فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
قسط نمبر۔14
اس نے دیکھا کہ یہ پانچ آدمی لباس سے سفری تاجر نظر آتے ہیں اور مسلمان لگتے ہیں۔ لڑکی ان میں سے ایک کی ٹانگوں کو دونوں بازوئوں میں مضبوطی سے پکڑے بیٹھی ہوئی تھی ۔ مشعل کے ناچتے شعلے میں اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف نظر آ رہا تھا ۔ اس کا سینہ اُبھر اور بیٹھ رہا تھا ۔ اس کی سانسیں بُری طرح
اُکھڑی ہوئی تھیں ۔
''یہ لڑکی میرے حوالے کر دو''.............
فخر المصری نے حکم کے لہجے میں کہا ۔
''یہ ایک نہیں''............. ایک آدمی نے التجا کے لہجے میں جواب دیا .............''ہم نے تو سات لڑکیاں آپ کے سلطان کے حوالے کی ہیں ۔ آپ اسے لے جا سکتے ہیں''۔''نہیں''............. .... موبی نے اس کی ٹانگوں کو اور مضبوطی سے پکڑتے ہوئے ، روتے ہوئے اور خوف زدہ لہجے میں کہا ...........''میں اس کے ساتھ نہیں جائوں گی ۔ یہ لوگ عیسائیوں سے زیادہ وحشی ہیں ۔ ان کا سلطان انسان نہیں سانڈ ہے ، درندہ ہے ۔ اس نے میری ہڈیاں بھی توڑ دی ہیں ۔ میں اس سے بھاگ کر آئی ہوں''۔
''کون سلطان؟''....... ...... فخر نے حیران سا ہو کر پوچھا ۔''وہی جسے تم صلاح الدین ایوبی کہتے ہو''........... ...
موبی نے جواب دیا ۔ وہ اب مصر کی زبان بول رہی تھی ۔''یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے''..........
فخر نے کہا اور پوچھا ...........''یہ ہے
کون ؟ تمہاری کیا لگتی ہے ؟''۔''اندر آجائو دوست ! باہر سردی ہے''.......... ایک آدمی نے فخر سے کہا ...........''تلوار نیام میں ڈال لو ۔ ہم تاجر ہیں ۔ ہم سے آپ کو کیا خطرہ ۔ آئو۔ اس لڑکی کی بپتا سن لو''....... اس نے آہ بھر کر کہا ..........''میں آپ کے سلطان کو مردِ مومن سمجھتا تھا مگر ایک خوبصورت لڑکی دیکھ کر وہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ وہ باقی چھ لڑکیوں کا بھی یہی حشر کر رہا ہوگا''۔
''ان کا یہ حشر دوسرے سالاروں نے کیا ہے''............. .. موبی نے کہا ........''شام کو ان
بے چاریوں کو اپنے خیمے میں لے گئے تھے اور انہیں بے سُدھ کر کے خیمے میں ڈال دیا ۔ وہ خیمے میں بے ہوش پڑی ہیں''۔ فخرالمصری تلوار نیام میں ڈال کر ان کے ساتھ خیمے میں چلا گیا ۔ اندر جا کر بیٹھے تو آدمی نے آگ جلا کر قہوے کے لیے پانی رکھا اور مس میں جانے کیا کچھ ڈالتا رہا ۔ دوسرے آدمی نے فخر سے پوچھا کہ اس کا رُتبہ کیا ہے ۔ اس نے بتایا کہ وہ کمان دار اور عہدے دارہے ۔انہوں نے اس کے ساتھ بہت سی باتیں کیں جن سے انہوں نے اندازہ کر لیا کہ یہ شخص عام قسم کا سپاہی نہیں اور ذمہ دار فرد ہے ۔ ذہین اور دلیر بھی ہے ۔ ان لوگوں میں سے ایک نے (کرسٹوفر تھا) فخر کو سات لڑکیوں کی بالکل وہی کہانی سنائی جو انہوں نے صلاح الدین ایوبی کو سنائی تھی ۔ انہوں نے فخر کو یہ بھی بتایا کہ سلطان ایوبی نے ان کے متعلق کیا کہا تھا ۔ ان لڑکیوں نے سلطان کو پیشکش بھی کی تھی کہ وہ اپنے گھروں کو تو واپس نہیں جا سکتیں اور عیسائیوں کے پاس بھی نہیں جانا چاہتیں ، اس لیے وہ مسلمان ہونے کو تیار ہیں ، بشرطیکہ کوئی اچھے رتبوں والے عسکری اُن کے ساتھ شادی کر لیں ۔ ہم نے سنا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کردار کے لحاظ سے پتھر ہے ۔ ہم ہر روز سفر پر رہنے والے تاجر ہیں ، انہیں کہاں ساتھ لیے لیے پھرتے ۔ اُنہیں سلطان کے حوالے کر دیا گیا ، مگر سلطان نے اس لڑکی کے ساتھ جو سلوک کیا ، وہ اس کی زبانی سن لو
