❤ *قسط* *86* ❤
*شمشیر بے نیام* 🏇
دونوں نے دیکها یہ خالد کی آواز تهی آواز تھی۔ انہوں نے ابو عبیدہؓ کی صرف ہاں سنی تھی۔’’
ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ ان کے سالار نے عارضی صلح کیلئے کہا ہے۔‘‘
’’امین الامت !‘‘خالدؓنے ابو عبیدہؓ کے کان میں کہا۔’’ یہ حملے کی تیاری کیلئے مہلت چاہتے ہیں۔ ان کا اتنا نقصان ہو چکا ہے کہ فوری طور پر حملہ نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے اجازت دے کہ اس ایلچی کو کورا جواب دے سکوں۔
‘‘’’اے سلطنتِ روم کے ایلچی!‘‘ ابو عبیدہؓ نے ایلچی سے کہا۔’’ صلح سمجھوتے کا وقت گزر گیا ہے۔ اپنے اتنے زیادہ آدمی مروا کر میں یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ میں اپنے اتنے زیادہ مجاہدین کا خون ضائع کر آیا ہوں۔لڑائی جاری رہے گی۔
‘‘ابو عبیدہؓ نے گھوڑا موڑا اور خالدؓ کے ساتھ اپنے محاذ کی طرف چل پڑے۔ ’
’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ اپنے مجاہدین کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ انہیں آرام مل جائے اور کچھ زخمی ٹھیک ہو جائیں کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ……‘‘ ’’سب دیکھ رہا ہوں ابن الجراح !‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ لیکن حالت ہمارے دشمن کی بھی ٹھیک نہیں۔ ورنہ صلح کا دھوکا نہ دیتا۔ رومیوں کے ساتھ بہت سے قبیلے تھے۔ رومی سالاروں نے انہی کو سب سے پہلے مروایا ہے اور اپنی باقاعدہ فوج کو وہ بہت کم استعمال کر رہے ہیں۔ یہ قبیلے باغی ہو گئے ہوں گے یا ان کا دم خم ٹوٹ چکا ہو گا ۔ہم انہیں سنبھلنے کی مہلت نہیں دیں گے۔
‘‘’’کیا تو ان پر حملے کی سوچ رہا ہے؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔ ’’کیا تو سوچنے کے قابل نہیں رہا امین الامت!‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’آمل کر سوچیں گے۔‘‘خالدؓ نے جو سوچا وہ بڑا ہی پر خطر اور دلیرانہ اقدام تھا۔وہ دن جو جنگ کاپانچواں دن تھا۔ بغیر لڑائی کے گزر گیا۔ دستوں کو ایک دن کا آرام تو مل گیا تھا لیکن سالاروں نے آرام نہ کیا۔ خالدؓ نے سالاروں کو اپنے ساتھ مصروف رکھا۔ انہوں نے آٹھ ہزار گھوڑ سوار الگ کرکے ایک دستہ بنا لیا۔ سالاروں کو اپنا نیا منصوبہ سمجھایا۔ انہوں نے یہ منصوبہ جن پیادوں اور سواروں کیلئے بنایا تھا ان میں آدھی تعداد زخمی تھی۔ ایسا خطرہ خالدؓ ہی مول لے سکتے تھے۔چھٹے دن کی صبح طلوع ہوئی، رومی لشکر آگے آگیا، مسلمان میدان میں نئی ترتیب سے موجود تھے۔ رومی سالار گریگری گھوڑے پر سوار آگے بڑھا۔ گریگری ان دستوں کا سالار تھا جن کے دس دس سپاہی ایک ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے ۔ گریگری نے دونوں فوجوں کے درمیان گھوڑا روکا۔
’’کیا تمہارے سالارِ اعلیٰ میں ہمت ہے کہ میرے مقابلے میں آئے؟‘‘ گریگری نے للکار کر کہا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گریگری کی طرف گئے۔’
