فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ الله
قسط نمبر 13
صلاح الدین ایوبی کے خیمے کو گھیر رکھا ہے ''۔
''وہ پانچوں کہاں ہیں ؟'' ................
رابن نے پوچھا ۔
'' تھوڑی دور ہیں ؟''.............
موبی نے جواب دیا ..............'' وہ ابھی یہیں رہیں گے ''۔
''سنو موبی !''.......... رابن نے کہا ............ '' اس شکست نے مجھے پاگل کر دیا ہے ۔ میرے ضمیر پر اتنا بوجھ آپڑا ہے ، جیسے اس شکست کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے ۔ صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف تو سب سے لیا گیا ہے، لیکن ایک سپاہی کے حلف میں اور میرے حلف میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ میرے رتبے کو سامنے رکھو۔ میرے فرائض کو دیکھو ۔ آدھی جنگ مجھے زمین کے نیچے اور پیٹھ کے پیچھے سے وار کر کے جیتنی تھی، مگر میں اور تم سات اور وہ پانچ اپنا فرض ادا نہیں کر سکے ۔ مجھ سے یہ صلیب جواب مانگ رہی ہے '' ........... اس نے گلے میں ڈالی ہوئی صلیب ہاتھ میں لے کر کہا ۔ ...... ''
میں اسے اپنے سینے سے جدا نہیں کر سکتا '' ............ اس نے موبی کے سینے پر پڑی صلیب اپنے ہاتھ میں لے لی اور کہا ........... '' تم اپنے ماں باپ کو دھوکہ دے سکتی ہو ، اس صلیب سے آنکھیں نہیں چُرا سکتیں۔ اس نے جو فرض تمہیں سونپا ہے ، وہ پورا کرو۔ خدا نے تمہیں جو حُسن دیا ہے ، وہ چٹانوں کو پھاڑ کر تمہیں راستہ دے دے گا ۔ میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ ہماری اچانک اور غیر متوقع ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ ہمارے لشکر بحیرہ روم کے اُس پار اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ جو مرگئے ، سو مر گئے ، جو زندہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ شکست نہیں دھوکا تھا۔ تم اپنے خیمے میں واپس جائو اور ان لڑکیوں سے کہو کہ خیمے میں نہ پڑی رہیں ۔ بار بار صلاح الدین ایوبی سے ملیں ۔ اس کے سالاروں سے ملیں ۔ بے تکلفی پیدا کریں۔ مسلمان ہونے کاجھانسہ دیں ۔ آگے وہ جانتی ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے ''۔
'' سب سے پہلے تو یہ معلوم کرنا ہے یہ ہوا کیا ہے ؟'' .............
موبی نے کہا .......... '' کیا سوڈانیوں نے ہمیں دھوکہ دیا ہے ؟'' ۔
'' میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا ''...........
رابن نے کہا .......
'' میں نے حملے سے بہت پہلے مصر میں پھیلائے ہوئے اپنے جاسوسوں سے جو معلومات حاصل کیں تھیں ، وہ یہ ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کو سوڈانیوں کے پچاس ہزار محافظ لشکر پر بھروسہ نہیں ، حالانکہ یہ مسلمانوں کے وائسرائے مصر کی اپنی فوج ہے۔ ایوبی نے آکر مصری فوج تیار کر لی ہے ۔ سوڈانی اس میں شامل نہیں ہونا چاہتے ۔ ان کے کمانڈر ناجی نے ہم سے مدد طلب کی تھی ۔ میں نے اس کا خط دیکھا تھا اور میں نے تصدیق کی تھی کہ یہ خط ناجی کا ہی ہے اور اس میں کوئی دھوکہ نہیں مگر ہمارے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ ہوا ہے ۔ مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کیسے ہوا ؟ کس نے کیا ؟ میں یہ چھان بین کیے بغیر واپس نہیں جا سکتا ۔ شاہ آگسٹسن نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کے گھروں کے اندر کے بھید معلوم کر کے ان کی بنیادیں ہلا دوں گا ۔ اب تصور کرو موبی ! شہنشاہ کے دِل پر کیا گزر ہی ہوگی ۔ وہ مجھے سزائے موت سے کم کیا سزا دے گا ! صلیب کا قہر مجھ پر الگ نازل ہوگا ''۔
'' میں سب جانتی ہوں '' ..........
