Shamsheer e bayniyam Episode 83


❤ *قسط* *83* ❤
*شمشیر بے نیام* 🏇
اتنے تھوڑے حصے پر اتنی زیادہ نفری کا حملہ روکنا آسان نہیں تھا۔ رومی پیادے بڑھتے آرہے تھے۔ حالانکہ ان کا نقصان خاصہ زیادہ ہو رہا تھا۔ مسلمان تیر اندازوں اور نیزہ بازوں نے جب دیکھا کہ رومی سر پر آگئے ہیں تو انہوں نے تلواریں نکال لیں اور معرکے کی خونریزی میں اضافہ ہو گیا۔
ابو عبیدہؓ اور خالدؓ نے اپنے دماغ حاضر اور حوصلے قائم رکھے۔ صورتِ حال ایسی ہو گئی تھی کہ محاذ کے جس حصے پر اتنا زور دار حملہ ہوا تھا۔ اسے کمک سے مزید مضبوط کیا جاتا لیکن خالدؓ اس سے بھی زیادہ خطرے مول لینے والے سالار تھے۔ انہوں نے محاذ کے کسی اور حصے کو کمزور کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مجاہدین کو معلوم تھا کہ وہ کتنے کچھ ہیں اور ان کے پاس کیا ہے۔ انہی حالات میں لڑنا تھا وہ دیکھ رہے تھے کہ جنگ فیصلہ کن ہوگی چنانچہ انہوں نے کمک اور مدد کی امید دل سے نکال پھینکی تھی۔ مدد کیلئے وہ صرف ﷲ کو پکارتے تھے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ رومی سالار احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔

رومی سالارِ اعلیٰ ماہان دیکھ رہا تھا کہ اس کے حملہ آور پیادے کٹ رہے ہیں اور وہ مقصد پورا هوتا نظر نہیں آرہا تھا جس مقصد کیلئے اس نے حملہ کرایا تھا۔ پھر بھی اس نے اپنے حملہ آور پیادوں کو پیادہ یا سوار دستے کی کمک نہ دی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ماہان کو یہ توقع تھی کہ مسلمان اس حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے پورے محاذ کو درہم برہم کر دیں گے۔ لیکن اس کی یہ توقع پوری نہیں ہو رہی تھی۔ کمک نہ ملنے کا اور اپنے اتنے زیادہ نقصان کااثر رومی حملہ آور پیادوں پر بہت برا ہوا۔ قریب تھا کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ جاتے کہ ان کے سالار نے انہیں پیچھے ہٹا لیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سورج غروب ہو رہا تھا۔

وہ منظر جذباتی سا تھا جب مجاہدین جو اپنی جگہ سے آگے چلے گئے تھے، واپس آئے۔ ان کی عورتیں ان کی طرف دوڑ پڑیں۔ وہ اپنے خاوندوں کو پکار رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے مردوں کو گلے لگایا اور جو زخمی تھے ان کی باقاعدہ مرہم پٹی کرنے سے پہلے اپنی اوڑھنیاں پھاڑ پھاڑکر ان کے زخم صاف کیے اور ان پر اوڑھنیوں کی پٹیاں باندھ دیں۔ عورتیں پانی کے مشکیزے اٹھائے میدانِ جنگ میں پھیل گئیں۔ وہ ان زخمیوں کو ڈھونڈتی پھرتی تھیں جو اپنے سہارے اٹھ کر چلنے کے قابل نہیں تھے، عورتوں کے انداز میں والہانہ پن اور دیوانگی سی تھی۔ وہ شدید زخمی ہو جانے والوں کو پانی پلاتیں ان کے زخموں پر کپڑے پھاڑ کرپٹیاں باندھتیں اور انہیں اٹھا کر اپنے سہارے پیچھے لا رہی تھیں۔
شام گہری ہو گئی تو میدانِ جنگ میں مشعلیں نظر آنے لگیں۔ عورتوں کے ساتھ مجاہدین بھی اپنے شدید زخمی اور شہید ساتھیوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کے حوصلے بلند تھے۔ انہوں نے بڑا ہی شدید حملہ بیکار کر دیا تھا۔ میدانِ جنگ میں رومیوں کی لاشیں دیکھ کر ان کے حوصلے اور جذبے کو مزید تقویت ملی۔ مسلمانوں کے مقابلے میں رومیوں کا نقصان بہت زیادہ تھا۔بہت سے رومی ایک گروہ یا جیش کی صورت میں مشعلیں اٹھائے آگے آئے۔ وہ اپنے زخمیوں کو اور اپنے اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو اٹھانے آئے تھے۔ وہ ایسی ترتیب اور ایسے انداز سے چلے آ رہے تھے جیسے حملہ کرنے آرہے ہوں۔ مسلمان جو اپنے زخمی ساتھیوں کو اٹھا رہے تھے ، تلواریں نکال کر ان پر ٹوٹ پڑے، اچھا خاصا معرکہ ہوا۔’’ہم اپنے زخمیوں کو اٹھانے آئے ہیں۔‘‘ رومیوں کی طرف سے آواز بلند ہوئی۔’’تم زخمی ہو کر ہی اپنے زخمیوں کو اٹھا سکو گے۔‘‘مجاہدین کی طرف سے جواب گرجا۔
