❤ *قسط* *85* ❤
*شمشیر بے نیام* 🏇
ماہان کا حکم پہنچتے ہی رومیوں نے تین سالاروں ابو عبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان اور عکرمہؓ کے دستوں پر حملہ کر دیا۔ ابو عبیدہؓ اور شرجیلؓ کے دستوں پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا کیونکہ ان کے قدم پہلے ہی اکھڑے ہوئے تھے۔ وہ پیچھے ہٹ رہے تھے۔ انہیں میدانِ جنگ سے بھگا دینا رومیوں کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ وہ پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جا رہے تھے۔ رومی جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں لے آئے تھے۔ مسلمانوں کی شکست یقینی تھی اور اس شکست کے نتائج صرف ان مسلمانوں کیلئے ہی تباہ کن نہیں تھے، جو لڑ رہے تھے بلکہ اسلام کیلئے بھی کاری ضرب تھی۔ اسی میدان میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ اس خطے میں مسلمان رہیں گے یا رومی، اسلام رہے گا یا عیسائیت؟
میدان عیسائیت کے ہاتھ تھا۔ ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کے دستوں کے بائیں پہلو پر عکرمہؓ کے دستے تھے۔ ان پر بھی حملہ ہوا تھا۔ لیکن یہ اتنا زور دار نہیں تھا جتنا دوسرے دستوں پر تھا۔ عکرمہؓ نے ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ جیسے بہادر سالار کو پسپائی کی حالت میں دیکھا تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے اپنے دستے بھی نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ’
’خدا کی قسم! ہم یوں نہیں بھاگیں گے۔‘‘ عکرمہؓ نے نعرہ لگایا اور اپنے دستوں میں گھوم پھر کر کہا۔’’ جو لڑ کر مرنے اور پیچھے نہ ہٹنے کی قسم کھانے کو تیار ہے الگ ہو جائے۔ سوچ کر قسم کھانا۔ قسم توڑنے کے عذاب کو سوچ لو۔ فیصلہ کرو تمہیں کیا منظور ہے ؟شکست یا موت؟ ذلت و رسوائی کی زندگی یا با عزت موت؟‘‘اگر صورتِ حال یہ نہ ہوتی اور مسلمان تازہ دم ہوتے تو عکرمہؓ کے اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن مسلمان جسمانی طور پر جس بری حالت کو پہنچ گئے تھے وہ اس کا بہت برا اثر ذہنوں پر بھی پڑا تھا۔ یہ دستے پہلی جنگ تو نہیں لڑ رہے تھے۔ وہ تین تین چار چار برسوں سے گھروں سے نکلے ہوئے تھے اور لڑتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔ یہ جذبہ تھا جو انہیں یہاں تک لے آیا تھا۔ ورنہ عام ذہنی حالت میں یہ ممکن نہیں تھا۔
اس جسمانی اور ذہنی کیفیت میں عکرمہؓ کے اعلان اور للکار پر صرف چار سو مجاہدین نے لبیک کہا اور حلف اٹھایا کہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹھیں گے۔ لڑتے ہوئے جانیں دیدیں گے۔ باقی جو تھے وہ لڑنے سے منہ نہیں موڑ رہے تھے لیکن وہ ایسی قسم نہیں کھانا چاہتے تھے جسے وہ پورا نہ کر سکیں۔ان چار سو مجاہدین نے جنہوں نے حلف اٹھایا تھا اپنے سالار عکرمہؓ کی قیادت میں ان رومیوں پر ہلہ بول دیا جو ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔ یہ ہلہ اتنا شدید تھا جیسے شیر شکار پر جھپٹ رہے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ رومیوں کا جانی نقصان بے شمار ہوا۔ عکرمہؓ کے دستوں میں سے کوئی ایک آدمی بھی پسپا نہ ہوا لیکن چار سو جانبازوں میں سے ایک بھی صحیح و سلامت نہ رہا۔ زیادہ تر شہیدہو گئے اور باقی شدید زخمی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوتے رہے ۔کئی ایک جسمانی طورپر معذور ہو گئے۔