موبی نے کہا ......... '' جذباتی باتیں نہ کرو ، عمل کی بات کرو ، مجھے بتائو میں کیا کروں ''۔
موبی کے ریشم جیسے ملائم اور لمبے بال اس کے آدھے چہرے کو ڈھانپے ہوئے ہیں ۔
رابن نے ان بالوں کے لمس کو ذرا سا محسوس کیا اور کہا ..........'' موبی ! تمہارے یہ بال ایسی مظبوط زنجیریں ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے گرد لپٹ گئیں تو وہ تمہارا غلام ہو جائے گا ، لیکن تمہیں سب سے پہلا جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ کرسٹوفر اور اس کے ساتھیوں سے کہو کہ وہ تاجروں کے بھیس میں ناجی کے پاس پہنچیں اور معلوم کریں کہ اس کے لشکر نے بغاوت کیوں نہیں کی اور یہ راز فاش کس طرح ہوا کہ اس سے فائدہ اُٹھا کر صلاح الدین ایوبی نے گنتی کے چند ایک دستے گھات میں بٹھا کر ہماری تین افواج کا بیڑہ غرق کر دیا اور انہیں یہ بھی کہو کہ معلوم کریں کہ ناجی صلاح الدین ایوبی سے ہی تو نہیں مل گیا ؟ اور اس نے ہمارا یہی حشر کرانے کیلئے ہی تو خط نہیں لکھا ؟ اگر ایسا ہی ہوا ہے تو ہمیں اپنے جنگی منصوبوں میں ردو بدل کرنا ہوگا ۔ مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ اسلامیوں کی تعداد کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو ، انہیں ہم آسانی سے شکست نہیں دے سکتے ۔ ضروری ہو گیا ہے کہ ان کے حکمرانوں کااور عسکری قیادت کا جذبہ ختم کیا جائے ۔ ہم نے تم جیسی لڑکیاں عربوں کے حرموں میں داخل کر دی ہیں '' ۔
'' تم نے بات پھر لمبی کر دی ہے '' ............ موبی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ............. ''
ہم اپنے گھر میں ایک بستر پر نہیں لیٹے ہوئے کہ بڑے مزے سے ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے رہیں ۔ ہم دشمن کے کیمپ میں قید اور پابند ہیں ۔ باہر سنتری پھر رہے ہیں ، رات گزر تی جا رہی ہے ۔ ہمارے پاس لمبی باتوں کا وقت نہیں ۔ ہمارا مشن تباہ ہو چکا ہے ۔ اب بتائو کہ ان حالات میں ہمارا مشن کیا ہونا چاہیے۔ ہم سات لڑکیاں اور چھ مرد ہیں ۔ ہم کیا کریں ۔ ایک یہ کہ ناجی کے پاس جائیں اور اس کے دھوکے کی چھان بین کریں ، پھر کسے اطلاع دیں ؟
تم کہاں ملو گے ؟'' ۔
'' میں یہاں سے فرار ہوجائوں گا '' ............ رابن نے کہا ............. '' لیکن فرار سے پہلے اس کیمپ ، اس کی نفری اور ایوبی کے آئندہ عزائم کے متعلق تفصیل معلوم کروں گا ۔ اس شخص کے متعلق ہمیں بہت چوکنا رہنا ہوگا ۔ اس وقت اسلامی قوم میں یہ واحد شخض ہے جو صلیب کیلئے خطرہ ہے ، ورنہ اسلامی خلافت ہمارے جال میں آتی چلی جا رہی ہے ۔ شاہ ایملرک کہتا تھا کہ مسلمان اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ اب ان کو ہمیشہ کیلئے اپنے پائوں میں بٹھانے کیلئے صرف ایک ہلے کی ضرورت ہے ، مگر اس کا یہ عزم محض خوش فہمی ثابت ہوا ۔ مجھے یہاں رہ کر ایوبی کی کمزور رگیں دیکھنی ہیں اور تمہیں پانچ آدمیوں کے ساتھ مل کر سوڈانی لشکر کو بھڑکانا اور بغاوت کرانی ہے ۔ نہایت ضروری یہ ہے کہ ایوبی زندہ نہ رہے ، اگر وہ زندہ رہے تو ہمارے اس قیدخانے میں زندہ رہے ، جہا ں وہ عمر کے آخری گھڑی تک سورج نہ دیکھ سکے اور رات کو آسمان کا اسے ایک بھی تارہ نظر نہ آئے .......... تم پہلے اپنے خیمے میں جائو اور اپنی چھ لڑکیوں کو ان کا کام سمجھا دو۔ انہیں خاص طور پر ذہن نشین کرادو کہ اُس آدمی کا نام علی بن سفیان ہے جسے اِن ریشمی بالوں، شربتی آنکھوں اور اتنے دلکش جسموں سے ایسے بیکار کرنا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے کام کا نہ رہے اور اگر ہو سکے تو اس کے اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان ایسی غلط فہمی پیدا کرنی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں ۔ تم سب اچھی طرح جانتی ہو کہ دو مردوں میں غلط فہمی اور دشمنی کس طرح پیدا کی جاتی ہے ..............
جائو اور لڑکیوں کو مکمل ہدایت دے کر کرسٹوفر کے پاس پہنچو ۔ اسے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ تیرے تیر کو ایوبی پر آکر ہی خطا ہونا تھا ؟ اب اس گناہ کاکفارہ ادا کرو اور جو کام تمہیں سونپا گیا ہے ، وہ سو فیصد پورا کرو '' ۔
رابن نے موبی کے بالوں کوچوم کر کہا ..........''تمہیں صلیب پر اپنی عزت بھی قربان کرنا پڑے گی ، لیکن خدائے یسوع مسیح کی نظروں میں تم مریم کی طرح کنواری رہو گی ۔ اسلام کو جڑ سے اُکھاڑنا ہے ۔ ہم نے یروشلم لے لیا ہے ۔ مصر بھی ہمارا ہوگا
موبی رابن کے بستر سے نکلی اور خیمے کے پردے کے پاس جا کر پردہ اُٹھایا ، باہر جھانکا ، اندھیرے میں اسے کچھ بھی نظر نہ آیا ۔ وہ باہر نکل گئی اور خیمے کی اوٹ سے دیکھا کہ سنتری کہاں ہے۔ اسے دور کسی کے گنگنانے کی آواز سنائی دی ۔ یہ سنتری ہی ہو سکتا تھا۔ موبی چل پڑی ۔ درختوں سے گزرتی قدم قدم پر پیچھے دیکھتی وہ ٹیلے تک پہنچ گئی اور اپنے خیمے کا رُخ کر لیا ۔ نصف راستہ طے کیاہوگا کہ اسے دو آدمیوں کی دبی دبی باتوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔یہ آوازیں اس کے خیمے کے قریب معلوم ہوتی تھیں ۔ اسے یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ سنتری نے معلوم کر لیا ہے کہ ایک لڑکی غائب ہے اور وہ کسی دوسرے سنتری یا اپنے کمانڈر کو بلا لایاہے۔ اس نے سوچا کہ خیمے میں جانے کی بجائے ان پانچ ساتھیوں کے پاس چلی جائے جو مراکشی تاجروں کے بھیس میں کوئی ڈیڑھ ایک میل دور خیمہ زن تھے مگر اسے یہ خیال بھی آگیا کہ اس کی گمشدگی سے باقی لڑکیوں پر مصیبت آجائے گی ۔ وہ تھیں تو پوری چالاک ، پھر بھی ان پر پابندیاں سخت ہونے کاخطرہ تھا اور کوئی چارہ کار بھی نہ تھا ۔ موبی ذرا اور آگے چلی گئی تا کہ ان دو آدمیوں کی باتیں سن سکے۔ ان کی زبان وہ سمجھتی تھی ۔ یہ تو اس نے دھوکا دیا تھا کہ وہ سسلی کی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں سمجھتی
وہ آدمی خاموش ہوگئے ۔ موبی دبے پائوں آگے بڑھی۔ اسے بائیں طرف قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے چونک کر دیکھا ۔ درختوں کے درمیان اسے ایک سیاہ سایہ جو کسی انسان کاتھا ، جاتا نظر آیا ۔ اس نے رخ بدل لیا اورٹیلے کی طرف آنے لگا ۔ موبی کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی ۔ وہ ٹیلے پر چڑھنے لگی۔ ٹیلا اونچا نہیں تھا ۔ فورا ہی اوپر چلی گئی ۔ وہ تھی تو بہت ہوشیار ، لیکن ہر انسان، ہر قدم پر پوری احتیاط نہیں کر سکتا ۔ وہ ٹیلے کی چوٹی پر کھڑی ہوگئی۔ اس کے پس منظر میں ستاروں سے بھرا ہوا آسمان تھا ۔ سمندر اور صحرا کی فضا رات کو آئینے کی طرح شفاف ہوتی ہے ۔ درختوں میں جاتے ہوئے آدمی نے ٹیلے کی چوٹی پر ٹنڈ منڈ درخت کے تنے کی طرح کا ایک سایہ دیکھا ۔ موبی نے پہلو اس آدمی کی طرف کردیا ۔ اس کے بل کھلے ہوئے تھے ، جنہیں اس نے ہاتھ سے پیچھے کیا۔ اس کی ناک ، سینے کا ابھار اور لمبا لبادہ تاریکی میں بھی راز کو فاش کرنے لگا ۔ یہ آدمی سنتریوں کا کماندار تھا ۔ وہ آدھی رات کے وقت کیمپ کے گشت پر نکلا اور سنتریوں کو دیکھتا پھر رہا تھا ۔ یہ سنتریوں کی تبدیلی کا وقت تھا ۔ کماندار اس لیے زیادہ چوکس تھا کہ سلطان ایوبی تین سالاروں کے ساتھ کیمپ میں موجود تھا ۔ سلطان ڈسپلن کا بڑا ہی سخت تھا ۔ ہر کسی کو ہر لمحہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ سلطان رات کو اٹھ کر گشت پر آجائے گا ۔ کماندار سمجھ گیا کہ ٹیلے پر کوئی لڑکی کھڑی ہے ۔ اسی شام کمان داروں کو خبردار کیا گیا تھا کہ صلیبیوں نے جاسوسی اور تخریب کاری کیلئے لڑکیوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ یہ لڑکیا ں صحرائی خانہ بدوشوں کے بہروپ میں بھی ہو سکتی ہیں اور ایسی غریب لڑکیوں کے بھیس میں بھی جو فوجی کیمپوں میں کھانے کی بھیگ مانگنے آتی ہیں اور یہ لڑکیاں اپنے آپ کو مغویہ اور مظلوم ظاہر کر کے پناہ مانگ سکتی ہیں ۔ کمانداروں کو بتایا گیا تھا کہ آج رات سات لڑکیاں سلطان کی پناہ میں آئی ہیں، جنہیں بظاہر رحم کرکے مگر انہیں مشتبہ سمجھ کر پناہ میں لے لیا گیا ہے ۔ اس کے کماندار نے یہ احکام سن کر اپنے ایک ساتھی سے کہا تھا ........