دو تین جگہوں پر اسی طرح کی جھڑپیں ہوئیں اور رات گزرتی رہی۔ اس وقت رومی سالارِ اعلیٰ ماہان نے سالاروں کو اپنے سامنے بٹھا رکھا تھا۔’’
اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھو۔ ‘‘وہ کہہ رہا تھا۔’’ ہم اپنے حملے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘’’
میرا خیال ہے کہ ہمارے سپاہیوں نے اپنے اوپر مسلمانوں کا خوف طاری کر رکھا ہے۔‘‘ ایک سالار نے کہا۔
’’نہیں!‘‘ ماہان نے کہا۔’’ ہماری صفوں میں اتحاد نہیں۔ مسلمان ایک ہیں۔ وہ بھی مختلف قبیلوں کے ہیں لیکن وہ سب اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کے رشتے کا پابند کر لیا ہے۔ اس عقیدے نے انہیں ایک جان کر دیا ہے۔ ہم میں یہ اتحاد نہیں ، کئی ایک علاقوں اور کئی ایک قبیلوں کے لوگ ہمارے ساتھ آملے ہیں لیکن ہمارے درمیان کوئی ایسا رشتہ نہیں جو ہم سب کو متحد کر سکے۔‘‘
’’ایک رات میں اتحاد پیدا نہیں کیا جاسکتا سالارِ اعلی!‘‘ٰ ایک پرانے سالار نے کہا ۔’’ہمارے درمیان اتحاد نہ ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔ ہمیں انہی حالات میں لڑناہے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ ماہان نے کہا۔’’ ہمیں انہی حالات میں لڑنا ہے۔ میں مایوس نہیں۔ ہمیں کوئی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ کل صبح ہم اس وقت مسلمانوں پر حملہ کریں گے۔ جب وہ حملہ روکنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے اور یہ ان کی عبادت کا وقت ہوگا۔‘‘
تقریباً ان تمام مؤرخوں نے جنہوں نے جنگِ یرموک کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ماہان کا اگلی صبح کے حملے کا پلان اس طرح لکھا ہے کہ مسلمانوں کے قلب پرحملہ کیا جائے گا۔ جو دھوکا ہو گا۔ اس کا مقصد یہ ہو گا کہ قلب یعنی مسلمانوں کے درمیانی دستوں کو جن میں مرکزی کمان بھی تھی لڑائی میں الجھا کر یہیں روک کر رکھا جائے گا۔ اس سے فائدہ یہ اٹھایا جائے گا کہ مسلمانوں کا مرکز اپنے دائیں بائیں کی طرف توجہ نہ دے سکے۔
ماہان کے پلان کے مطابق اصل حملہ مسلمانوں کے پہلوؤں پر کرنا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ پہلوؤں کے دستوں کو بکھیر کر ختم کیا جائے۔ ’’اور اگر مسلمان مقابلے میں جم جائیں تو ان پر ایسا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے قلب کی طرف اکٹھے ہو جائیں۔ اس صورت میں ان پر پہلوؤں اور عقب سے حملہ کیا جائے۔‘‘ پلان بڑا خطرناک تھا۔رومیوں کی نفری اتنی زیادہ تھی کہ اس کے بل بوتے پر اپنے پلان کو کامیاب کر سکتے تھے۔ ’’جاؤ! اور اپنے دستوں کو صبح کے حملے کیلئے تیار کرو۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ لیکن تیاری ایسی خاموشی سے ہو کہ پتا نہ چلے۔ مسلمانوں نے جاسوس ہمارے اردگرد موجود رہتے ہیں۔‘‘ رات کو ہی ماہان نے اپنا خیمہ اکھڑوایا اور ایک چٹان کی سب سے اونچی چوٹی پر لے جا کر نصب کرایا وہاں سے تمام تر محاذ کو وہ دیکھ سکتا تھا۔ اس نے تیز رفتار گھوڑوں والے قاصد اپنے ساتھ رکھ لیے اور اپنا حفاظتی دستہ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ دستے کی نفری دو ہزار تھی۔ دونوں طرف کی فوجوں کے درمیان ڈیڑھ ایک میل کا فاصلہ تھا۔
خالدؓ نے حسبِ معمول دشمن کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے اور اطلاع دینے کیلئے اپنے آدمی آگے بھیج رکھے تھے لیکن دشمن کے محاذ کی صورت ایسی تھی کہ قریب جا کر کچھ دیکھنا ممکن نہ تھا۔ اپنے آدمی بلندیوں سے دیکھتے رہتے تھے۔ مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ آگے گیا ہوا ایک آدمی دوڑتا آیا اور خالدؓ کو بتایا کہ رومی تیار ہو کر ترتیب میں آرہے ہیں۔