’رُک جا ابن الجراح!‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کو پکارا اور گھوڑا دوڑا کران کے قریب چلے گئے۔ کہنے لگے۔ ’’تو آگے نہیں جائے گا۔ مجھے جانے دے۔‘‘’’آہ ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا ۔’’وہ مجھے للکار رہا ہے۔‘‘’’امین الامت کو روک لو۔‘‘ متعدد سالاروں نے شور مچایا۔’’ ابن الولید کو جانے دو۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ گریگری کو مسلمان سالار ماہر تیغ زن سمجھتے تھے۔ تیغ زنی میں ابو عبیدہؓ بھی کم نہ تھے پھر بھی سب خالدؓ کو گریگری کی ٹکر کا آدمی سمجھتے تھے لیکن ابو عبیدہؓ نے کسی کی نہ سنی اور گریگری کے مقابلے کیلئے چلے گئے۔گریگری نے ابو عبیدہؓ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ا س نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس طرح ایک طرف لے گیا جیسے وہ پہلو کی طرف سے آکر تلوار کا وار کرنا چاہتا ہو۔ ابو عبیدہؓ نے گھوڑا روک لیا اور گریگری کو کنکھیوں دیکھتے رہے۔ گریگری نے اپنے ہی انداز سے گھوڑا گھما کر اور دوڑا کر ابو عبیدہؓ پر وار کیا۔ وار ایسا تھا جو لگتا تھا کہ روکا نہیں جا سکے گا۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے وار روک کر گھوڑے کو گھمایا اور بڑی پھرتی سے وار کیا۔ گریگری نے وار روک لیا۔
اس کے بعد تلواریں ٹکراتی اور گھوڑے اپنے سواروں کے پینتروں کے مطابق گھومتے ، مڑتے دوڑتے اور رُکتے رہے۔ دونوں سالار شمشیر زنی کے استاد معلوم ہوتے تھے۔ دونوں کے وار بڑے ہی تیز تھے اور ہر وارلگتا تھا کہ حریف کو کاٹ دے گا۔ دونوں فوجیں اپنے اپنے سالار کو چلّا چلّا کر داد دے رہی تھیں۔ کبھی دونوں فوجیں یوں دم بخود رہ جاتیں جیسے وہاں کوئی انسان موجود ہی نہ ہو۔گریگری نے ایک وار کیا جو ابو عبیدہؓ نے روک لیا۔ ابو عبیدہؓ وار کرنے لگے تو گریگری نے گھوڑا دوڑا دیا اور ابو عبیدہؓ کے اردگرد گھومنے لگا۔ ابو عبیدہؓ وار کرنے بڑھتے تو وہ رُک کر وار روکنے کے بجائے گھوڑے کو پرے کر لیتا۔ ابو عبیدہؓ نے وار کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ وار سے بھاگ رہا تھا۔ ایسے نظر آتا تھا جیسے وہ مقابلے سے منہ موڑرہا ہو۔ ابوعبیدہؓ اس کے پیچھے ہو گئے۔آخر اس نے گھوڑے کا رخ اپنے لشکر کی طرف کر دیا۔ ابو عبیدہؓ ا س کے پیچھے پیچھے اور اس کا پیچھا کرتے رہے۔ اس نے گھوڑے کی رفتار تیز کردی۔ ابو عبیدہؓ نے بھی رفتار بڑھا دی۔ رومی لشکر پر تو خاموشی طاری ہو گئی لیکن مسلمانوں نے دادو تحسین کا شور بپا کر دیا۔ رومی سالار مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ گیاتھا۔گریگری نے گھوڑے کو ایک طرف موڑا اور رفتار تیز کردی۔ ابو عبیدہؓ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے قریب چلے گئے۔ گریگری نے گھوڑا گھما کر ابو عبیدہؓ کے سامنے کر دیا۔ یہ اس کی چال تھی۔ وہ بھاگ نکلنے کا دھوکا دے رہا تھا۔ دھوکا یہ تھا کہ وہ اچانک گھوم کر ابو عبیدہؓ پر وار کرے گا اور انہیں وار روکنے کی مہلت نہیں ملے گی۔