فخر المصری نے لڑکی کی طرف دیکھا تو لڑکی نے کہا ……''ہم بہت خوش تھیں کہ خدا نے ہمیں ایک فرشتے کی پناہ دی ہے ۔ سورج غروب ہونے کے بعد سلطان کا ایک محافظ آیا اور مجھے کہا کہ سلطان بلا رہا ہے ۔ میں باقی چھ لڑکیوں کی نسبت ذرا زیادہ خوبصورت ہوں ۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ تمہارا ایوبی بُری نیت سے بلا رہا ہے ، میں چلی گئی ۔ سلطان ایوبی نے شراب کی صراحی کھولی ۔ ایک پیالہ اپنے آگے رکھا اور ایک مجھے دیا ۔ میں عیسائی ہوں ، شراب سو بار پی ہے ۔ بحری جہاز میں عیسائی کمان داروں نے میرے جسم کو کھلونہ بنائے رکھا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی بھی میرے جسم کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ اب اور مرد میرے لیے کوئی نئی چیزیں نہیں تھیں، لیکن ایوبی کو میں فرشتہ سمجھتی تھی ۔ میں اس کے جسم کو اپنے ناپاک جسم سے دور رکھنا چاہتی تھی ، مگر وہ ان عیسائیوں سے بدتر نکلا، جو مجھے بحری جہاز میں لائے تھے اور جب اُن کا جہاز ڈوبنے لگا تو انہوں نے ہمیں ایک کشتی میں ڈال کر سمندر میں اُتار دیا ۔ ان میں سے کسی نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔ ہمارے جسم چچوڑے ہوئے اور ہڈیاں چٹخی ہوئی تھیں ……''خدانے ہمیں بچالیا اور اس آدمی کی پناہ میں پھینک دیا جو فرشتے کے روپ میں درندہ ہے ۔ مجھے سلطان نے ہی بتایا تھا کہ میرے ساتھ کی باقی چھ لڑکیاں اس کے سالاروں کے خیموں میں ہیں ۔ میں نے سلطان کے پائوں پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ شادی کرلو۔ اس نے کہا اگر تم مجھے پسند کرتی ہو تو شادی کے بغیر تمہیں اپنے حرم میں رکھ لوں گا…اس نے میرے ساتھ وحشیوں کا برتائو کیا ۔ شراب میں بد مست تھا۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ لٹالیا، جوں ہی اس کی آنکھ لگی ۔ میں وہاں سے بھاگ آئی ۔ اگر میری بات کا اعتبار نہ آئے تو اس کے محافظوں سے پوچھ لو''۔ اس دوران ایک آدمی نے فخر کو قہوہ پلایا۔ ذراسی دیر بعد فخر کا مزاج بدلنے لگا۔ اس نے نفرت سے قہقہہ لگایا اور کہا…''ہمیں حکم دیتے ہیں کہ عورت اور شراب سے دور رہو اور خود شراب پی کر راتیں عورتوں کے ساتھ گزارتے ہیں''۔ فخر محسوس ہی نہ کر سکا کہ لڑکی کی کہانی محض بے بنیاد ہے اور نہ ہی وہ محسوس کر سکا کہ اس کا مزائج کیوں بدل گیا ہے۔اُسے حشیش پلادی گئی تھی ۔ اس پر ایسا نشہ طاری ہوچکا تھا جسے وہ نشہ نہیں سمجھتا تھا۔ وہ اب اپنے تصوروں میں بادشاہ بن چکاتھا۔ لڑکی کے چہرے پر مشعل کے شعلے کی روشنی ناچ رہی تھی ۔ اس کے بکھرے ہوئے سیاہی مائہل بھورے بال چمک رہے تھے ۔وہ فخر کو پہلے سے زیادہ حسین نظر آنے لگی ۔ اس نے بے تاب ہوکر کہا……''تم اگر چاہو تو میں تمہیں'پناہ میں لیتاہوں''۔''نہیں''…لڑکی ڈر کر پیچھے ہٹ گئی اور بولی …''تم بھی میرے ساتھ اپنے سلطان جیسا سلوک کرو گے۔ تم مجھے اپنے خیمے میں لے جائو گے اور میں ایک بار پھر تمہارے سلطان کے قبضے میں آجائوں گی''۔''ہم تو اب دوسری چھ لڑکیوں کو بھی بچانے کی سوچ رہے ہیں''……ایک تاجر نے کہا……''ہم ان کی عزت بچانا چاہتے تھے مگر ہم سے بھول ہوئی''۔ فخر المصری کی نگاہیں لڑکی پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے اتنی خوب صورت لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی ۔