❤ *قسط* *82* ❤
*شمشیر بے نیام* 🏇
: وہ اگست ۶۳۶ء کے تیسرے رجب ۱۵ ھ کے دوسرے ہفتے کی ایک رات تھی۔مجاہدین تمام رات عبادتِ الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں مصروف رہے۔ﷲ کے سوا کون تھا جو ان کی مدد کو پہنچتا۔ اکثر مجاہدین سورہ انفال کی تلاوت کرتے رہے۔ رومی محاذ بھی شب بھر بیدار رہا۔ وہاں پادریوں نے سپاہیوں کو عبادت اور دعا میں مصروف رکھا۔ دونوں طرف مشعلیں بھی جلتی رہیں اور جگہ جگہ لکڑیوں کے ڈھیر جلتے رہے تاکہ رات کو دشمن حملہ کرنے آئے تو آتانظرآجائے۔ دونوں فوجوں پر ہیجان اور کھچاؤکی کیفیت طاری تھی۔
مسلمانوں کے محاذ سے صبح کی اذان کی آواز اٹھی۔ مجاہدین نے وضو اور زیادہ تر نے تیمم کرکے باجماعت نماز پڑھی اور اپنی جگہوں پر چلے گئے۔جنگ شروع ہونے والی تھی جس کا شمار تاریخ کی بہت بڑی جنگوں میں ہوتا ہے۔ سورج افق سے اٹھا تو اس نے زمین پر بڑا ہی ہیبت ناک منظر دیکھا ۔چالیس ہزار کی فوج ڈیڑھ لاکھ نفری کی فوج کے مقابلے میں کھڑی تھی۔ شان تو ہرقل کے لشکر کی تھی اس کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور بہت سی صلیبین اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ اس میں ذرا سے بھی شک کی گنجائش نہیں تھی کہ یہ لشکر اپنے سامنے کھڑی اس چھوٹی سی فوج کو نیست و نابود کر دے گا۔
جرجہ رومی فوج کا ایک سالار تھا جو انفرادی مقابلوں میں بہت شہرت رکھتا تھا، اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کے حکم سے وہ آگے بڑھا۔’’کیا خالد بن ولید میں اتنی ہمت ہے کہ میری تلوار کے سامنے آسکے؟‘‘ جرجہ نے للکار کر کہا۔’’میں ہوں رومیوں کا قاتل!‘‘ خالدؓ للکارتے ہوئے آگے بڑھے۔’’ میں ہوں خالد بن ولید!‘‘ خالدؓ دونوں فوجوں کے درمیان جا کر رُک گئے، انہوں نے تلوار نکال لی تھی لیکن جرجہ نے تلوار نہ نکالی۔ وہ گھوڑے پر سوار آ رہا تھا۔ خالدؓ اپنے گھوڑے کو اس کے گھوڑے کے اتنا قریب لے گئے کہ دونوں گھوڑوں کی گردنیں مل گئیں ۔جرجہ نے پھر بھی تلوار نہ نکالی۔
’’ابنِ ولید!‘‘ جرجہ نے کہا۔’’جھوٹ نہ بولنا کہ جنگجو جھوٹ نہیں بولا کرتے۔ دھوکہ بھی نہ دینا کہ اعلیٰ نسل کے لوگ دھوکہ نہیں دیا کرتے۔‘‘’’پوچھ اے دشمنِ اسلام!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’جنگجو جھوٹ نہیں بولے گا دھوکہ نہیں دے گا۔ پوچھ کیا پوچھتا ہے؟‘‘’’
کیا میں اسے سچ سمجھوں کہ تیرے رسول(ﷺ) کو خدا نے آسمان سے تلوار بھیجی تھی؟‘‘ جرجہ نے پوچھا۔’’ اور یہ تلوار تیرے رسول(ﷺ) نے تجھے دی تھی؟اور جب تیرے ہاتھ میں یہ تلوار ہوتی ہے تو دشمن شکست کھاکر بھاگ جاتا ہے؟‘‘
’’یہ سچ نہیں! ‘‘خالدؓنے کہا۔’’
پھر تو سیف ﷲ کیوں کہلاتا ہے؟‘‘ جرجہ نے پوچھا۔’’ پھر تو ﷲ کی شمشیر کیوں بنا؟‘‘’