’’ترتیب کیسی ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔
’ترتیب حملے کی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ جاسوس نے جواب دیا۔’’پہلے دف بجے تھے ، پھر ان کے دستے بڑی تیزی سے ترتیب میں آگئے۔ سوار گھوڑوں پر سوار ہو چکے ہیں۔‘‘

’’ہو نہیں سکتا کہ رومی کہیں اور جا رہے ہوں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ وہ حملے کیلئے آرہے ہیں۔‘‘ خالدؓ کچھ پریشان بھی ہوئے لیکن وہ حوصلہ ہارنے والے نہیں تھے، تیاری کا وقت نہیں تھا۔ اگر رومی تیار تھے تو انہوں نے مسلمانوں کو اس حالت میں آ دبوچنا تھا، جب وہ تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے بڑی تیزی سے تمام سالاروں کو اطلاع بھجوادی کہ دشمن کا حملہ آرہا ہے۔ مسلمان جب تیار ہو رہے تھے۔ اس وقت رومی لشکر اپنے محاذ سے چل پڑا تھا۔ اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ رومی سالاروں کو توقع تھی کہ وہ مسلمانوں کو بے خبری میں جا لیں گے لیکن وہ جب قریب آئے تو مسلمان تیار تھے وہ خلافِ توقع اتنی جلدی تیار ہو گئے تھے۔ خالدؓ نے انہیں لمبا چوڑا حکم نہیں بھیجاتھا نہ کوئی ہدایت جاری کی تھی۔ صرف اتنا پیغام دیا تھا کہ دشمن کا حملہ آرہا ہے۔ اپنے اپنے محاذ پر تیار رہو۔
صبح کا اجالا سفید ہو رہا تھا۔ رومی سیلاب کی طرح بڑھے آرہے تھے۔ ان کا رخ مسلمانوں کے قلب کی طرف تھا۔ ان کے بہت سے دستے دائیں اور بائیں پہلوؤں کی طرف بھی آرہے تھے لیکن معلوم یہی ہوتا تھا کہ وہ حملہ قلب پر کریں گے۔ خالدؓ نے اپنے قلب کے دستوں کو آگے بڑھ کر دشمن کا استقبال کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے دفاع کا طریقہ وہی اختیار کیا کہ برچھی بازوں اور تیراندازوں کو آگے رکھا گیا۔ رومی جو اس امید پر بہت تیزی سے آرہے تھے کہ مسلمان بے خبر ہوں گے اور یہ بڑی آسان فتح ہو گی۔ مسلمانوں کو ہرلحاظ سے تیار دیکھ کر ذرا سست ہو گئے اور ان کے قدم رکنے لگے۔ انہوں نے گزشتہ روز حملہ کرکے دیکھ لیا تھا۔ مسلمان تیر اندازوں نے اتنی تیزی سے تیر چلانے شروع کر دیئے کہ فضاء میں ایک جال تن گیا۔ رومی رک کر پیچھے ہٹے اور تیروں کی زد سے دور نکل گئے۔ کچھ دیر بعد وہ ڈھالیں آگے کر کے بڑھنے لگے۔ تیر اندازوں نے ایک بار پھر تیروں کا مینہ برسا دیا، لیکن اب کے رومی بڑھتے آئے، تیر کھاکھا کر گرتے بھی رہے اور وہ نیزہ بازوں تک آپہنچے۔ رومیوں کے پاس مروانے کیلئے بہت نفری تھی۔ نیزہ بازوں نے رومیوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن رومیوں کی یلغار اتنی شدید تھی کہ رک نہ سکی۔ تب قلب کے دستے آگے بڑھے اور مجاہدین نے جان کی بازی لگا دی،

خالدؓ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ رومی پیچھے ہٹنے لگے ہیں، مجاہدین ان کے پیچھے گئے لیکن خالدؓ نے انہیں روک دیا۔ کچھ دیر بعد رومی پھر آگے بڑھے اور مجاہدین نے پہلے کی طرح حملہ روکا۔ خاصی خونریزی ہوئی اور رومی پیچھے ہٹ گئے اور اس کے بعد یہی سلسلہ چلتا رہا۔ مسلمان سالاروں کو معلوم نہیں تھا کہ ماہان کا پلان ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کے قلب اور محفوظہ کو الجھائے رکھو، تاکہ اپنے پہلوؤں سے بے خبر رہیں اور انہیں کمک نہ دے سکیں۔ خالدؓ اس دھوکے کو سمجھ تو نہ سکے لیکن انہوں نے ہر حملہ اس طرح روکا کہ مرکزیت اور جمیعت کو درہم برہم نہ ہونے دیا، رومیوں نے پیچھے ہٹ کر مسلمان سالاروں کو موقع دیا کہ وہ جوابی حملہ کریں لیکن خالدؓ نے اپنے دستوں کو دفاع میں ہی رکھا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کی نفری اور نفری کی جسمانی طاقت زائل ہوتی رہے۔ خالدؓنے اپنے پہلوؤں کی طرف توجہ نہ دی۔ انہوں نے سالاروں کو بتا رکھا تھا کہ کمک کی امید نہ رکھیں۔ سالاروں کو بھی اپنی بے مائگی کا احساس تھا اور یہ احساس اسلامی لشکرکے ہر ایک فرد کو تھا کہ صورتِ حال کتنی ہی دگرگوں ہو جائے مدد صرف اﷲ کی طرف سے ملے گی۔
