❤ *قسط* *84* ❤
*شمشیر بے نیام* 🏇
دوپہر کے وقت جب گرمی انتہا پر پہنچ گئی تو رومیوں نے زیادہ نفری سے بڑا ہی سخت حملہ کیا۔اس کے آگے پوری کوشش کے باوجود مسلمان جم نہ سکے۔ عمروؓ بن العاص کے پورے کا پورا اور شرجیلؓ بن حسنہ کا تقریباً نصف دستہ پسپا ہو گیا۔اس روز بھی ایسے ہی ہوا جیسے گشتہ روز ہوا تھا۔بھاگنے والوں کو عورتوں نے روک لیا، انہیں ڈنڈے بھی دکھائے، طعنے بھی دیئے، غیرت کو بھی جوش دلایا اور ان کا حوصلہ بھی بڑھایا۔
کسی مؤرخ نے ایک تحریر لکھی ہے کہ ایک مجاہد بھاگ کر پیچھے آیا اور عورتوں کے قریب آکر گر پڑا۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں، منہ کھل گیا تھا۔ایک عورت دوڑتی اس تک پہنچی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔’’کیا تو زخمی ہے؟‘‘ عورت نے پوچھا۔وہ بول نہیں سکتا تھا،
اس نے سر ہلا کر بتایا کہ وہ زخمی نہیں۔
’’پھر توبھاگ کیوں آیا ہے؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’ کیا تیرے پاس تلوار نہیں تھی؟‘
‘مجاہد نے نیام سے تلوار نکالی جس پر نوک سے دستے تک خون جما ہو اتھا۔’’
کیا تیرے پاس دل نہ تھا جو تو بھاگ آیا ہے؟‘‘عورت نے پوچھا۔
مجاہد نے اکھڑی ہوئی سانس کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور بول نہ سکا۔
’’کیا تیری بیوی یہاں ہے؟
‘‘اس نے نفی میں سر ہلایا۔’
’بہن ؟ ‘‘عورت نے پوچھا۔’’ ماں؟‘‘’’
کوئی نہیں۔‘‘ اس نے بڑی مشکل سے کہا۔
’’کیا یہ عورتیں تمہاری مائیں اور بہنیں نہیں؟‘‘عورت نے کہا۔’’ کیا تو برداشت کر لے گا کہ انہیں کفار اٹھا کر لے جائیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ مجاہد نے جاندار آواز میں کہا۔’’کیا تو اﷲ کی راہ میں اپنی جان قربان نہیں کرے گا؟‘
‘’’ضرور کروں گا ۔‘‘ا س نے جواب دیا۔’’
پھر یہاں کیوں آن گرا ہے؟‘‘ عورت نے کہا۔’
’تھک کر چور ہو گیا ہوں۔‘‘ مجاہد نے کہا۔
’’لے میرا ہاتھ پکڑ!‘‘ عورت نے کہا۔’’ میں تجھے اٹھاتی ہوں ۔نہیں اٹھنا تو تلوار مجھے دے۔ تیری جگہ تیری بہن لڑے گی۔‘‘
مجاہد اٹھ کھڑا ہوا اور میدانِ جنگ کی طرف چل پڑا۔ ’’بھائی!‘‘ عورت نے کہا۔’’ ﷲ تجھے فاتح واپس لائے۔‘ ‘مسلمانوں کی پسپائی بزدلی نہیں تھی۔ وہ تو ہمت سے بڑھ کر لڑے تھے۔ ان کا اتنے بڑے لشکر سے لڑ جانا ہی ایک کارنامہ تھا۔ جہاں تک رومیوں کو شکست دینے کا تعلق تھا یہ ارادہ ناکام سی خواہش بنتا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کا بار بار پسپا ہو جانا کوئی اچھا شگون نہ تھا لیکن خالدؓ شکست کو قبول کرنے والے سالار نہیں تھے۔ باقی تمام سالار بھی عزم کے پکے تھے۔سالار اپنے ان مجاہدین کو جو پیچھے آگئے تھے اکٹھا کرکے منظم کر رہے تھے۔ خالدؓ بھی پریشانی کے عالم میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے اور قاصدوں کو گیارہ میل لمبے محاذ پر مختلف سالاروں کو احکام پہنچانے کیلئے دوڑا رہے تھے۔
ایک خاتون ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔’’ابن الولید!‘‘ خاتون نے کہا۔’’خد اکی قسم! عرب نے تجھ سے بڑھ کر کوئی دلیر اور دانشمند آدمی پیدا نہیں کیا۔ کیا تو میری ایک بات پر غور نہیں کرے گا؟…… سالار آگے آگے ہو تو سپاہی اس کے پیچھے جان لڑا دیتے ہیں۔ سالار شکست کھانے پر اتر آئے تو اس کے سپاہی بہت جلد شکست کھا جاتے ہیں۔‘