’سچ یہ ہے کہ اے دشمنِ اسلام!‘‘ خالدؓنے کہا۔’’رسول ﷲ ﷺ نے میری تیغ زنی کے جوہر دیکھے تھے تو آپﷺ نے بے ساختہ کہا تو ﷲ کی تلوار ہے۔ آپﷺ نے مجھے اپنی تلوار انعام کے طور پر دی تھی۔ اب نکال اپنی تلوار اور تو بھی اس کا ذائقہ چکھ لے۔‘
‘’’اگر میں تلوار نہ نکالوں تو؟‘‘’’
پھر کہو، لا الٰہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ۔ ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ تسلیم کر کہ محمدﷺ ﷲ کے رسول ہیں۔‘‘
’’میں ایساکہنے سے انکار کر دوں تو تو کیا کرے گا؟‘‘’’
پھر تجھ سے جزیہ مانگوں گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور تجھے اپنی حفاظت میں رکھوں گا۔‘‘’
’اگر میں جزیہ دینے سے انکار کر دوں؟‘‘
’’پھر نکال اپنی تلوار!‘‘خالدؓنےکہا۔’’اور پہلا وار کر لے کہ تجھے کوئی افسوس نہ رہے کہ وار کرنے کا تجھے موقع نہیں ملا تھا۔‘‘
جرجہ کچھ دیر خاموش رہا اور خالدؓ کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔’’اگر کوئی آج اسلام قبول کرے تو اس کو کیا درجہ دو گے؟‘‘ جرجہ نے پوچھا۔’’
وہی درجہ جو ہر مسلمان کا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اسلام میں کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں۔‘‘’’میں تیرے مذہب میں آنا چاہتا ہوں۔‘‘جرجہ نے کہا۔’’میں اسلام قبول کرتا ہوں۔‘‘خالدؓ کے چہرے پر حیرت کا بڑا گہرا تاثر آگیا۔
’’کیا تو اپنے ہوش و حواس میں ہے اے رومی سالار!‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔
’’ہاں ابنِ ولید!‘‘ جرجہ نے جواب دیا۔’’مجھے اپنے ساتھ لے چل۔‘‘خالدؓ نے اپنا گھوڑا موڑا۔ جرجہ نے اپنا گھوڑا خالدؓکے پہلو میں کر لیا اور وہ مسلمانوں کے محاذ میں آگیا۔ خالدؓ نے اسے کلمہ پڑھایا اوروہ مسلمانوں کے محاذ میں شامل ہو گیا۔مسلمانوں نے تکبیر کے نعرے بلند کیے اور رومی لشکر نے بڑی بلند آواز سے جرجہ پر لعن طعن کی لیکن جرجہ کو کچھ اثر نہ ہوا۔بڑی ہی خونریز جنگ شروع ہونے والی تھی اور جرجہ اپنے ہی لشکر کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔
اگست ۶۳۶ء مسلمانوں کے بڑے ہی سخت امتحان کا مہینہ تھا۔ رومیوں کا ایک سالار اسلام قبول کرکے مسلمانوں کے پاس آگیا تھا۔ مسلمانوں نے خوشی کے نعرے تو بہت لگائے تھے لیکن انہیں احساس تھا کہ دشمن کے ایک سالار کے اِدھر آجانے سے رومیوں کے اتنے بڑے لشکر میں ذرا سی بھی کمزوری پیدا نہیں ہوگی اور دشمن کے لڑنے کے جذبے میں بھی کوئی فرق نہیں آئے گا۔مسلمانوں کو اتنے بڑے اور ایسے منظم لشکر کا سامنا پہلی بار ہوا تھا۔ اسلام کیلئے یہ بڑا ہی خطرناک چیلنج تھا جو اسلام کے شیدائیوں نے قبول کر لیا تھا۔ مسلمان ایک خودکش جنگ کیلئے تیار ہو گئے تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان عورتیں بھی مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے تیار ہو گئی تھیں۔ انہیں ابو عبیدہؓ نے تو یہ کہا تھا کہ خیموں کے ڈنڈے نکال لیں اور پتھر اکٹھے کر لیں اور جومسلمان بھاگ کر پیچھے آئے اس پر پتھر برسائیں اور اس کے منہ پر ڈنڈے ماریں لیکن عورتوں نے اپنے آپ کو جنگ میں کود پڑنے کیلئے بھی تیار کر لیا تھا، دونوں فوجوں کی نفری ان کے سامنے تھی۔
