Shamsheer e bayniyam Episode 87


❤ *قسط* *87* ❤
*شمشیر بے نیام* 🏇
رومی کچھ کم تو نہ تھے، ابھی ایک بڑی تعداد ندی تک نہ پہنچی تھی۔ رومی سالاروں نے اپنے آگے جانے والوں کی تباہی دیکھی تو اپنے دستوں کوآگے جانے سے روک دیا اور وادی میں اترنے کے بجائے انہیں اوپر صف آراء کر دیا۔ وہ لڑ کر مرنا چاہتے تھے۔آرمینیوں اور عیسائی عربوں کی بھی کچھ نفری ان سے آملی تھی۔ یہ نفری بھاگ رہی تھی اور مسلمان انہیں وادی کی طرف لے آئے تھے۔خالدؓ اپنی فوج کے ساتھ تھے۔ انہوں نے دشمن کو صف آراء دیکھا تو اپنے سالاروں کو بلا کر کہا کہ دشمن پر حملہ کردیں۔’’ان میں لڑنے کادم نہیں رہا۔‘
‘ خالدؓنے کہا ۔’’سیدھا حملہ کرو۔ میرے حکم کا انتظار نہیں کرنا۔ ان کیلئے پیچھے ہٹنے کی جگہ نہیں ہے۔ ایک طرف دریا(یرموک)ہے ، دوسری طرف گہری وادی ہے۔ سامنے ہم کھڑے ہیں۔ ان پر ہلہ بول دو۔‘‘رومی پھندے میں آگئے تھے۔ ان کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی ختم ہوچکاتھا۔ بعض مؤرخوں نے مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار اور دو نے اس سے کچھ کم لکھی ہے ۔ شہادت اور شدیدزخمیوں کی وجہ سے نفری کم ہو گئی تھی۔ ایک دستے کو عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔مسلمانوں نے حملہ کردیا۔ اس میں کوئی چال نہ چلی گئی، اس حملے کاانداز ٹوٹ پڑنے جیسا تھا۔ سوار اور پیادے گڈ مڈ ہو گئے تھے، رومی اب زندگی اور موت کا معرکہ لڑنے کیلئے تیار ہو گئے تھے۔ وہ تو تربیت یافتہ فوج تھی۔ اس فوج کی اگلی صف نے مسلمانوں کا جم کرمقابلہ کیا لیکن وہ جگہ ایسی تھی جہاں دائیں بائیں ہونے اور گھوم پھرکرلڑنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس وجہ سے رومی اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ ٹکرانے اور ایک دوسرے کیلئے رکاوٹ بننے لگے۔یہ صورتِ حال مسلمانوں کیلئے سودمند تھی۔ رومیوں کی اگلی صف نے مقابلہ تو کیا لیکن اس کا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہ رہا۔ مسلمان سواروں نے رومی پیادوں پر گھوڑے چڑھا دیئے اور انہیں صحیح معنوں میں کچل ڈالا، جہاں جگہ کچھ کشادہ تھی۔ وہاں رومیوں نے مقابلہ کیا لیکن مؤرخوں کے مطابق ، یوں بھی ہوا کہ گردوغبار میں رومیوں نے رومیوں کو ہی کاٹ ڈالا۔ اپنے پرائے کی پہچا ن نہ رہی۔یہ بڑا خوفناک معرکہ تھا۔بڑی بھیانک لڑائی تھی۔ یہ رومیوں، عیسائی عربوں اور ان کے اتحادی قبیلوں کا قتلِ عام تھا۔’’
