر تجھے زندگی عزیزنہیں تو آجا۔
‘‘ابنِ احدی نے گھوڑا اس کے اردگرد دوڑایا اور اسے للکارا۔ رومی سوار گھوڑے کو کچھ دور لے گیا اور گھوڑا موڑ کر ایڑ لگائی۔ اس نے برچھی نیزہ بازی کے انداز سے آگے کر لی تھی۔ ابنِ احدی اس کی طرف منہ کرکے کھڑا رہا۔ رومی کی رفتار اور تیز ہو گئی جب اس کی برچھی کی انّی ابنِ احدی کے سینے سے تھوڑی ہی دور رہ گئی تو وہ اس قدر پھرتی سے گھوڑے کی دوسری طرف جھک گیا جیسے وہ گھوڑے پر تھا ہی نہیں۔ رومی کی برچھی ہوا کو کاٹتی آگے نکل گئی۔ ابنِ احدی گھوڑے پر سیدھا ہوا اور اپنے گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا۔ اس کاگھوڑا دوڑا اور فوراً ہی مڑ کر رومی کے پیچھے چلا گیا۔ رومی اپنا گھوڑا موڑ رہا تھا، کہ ابنِ احدی اس تک جا پہنچا اور تلوار سے اس کی برچھی توڑ دی۔ رومی نے گھوڑا موڑ کر تلوار نکال لی لیکن وہ ابنِ احدی پر صرف ایک وار کر سکا۔ جو ابنِ احدی نے بچا لیا اور فوراً ہی اس مسلمان شہسوار کی تلوار رومی سوار کے پہلو میں اتر گئی۔ وہ اس پہلو کی طرف لڑھک گیا۔ اسے گرتا دیکھ کر ایک رومی سوار ابنِ احدی کے مقابلے میں آیا وہ آتا نظر آیا اور تماشائیوں نے اسے گھوڑے سے گرتے دیکھا۔ ایک اور سوار میدان میں آیا۔ ’’رُک جاؤ!‘‘ ہرقل کی گرجدار آواز سنائی دی۔ ’’اِدھر آ شہسوار۔ ‘‘ابنِ احدی نے گھوڑا ہرقل کے سامنے جا روکا۔ ہرقل اونچی جگہ بیٹھا ہوا تھا۔
’’کیا تجھے بتایا نہیں گیا تھا کہ یہ مقابلے ہیں لڑائی نہیں۔ ‘‘ہرقل نے کہا۔’’ تم ان دونوں کو زخمی کر سکتے تھے جان سے نہیں مارنا تھا۔ پھر بھی ہم تمہاری قدر کرتے ہیں۔ کہاں سے آیا ہے تو؟‘‘ ’’مت پوچھ شہنشاہ کہاں سے آیا ہوں۔‘‘ ابنِ احدی نے کہا۔ ’’یہ میرے دشمن نہیں تھے لیکن میرے ہاتھ میں جب تلوار ہوتی ہے اور جب کوئی مجھے مقابلے کیلئے للکارتا ہے تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ شخص مسلمان ہے میں جب اسے قتل کر چکتا ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں تھا۔ میرا دماغ میرے قابو میں نہیں رہتا۔میں عیسائی عرب ہوں شہنشاہ۔ بہت دور سے آیا ہوں۔‘‘
’’کیا تیرے دل میں مسلمانوں کی اتنی دشنمی ہے کہ تو اندھا ہو جاتا ہے۔‘‘ ہرقل نے پوچھا۔
’’اس سے بھی زیادہ جتنی شہنشاہ سمجھیں گے۔ ‘‘ابنِِ احدی نے کہا۔’’ کیا شہنشاہ مجھے آگے نہیں بھیجیں گے؟ میں مسلمانوں سے لڑنے آیا ہوں۔‘‘
’’ہم تجھے آگے بھیجیں گے۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’ تو نے دو شیروں کو مارا ہے اور تو معمولی سے خاندان کا فرد نہیں لگتا۔‘‘’
’امین الامت!‘‘ ابنِ احدی نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓسے کہا۔’’ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے سپاہی کی حیثیت میں فوج میں رکھ لیں گے لیکن انہوں نے مجھے ایک سو سپاہیوں کا کماندار بنا دیا۔ اس طرح میری رسائی سالاروں تک ہو گئی۔ میرے دوسرے ساتھی بھی کسی نہ کسی ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے انہیں قیمتی خبریں مل سکتی ہیں۔ ہم سب عیسائی عرب بنے رہے اور آپس میں ملتے رہے۔ کچھ باتیں مجھے انہوں نے بتائی ہیں۔ باقی حالات میں نے خود دیکھے ہیں۔‘‘