وہاں تو ہر مسلمان عورت میں اپنے مردوں جیسا جذبہ تھا لیکن ان میں چند ایک عورتیں غیر معمولی جذبے والی تھیں۔ ان میں ایک خاتون ہند اور دوسری خولہ بنت الازور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ہُند کا پہلے ذکر آچکا ہے وہ ابو سفیانؓ کی بیوی تھی۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے جنگِ احد میں انہوں نے اپنے قبیلے کا حوصلہ بڑھانے کیلئے میدانِ جنگ میں گیت گائے تھے۔ یہ گیت رزمیہ نہیں تھے اور باقاعدہ جنگی ترانے بھی نہیں تھے، ان گیتوں میں اپنے آدمیوں کی مردانگی کو ابھارا گیا تھا اور کچھ اس قسم کے الفاظ تھے کہ ’’تم ہار گئے تو تمہاری بیویاں تمہیں اپنے جسموں کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیں گی‘‘ ہند کا چچا اس لڑائی میں حمزہؓ کے ہاتھوں مارا گیا تو ہند نے مشہور برچھی باز وحشی کو حمزہؓ کے قتل کے لیے کہا اور اسے انعام پیش کیا تھا۔وحشی کی پھینکی ہوئی برچھی کبھی خطا نہیں گئی تھی۔ اس نے میدانِ جنگ میں حمزہؓ کو ڈھونڈ نکالا اور تاک کر برچھی ماری۔ برچھی حمزہؓ کے پیٹ میں اتر گئی اور وہ شہید ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد ابو سفیانؓ نے اور ہند نے اسلام قبول کر لیا اور اب اس عورت کا وہی جوش و خروش اور جذبہ اسلام کی سربلندی کی خاطر لڑی جانے والی جنگوں میں کام آرہا تھا، ان کا بیٹا یزیدؓ بن ابو سفیان اسلامی لشکر میں سالار تھا۔
دوسری نامور خاتون خولہ بنت الازور تھیں، جو ضرار بن الازور کی بہن تھیں۔ ضرار کا بہت ذکر آچکا ہے۔ وہ خود، ذرہ اور قمیض اتار کر لڑا کرتے تھے۔ اس غیر معمولی دلیری کی وجہ سے ضرار رومیوں میں ننگا ہو کر قہر اور غضب سے لڑنے والے کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔ دو سال پہلے ضرار ایک معرکے میں رومیوں کی صفوں میں اتنی دور چلے گئے کہ بہت سے رومیوں نے انہیں گھیر لیا اور زندہ پکڑ لیا تھا ۔ضرار رومیوں کیلئے بہت اہم شکار تھے۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رومی انہیں زندہ چھوڑ دیں گے۔اور یہ بھی کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ ضرار کی بہن خولہ انہیں چھڑا لے آئیں گی۔ پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ خولہ ایک معرکے میں چہرے پر نقاب اور سر پر سبز عمامہ رکھ کر رومیوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑی تھیں۔وہ خالدؓ کے قریب سے گزر کر آگے گئی تھیں۔خالدؓ انہیں اپنا کوئی مجاہد سمجھ رہے تھے،انہوں نے آخر انہیں اپنے پاس بلایا تو انہیں پتہ چلا کہ یہ کوئی آدمی نہیں بلکہ ایک عورت ہے اورضرار بن الازور کی بہن ہے۔