رومیوں کے اصل حملے تو مسلمانوں کے پہلوؤں پر ہو رہے تھے۔ جو ماہان کے پلان کے عین مطابق تھے۔ دائیں پہلو پر یوں ہوا کہ رومیوں نے وہاں بڑا تیز حملہ کیا۔ اس پہلو کی کمان عمروؓ بن العاص کے پاس تھی، مجاہدین نے یہ حملہ نہ صرف روک لیا بلکہ دشمن کو پسپا کر دیا۔ دشمن نے یہ حملہ کرنے والے دستوں کو پیچھے کرکے دوسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا۔ یہ پہلے حملے سے زیادہ شدید تھا۔ مسلمانوں نے اس کا بھی مقابلہ کیا لیکن ان کے جسم شل ہو گئے۔ انہوں نے رومیوں کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا جتنا رومیوں نے انہیں پہنچایا تھا اور انہوں نے اس حملے کا دم خم توڑ دیا۔ رومی بری طرح ناکام ہو کر پیچھے ہٹ گئے لیکن مسلمانوں کی جسمانی حالت ایسی ابتر ہو گئی کہ وہ مزید لڑنے کے قابل نہ رہے۔ رومیوں نے تیسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا، اب کہ حملہ آوروں کی نفری بھی زیادہ تھی، مسلمانو ں نے جذبے کے زور پر حملہ روکنے کی کوشش کی تھی مگر جسم ہی ساتھ نہ دیں تو جذبہ ایک حد تک ہی کام آسکتا ہے۔ وہ حد ختم ہو چکی تھی۔

مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان کی ترتیب اور تنظیم ٹوٹ گئی۔ بیشتر اس طرح پسپا ہوئے کہ خیمہ گاہ تک جا پہنچے اور جنہوں نے پسپائی کو قبول نہ کیا وہ درمیانی دستوں یعنی قلب کی طرف جانے لگے۔ سالار عمروؓ بن العاص بھاگنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ان کے پاس محفوظہ میں دو ہزار سوار تھے جو وہاں موجودرہے۔ عمروؓ بن العاص نے ان دو ہزار سواروں سے رومیوں پر حملہ کر دیا۔اس کی قیادت عمروؓ بن العاص نے خود کی، سواروں نے حملہ بہت تیز اور سخت کیا، اور رومیوں کو کچھ پیچھے ہٹا دیا۔ لیکن رومیوں نے تازہ دم دستے آگے لا کر ان دو ہزار مسلمان سواروں کا حملہ ناکام کر دیا اور اتنا دباؤ ڈالا کہ مسلمان سوار منہ موڑ گئے۔ وہ تو جیسے بڑے ہی تیز و تند سیلاب کے بھنور میں پھنس گئے تھے یہ بھی ان کی بہادری تھی کہ وہ لڑائی میں سے زندہ نکل آئے اور خیمہ گاہ کی طرف چلے گئے۔

’’دشمن کو پیٹھ دکھانے والوں پر ﷲ کی لعنت! ‘‘یہ مسلمان عورتوں کی آوازیں تھیں۔’’ جو خیموں کے ڈنڈے ہاتھوں میں لیے کھڑی تھیں۔‘‘ عورتوں نے بھاگ آنے والے مسلمانوں پر لعن طعن اور طنز کے تیر برسائے ، اور مؤرخوں کے مطابق بعض کو عورتوں نے ڈنڈے بھی مارے۔
’’خد اکی قسم!مسلمان خاوند اتنے بے غیرت نہیں ہو سکتے۔‘‘ یہ بیویوں کی آوازیں تھیں، وہ اپنے خاوندوں سے چلّا چلّا کر کہہ رہی تھیں۔’’ کیا تم ہمارے خاوند ہو؟ جو ہمیں غیر مسلموں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے؟‘‘ اس دور کے عربی رواج کے مطابق چند ایک مسلمان عورتوں نے دف اٹھا کر اس کی تال پر گیت گانا شروع کر دیا۔ یہ کوئی باقاعدہ ترانا نہیں تھا۔ عورتوں نے خود گیت گڑھ لیا اور گانے لگیں:’’ہائے تمہاری غیرت کہاں گئی؟‘‘’’اپنی ان بیویوں کو جو خوبصورت ہیں، نیک بھی ہیں،حقیر اور قابلِ نفرت کفار کے پاس، چھوڑ کر بھاگ رہے ہو اس لئے کہ، کفار ان کو اپنی ملکیت میں لے لیں،ان کی عصمتوں کی بے حرمتی کریں،اور ان کو ذلیل و خوار کر دیں۔‘‘