گھوڑوں کو اٹھا کر ان پر گراؤ۔‘‘ یہ خالدؓ کی للکار تھی۔’’ مومنین! کفر کی چٹانوں کو پیس ڈالو۔‘‘مسلمان سوار باگوں کو جھٹکا دیتے تو گھوڑے اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا لیتے اور جب گھوڑے ٹانگیں نیچے لاتے تو ایک دو رومی کچلے جاتے۔ یہ تو رومیوں کا قتلِ عام تھا۔ رومی وادی الرقاد کی طرف بھاگ رہے تھے جہاں وہ اگلے عمودی کنارے کی ایک گھاٹی چڑھتے تو ضرار کے سواروں کی برچھیوں سے چھلنی ہوتے اور اوپر سے لڑھکتے ہوئے نیچے آتے۔مسلمانوں نے اس فتح کیلئے بہت سی جانیں قربان کی تھیں اور جو شدید زخمی ہوئے تھے ان میں کئی ایک ساری عمر کیلئے معذور ہو گئے تھے۔ یہ جنگ مسلمان عورتیں بھی لڑی تھیں۔ عورتوں نے اپنے بھاگتے مردوں کو دھمکیاں دے کر بھاگنے سے روکا تھا۔ اب وہ دشمن جو اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے ارادے سے ڈیڑھ لاکھ کالشکر لایا تھا ۔بڑے برے پھندے میں آگیا تھا۔ وادی الرقاد اس کیلئے موت کی وادی بن گئی تھی۔ﷲ نے مومنین کی وہ دعائیں قبول کر لی تھیں جو وہ راتوں کو جاگ جاگ کر مانگتے اور ﷲ کے حضور گڑگڑاتے رہے تھے ۔ وہ ایک آیت کا ورد کرتے رہے تھے:’
’کتنی ہی بار چھوٹی چھوٹی جماعتیں ﷲکے چاہنے سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں ۔ ﷲ صبر و استقامت والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ قرآن حکیم ۲/۲۴۹اب
میدانِ جنگ کی یہ کیفیت ہو چکی تھی کہ رومیوں کی چیخیں اٹھتی تھیں جو مسلمانوں کے نعروں میں دب جاتی تھیں۔ داوی میں گہری کھائیاں بھی تھیں، بعض رومی ان میں بھی گرے اور بڑی بری موت مرے۔
جنگِ یرموک کے چھٹے اور آخری روزکا سورج میدانِ جنگ کے گردوغبار میں ڈوب گیا۔ فضاء خون کی بو سے بوجھل تھی۔ مشعلیں جل اٹھیں اور رومیوں کی لاشوں کے درمیان گھومنے پھرنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی مشعلیں تھیں،وہ اپنے شہیدوں اور شدید زخمیوں کو اٹھا رہے تھے اور مالِ غنیمت بھی اکٹھا کر رہے تھے۔ خیمہ گاہ میں خبر پہنچی تو عورتیں آگئیں۔ وہ کئی میل فاصلہ طے کر کے آئی تھیں۔ وہ اپنے خاوندوں کو، بھائیوں اور بیٹوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔’ ’تو جنتی ہے۔‘‘ کسی نہ کسی عورت کی آواز سنائی دیتی تھی(ﷲ اکبر۔۔۔ﷲ اکبر۔۔۔ﷲ اکبر)’’ تو جنت میں جا رہا ہے۔‘‘جنگ ختم ہو چکی تھی لیکن خالدؓ کی جنگ ابھی جاری تھی۔ رات بھر مجاہدین شہیدوں، زخمیوں اور مالِ غنیمت میں مصروف رہے لیکن خالدؓ کی مصروفیت کچھ اور تھی۔ ان کیلئے جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔انہوں نے جو رومی قیدی پکڑے تھے ان سے خالدؓ معلوم کر رہے تھے کہ ان کا سالارِ اعلیٰ ماہان جو آرمینیہ کا بادشاہ بھی تھا، کس طرف گیا ہے۔ بیشتر قیدیوں کو معلوم نہ تھا۔آخر پتہ چل گیا، ماہان کو انطاکیہ کے بجائے دمشق کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیاتھا۔ اس کے ساتھ اس کا محافظ سوار دستہ بھی تھا جس کی تعداد دو ہزار تھی۔صبح ہوتے ہی خالدؓ اپنے سوار دستے کو ساتھ لے کر ماہان کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔ اس وقت ماہان دمشق سے دس بارہ میل دور پہنچ چکا تھا۔ اسے یہ توقع نہیں تھی کہ مسلمان اس کے تعاقب میں پہنچ جائیں گے۔ شاید اسی لیے وہ بڑے اطمینان سے جا رہا تھا۔ اس رات اس نے پڑاؤ کیا اور صبح دمشق کو روانہ ہوا تھا۔’’