یہ اطلاع مل گئی کہ رومی ضرار کو پابجولاں کرکے فلاں طرف لے جا رہے ہیں، رومیوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔رافع بن عمیرہ کو ایک سو سوار دے کر خالدؓ نے ضرار کو چھڑا لانے کو بھیجاتو خولہ بھی پیچھے پیچھے چلی گئیں۔خالدؓ کو ان کے جانے کا علم نہیں تھا۔جب وہ رافع بن عمیرہ کے سواروں سے جا ملیں تو رافع نے بھی انہیں روکا تھا لیکن خولہ رکی نہیں۔انہوں نے اپنے بھائی کو آزاد کرانے کیلئے رومیوں پر حملے پر حملہ کیا تو مردوں کو حیران کر دیا تھا۔اس طرح جان کی بازی لگا کر ضرار کر رومیوں سے چھڑا لیا تھا اورا پنے ساتھ لے آئی تھیں،ان کے وہ الفاظ جو انہوں نے ضرار کو گلے لگا کر کہے تھے، تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ’’میرے عزیز بھائی! میرے دل کی تپش دیکھ، کس طرح تیرے فراق میں جل رہا ہے۔‘‘اب جبکہ رومی بلند و بالا پہاڑ کی طرح سامنے کھڑے تھے تو ہند اور خولہ اور دوسری مسلمان عورتیں صرف بیویوں اور بیٹیوں کی حیثیت سے بیٹھی نہیں رہ سکتی تھیں،نہ وہ اپنے فرض کو صرف دعاؤں تک محدود رکھ سکتی تھیں،
ہند اور خولہ عورتوں کے کیمپ میں مردانہ چال چلتی گھوم پھر رہی تھیں۔وہ عورتوں کو لڑائی کیلئے تیار کر رہی تھیں۔ انہوں نے یہاں تک فیصلہ کر لیا تھا کہ بچوں والی عورتوں کو پیچھے پھینک کر آگے چلی جائیں گی۔
رومی سالار جرجہ نے خالدؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، اور اس کے ساتھ ہی انفرادی مقابلے پھر شروع ہو گئے۔ رومی اپنے سالار جرجہ کی کمی کی خفت یوں مٹانے لگے کہ وہ اپنے چنے ہوئے سالاروں کو انفرادی مقابلوں کیلئے اتارتے جا رہے تھے عموماً تین چار مقابلے ہوا کرتے تھے لیکن مقابلوں کو ختم ہی نہیں ہونے دے رہے تھے۔ ادھر سے کوئی سالار نائب سالار یا کوئی کماندار سامنے آکر رومیوں کو للکارتا تو رومی اپنے کسی نامی گرامی تیغ زن یا پہلوان کو آگے کر دیتے تھے۔ تقریباً ہر مقابلے میں رومی مارا گیا یا بھاگ گیا۔
خلیفہ اول ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن مقابلے کیلئے سامنے آئے۔ ’’میں ہوں رسول ﷲﷺ کے پہلے خلیفہ ابی بکر کا بیٹا!‘‘ عبدالرحمٰن نے دونوں فوجوں کے درمیان گھوڑا ایک چکر میں دوڑاتے ہوئے للکار کر کہا۔ ’’رومیوں! میری حیثیت کا کوئی سالار آگے بھیجو۔‘‘تاریخ میں اس رومی سالار کا نام نہیں ملتا جو ان کے مقابلے میں آیا وہ جو کوئی بھی تھا بڑی جلدی کٹ کر گرا۔’’کیا اتنے بڑے لشکر میں میرے پائے کاکوئی سالار نہیں؟‘‘ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے رومیوں کو للکارا۔رومیوں کی صفوں سے کالے رنگ کا ایک گھوڑا نکلا جس کا قد اونچا نہیں تھا۔ سر سے دُم تک لمبائی عام گھوڑوں سے زیادہ تھی۔ اس کا چمکتا ہوا جسم گٹھا ہوا اور غیر معمولی طور پر موٹا تازہ تھا۔ گھوڑا دوڑتا تو زمین ہلتی محسوس ہوتی تھی۔ وہ اپنے سوار کے قابو میں تھا لیکن اس کا چال اور مستی ایسی تھی جیسے اپنے سوارکے قابو میں نہ ہو۔ اس کا سوار گورے رنگ کا تھا اور اپنے گھوڑے کی طرح فربہ جسم کا تھا وہ پہلوان لگتا تھا۔