‘’’میری بہن!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ ہمارے لیے دعا کر۔ تیرے کانوں میں یہ آواز نہیں پڑے گی کہ اسلام کے سالار رومیوں سے شکست کھا گئے ہیں۔‘‘اس خاتون نے کوئی ایسا مشورہ نہیں دیا تھا جو خالدؓ کیلئے نیا ہوتا ، وہ تو اپنی فوج کے آگے رہنے والے سپہ سالار تھے لیکن اس خاتون کے جذبے سے خالدؓ متاثر ہوئے۔ خواتین کا جذبہ تو ہر لڑائی میں ایسا ہی ہوتا تھا لیکن یرموک کی جنگ میں عورتوں کے جذبے کی کیفیت کچھ اور ہی تھی وہ مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے بیتاب تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خواتیں نے مجاہدین کے جسموں اور جذبوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔
اس کے فوراً بعد خالدؓ نے وہ سوار دستہ ساتھ لیا جو انہوں نے خاص مقصد کیلئے تیار کیا اور اسے گھوم پھرکر لڑنے کی ٹریننگ دی تھی، انہوں نے رومیوں کے ایک حصے پر جس کا سالار قناطیر تھا، حملہ کر دیا۔ انہوں نے حملہ دائیں پہلو پر کیا تھا۔ خالدؓ کے حکم کے مطابق سالار عمروؓ بن العاص نے اسی حصے کے بائیں پہلو پر حملہ کیا ان کے ساتھ سالار شرجیلؓ بن حسنہ بھی اپنے دستوں کے ساتھ تھے
رومیوں نے بڑی بے جگری سے یہ دو طرفہ حملہ روکا۔ وہ اگلے دستوں کو پیچھے کرکے تازہ دم دستے آگے لاتے تھے۔ تھکے ماندے مسلمانوں نے جیسے قسم کھالی تھی کہ پیچھے نہیں ہٹیں گے ، اس لڑائی میں مسلمانوں نے جانوں کی بے دریغ قربانی دی۔ شہید ہونے والوں کی تعداد کئی سو ہو گئی تھی۔ وہ رومیوں کو شکست تو نہ دے سکے صرف یہ کامیابی حاصل کی کہ رومیوں کو ان کے محاذ تک پسپا کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اس دن کا سورج میدانِ جنگ کے خاک و خون میں ڈوب گیا۔اس روز کی جنگ پہلے سے زیادہ شدید اور خونریز تھی۔یہ پہلی جنگ تھی جس میں مسلمان صرف ایک دن میں سینکڑوں کے حساب سے شہید ہوئے اور زخمیوں کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔تاریخ میں صحیح اعداد و شمار نہیں ملتے۔ رومیوں کا جانی نقصان مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ تھا۔لڑنے کے جذبے اور حوصلے کی کیفیت یہ تھی کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی بحال ہو گئی تھی۔حالانکہ ان کی تعدادخاصی کم ہو گئی تھی۔ اور انہیں کمک ملنے کی توقع بھی نہیں تھی۔ ان کا حوصلہ اسی کامیابی سے قائم ہو گیا تھا کہ وہ پسپا نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے رومیوں کو پسپا کر دیا تھا۔رومیوں میں مایوسی پیدا ہو گئی تھی کیونکہ انہیں توقع تھی کہ اتنے بڑے لشکر سے تو پہلے دن ہی مسلمانوں کو تہ تیغ کر کے خالدؓ کو زندہ پکڑ لیں گے لیکن تیسرا دن گزر گیا تھا۔مسلمان پیچھے ہٹتے اور پھر حملہ کر دیتے تھے ۔ہار مانتے ہی نہیں تھے۔