سالارِ معظم!‘‘ اسے اپنے کسی ساتھی نے کہا۔’’ وہ دیکھیں گرد اڑ رہی ہے، یہ کوئی سوار دستہ لگتا ہے۔‘‘’’اپنا ہی ہوگا۔‘‘ ماہان نے کہا۔’’ان کی گرد کو نہ دیکھو جو میدانِ جنگ کی گرد سے بھاگ آئے ہیں۔ یہ شکست کھا کر آئے ہیں۔‘‘ان کے درمیان پھر خاموشی چھا گئی۔ ماہان کی ذہنی کیفیت بہت بری تھی۔ وہ کسی کے ساتھ بولتا نہیں تھا۔ اس کی افسردگی کا باعث صرف یہ نہیں تھا کہ اس نے شکست کھائی تھی بلکہ یہ کہ اس نے بڑی تھوڑی تعداد کی فوج سے شکست کھائی تھی۔ اس نے مسلمانوں کو کچل کر واپس آنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مگر اب وہ انطاکیہ جانے کے بجائے دمشق کی طرف جا رہا تھا۔ انطاکیہ میں شہنشاہِ روم تھا۔ ماہان اس کاسامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔جن سواروں کی گرد نظر آئی تھی۔اب ان کے گھوڑوں کے قدموں کی ہنگامہ خیز آواز سنائی دینے لگی تھی۔ جو بڑی تیزی سے قریب آرہی تھی۔ ماہان پیچھے نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ انہیں میدان سے بھاگے ہوئے سوار سمجھ رہا تھا۔ سوار قریب آئے تو دو حصوں میں بٹ گئے اور ا س کے گرد گھیرا ڈالنے لگے۔
اس کے ساتھ ہی ایک للکار سنائی دی: انا فارس الضدید انا خالد بن الولید تب ماہان چونکا۔ اس کے ساتھ اپنے دو ہزار سوار محافظ ہی نہیں تھے بلکہ آرمینیا کی باقاعدہ فوج کی بھی کچھ تعداد تھی اور کچھ عیسائی عرب بھی تھے۔ اس نے ان سب کو لڑنے کی ترتیب میں کردیا اور خود اپنے چند ایک محافظ ساتھ لے کر الگ ہٹ گیا۔خالدؓ کو بتایا گیا تھا کہ ماہان کے ساتھ اپنے محافظوں کا سوار دستہ ہے لیکن اس کے ساتھ اس سے دگنی سے بھی کچھ زیادہ تعداد تھی۔ خالدؓ نے گھیرے کی شکل میں حملہ کیا۔ ماہان کی فوج نے جم کر مقابلہ کیا لیکن مسلمان تھکے ہوئے ہونے کے باوجود تازہ دم لگتے تھے ۔ یہ فتح کی خوشی کا اثر تھا۔
تاریخ میں اس مجاہد کا نام نہیں ملتاجو لڑائی میں بچتا بچاتا ماہان تک جا پہنچا۔ وہ ماہان کے سواروں کا حصار توڑ گیا اور اس نے ماہان کو ہلاک کر دیا۔ مجاہد خود بھی زخمی ہوا لیکن ماہان کو ہلاک کرکے اس نے اپنے ساتھیوں کا کام آسان کر دیا۔ اپنے شہنشاہ اور سالارِ اعلیٰ کو مرتا دیکھ کر اس کے سوار معرکے سے نکلنے لگے۔کچھ دیر بعد دشمن کے سوار اور پیادے جدھر کو رخ ہوا ادھر کو بھاگ نکلے لیکن بہت سی لاشیں اور اچھے بھلے گھوڑے چھوڑ گئے۔