انتہائی شدید زخمی ہونے والوں میں عکرمہؓ بھی تھے اور ان کے نوجوان بیٹے عمرو بھی)یعنی ابو جہل کا بیٹا اور پوتا۔۔سبحان ﷲ ۔۔۔ﷲ جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے گمراہ کر دے( ۔ انہیں بے ہوشی کی حالت میں پیچھے لایا گیا تھا ۔ ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کے دستے پیچھے ہٹتے گئے۔ رومی انہیں دھکیلتے چلے آرہے تھے۔ بڑا ہی خونریز معرکہ تھا۔ جب یہ دستے مسلمانوں کی خیمہ گاہ تک پہنچے تھے تو مسلمان عورتوں نے ڈنڈے پھینک کر تلواریں اور برچھیاں اٹھا لیں اور چادریں پگڑی کی طرح اپنے سروں سے لپیٹ کر رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔ ان میں ضرار کی بہن خولہ بھی تھیں۔ جو عورتوں کو للکار رہی تھیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتیں اپنے دستوں میں سے گزرتی آگے نکل گئیں اور بڑی مہارت دلیری اور قہر سے رومیوں پر جھپٹنے لگیں۔ وہ تازہ دم تھیں انہوں نے رومیوں کے منہ توڑ دیئے ان کی ضربیں کاری تھیں۔ رومی زخمی ہو ہو کر گرنے لگے۔ عورتوں کے یوں آگے آجانے اور رومیوں پر جھپٹ پڑنے کا جو اثر مجاہدین پر ہوا وہ غضب ناک تھا۔ اپنی عورتوں کر لڑتا دیکھ کر مجاہدین آگ بگولہ ہو گئے۔ انسان میں جو مخفی قوتیں ہوتی ہیں وہ بیدار ہو گئیں اور وہی مجاہدین جو پسپا ہوئے جا رہے تھے رومیوں کیلئے قہر بن گئے۔ انہوں نے ترتیب توڑ دی اور اپنے سالاروں کے احکام سے آزاد ہو کر ذاتی لڑائی شروع کر دی، ان کی ضربوں کے آگے رومی بوکھلا گئے، اور پیچھے ہٹنے لگے۔ وہ اپنے زخمیوں کو روندتے جا رہے تھے۔ سالار بھی سپاہی بن گئے، اور عورتیں بدستور لڑتی رہیں۔ دن کا پچھلا پہر تھا۔ معرکہ انتہائی خونریز اور تیز ہو گیا۔ رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے۔ گھمسان کے اس معرکے میں ضرار کی بہن خولہ جو اس وقت تک کئی ایک رومیوں کو زخمی اور ہلاک کر چکی تھیں ایک اور رومی کے سامنے ہوئیں۔ پہلا وار خولہ نے کیا جو رومی نے روک لیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایسا زور دار وار کیا کہ اس کی تلوار نے خولہ کے سر کا کپڑا بھی کاٹ دیا اور سر پر شدید زخم آئے۔ خولہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ پھر انہیں اٹھتے نہ دیکھا گیا۔ اس کے فوراً بعد سورج غروب ہو گیا اور دونوں طرف کے دستے اپنے اپنے مقام پر پیچھے چلے گئے اور زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع ہو گیا۔ رومیوں کی لاشوں اور بے ہوش زخمیوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ نقصان مسلمانوں کا بھی کم نہ تھا لیکن رومیوں کی نسبت بہت کم تھا۔ خولہ کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔انہیں خیمہ گاہ میں ڈھونڈا گیا نہ ملیں تو لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈنے لگے اور وہ بے ہوش پڑی ہوئی مل گئیں۔ سر میں تلوار کا لمبا زخم تھا۔ بال خون سے جڑ گئے تھے۔