مسلمان پسپائی میں حق بجانب تھے۔ اتنی زیادہ نفری کے حملے کو روکنا ان کیلئے زیادہ دیر تک ممکن نہیں تھا۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے اس لئے عورتوں سے کہا تھا کہ وہ بھاگ آنے والوں کو ڈنڈے اور پتھر ماریں کہ وہ تاریخ ِ اسلام کو پسپائی سے پاک رکھنا چاہتے تھے۔
ان کا مقصد پورا ہو گیا۔ بھاگ آنے والوں کو عورتوں نے نیا حوصلہ دیا۔ ان کا خون کھول اٹھا اور وہ واپس چلے گئے۔ عمروؓ بن العاص نے انہیں جلدی جلدی منظم کیا اور رومیوں پر جوابی حملے کی تیاری کرنے لگے۔بائیں پہلو کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔ ان کے والد ابی سفیانؓ ان کے ماتحت لڑ رہے تھے۔ اس پہلو پر بھی رومیوں نے حملہ کیا تھا جو مسلمانوں نے روک کر پسپاکر دیا تھا۔ دوسرا حملہ جس رومی دستے نے کیا وہ زنجیروں میں بندھا ہوا تھا۔دس دس سپاہی ایک ایک زنجیر کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ زنجیریں اتنی لمبی تھیں کہ سپاہی آسانی سے لڑ سکتے تھے۔ کیونکہ اس دستے کے سپاہی زنجیروں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے اس لئے ان کے حملے کی رفتار تیز نہیں تھی۔

مجاہدین نے پہلا حملہ بڑی جانفشانی سے روکا تھا اور رومیوں کو پسپا کرنے کیلئے انہیں چند گھنٹے لڑناپڑا تھا۔اس کے فوراً بعد تازہ دم دستوں کا حملہ روکنا ان کیلئے محال ہو گیا۔ حملہ آوروں کی نفری تین گنا سے بھی کچھ زیادہ تھی چنانچہ مسلمانوں کے جسموں نے ان کے جذبوں کا ساتھ نہ دیا اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ پسپا ہونے لگے۔ان کی عورتوں کے خیمے ان کے پیچھے محفوظ فاصلے پر تھے۔ پسپا ہونے والوں میں ان کے سالار کے والد ابی سفیانؓ بھی تھے۔ وہ کوئی معمولی شخص نہیں تھے قبیلے کے سرداروں میں سے تھے۔ قبولِ اسلام سے پہلے انہوں نے مسلمانوں سے کئی لڑائیاں لڑی تھیں اور مسلمانوں کی تباہی اور بربادی میں پیش پیش رہتے تھے۔ قبولِ اسلام کے بعد بھی وہ اپنے بدلے ہوئے کردار میں اہم حیثیت کے مالک رہے لیکن رومیوں کے سیلاب کے آگے ٹھہر نہ سکے، اور عورتوں کے کیمپ کی طرف پسپا ہوئے۔ وہاں بھی عورتوں نے پسپا ہو کر آنے والوں کا استقبال ڈنڈوں سے کیا۔ ان میں ابی سفیانؓ کی بیوی ہند بھی تھیں۔ وہ ان کی طرف دوڑی آئیں اور ڈنڈہ آگے کر کے انہیں روک لیا۔
’’اے ابنِ حرب!‘‘ ہند نے ابی سفیانؓ سے کہا۔’’ تو کدھر بھاگا آرہاہے؟‘‘ انہوں نے ابی سفیانؓ کے گھوڑے کے سر پر ڈنڈہ مارا اور کہا۔’’ یہیں سے لوٹ جا اور ایسی بہادری سے لڑ کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تو نے رسول ﷲﷺ کے خلاف جو کارروائیاں کی تھیں ﷲ وہ بخش دے۔ ‘‘ابی سفیانؓ اپنی بیوی کو جانتے تھے۔ وہ بڑی زبردست خاتون تھیں۔ ابی سفیانؓ نے انہیں اتنا کہنے کی بھی جرات نہ کی کہ وہ بھاگ آنے پر مجبور تھے وہ جانتے تھے کہ ہند کے سامنے بولے اور کچھ دیر رکے رہے تو ہند ڈنڈوں سے مار مار کر انہیں بے ہوش کردیں گی۔
دوسری عورتوں نے یہاں بھی وہی منظر بنا دیا جو دائیں پہلو کے مجاہدین کی عورتوں نے بنا دیا تھا۔بیویوں نے اپنے خاوندوں کو شرمسار کیا اور انہیں ایسا جوش دلایا کہ وہ سب واپس چلے گئے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ میدانِ جنگ تک چلی گئیں۔ ان میں ایک عورت کچھ زیادہ ہی آگے چلی گئی۔ ایک رومی سپاہی اس کے سامنے آگیا وہ اسے ایک عورت ہی سجھ رہا تھا ۔ لیکن اس عورت نے تلوار نکال لی اور اس رومی کو مار ڈالا۔