خیمے میں خاموشی طاری ہوگئی ، جسے کرسٹو فرنے توڑا ۔ اس نے کہا۔''تم عرب سے آئے ہو یا مصری ہو؟''''مصری''……فخر نے کہا……''میں دو جنگیں لڑچکا ہوں۔اسی لیے مجھے یہ عہدہ دیا گیا ہے ۔''''سوڈانی فوج کہاں ہے ، جس کا سالار ناجی ہے؟''……کرسٹوفر نے پوچھا۔''اُس فوج کا ایک سپاہی بھی ہمارے ساتھ نہیں آیا''……فخر نے جواب دیا۔''جانتے ہو ایسا کیوں ہوا ہے ؟……کرسٹو فرنے کہا ……''سوڈانیوں نے صلاح الدین ایوبی کی امارات اور کمان کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ فوج اپنے آپ کو آزاد سمجھتی ہے ۔ناجی نے سلطان ایوبی کو بتایا تھا کہ وہ مصر سے چلے جائیں ، کیونکہ وہ غیر ملکی ہیں ۔اسی لیے ایوبی نے مصریوں کی فوج بنائی اور لڑانے کے لیے یہاں لے آیا۔ اس نے تم لوگوں کو شرافت اور نیکی کا جھانسہ دیا اور خود عیش کر رہا ہے ۔ کیا تمہیں مالِ غنیمت ملاہے ؟……اگر تمہیں ملا بھی تو سونے چاندی کے دو دو ٹکڑے مل جائیں گے ۔ صلیبیوں کے جہازوں سے بے بہا خزانہ سلطان ایوبی کے ہاتھ آیا ہے ۔ وہ سب رات کے اندھیرے میں سینکڑوں اونٹوں پر لاد کر قاہراہ روانہ کر دیا گیا ہے ، جہاں سے دمشق اور بغداد چلا جائے لگا۔سوڈانی لشکر کو سلطان نہتہ کر کے غلاموں میں بدل دینا چاہتا ہے ،پھر عرب سے فوج آجائے گی اور تم مصری بھی غلام ہوجائو گے.
اس عیسائی کی ہر ایک بات فخر المصری کے دل میں اُتر تی جارہی تھی ۔ اثر باتو ں کا نہیں ، بلکہ موبی کے حسن اور حشیش کا تھا۔ عیسائیوں نے یہ حربہ حسنِ بن صباح کے حشیشین سے سیکھا تھا۔ موبی کو بالکل توقع نہیں تھی کہ یہ صورتِ حال پیدا ہوجائے گی کہ ایک مصری اس کے تعاقب میں اس کے دام میں آجائے گا۔انہیں معلوم ہوگیا کہ فخر مصر کی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتا ۔موبی نے اپنے پانچوں ساتھیوں کو سنانا شروع کردیا کہ رابن زخمی ہونے کا بہانہ کرکے زخمیوں کے خیمے میں پڑا ہے اور اس نے کہا ہے کہ ناجی سے مل کر معلوم کرو کہ اس نے بغاوت کیوں نہیں کی یا اس نے عقب سے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کیوں نہیں کیا اور یہ بھی معلوم کرو کہ اس نے ہمیں دھوکہ تو نہیں دیا؟ وہ باتیں کررہی تھی تو فخر نے پوچھا ……''یہ کیا کہہ رہی ہے ؟'' ''یہ کہہ رہی ہے ''……ایک نے جواب دیا……''اگر یہ شخص یعنی تم صلاح الدین کی فوج میں نہ ہوتے تو یہ تمہارے ساتھ شادی کرلیتی ۔یہ مسلمان ہونے کو بھی تیار ہے ،لیکن کہتی ہے کہ اسے اب مسلمانوں پر بھروسہ نہیں رہا''۔ فخر نے بے تابی سے لپک کر لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف گھسیٹ کر کہا ''اگر میں بادشاہ ہوتا تو خدا کی قسم تمہاری خاطر تخت اور تاج قربان کردیتا ۔اگر شرط یہی ہے کہ میں صلاح الدین ایوبی کی دی ہوئی تلوار پھینک دوں تو یہ لو'' ……اس نے کمر بند سے تلوار کھولی اور نیام سمیت لڑکی کے قدموں میں رکھ دی ۔ کہا ……''میں اب سے ایوبی کا سپاہی اور کمان دار نہیں ہوں ''۔ ''مگر ایک شرط اور بھی ہے ''……