رومیوں کے سالارِ اعلیٰ کی ذہنی حالت تو بہت ہی بری تھی۔ اس نے آج رات پھر سالاروں کو بلایا اور ان پر برس پڑا۔ وہ ان سے پوچھتا تھاکہ وجہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ابھی تک شکست نہیں دے سکے۔ سالاروں نے اپنا اپنا جواز بیان کیالیکن ماہان کا غصہ اور تیز ہو گیا۔آخر رومی سالاروں نے حلف اٹھایا کہ وہ اگلے روز مسلمانوں کو شکست دے کر پیچھے آئیں گے۔گذشتہ رات کی طرح اس رات بھی خالدؓ اور ابو عبیدہؓ تمام تر محاذ پر پھرتے رہے، خالدؓ نے حکم دیا کہ جو زخمی چل پھر سکتے ہیں وہ اگلے روز کی لڑائی میں شامل ہوں گے۔عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہیں، رات کے آخری پہر عورتیں اکٹھی ہوئیں۔ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند اورضرار بن الازور کی بہن خولہ نے عورتوں کو بتایا کہ کل کا دن فیصلہ کن ہوگا۔’’……اور اپنے آدمیوں کی جسمانی حالت ہم سب دیکھ رہی ہیں۔‘‘ ہند نے کہا۔’’مجھے اپنی شکست نظر آرہی ہے اور کمک نہیں آرہی۔ اب ضرورت یہ ہے کہ تمام عورتیں لڑائی میں شامل ہو جائیں۔
‘‘’’کیا ہمارے مرد ہمیں اپنی صفوں میں شامل ہونے دیں گے؟‘‘ ایک عورت نے پوچھا۔’’ہم مردوں سے اجازت نہیں لیں گی۔‘‘ ہند نے کہا ۔’’وہ اجازت نہیں دیں گے۔ کیا تم سب لڑنے کیلئے تیار ہو؟‘‘تمام عورتوں نے جوش و خروش سے کہا کہ وہ کل مردوں سے پوچھے بغیر میدانِ جنگ میں کود پڑیں گی۔اگلے روزکیلئے رومیوں نے جنگ کی جو تیاری کی وہ بڑی خوفناک تھی۔ مسلمان خواتین نے ہتھیار نکال لیے۔ کل انہیں بھی میدان میں اترنا تھا۔
خاک و خون میں ڈوبی ہوئی رات کے بطن سے ایک اور صبح طلوع ہوئی۔ یہ تاریخ اسلام کی ایک بھیانک اور ہولناک جنگ کے چوتھے روز کی صبح تھی۔ مسلمان فجر کی نماز پڑھ چکے تو خالدؓ اٹھے۔ ’’اے جماعتِ مومنین!‘‘ خالدؓ نے مجاہدین سے کہا۔’’ تم نے دن ﷲ کی راہ میں لڑتے اور راتیں ﷲ کویاد کرتے گزاری ہیں۔ ﷲہمارے حال سے بے خبر نہیں۔ ﷲ دیکھ رہا ہے کہ تم لڑنے کے قابل نہیں رہے پھر بھی لڑ رہے ہو۔ اﷲ تم سے مایوس نہیں ہوا۔ تم اس کے رحم و کرم سے مایوس نہ ہونا۔ ہم ﷲ کیلئے لڑ رہے ہیں آج کے دن حوصلہ قائم رکھنا آج اسلام کی قسمت کا فیصلہ ہو گا ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ﷲ کے سامنے بھی رسول ﷲﷺ کی روحِ مقدس کے سامنے بھی اور اپنے ان بھائیوں کی روحوں کے سامنے بھی شرمسار ہوں جو ہمارے ساتھ چلے تھے اور ہم نے ان کے لہولہان جسموں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا ہے۔ کیا تم ان کے بچوں کی خاطر جو یتیم ہو گئے ہیں اور ان کی بیویوں کی خاطر جو بیوہ ہو گئی ہیں اور ان کی بہنوں اور ان کی ماؤں کی عزت کی خاطر نہیں لڑو گے؟‘‘
’’بے شک ابن الولید!‘‘ مجاہدین کی آوازیں اٹھیں۔’’ ہم لڑیں گے۔‘‘ ’’شہیدوں کے خون کے قطرے قطرے کا انتقام لیں گے۔‘‘ ’’آج کے دن لڑیں گے ، کل کے دن اور زندگی کے جتنے دن رہ گئے ہیں وہ کفار کے خلاف لڑتے گزار دیں گے۔‘‘اس طرح مجاہدین نے خالدؓ کی آواز پر جوش و خروش سے لبیک کہا لیکن ان کی آوازوں میں وہ جان نہیں تھی جو ہوا کرتی تھی۔ جہادکا عزم موجود تھا۔ خالدؓ کا یہ پیغام سارے محاذ تک پہنچایا گیا۔ ہر سالار کی زبان پر یہی الفاظ تھے۔’’آج کے دن حوصلہ نہ ہارنا، آج کے دن۔