مؤرخ طبری اور بلاذری نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہؓ چوکنے تھے اور گریگری کے دھوکے کو سمجھ گئے تھے ۔گریگری فوراً گھوڑا پیچھے کو موڑ کر وار کرنے لگاتو ابوعبیدہؓ کی تلوار پہلے ہی حرکت میں آچکی تھی۔ گریگری کی گردن موزوں زاویے پر تھی۔ ابو عبیدہؓ کا وار سیدھا گردن پر پڑا۔ جس سے گردن کی ہڈیوں کا ایک جوڑ کٹ گیا اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ گریگری گھوڑے سے گر پڑا۔مسلمانوں نے داد و تحسین کا غل غپاڑہ بپا کر دیا، دستور کے مطابق ابو عبیدہؓ کو گھوڑے سے اتر کر گریگری کی تلوار خود اور زرہ اتار لینی چاہیے تھی لیکن وہ گھوڑے سے نہ اترے ، کچھ دیر گریگری کو تڑپتا دیکھتے رہے۔ جب اس کا جسم بے حس ہو گیا تو ابو عبیدہؓ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اپنی صفوں میں آگئے۔ابن الولیدؓ ابو عبیدہؓ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے نہ رکے۔ وہ گھوڑ سوار دستے کے پاس چلے گئے جو انہوں نے اس روز کی جنگ کیلئے تیارکیا تھا۔ آٹھ ہزار سواروں کے اس دستے کو دائیں پہلو پر عمروؓ بن العاص کے دستوں کے عقب میں ایسی جگہ کھڑا کیا گیا تھا جہاں سے یہ دشمن کو نظر نہیں آسکتا تھا۔خالدؓ نے اپنی تمام فوج کو سامنے کا حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ رومی سالار حیران ہوئے ہوں گے کہ مسلمان سالاروں کا دماغ جواب دے گیا ہے کہ انہوں نے ایک ہی بار ساری فوج حملے میں جھونک دی ہے۔ رومیوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار دستے حملے میں شریک نہیں ۔ رومیوں کو یہ سب کچھ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی تھی، کیونکہ خالدؓ کے حکم کے مطابق بہت تیز حملہ کیا جا رہا تھا۔ رومیوں کی بہت سی نفری ہلاک اور شدید زخمی ہو چکی تھی۔ پھربھی ان کی نفری مسلمانوں کی نسبت سہ گنا تھی، مسلمانوں کا جانی نقصان بھی ہوا۔ اتنی کم نفری کا اتنی بڑی تعداد پر حملہ خودکشی کے برابر تھا۔
’’انہیں آنے دو۔ ‘‘رومی سالار ماہان چلّارہا تھا۔’’ اور آگے آنے دو…… یہ ہمارے ہاتھوں مرنے کیلئے آ رہے ہیں۔‘‘خالدؓ آٹھ ہزار سواروں کو پیچھے لے جا کر رومیوں کے بائیں پہلو سے پرے لے گئے۔ انہوں نے سالار عمروؓ بن العاص سے کہا تھا کہ رومیوں کے اس پہلو پر تیز اور زور دار حملہ کریں ۔ عمروؓ بن العاص نے حکم کی تعمیل کی اور جانیں لڑادیں۔ خالدؓ چاہتے تھے کہ دشمن کو پہلو کے دستوں کے سامنے سے الجھالیا جائے۔
عمروؓ بن العاص نے خالدؓ کا مقصد پورا کر دیا۔ خالدؓ نے آٹھ ہزار سواروں میں سے دو ہزار سواروں کا ایک دستہ الگ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن کے پہلو کے دستے عمروؓ بن العاص کے دستوں سے الجھ گئے ہیں تو چھ ہزار سواروں کے ساتھ رومیوں کے پہلو والے دستوں کے خالی پہلو کی طرف سے حملہ کردیا ۔ رومیوں کیلئے یہ حملہ غیر متوقع تھا۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ عمروؓ بن العاص نے اپنے حملوں میں شدت پیدا کردی۔دشمن کے انہی دستوں پر سامنے سے شرجیلؓ بن حسنہ نے بھی حملہ کیا تھا۔ خالدؓ نے جن دو ہزار سواروں کو الگ کیاتھا، انہیں حکم دیا کہ وہ دشمن کے اس سوار دستے پر حملہ کریں جو اپنے پہلو کے دستوں کی مدد کیلئے تیا ر کیا تھا۔ ان دو ہزار سواروں کیلئے یہ حکم تھا کہ وہ دشمن کے سوار دستے کو روک رکھیں یعنی حملہ شدید نہ کریں بلکہ دشمن کو دھوکے میں رکھیں۔بعد میں پتا چلا کہ رومیوں کا یہ سوار دستہ خاص طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اسے ہر ا س جگہ مدد کیلئے پہنچنا تھا جہاں مدد کی ضرورت تھی۔ مسلمان سواروں نے اس سوار دستے کو اس طرح الجھایا کہ حملہ کرتے اور پیچھے یا دائیں بائیں نکل جاتے ، پینترا بدل کر پھر آگے بڑھتے اور ہلکی سی جھڑپ لے کر اِدھر اُدھر ہو جاتے۔خالدؓ کی یہ چال کارگر ثابت ہوئی۔ انہوں نے دشمن کے مقابلے میں اتنی کم تعداد کو ایسی عقلمندی سے استعمال کیا تھا کہ دشمن کے پہلوکے دستوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان دستوں کو توقع تھی کہ مشکل کے وقت سوار دستے مددکوآجائیں گے لیکن مدد کو آنے والے سواروں کو خالدؓ کے دو ہزار سواروں نے آنکھ مچولی جیسی جھڑپوں میں الجھا رکھا تھا۔دشمن کے پہلو کے دستے ایک بار پیچھے ہٹے تو خالدؓ نے چھ ہزار سواروں سے حملے میں شدت پیدا کردی، ماہان نے خود آکر اپنے دستوں کو جم کر لڑانے کی کوشش کی لیکن اس کا سوار دستہ بری طرح بکھرنے اور پیچھے ہٹنے لگا ۔ پیادہ دستے سوار دستوں کی مدد کے بغیر لڑ نہیں سکتے تھے، وہ بری طرح بکھرنے اور بھاگنے لگے۔ بھاگنے والے پیادہ دستے آرمینی تھے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کے بھاگنے کی ایک وجہ تو مسلمانوں کے سوار دستے کاحملہ تھا اور ان پر سامنے سے بھی بہت زیادہ دباؤ پڑ رہا تھا، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آرمینی سالاروں نے محسوس کیاکہ انہیں دانستہ سواروں کی مدد دسے محروم رکھاجا رہا ہے۔ ان کے پیچھے عیسائی عرب تھے۔ جن کا سالار جبلہ بن الایہم تھا۔ انہوں نے بھی رسالے کی مدد نہ آنے کو غلط سمجھا اور لڑنے سے منہ موڑ گئے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ آرمینیوں اور عیسائیوں کی پسپائی بھگدڑ کی مانندتھی۔ مؤرخوں نے اسے سیلاب بھی کہا ہے جس کے آگے جو کچھ بھی آتا ہے سیلاب اسے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ رومیوں کے بائیں پہلو سے بھاگنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی گئی ہے، چالیس ہزار انسانوں کی بھگدڑ ایسابے قابو سیلاب تھا جو اپنے سالاروں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا، یہاں تک کہ سالارِاعلیٰ ماہان جو ابھی میدان نہیں چھوڑناچاہتا تھا اپنے محافظوں سمیت اس سیلاب کی لپیٹ میں آگیا اور بہتا چلا گیا۔یہ کامیابی خالدؓ کی عسکری دانش کا حاصل تھی۔ انہوں نے دشمن کے پیادوں کو سواروں کی مددسے محروم کردیا تھا اور سواروں سے پیادوں پر ہلہ بول دیا تھا۔ خالدؓ کے آگے بڑھنے کارخ ماہان اور اس کے دو ہزار سوار محافظوں کی طرف تھا۔اِدھر ابو عبیدہؓ اوریزیدؓ بن ابی سفیان اپنے سامنے کے دستوں پر اس اندازسے حملے کر رہے تھے کہ بھرپور لڑائی بھی نہیں لڑتے تھے اور پیچھے بھی نہیں ہٹتے تھے۔ ابو عبیدہؓ نے دشمن کے ان دستوں کو روکاہوا تھا جو زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔ یہ دستے تیزی سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتے تھے۔