’’اس کے بھائی کو اطلاع دو۔‘‘ کسی نے کہا۔ ’’ابن الازور سے کہو تیری بہن شہید ہو رہی ہے۔‘‘ ضرار بن الازور بہت دور تھے۔ بڑی مشکل سے ملے ۔بہن کی اطلاع پر سر پٹ گھوڑا دوڑاتے آئے۔ جب اپنی بہن کے پاس پہنچے تو بہن ہوش میں آگئیں۔ ان کی نظر اپنے بھائی پر پڑی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ’’خدا کی قسم !تو زندہ ہے۔‘‘ ضرار نے جذبات سے مغلوب آواز میں کہا۔ ’’تو زندہ رہے گی۔‘‘ ضرار نے خولہ کو اٹھا کر گلے لگالیا۔ خولہ کے سر پر تہہ در تہہ کپڑ اتھا جس نے تلوار کی ضرب کو کمزور کر دیا تھا۔ سر پر صرف اوڑھنی ہوتی تو کھوپڑی کٹ جاتی پھر زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔جنگ کا بڑا ہولناک دن گزر گیا۔ رومیوں کو اپنے اس عزم میں بہت بری طرح ناکامی ہوئی کہ آج کے دن جنگ کا فیصلہ کردیں گے۔ ان کی نفری تو بہت زیادہ تھی لیکن اس روز ان کی جو نفری ماری گئی تھی اس سے ان کا یہ فخر ٹوٹ گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے کچل ڈالیں گے۔ مسلمانوں نے جس طرح اپنے سالاروں سے آزاد ہو کر ان پر ہلے بولے تھے اس سے وہ محتاط ہو گئے تھے۔ رومیوں کے لشکر میں سب سے زیادہ جو مارے گئے یا شدید زخمی ہوئے وہ عیسائی اور آرمینی اور دوسرے قبائل کے آدمی تھے جو رومیوں کے اتحادی بن کر آئے تھے۔ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان نے انہی کو آگے کر دیا اور بار بار انہی سے حملے کروارہا تھا۔ ان لوگوں کا جذبہ اپنی اتنی زیادہ لاشیں اور زخمی دیکھ کر مجروح ہو گیا تھا۔اس روز ایک اور واقعہ ہو گیا۔ خالدؓ پریشانی کے عالم میں کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ جنگ کے متعلق تو ان کے چہرے پر اضطراب اور ہیجان رہتا تھا لیکن ایسی پریشانی ان کے چہرے پر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہو۔ ان سے پریشانی کا باعث پوچھا گیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’میری ٹوپی!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ سرخ ٹوپی میری کہیں گر پڑی ہے۔
تلاشِ بسیارکے بعد ان کی سرخ ٹوپی مل گئی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ کے چہرے پر رونق اور ہونٹوں پر تبسم آگیا۔ ’’ابن الولید!‘‘ کسی سالار نے پوچھا ۔’’کیا تجھے ان کا غم نہیں جو ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئے ہیں؟ تو ایک ٹوپی کیلئے اتنا پریشان ہو گیا تھا ۔‘‘
’’اس ٹوپی کی قدروقیمت صرف میں جانتا ہوں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ حجۃالوداع کیلئے رسولِ اکرمﷺ نے سر کے بال منڈھوائے تو میں نے کچھ بال اٹھا لئے، رسول ﷲﷺ نے پوچھا کہ ان بالوں کو کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ اپنے پاس رکھوں گا ۔کفار کے خلاف لڑتے وقت یہ بال میرا حوصلہ مضبوط رکھیں گے۔ رسول ﷲﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ یہ بال تیرے پاس رہیں گے اور میری دعائیں بھی تیرے ساتھ رہیں گی۔ ﷲ تجھے ہر میدان میں فتح عطا کرے گا۔ میں نے یہ بال اپنی اس ٹوپی میں سی لیے تھے۔ میں اس ٹوپی سے جدا نہیں ہو سکتا۔ اسی کی برکت سے میری طاقت و ہمت قائم ہے۔‘‘ خالدؓ کو ٹوپی مل جانے کی تو بہت خوشی ہوئی تھی لیکن وہ رات ان کیلئے شبِ غم تھی۔ وہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ان کے ایک زانو پر سالار عکرمہؓ کا سر تھا اور دوسری زانو پر عکرمہؓ کے نوجوان بیٹے عمرو کا سر رکھا ہوا تھا)
وﷲ آنکھوں میں آنسوؤں کی قطاریں ہیں یہ قسط تیار کرتے ہوئے۔ان صحابہ کرامؓ کے بارے میں نسل مجوس ،ایرانی گماشتے، اولادِمتعہ،ابن سبا کی ناجائز نسل رافضی کہتے ہیں کہ وہ سب منافق تھے اور مرتد ہوگئے تھے۔کوئی ان رافضیوں کے کفر کا پردہ چاک کرے تو فوراً اسے فرقہ پرست،وہابی اور تکفیری کا لقب دے دیا جاتا ہے۔سلام صحابہ کرامؓ سلام۔۔ہمارا سب کچھ آپؓ کی ناموس پر قربان