‘‘ادھر رومی لشکر کے سالاروں کو بھی یہی حکم ملا تھا۔’’ آج کے دن مسلمانوں کا خاتمہ کر دو۔‘‘ صبح کا اجالا صاف ہوتے ہی رومی دستے نمودار ہو ئے۔ ان کا انداز پہلے والا اور پلان بھی پہلے والا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے دائیں پہلو پر سالار عمروؓ بن العاص کے دستوں کا حملہ کیا۔ حملہ آور آرمینیہ کی فوج تھی جس کا سالار قناطیر تھا ۔ عمروؓ بن العاص کے پہلو میں سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے دستے تھے۔ ان پر آرمینیوں نے حملہ کیا اور ان کی مدد کیلئے عیسائی دستے بھی ساتھ تھے۔ عمروؓ بن العاص کیلئے صورتِ حال مخدوش ہو گئی۔ انہوں نے بہت دیر مقابلہ کیا لیکن وہ دشمن کے سیلاب کے آگے ٹھہر نہ سکے۔ عمروؓ بن العاص کے مجاہدین نے تنظیم اور ترتیب توڑ دی اور حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے۔ وہ دراصل پسپا ہو رہے تھے۔ لیکن اب وہ پسپائی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی صفیں توڑ کر انفرادی لڑائی شروع کردی۔
عمروؓ بن العاص سالار سے سپاہی بن گئے، وہ تو تلوار کے دھنی تھے۔ اکیلے انہی کی تلوار نے کئی آرمینیوں کو خون میں نہلا دیا۔ ان کے دستے کا ہر فرد اب اپنی لڑائی لڑ رہا تھا۔ انہوں نے دشمن کی بھی ترتیب توڑ دی۔ رومیوں کے اتحادی یہ آرمینی اس قسم کی لڑائی کی تاب نہ لا سکے لیکن وہ پسپا نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کے پیچھے تازہ دم عیسائی دستے موجود تھے، وہ آرمینیوں کو پیچھے نہیں آنے دیتے تھے
دوسری وجہ یہ کہ ان کے سالار پیچھے ہٹنے کا حکم نہیں دیتے تھے اور تیسری وجہ یہ کہ مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود انہیں لڑائی میں سے نکلنے نہیں دے رہے تھے۔ شرجیلؓ بن حسنہ کے دستوں کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ انہیں دشمن نے بہت پیچھے ہٹا دیا تھا۔ مجاہدین بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ لیکن دشمن کا دباؤ ان کیلئے نا قابلِ برداشت ہو گیاتھا۔
خالدؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے یہ چال سوچی کہ عمروؓ بنالعاص اور شرجیلؓ بن حسنہ پر حملہ کرنے والے آرمینیوں پر پہلو سے حملہ کیا جائے لیکن ان کی مدد کو آنے والے دستوں کا راستہ روکنا بھی ضروری تھا۔ انہوں نے قاصد کو بلایا۔ ’’ابو عبیدہ اور یزید سے کہو کہ آگے بڑھ کر اپنے سامنے والے رومیوں پر حملہ کر دیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’اور انہیں کہنا کہ دشمن کے ان دستوں کو روکے رکھنا ہے کہ ہمارے دائیں پہلو کی طرف نہ جا سکیں اور انہیں کہنا کہ اپنے سوار دستے بھی حملہ کر رہے ہیں۔‘‘قاصد نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ بن ابی سفیان تک جا پہنچا۔ پیغام ملتے ہی ان دونوں سالاروں نے اپنے سامنے والے رومی دستوں پر حملہ کر دیا۔ خالدؓ نے اپنے مخصوص رسالے کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے کی کمان قیس بن ھبیرہ کو دی اور دوسرے کو اپنے کمان میں رکھا۔ خالدؓ اپنے دائیں پہلو کے پیچھے سے گزر کر آگے نکل گئے اور اس طرف سے آرمینی دستوں پر حملہ کر دیا ۔ان کے حکم کے مطابق قیس بن ھبیرہ کے سوار دستوں نے آرمینیوں پر دوسرے پہلو سے حملہ کر دیا۔ شرجیلؓ نے سامنے سے حملہ کر دیا۔