سالار یزیدؓ بن ابی سفیان ایک جگہ پریشانی کے عالم میں اپنے بکھرے ہوئے مجاہدین کو ڈھونڈتے نظر آئے انہوں نے دیکھاکہ پسپا ہونے والے واپس آگئے ہیں تو ان کے چہرے پر رونق واپس آگئی۔ رومی پیچھے ہٹ گئے تھے ۔یزیدؓ نے اپنے دستوں کو بڑی تیزی سے منظم کیا اور جوابی حملے کا حکم دے دیا۔ ہند نے بہت ہی بلند آواز میں وہی گیت گانا شروع کر دیا جو انہوں نے احد کی جنگ میں اپنے قبیلے کو گرمانے کیلئے گایا تھا۔ اس وقت ہند مسلمان نہیں تھیں۔ ا س گیت کا لب لباب یہ تھا کہ ہم تمہارے لیے راحت اور لطف کا ذریعہ بنتی ہیں۔اگر تم نے دشمن کو شکست دی تو ہم تمہیں گلے لگالیں گی اور اگر تم پیچھے ہٹ آئے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گی۔ جنگِ یرموک میں بھی ہند نے وہی گیت گایا۔

خالدؓ کی نظر پورے محاذ پر تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ دائیں اور بائیں پہلوؤں پر کیا ہو رہا ہے۔ انہیں احساس تھا کہ پہلوؤں کو مدد کی ضرورت ہے لیکن خالدؓ نے مدد کو انتہائی مخدوش صورتِ حال میں استعمال کرنے کی سوچ رکھی تھی۔انہیں خبریں مل گئی تھیں کہ دایاں پہلو پسپا ہو گیا اور بایاں پہلو بھی بکھر کر پیچھے ہٹ گیا ہے۔ خالدؓ نے دونوں پہلوؤں کے سالاروں کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ جوابی حملہ کریں۔ نفری کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو۔ آخر انہیں اطلاع ملی کہ دائیں پہلو کے سالار نے جوابی حملہ کر دیا ہے۔ خالدؓ نے محفوظہ کے سوار دستے کے ساتھ متحرک سوار دستے کے کچھ حصے کو اس حکم کے ساتھ ادھر بھیج دیا کہ وہ دائیں پہلو پر رومیوں پر دوسری طرف سے حملہ کریں۔اس وقت دائیں پہلو سے عمروؓ بن العاص نے جوابی حملہ کیا تھا۔ یہ تھکے ہوئے مجاہدین کاحملہ تھاجو نئے جوش اور ولولے سے کیا گیا تھا لیکن نفری بہت کم تھی۔ پھر بھی حملہ کر دیا گیا تھا۔
’’اب زندہ نہ جائیں۔‘‘ یہ رومیوں کی للکار تھی۔’’ اب بھاگ کر نہ جائیں۔‘‘رومی نفری کی افراط پر ایسادعویٰ کر سکتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی اس قلیل سی نفری کو زندہ نہیں جانے دیں گے۔ لیکن اچانک ان کے پہلو پر بڑا تیز حملہ ہو گیا حملہ آور گھوڑ سوار تھے وہ نعرے لگاتے اور گرجتے آئے تھے۔ ’’ابنِ العاص!‘ سوار دستوں کا سالار للکار رہا تھا۔’’ ہم آگئے ہیں۔ حوصلہ قائم رکھو۔‘‘ عمروؓ بن العاص کے تھکے ہارے مجاہدین کے حوصلوں میں بھی اور جسموں میں بھی جان پڑ گئی اور اس کے ساتھ ہی رومیوں کے حوصلوں سے جان نکل گئی وہ اب دو طرفہ حملوں کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ وہ بوکھلا گئے۔ مسلمان سوارتازہ دم تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ساتھیوں کی بری حالت دیکھ کر اور زیادہ جوش میں آگئے تھے۔ یہ انتقام کا قہر تھا۔ اگر دونوں طرف نفری برابر ہوتی یا دشمن کی نفری ذرا زیادہ ہی ہوتی تو دشمن کا بے تحاشہ نقصان ہوتا اور وہ میدان چھوڑ جاتا لیکن نفری کے معاملے میں رومی سیلابی دریا تھے۔ مسلمانوں کے حملے کاان پر یہ اثر پڑا کہ وہ اپنی بہت سی لاشیں اور بے شمار زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن بھاگے نہیں ۔ بلکہ منظم طریقے سے اپنے محاذ تک واپس چلے گئے۔ اِدھر مرکز یعنی قلب میں کیفیت یہ تھی کہ خالدؓ دشمن کی چال سمجھ چکے تھے۔ رومی ابھی تک مسلمانوں کے قلب کے سامنے موجود تھے۔ وہ ہلکاسا حملہ کرکے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ خالدؓ جان گئے کہ دشمن انہیں مصروف رکھناچاہتا ہے تاکہ وہ اپنے پہلوؤں کی طرف توجہ نہ دے سکیں۔ خالدؓ کو دائیں بائیں پہلوؤں کی اطلاعیں ملیں تو انہوں نے ماہان کا پلان بے کار کرنے کا طریقہ سوچ لیا۔ پہلے تو انہوں نے دائیں پہلو کو مدد بھیجی پھر بائیں طرف توجہ دی جہاں کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔
’’ابن الازور!‘‘ خالدؓ نے اپنے متحرک سوار دستے کے سالار ضرار بن الازور کو بلا کر کہا۔’’ کیا تو دیکھ رہا ہے کہ دشمن ہمارے بازوؤں پر غالب آگیا ہے؟ ‘‘’’دیکھ رہا ہوں ابن الولید!‘‘ ضرار نے کہا۔’’ میں تیرے حکم کا منتظر ہوں۔ کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ میرا گھوڑا کس بے چینی سے کھر مار رہا ہے۔‘‘ ’’بائیں پہلو پر جلد جا ابن الازور! ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ سواردستہ اپنے ساتھ لے اور یزید کی مدد کو اس طرح پہنچ کہ جن رومیوں کے ساتھ وہ الجھا ہوا ہے ان پر پہلو سے حملہ کردو۔‘‘
’’کس حال میں ہے یزید؟‘‘ ضرار نے پوچھا۔’’حال جو مجھے بتایا گیا ہے وہ میں کیسے بیان کروں؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ابی سفیان جو کبھی ہمارے قبیلہ قریش کی آنکھ کا تارا تھا وہ بھی پسپاہو گیا۔ دوسری اطلاع ملی ہے کہ پسپا ہو کر آنے والے پھر آگے چلے گئے لیکن تو جانتا ہے کہ حوصلہ ایک ضرب کھالے تو دوسری ضرب کھانے کی تاب نہیں رہتی۔‘‘

’’ﷲ ہم سب کو حوصلہ دے گا۔‘‘ضرار بن الازور نے کہا۔ضرار تاریخی جنگجو تھے۔ دل میں ﷲ اور رسولﷺ کا عشق ، زبان پر ﷲ اور رسولﷺ کا نام اور ان کی تلوار ﷲ کے نام پر چلتی تھی۔ وہ تو اپنی جان سے لا تعلق ہو چکے تھے۔ خالدؓ کا حکم ملتے ہی انہوں نے اپنے سوار دستے کو ساتھ لیا اور یہ دستہ اپنی ہی اڑائی ہوئی گرد میں غائب ہو گیا۔ وقت بعد دوپہر کا تھا۔ گرمی جھلسا رہی تھی ۔گھوڑے پسینے میں نہا رہے تھے۔ پیاس سے مجاہدین کے منہ کھل گئے تھے اور ان کی روحیں پانی کی نہیں دشمن کے خون کی پیاسی تھیں۔ ضرار بن الازور کے دستے نے ان رومیوں پر ایک پہلو سے حملہ کیا جنہیں یزیدؓ نے اپنے حملے میں الجھا رکھا تھا۔ یہ رومی زنجیر بند تھے۔ انہیں پہلی بار احساس ہو اکہ زنجیریں نقصان بھی دے دیا کرتی ہیں۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ دس دس آدمی ایک ہی زنجیر میں بندھے ہوئے تھے۔ انہوں نے جب حملہ کیا تھا تو ان کی رفتار زنجیروں کی وجہ سے سست تھی۔ اب ان پر ضرار نے حملہ کیا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں سے بچنے کیلئے انہیں تیزی سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا لیکن زنجیریں انہیں تیزی سے پیچھے ہٹنے نہیں دے رہی تھیں۔ ضرار کے سواروں کا ہلہ بڑا ہی تیز اور زوردار تھا ضرار بڑے ذہین سالار تھے اور ان کے ساتھی وہ اپنے ہی طریقے اور جوش سے لڑنے والے سپاہی بھی تھے۔ ان کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ دشمن کی صفوں میں گھس جایا کرتے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے ایسی ہی دلیری کا مظاہرہ کیا وہ رومیوں کے سالار کو ڈھونڈ رہے تھے۔ انہیں وہ سالار نظر آگیا۔ وہ دیرجان تھا۔ اس کے اردگرد اس کے محافظ سوار کھڑے تھے اور وہاں رومی پرچم بھی تھا۔ ضرار اگر اسے للکارتے تو پہلے انہیں اس کے محافظوں کا مقابلہ کرنا پڑتا جو اکیلے آدمی کے بس میں نہیں تھا۔ ضرار محافظوں کو نظر انداز کرکے ان کے حصارمیں چلے گئے اور تلوار کا ایسا وار کیا کہ دیرجان کی گردن تقریباً آدھی کٹ گئی۔
پیشتر اس کے کہ دیرجان کے محافظ ضرار کو گھیر لیتے ضرار وہاں سے غائب ہو گئے تھے۔