’’حمص پر اپنے دستوں کی اطلاع انطاکیہ پہنچی تو میرے ساتھی مجھے ملے۔ ہمیں معلوم تھا کہ تم حمص میں زیادہ دن نہیں رکو گے اور انطاکیہ کی طرف پیشقدمی کرو گے۔ ہم تمہیں حمص میں ہی روکناچاہتے تھے، تمہیں آگے کے خطرے سے خبردار کرنا ضروری تها۔ انطاکیہ کے اردگرد کے علاقے میں اپنے لشکر کی تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔‘
‘ ابنِ احدی نے آگے کے جو حالات بتائے وہ اس طرح تھے کہ ہرقل نے بہت بڑی فوج تیار کرنے کی مہم ایسے طریقے سے چلائی تھی کہ عیسائیوں کے تمام قبیلے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے اپنے گھوڑوں اونٹوں اور ہتھیاروں کے ساتھ انطاکیہ میں جمع ہو گئے تھے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان قبیلوں کے علاوہ یورپی ملکوں کے لوگ بھی آگئے تھے۔ روم، یونان، اور آرمینیہ کے رہنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں آئے تھے۔ ان سب کو اس فوج کے ساتھ ملا کر جو پہلے موجود تھی ہرقل کی فوج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہو گئی تھی۔ اتنے بڑے لشکر کو تیس تیس ہزار کے پانچ حصوں میں تقسیم کر دیاگیاتھا۔ ہر حصے کا جو سالار مقرر کیا گیا تھا وہ تجربے کار اور منتخب تھا۔ ان پانچ سالاروں میں سے ایک کا نام ماہان تھا۔جو آرمینیہ کا بادشاہ اور اپنے وقتوں کا مانا ہوا سپہ سالار تھا، دوسرا غسان کا حکمران جبلہ بن الایہم تھا۔ جو اپنی فوج ساتھ لایا تھا اور اسی کاوہ سالار تھا۔ تیسرا روس کا ایک شہزادہ قناطیر تھا۔ چوتھے کا نام گریگری اور پانچویں کا دیرجان تھا ۔ یہ سب عیسائی تھے، اور انہوں نے اسے صلیب اور ہلال کی جنگ بنا دیا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ کے اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ ماہان تھا۔ ہرقل نے اس لشکر کو اپنے بہتر ہتھیاروں سے مسلح کر دیا اور جب یہ تیار ہو کر پانچ حصوں میں تقسیم ہو گیا تو ہرقل نے اتنے بڑے لشکر کو اکٹھا کیا۔ ’’صلیب کے پاسبانو! ‘‘ہرقل نے بلند جگہ کھڑے ہو کر گلا پھاڑ پھاڑ کر کہا۔’’ تم جس جنگ کیلئے اکٹھے ہوئے ہو یہ کسی ملک کو فتح کرنے کیلئے نہیں لڑی جائے گی۔ یہ تمہارے مذہب اور تمہاری عزت کی جنگ ہے۔ ایک نیا مذہب ہمارے مذہب کے خلاف اٹھا ہے ہمارا یہ فرض ہو کہ اس مذہب کو جو دراصل کوئی مذہب نہیں ختم کردیں۔مسلمانوں کی فوج چالیس ہزار سے زیادہ نہیں، تم ان کی ہڈیاں بھی پیس ڈالو گے ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہماری فوج میں مسلمانوں کی دہشت پھیل گئی ہے۔ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں
Tags
Shamsheer e Bayniyam