یہ سہہ طرفی حملہ تھا جو آرمینیوں کیلئے ایک آفت ثابت ہوا۔ عیسائی دستے ان کی مدد کو آئے لیکن بے شمار لاشیں تڑپتے ہوئے زخمی اور بے لگام بھاگتے ہوئے گھوڑے چھوڑ کر پسپا ہو گئے، اور اپنے محاذ بلکہ خیمہ گاہ تک جا پہنچے۔ ابھی دشمن کا پیچھا نہیں کیا جا سکتا تھا۔خالدؓ ابھی دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ دشمن حملے کر کر کے تھک جائے۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ نے آگے بڑھ کر جو حملہ کیا تھا وہ انہیں مہنگا پڑا۔ دشمن نے ان دونوں سالاروں کے دستوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔ یہ ویسی تیر اندازی نہیں تھی جیسی لڑائیوں میں معمول کے مطابق ہوا کرتی ہے، یہ تو صحیح معنوں میں تیروں کا مینہ تھا۔ رومی اپنے لشکر کے تمام تیر اندازوں کو آگے لے آئے تھے۔
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فضاء میں اڑتے ہوئے تیروں نے سورج کو چھپا لیا تھا۔ تیر اندازوں کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ سات سو مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر لگے اور آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ اسی لیے اس دن کو ’’یوم النفور‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسلمان تیر اندازوں نے رومی تیر اندازوں پر تیر چلائے لیکن مسلمانوں کے تیر بے کار ثابت ہوئے کیونکہ مسلمانوں کی کمانیں چھوٹی تھیں۔ ان سے تیر دور تک نہیں جا سکتا تھا ۔اس کے علاوہ تیر اندازوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی ۔اسی دن ابو سفیان ؓکی آنکھ میں بھی تیر لگااور وہ ایک آنکھ سے معذور ہو گئے۔ اس صورتِ حال میں مسلمان میدان میں نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ سات سو مسلمان تو وہ تھے جن کی آنکھوں میں تیر لگے تھے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی۔
رومی سالارِ اعلیٰ ماہان ایک اونچی چٹان کی چوٹی سے یہ جنگ دیکھ رہا تھا۔’’وہ وقت آگیا ہے۔‘‘ ماہان نے چلّا کر کہا۔ ’’اب حملے کا وقت آگیا ہے۔ نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘ اس نے اپنے دو سالاروں کو پکار کر کہا۔’’گریگری ،قورین! تیز ہلہ بول دو۔ فیصلے کا وقت آگیا ہے۔‘‘جنگ کے شور وغوغا میں اور پھر اتنی دور سے اس کی آواز سالاروں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس کی پکار اس کے قاصد سن سکتے تھے جو ہر وقت اس کے قریب موجودرہتے تھے۔
’’کوئی اور حکم؟‘‘ایک قاصد نے ماہان کے آگے ہو کر پوچھا۔ ماہان نے اپنا پورا حکم دیا اور قاصد کا گھوڑا بڑی تیزی سے چٹان سے اتر کر میدانِ جنگ کی قیامت خیزی میں غائب ہو گیا۔ ماہان مسلمانوں کو اسی کیفیت میں لانا چاہتا تھا کہ وہ حملہ روکنے کے قابل نہ رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کی نفری ہزاروں کے حساب سے کم ہو گئی تھی اور جو زخمی نہیں تھے وہ جسمانی تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ رومیوں کیلئے وہ فیصلہ کن لمحہ آگیا تھا جس کا حکم ماہان نے گذشتہ رات اپنے سالاروں کو دیا تھا۔
❤ 🇵🇰 ❤
Tags
Shamsheer e Bayniyam