باپ بیٹا اس روز کی لڑائی میں اتنے زیادہ زخمی ہو گئے تھے کہ ہوش میں نہیں آرہے تھے۔ جسموں سے خون نکل گیا تھا۔ زخم ایسے تھے کہ ان کی مرہم پٹی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس روز باپ بیٹا قسم کھاکر لڑے تھے کہ مر جائیں گے مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عکرمہؓ خالدؓکے بھتیجے بھی تھے اور دوست بھی۔ ان کا بڑا پرانا ساتھ تھا۔ دونوں مانے ہوئے شہسوار اور شمشیر زن تھے ۔خالدؓ کو اپنے اتنے عزیز ساتھی کے بچھڑ جانے کا بہت دکھ تھا۔ عکرمہؓ کا نوجوان بیٹا بھی دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔ خالدؓ نے پانی اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ وہ پانی میں اپنا ہاتھ ڈبوتے اور انگلیاں جوڑ کر کبھی عکرمہؓ کے نیم وا ہونٹوں پر رکھتے کبھی ان کے بیٹے عمرو کے ہونٹوں پر۔ مگر قطرہ قطرہ پانی جو باپ بیٹے کے منہ میں جا رہا تھا وہ آبِ حیات نہیں تھا۔ ﷲ نے اس عظیم باپ اور اس کے بیٹے کو فرائض سے سبکدوش کر دیا تھا۔ اس طرح عکرمہؓ نے اور اس کے فوراً بعد ان کے بیٹے نے خالدؓ کی گود میں سر رکھے جانِ جان آفرین کے سپرد کر دی۔
خالدؓ کے آنسو نکل آئے۔ ’’کیا ابنِ حنطمہ اب بھی کہتا ہے کہ بنی مخزوم نے جانیں قربان نہیں کیں؟ ‘‘خالدؓ نے کہا۔حنطمہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ کی والدہ کا نام تھا۔ خالدؓ اور عکرمہؓ بنی مخزوم میں سے تھے۔ خالدؓ کو غالباً وہم تھا کہ عمرؓ کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کی اسلام کیلئے جانی قربانیاں تھوڑی ہیں۔ عکرمہؓ اور ان کے بیٹے کی شہادت معمولی قربانی نہیں تھی ۔وہ رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔جیسے لمحے لمحے ڈر ڈر کر کانپ کانپ کر گزار رہی ہو۔ زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔کئی شہیدوں کی بیویاں وہیں تھیں لیکن کسی عورت کے رونے کی آوازنہیں آتی تھی(یہی فرق ہے اسلام اور کفر کے درمیان)۔
فضاء خون کی بو سے بوجھل تھی۔ دن کو اڑی ہوئی گرد زمین پر واپس آرہی تھی۔ شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر انہیں دفن کیا جا رہا تھا۔
ابو عبیدہؓ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو کسی ایک سالار کو مقرر کرتے تھے کہ وہ تمام خیمہ گاہ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرہ داروں کو دیکھے پھر مجاہدین کو جا کر دیکھے جنہیں دشمن کی خیمہ گاہ پر نظر رکھنے کیلئے آگے بھیجاجاتا تھا۔ اس رات ابو عبیدہؓ نے اس خیال سے کسی سالار کو اس کام کیلئے نہ کہا۔ کہ سب دن بھر کے تھکے ہوئے ہیں۔ وہ خود اس کام کیلئے چل پڑے۔ لیکن وہ جدھر بھی گئے انہیں کوئی نہ کوئی سالار گشت پر نظر آیا)
سبحان ﷲ(۔ سالار زبیرؓ تو اپنی بیوی کو ساتھ لے کر گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کی بیوی بھی دن کو لڑی تھیں۔ یہ رات بھی گزر گئی۔
جنگِ یرموک کی پانچویں صبح طلوع ہوئی۔ خالدؓ نے فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی سالاروں کو بلا لیا تھا۔ ’’میرے رفیقو!‘‘ خالدؓ نے کہا ۔ ’’آج کا دن کل سے زیادہ خطرناک ہو گا ۔اپنی تعدا ددیکھ لو۔ ہم تھوڑے رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں ان کی حالت بھی تمہارے سامنے ہے۔ آج زخمی بھی لڑیں گے۔ دشمن کا بھی بہت نقصان ہو چکا ہے لیکن اس کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ اتنے زیادہ نقصان کو برداشت کر سکتا ہے۔ تم نے دشمن کے لڑنے کا انداز دیکھ لیا ہے صرف یہ خیال رکھو کہ مرکزیت قائم رہے۔ اب ہم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘
‘خالدؓ نے سالاروں کو کچھ ہدایات دیں اور رخصت کر دیا۔ معاً بعد مسلمان دستے اپنی پوزیشنوں پر چلے گئے ۔ ان کی کیفیت یہ تھی کہ ہر دستے میں جسمانی لحاظ سے جتنے بالکل ٹھیک افراد تھے اتنے ہی زخمی بھی تھے۔ زخمیوں میں زیادہ تر ایسے تھے جو کسی حد تک لڑنے کے قابل تھے لیکن ایسے بھی تھے جو لڑنے کے قابل نہیں تھے مگر وہ اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ عورتیں آج بھی لڑنے کیلئے تیار تھیں۔ مسلمانوں کی یہ دگرگوں کیفیت دشمن سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اس نے اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہا تھا۔ مسلمان سالار رومیوں کے محاذ کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں توقع تھی کہ آج رومی زیادہ نفری کے دستوں سے حملہ شروع کر دیں گے۔
مسلمان سالاروں کو یہ خطرہ بھی نظر آرہاتھا کہ رومی اپنے سارے لشکر سے حملہ کردیں گے۔ صبح سفید ہو چکی تھی لیکن رومی آگے نہ آئے، پھر سورج نکل آیا لیکن رومی آگے نہ آئے۔ رومیوں کا یہ سکوت خطرناک لگتا تھا۔ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی معلوم ہوتی تھی۔ خالدؓ کو خیال گزرا کہ رومی مسلمانوں کو حملے میں پہل کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ خالدؓ پہل نہیں کرناچاہتے تھے وہ کچھ وقت اور دفاع کو ہی بہتر سمجھتے تھے۔
آخر رومیوں کی طرف سے ایک سوار آتا دکھائی دیا۔ رومیوں کے لشکر نے کوئی حرکت نہ کی سوار مسلمان دستوں کے سامنے آکر رک گیا۔ وہ کوئی عیسائی عرب تھا۔ عربی روانی سے بولتا تھا۔ ’’میں اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کا ایلچی ہوں۔‘‘ اس نے اعلان کرنے کے انداز سے کہا۔ ’’تمہارے سالارِاعلیٰ سے ملنے آیا ہوں۔‘‘سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے۔ یہ تو انہوں نے اپنے طور پر خالدؓ کو سالارِ اعلیٰ کے اختیارات دے رکھے تھے۔ ذمہ داری بہرحال ابو عبیدہؓ کی تھی اور اہم فیصلے انہوں نے ہی کرنے تھے۔ وہ آگے چلے گئے۔خالدؓ وہاں سے ذرا دور تھے۔ ان کے کان کھڑے ہوئے اور وہ ان کی طرف چل پڑے۔
’’کہو روم کے ایلچی! ‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’ کیا پیغام لائے ہو؟‘‘’’سالارِ اعلیٰ ماہان نے کہا ہے کہ چند دنوں کیلئے لڑائی روک دی جائے ۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’ کیا آپ رضامند ہوں گے؟‘‘ ’’لیکن تمہارے سالارِ اعلیٰ نے کوئی وجہ نہیں بتائی؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’
’یہ عارضی صلح ہوگی۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ اس دوران یہ فیصلہ ہو گا کہ مستقل صلح کیلئے بات چیت ہو گی یا نہیں۔‘‘ ’’ہم عارضی صلح پر رضامند ہو جائیں گے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔ ’’لیکن بات چیت کا فیصلہ کون کرے گا؟‘‘’’کیا آپ لڑائی روکنے پر راضی ہیں؟‘‘ ایلچی نے پوچھا۔ ’’ہاں!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ لیکن……‘‘ ’’نہیں !‘‘ایک گرجدار آواز سنائی دی۔
❤💚💟💛💓💜💔💜💗💛💟
Tags
Shamsheer e Bayniyam