’’اے بد قسمت جوان!‘‘ رومی سالار نے للکار کر کہا۔ ’’کیا تو روم کے بیٹے ایلمور کی برچھی کے سامنے کچھ دیر اپنے گھوڑے پر بیٹھا نظر آتا رہے گا؟‘‘’’
خدا کی قسم!‘‘ عبدالرحمٰن نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر کہا ۔’’روم والے ابھی وہ برچھی نہیں بنا سکے جو ابنِ ابی بکر کو گھوڑے سے گرا سکے۔‘‘ ایلمور کی برچھی کالے گھوڑے کی رفتار سے عبدالرحمٰن کی طرف آرہی تھی۔ عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ گھوڑے ایک دوسرے کے قریب آئے تو ایلمور نے رکابوں میں کھڑے ہو کر عبدالرحمٰن کو برچھی ماری لیکن عبدالرحمٰن نے اپنے گھوڑے کو ذرا ایک طرف کر دیا اور خود پہلو کی طرف اتنا جھک گئے کہ رومی سالار کی برچھی کا وار خالی گیا۔ عبدالرحمٰن نے وہیں سے گھوڑا موڑا اور بڑی تیزی سے ایلمور کے پیچھے گئے۔ ایلمور ابھی گھوڑے کو موڑ رہا تھا عبدالرحمٰن کی تلوار اس کی اس کلائی پر پڑی جس ہاتھ میں اس نے برچھی پکڑ رکھی تھی۔ ہاتھ صاف کٹ کر بازو سے الگ ہو گیا۔ برچھی اس ہاتھ سمیت جس نے اسے پکڑ رکھا تھا زمین پر جا پڑی یہ زخم معمولی نہیں تھا۔ ایلمور بلبلا اٹھا۔ عبدالرحمٰن کا گھوڑا اس کے اردگرد دوڑ رہا تھا۔ ایلمور نے کٹے ہوئے ہاتھ والا بازو اوپر اٹھایا وہ اس ٹنڈ منڈ بازو سے ابل ابل کر بہتے ہوئے خون کو دیکھ رہا تھا کہ عبدالرحمٰن کی تلوار اس کی بغل میں گہری اتر گئی۔ ایلمور نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رُخ اپنے لشکر کی طرف کر لیا، وہ اپنے لشکر تک نہ پہنچ سکا۔ راستے میں ہی گر پڑا۔ اس کا کالا گھوڑا اپنے لشکر تک پہنچ گیا۔
عبدالرحمٰن نے ایک بار پھر رومیوں کو للکارا لیکن خالدؓ نے انہیں پیچھے بلا لیا۔ ضروری نہیں تھا کہ عبدالرحمٰن ہر مقابلہ جیت جاتے۔ یکے بعد دیگرے چھ سات مسلمان سالار انفرادی مقابلوں کیلئے گئے اور ان کے مقابلے میں اترنے والے رومی مارے گئے۔ یا شدید زخمی ہوکر بھاگ گئے۔ عبدالرحمٰن ایک بار پھر بغیر کسی کی اجازت کے آگے چلے گئے اور رومیوں کو للکارا۔
ایک رومی سالار ان کے مقابلے میں آیا اور واپس نہ جا سکا۔ یہ تیسرا رومی سالار تھا جو عبدالرحمٰن کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اس طرح عبدالرحمٰن نے تین رومی سالاروں کو مار ڈالا۔ خالدؓ نے انہیں سختی سے کہا کہ اب وہ آگے نہ جائیں۔ ’’اب کوئی آگے نہیں جائے گا۔‘‘ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان نے حکم دیا اور اپنے ساتھ کے سالاروں سے کہا ۔’’اگر یہ مقابلے جاری رہے تو ہمارے پاس کام کا کوئی ایک بھی سالارنہیں رہ جائے گا۔کیا ہمیں اعتراف نہیں کر لینا چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا سالار یا کوئی اور آدمی نہیں جو دو بدو مقابلے میں مسلمانوں کو شکست دے سکے۔ اگر ہم اپنے سالاروں کو اسی طرح مرواتے گئے تو اپنے لشکر پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔‘‘ ’’بہت برا اثر پڑ رہا ہے ۔‘‘ ایک تجربہ کار سالار نے کہا۔’’ میدان میں دیکھیں صرف ہمارے سالاروں اور کمانداروں کی لاشیں پڑی ہیں اور مسلمان ہمیں طعنے دے رہے ہیں۔ ہم اتنا لشکر کیوں لائے ہیں، ان چند ہزار مسلمانوں کو ہم اپنے گھوڑوں کے قدموں تلے کچل دیں گے۔ ان کی لاشیں پہچانی نہیں جائیں گی۔‘‘’’ہمیں پورے لشکر سے ایک ہی بار حملہ کر دینا چاہیے۔‘‘ قلب کے ایک سالارنے کہا۔ ’’نہیں!‘‘ماہان نے کہا۔’’مسلمانوں سے اتنی بار شکست کھا کر بھی تم مسلمانوں کو نہیں سمجھے؟ مسلمانوں کی نفری جتنی کم ہوتی ہے یہ اتنے ہی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔میں پہلا حملہ ذرا کم نفری سے کروں گا اور دیکھوں گا کہ یہ اپنے آپ کو بچانے کیلئے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ آدھا دن گزر گیا تھا۔ سورج سر پر آگیا تھا۔ اگست کی گرمی اور حبس کا عروج شروع ہو چکا تھا۔ ماہان نے اتنی ہی نفری حملے کیلئے آگے بڑھائی جتنی مسلمانوں کی تھی۔ یہ اس کے اپنے لشکر کی نفری کا چوتھا حصہ تھا۔ یعنی تقریباً چالیس ہزار۔ یہ تمام نفری پیادوں کی تھی جب یہ نفری رومیوں کی دفوں کی تال پر آگے بڑھی تو لگتا تھا جیسے طوفانی سمندر کی موجیں پہلو بہ پہلو بپھری ہوئی غراتی ہوئی اپنے ساتھ ہی سب کچھ بہالے جانے کو آرہی ہیں۔ ’’اسلام کے پاسبانو!‘‘ کسی مجاہد کی گرجدار آواز بلند ہوئی۔’’ آج کا دن تمہارے امتحان کا دن ہے۔ ﷲ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ ﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘مسلمانوں کی صفوں سے تکبیر کے نعرے گرجے۔ اگلی صف میں جو لمبی برچھیوں والے تھے اور جو تیر انداز تھے وہ تیار ہو گئے۔ ایک ایک تیر کمانوں میں چلا گیا برچھیاں تن گئیں۔ ہر مجاہد کی زبان پر ﷲ کا نام تھا۔ بعض کسی نہ کسی آیت کا ورد کر رہے تھے۔رومی پیادوں کا سیلاب قریب آگیا تھا۔ اسلام کے نیزہ بازوں نے بڑھ بڑھ کر برچھیوں کے وار شروع کر دیئے، آگے والے رومی گرتے تھے تو پیچھے والے انہیں روندتے ہوئے آگے بڑھتے۔ نیزہ بازوں کاکام کچھ تو تیر اندازوں نے آسان کر دیاتھا۔ رومی ابھی برچھیوں کی زد سے دور ہی تھے کہ ان پر تیر اندازوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا تھا۔ رومیوں نے تیروں کو ڈھالوں پر لینے کی کوشش کی تھی۔ پھر بھی کئی رومی تیروں کا شکار ہو گئے ۔ اس سے رومیوں کی پیش قدمی کی رفتار سست ہو گئے ۔آگے آئے تو مسلمانوں کی برچھیوں نے انہیں چھلنی کرنا شروع کر دیا۔ لیکن ان رومیوں کا حملہ مسلمانوں کے سارے محاذ پر نہیں بلکہ گیارہ میل لمبے محاذ کے تھوڑے سے حصے پر تھا۔
❤ 🇵🇰❤🇵🇰❤
Tags
Shamsheer e Bayniyam