لڑکی نے کہا ……''میں اپنا مذہب تمہاری خاطر ترک کردیتی ہوں ، لیکن صلاح الدین ایوبی سے انتقام ضرور لوں گی ''۔ ''کیا اسے میرے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتی ہو؟''فخر نے پوچھا ۔ لڑکی نے اپنے آدمیوں کی طرف دیکھا ۔ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آخر کرسٹوفر نے کہا……''ایک صلاح الدین ایوبی نہ رہا تو کیا فرق پڑے گا؟ایک اور سلطان آجائے گا۔ وہ بھی ایسا ہی ہوگا ۔ مصریوں کو آخر غلام ہی ہونا پڑے گا۔ تم ایک کام کرو۔ سوڈانیوں کے سالار ناجی کے پاس پہنچو اور یہ لڑکی اس کے سامنے کر کے اسے بتائو کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اصل میں کیا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں ؟'' ان لوگوں کویہ تو علم تھا کہ ناجی کا صلیبیوں کے ساتھ رابطہ ہے اور موبی اس کے ساتھ بات کرے گی ، لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ناجی اور اس کے معتمد سالار خفیہ طریقے سے مروائے جاچکے ہیں ۔ اس تک لڑکی کوہی جانا تھا۔ اس کا اکیلے جانا ممکن نہیں تھا۔ اتفاق سے انہیں فخر المصری مل گیا۔ لہٰذا اسی کو استعمال کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔ یہ آدمی چونکہ سلطان ایوبی کی نظر میں آگئے تھے ، اس لیے بھی اس کی نظر میں رہنا چاہتے تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے موبی سے سن لیا تھا کہ ان کے شعبہ جاسوسی اور تخریب کاری کا سربراہ رابن اسی کیمپ میں ھے اور فرار ہوگا، اس لیے وہ اسے مدد دینے کے لیے بھی وہاں موجود رہنا چاہتے تھے ۔ان کے ارادے معلوم نہیں کیا تھے ۔ صلاح الدین ایوبی پر چلایا ہوا اِن کا تیر خطا گیا تو انہیں سلطان ایوبی کے سامنے لے جایا گیا تھا۔ ان کا بہروپ اور ڈرامہ کامیاب رہا، لیکن ان کا مشن تباہ ہوگیا تھا۔ لہٰذا اب وہ بدلی ہوئی صورتِ حال اور اتفاقات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کررہے تھے ۔ فخر المصری حسن اور حشیش کے جال میں آگیا تھا۔اس نے واپس کیمپ میں نہ جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
اسکو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ لڑکی کو لے کر روانہ ہوجائے ، اُن لوگوں نے اسے اپنا ایک اونٹ دے دیا۔ پانی کا ایک مشکیزہ دیا اور تھیلے میں کھانے کا بہت سارا سامان ڈال دیا۔ ان اشیاء میں کچھ ایسی تھیں جن میں حشیش ملی ہوئی تھی ۔ موبی کو ان کا علم تھا۔ فخر کو ایک لمبا چغہ اور تاجرروں والی دستار پہنادی گئی ۔ لڑکی اونٹ پر سوار ہوئی ۔ اس کے پیچھے فخر سوار ہوگیا اور اونٹ چل پڑا ۔ فخر گرد و پیش سے بے خبر تھا اور وہ اپنے ماضی سے بھی بے خبر ہوگیا تھا۔ صرف یہ احساس اس پر غالب تھا کہ روئے زمین کی حسین ترین لڑکی اس کے قبضے میں ہے ، جس نے سلطان کو ٹھکرا کر اسے پسند کیا ہے ۔ فخر نے موبی کو دونوں بازوئوں میں لے کر اس کی پیٹھ اپنے سینے سے لگالی ۔ موبی نے کہا……''تم عیسائی کمان داروں اور اپنے سلطان کی طرح وحشی تو نہیں بنوگے ؟میں تمہاری ملکیت ہوں ۔ جو چاہو کرو، مگر میں پھر تم سے نفرت کروں گی ''۔ ''کہو تو میں اونٹ سے اُتر جاتاہوں ''۔ فخر نے اسے اپنے بازوئوں سے نکال کر کہا……''مجھے صرف یہ بتادو کہ تم مجھے دل سے چاہتی ہو یا محض مجبوری کے عالم میں میری پناہ لی ہے ؟'' ''پناہ تو میں ان تاجروں کی بھی لے سکتی تھی ''۔موبی نے جواب دیا……''لیکن تم مجھے اتنے اچھے لگے کہ تمہاری خاطر مذہب تک چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا''……اس نے جذباتی باتیں کرکے فخر کے اعصاب پر قبضہ کر لیا اور رات گزرتی چلی گئی ۔ سفر کم و بیش پانچ دنوں کا تھا.
، لیکن فخر المصری عام راستوں سے ہٹ کر جارہا تھا، کیونکہ وہ بھگوڑا فوجی تھا۔ موبی کو نیند آنے لیگی ۔ اس نے سر یچھے فخر کے سینے پر رکھ دیا اور گہری نیند سوگئی ۔اونٹ چلتارہا، فخر جاگتارہا۔
.....سلسلہ جاری ہے