خالدؓ دشمن کے اس رسالے کو جس نے سارے محاذ کو مدد دینی تھی، بکھیر کر بھگا چکے تھے۔اس رسالے کو کھل کر لڑنے کا موقع ہی نہیں دیاگیا تھا۔خالدؓ اب اپنے رسالہ (سواردستے) کے ساتھ رومیوں کے عقب میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے عقب سے حملہ کردیا۔ یہ رومی فوج کادوسرا حصہ تھا۔ اس پر اپنے بائیں پہلو کے دستوں اور سوار دستوں کے بھاگنے کا بہت برا اثر پڑ چکا تھا۔ ماہان کے غائب ہوجانے کی وجہ سے مرکزیت بھی ختم ہو گئی تھی۔اب سالار اپنی اپنی لڑائی لڑ ہے تھے۔وہ اب صرف دفاع میں لڑ سکتے تھے۔کسی بھی فوج کا بڑا حصہ بھاگ نکلے اور کمک کی امید نہ رہے تو اس صورت میں یہی ہو سکتا ہے کہ اپنی جانیں بچانے کیلئے لڑا جاتا ہے اور موقع ملتے ہی پسپائی اختیار کی جاتی ہے۔
رومی لشکر کیلئے یہ صورتِ حال پیدا ہو چکی تھی۔ خالدؓ نے دشمن کے بھاگنے کے راستے روک لیے تھے سوائے ایک ،کہ خالدؓ کی بھی یہی کوشش تھی کہ رومی اسی راستے سے بھاگیں ۔ چنانچہ دشمن کے بھاگنے والے دستے اسی راستے پر جارہے تھے۔رومی فو ج بھی پسپا ہو رہی تھی لیکن منظم طریقہ سے۔اس کا کچھ حصہ بھگدڑ میں بہہ گیا تھا۔زیادہ تعداد منظم انداز سے پسپا ہوئی۔خالدؓ نے اس تمام علاقے کی زمین کو دور دور تک دیکھ لیا تھا اور انہوں نے اس زمین سے فائدہ اٹھانے کیلئے اور جو کچھ سوچ لیا تھا وہ کسی عام دماغ میں نہیں آسکتا تھا۔رومی لشکر جب بھاگ رہا تھا تو خالدؓ کے حکم سے ان کے دستے بھاگنے والوں کا تعاقب کرکے ایک خاص طرف جانے پر مجبور کر رہے تھے۔ اس طرف وادی الرّقاد تھی جس میں ایک ندی بہتی تھی اور اس وادی کے خدوخال کچھ اس طرح تھے ۔وادی اردگرد کی زمین سے گہرائی میں چلی جاتی تھی۔ اس کی ایک طرف کی ڈھلان تو ٹھیک تھی لیکن اس کے بالمقابل کی ڈھلان زیادہ تر سیدھی تھی۔ وہاں سے اوپر چڑھا تو جا سکتا تھا لیکن بہت مشکل سے۔رومی فوج کے باقاعدہ دستے اس طرف چلے گئے۔ ان کے سامنے ایک یہی راستہ تھا۔وہ آسان ڈھلان اتر گئے اور انہوں نے ندی بھی پار کرلی۔ جب وہ دوسری ڈھلان چڑھنے لگے تو مشکل پیش آئی۔ آہستہ آہستہ اوپر چلے گئے۔ اچانک اوپر سے نعرے بلند ہوئے اور للکار سنائی دی۔نعرے لگانے والے مسلمان سوار تھے، اور ان کے سالار ضرار بن الازور تھے۔ ان کاجسم ناف کے اوپر سے ننگا تھا ۔خالدؓ نے رات کو جو منصوبہ بنایا تھااس کے مطابق انہوں نے اسی وقت ضرار کو پانچ سو سوار دے کر وادی الرقاد کے دوسرے کنارے پر بھیج دیا اور اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔خالدؓ نے جیسے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ رومی فوج کی دراصل کوشش یہی تھی کہ تعاقب میں جو مسلمان آرہے ہیں، ان سے بہت فاصلہ رکھاجائے۔ اس لیے وہ بہت جلدی میں جا رہے تھے۔ خالدؓ نے تعاقب اسی مقصد کیلئے جاری رکھاتھاکہ رومی فوج جلدی میں رہے۔ اس مقصد میں کامیابی یوں ہوئی کہ رومی اوپر گئے تو اوپر ضرار کے پانچ سو سوار برچھیاں تانے کھڑے تھے ۔ رومی جو اوپر چلے گئے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے اور جو ابھی اوپر جا رہے تھے وہ پیچھے مڑے لیکن عمودی کنارے سے وہ تیزی سے نہیں آسکتے تھے ۔ مسلمانوں نے ان پر پتھر برسانے شروع کر دیئے، جو انہوں نے اسی مقصدکیلئے اکٹھے کر رکھے تھے۔ اوپر والے گرتے اور لڑھکتے ہوئے نیچے جاتے تھے۔ اوپر سے ان پر وزنی پتھر گرتے تھے ۔ان میں گھوڑ سوار بھی تھے۔ گھوڑے بھی گرے اور پیادے ان کے نیچے آکر مرنے لگے۔
❤ 🇵🇰❤🇵🇰❤
Tags
Shamsheer e Bayniyam