محافظوں میں ہڑبونگ مچ گئی۔ ان کا سالار گھوڑے سے لڑھک گیا۔ دو محافظوں نے اسے تھام لیا اور گھوڑے سے گرنے نہ دیا لیکن اس کی زندگی ختم ہو چکی تھی۔ اسے اب مرنا تھا۔ وہ ذبح ہونے والے بکرے کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اسے پیچھے لے جانے لگے تو وہ دم توڑ گیا۔ادھر ضرار ایک قہر کی طرح رومیوں پر برس رہے تھے۔ ادھر خالدؓ نے اسی پہلو کے اس مقام پر حملہ کردیا جہاں رومیوں کا سالار گریگری تھا۔ ضرار اور خالدؓ کے حملوں نے رومیوں کا زور توڑ دیا۔ زیادہ نقصان ان رومی سپاہیوں کا ہوا جو زنجیروں سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، وہ تیزی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے۔اس جوابی حملے کا اثر یہ ہوا کہ رومی پیچھے ہٹ گئے لیکن یہ پسپائی نہیں تھی۔ وہ محاذ یا خیمہ گاہ تک چلے گئے ۔ ان کا نقصان بہت ہوا تھا۔ لیکن ان کے پاس نفری کی کمی نہیں تھی۔ مسلمان فوج پر یہ اثر ہوا کہ ان کا حوصلہ اور جذبہ بحال ہو گیا اور ان میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اتنے بڑے لشکر کو پیچھے ہٹایا جا سکتا ہے تو اسے شکست بھی دی جا سکتی ہے۔
اس روز مزید لڑائی نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ سورج غروب ہو رہا تھا۔وہ رات بیداری کی رات تھی۔ مسلمان عورتیں آگے جا کر لڑنے کیلئے بیتاب ہوئے جا رہی تھیں لیکن ان کیلئے دوسرے کام بھی تھے۔ جن میں فوج کیلئے پانی فراہم کرنا اور کھانا پکانا تھا، اور اس سے بھی زیادہ اہم کام زخمیوں کی مرہم پٹی تھا۔ عورتیں زخمیوں کے زخم صاف کرتی اور ان پر پٹیاں باندھتی تھیں۔ ان کے انداز میں جو خلوص اور جو اپنائیت تھی اس سے زخمیوں کے حوصلے اور زیادہ مضبوط ہو گئے۔ ان میں جو اگلے روز لڑنے کے قابل نہیں تھے وہ بھی لڑنے کو تیار ہو گئے۔مجاہدین رات کو اپنے ساتھیوں کی لاشیں ڈھونڈتے اور پیچھے لاتے رہے، کچھ زخمی بے ہوش پڑے تھے۔ انہیں بھی انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اٹھایا اور پیچھے لے آئے۔ادھر ماہان نے اپنے سالاروں کو اپنے سامنے بٹھا رکھا تھا۔’’
میں شہنشاہِ ہرقل کو کیا جواب دوں گا؟‘‘ وہ سخت برہم تھا۔’’ تم ہی بتاؤ کہ میں شہنشاہ کو کیا بتاؤں کہ ان چند ہزار مسلمانوں کو ہم اپنے گھوڑوں کے قدموں تلے کچل کیوں نہیں سکے؟‘‘کوئی سالار اسے تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔’’ہمارا ایک سالار بھی مارا گیا ہے۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ کیا تم نے ان کے کسی سالار کو قتل کیا ہے؟‘‘اس کے تمام سالار خاموش رہے۔
’’قورین! ‘‘اس نے اپنے ایک سالار قورین سے کہا۔’’ تم سالار دیر جان کے دستے لے لو…… اور سوچ لو کہ پسپا ہونا ہے تو زندہ میرے سامنے نہ آنا۔ آگے ہی کہیں مارے جانا۔ ‘‘اس نے تمام سالاروں سے کہا۔’’ کل کے سورج کے ساتھ مسلمانوں کا سورج بھی غروب ہو جائے……ہمیشہ کیلئے۔
‘‘ماہان نے مسلمانوں کو اگلے روز ختم کردینے کا نیا پلان بنایا اور سالاروں کو سمجھایا۔ اپنے مرے ہوئے سالار دیرجان کی جگہ اس نے قورین کو اس کے دستوں کا سالار مقرر کیا۔مسلمان سالاروں نے بھی رات جاگتے گزاری۔ زخمیوں کی عیادت کی اور مجاہدین کا حوصلہ بڑھایا۔
اگلے روز کی لڑائی پہلے سے کہیں زیادہ شدید اور خونریز تھی۔مسلمانوں کے دائیں پہلو پر سالار عمروؓ بن العاص کے دستے تھے، اور ان کے ساتھ ہی سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے دستے تھے۔ رومیوں نے اس جگہ حملہ کیا جہاں ان دونوں کے دستے آپس میں ملتے تھے ۔دونوں سالاروں نے مل کر رومیوں کا یہ حملہ بے جگری سے لڑ کر پسپا کردیا۔رومیوں نے اپنا پہلے والا طریقہ اختیار کیا، انہوں نے دوسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا، اس طرح وہ بار بار تازہ دم دستے آگے لاتے رہے اور مسلمان ہر حملہ روکتے رہے۔ انہوں نے اپنی تنظیم اور ترتیب برقرار رکھی مگر جسمانی طاقت جواب دینے لگی۔ رومیوں کی کوشش یہی تھی کہ مسلمانوں کو اتنا تھکا دیا جائے کہ حملہ روکنے کے قابل نہ رہیں-

❤ 🇵🇰❤🇵🇰❤


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form