دمشق دور نہیں تھا۔ خالدؓ نے دمشق کا رُخ کر لیا۔ یہ ان کا ایک اور دلیرانہ اقدام تھا۔ دمشق پر مسلمانوں کا قبضہ رہا تھا لیکن رومیوں کے اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر مسلمانوں نے دمشق سے قبضہ اٹھا لیا تھا۔’’خدا کی قسم! ‘‘خالدؓ نے کہا ۔’’دمشق کے دروازے اب بھی ہمارے لیے کھل جائیں گے۔ ‘‘توقع نہیں تھی کہ ایسا ہوگا۔ ہوہی نہیں سکتا تھا کہ مسلمانوں کے چلے جانے کے بعد بھی رومیوں نے اس اہم شہر پر اپنا تسلط نہ جمایا ہو۔خالدؓ کی قیادت میں جب مسلمان سواروں کا دستہ دمشق پہنچا تو دیوار کے اوپر سے کسی نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟’’
کیا تم نے نہیں پہچانا کہ یہ تمہارے حاکم تھے لیکن حکومت تمہاری تھی؟ ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ کیا تم نہ کہتے تھے کہ رومیوں سے مسلمان اچھے ہیں……
خدا کی قسم! ہم رومیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر آئے ہیں۔‘‘’’مسلمان آگئے ہیں۔‘‘ یہ ایک نعرہ تھا جو دیوار کے اوپر بلند ہوا۔ پھر یہ نعرہ سارے شہر میں پھیل گیا۔شہر کا بڑا دروازہ کھل گیا اور شہریوں کا ایک بڑا ریلا باہر نکلا۔ لوگوں نے بازو پھیلا کر مسلمانوں کا استقبال کیا اور خوشی سے ناچتے ہوئے خالدؓ اور ان کے سوار دستے کو شہر میں لے گئے، یہ اس اچھے سلوک اور برتاؤ کا اثر تھا جو مسلمانوں نے اہلِ دمشق سے کیا تھا۔ مسلمانوں نے تو کردار کی بلندی کا یہ مظاہرہ کیا تھا کہ دمشق سے رخصت ہونے سے پہلے شہریوں سے وصول کیا ہوا جزیہ واپس کر دیاتھا۔ خالدؓ دمشق میں نہیں رُک سکتے تھے۔ انہیں یرموک پہنچنا تھا اور فتح کے بعد کے امور اور انتظامات دیکھنے تھے وہ اسی وقت روانہ ہو گئے۔شام سے رومی سلطنت کا بوریا بستر گول ہو گیا۔ چند دنوں بعد شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ سے رخصت ہوا۔ اس کا ٹھکانہ اب قسطنطنیہ تھا۔ دو مؤرخوں بلاذری اور طبری نے لکھا ہے کہ شہنشاہِ ہرقل جب انطاکیہ سے روانہ ہو اتو اس نے کچھ دور جا کر رُک کر اور پیچھے مڑ کر دیکھا:’’اے ارضِِ شام!‘‘ اس نے آہ لے کر بوجھل سی آواز میں کہا۔’’ اس بد نصیب کا آخری سلام قبول کر جو تجھ سے جدا ہو رہا ہے۔ اب رومی ادھر آئے بھی تو ان پر تیرا خوف سوار ہوگا…… کتنا خوبصورت ملک دشمن کو دیئے جا رہا ہوں۔‘‘جنگِ یرموک پر ہر دور کے مبصر نے کچھ نہ کچھ لکھا ہے ۔اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ جنگ خالدؓ کی عقل سے جیتی گئی تھی اور یہ کامیابی کارگر چالوں سے حاصل کی گئی تھی۔اس جنگ میں چار ہزار مومنین شہید ہوئے تھے اور زخمی تقریباً سبھی ہوئے تھے خود خالدؓ بھی زخمی تھے۔ رومیوں کی اموات ایک لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہیں۔لیکن مؤرخوں کی اکثریت ستر ہزار پر متفق ہے۔سلطنتِ اسلامیہ شام :
❤ 🇵🇰❤🇵🇰❤


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form