''اللہ کرے ایسی کوئی لڑکی مجھ سے پناہ مانگے''........ اور وہ دونوں ہنس پڑھے تھے ۔ اب آدھی رات کے وقت جب سارا کیمپ سو رہاتھا ، اسے ٹیلے پر ایک لڑکی کا ہیولا نظر آرہا تھا۔ پہلے تو وہ ڈرا کہ یہ چڑیل یا جن ہو سکتا ہے ۔ اس نے نئے سنتری کو لڑکیوں کے خیمے پر کھڑا کرکے اسے بتایا تھا کہ اندر سات لڑکیاں ہیں ۔ اس نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو دئیے کی روشنی میں اسے سات بستر نظر آئے تھے۔ ہر لڑکی نے منہ بھی کمبلوں میں ڈھانپ رکھا تھا ۔ سردی زیادہ تھی ۔ اس نے اندر جا کر یہ نہیں دیکھا کہ ساتواں بستر خالی ہے اور اس پر کمبل اس طرح رکھے گئے ہیں جیسے ان کے نیچے لڑکی سوئی ہوئی ہو۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ ساتویں لڑکی ٹیلے پر اس کے سامنے کھڑی ہے ۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا کہ اسے آواز دے یا اس تک خود جائے یا اگر وہ جن یا چڑیل ہے تو اس کے غائب ہونے کا انتظار کرے ۔ تھوڑی سی دیر کے انتظار کے بعد بھی لڑکی غائب نہ ہوئی ، بلکہ وہ تین قدم آگے چلی اور پھر پیچھے کو چل پڑی اور پھر رُک گئی۔ کماندار جس کا نام فخر المصری تھا ، آہستہ آہستہ ٹیلے تک گیا اور کہا ......''کون ہو تم ؟ نیچے آئو''۔ لڑکی نے ہرن کی طرح چوکڑی بھری اور ٹیلے کی دوسری طرف اُتر گئی۔ فخر کو یقین آگیاکہ کوئی انسان ہے ، جن چڑیل نہیں ۔ وہ تنومند مرد تھا ۔ ٹیلا اونچا نہیں تھا ۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ٹیلے پر چڑھ گیا ۔ اُدھر بھی اندھیرا تھا ۔ رات کی خاموشی میں اسے لڑکی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ وہ ٹیلے سے دوڑتا اُترا اور لڑکی کے پیچھے گیا ۔ لڑکی اور تیز دوڑ پڑی ۔ فاصلہ بہت کم تھا لیکن فخر مرد تھا ، فوجی تھا ، چیتے کی رفتار سے دوڑ رہا تھا
۔ ٹیلے کے پیچھے اُونچی نیچی زمین خشک جھاڑیاں اور کہیں کہیں کوئی درخت تھا ۔ بہت سا دوڑ کر فخر المصری نے محسوس کیا کہ اس کے آگے تو کوئی بھی نہیں ۔ اِس نے رُک کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔ اسے اپنے پیچھے کچھ نظر نہیں آیا صرف لڑکی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ وہ تربیت یافتہ لڑکی تھی ، جہاں اسے حُسن اور شباب کے استعمال کی تربیت دی گئی تھی ، وہاں اسے فوجی ٹریننگ بھی دی گئی تھی اور خنجر زنی کے دائو پیچ بھی سکھائے گئے تھے۔ وہ ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گئی تھی ۔ فخر آگے گیا تو وہ دوسری طرف دوڑ پڑی ۔ یہ تعاقب آنکھ مچولی کی مانند تھا۔ فخر کو اندھیرا پریشان کر رہا تھا۔ موبی کے قدم خاموش ہوجاتے تو وہ رُک جاتا ۔ قدموں کی آواز سنائی دیتی تو وہ دوڑ پڑتا ۔ غصے سے وہ بائولا ہوا جارہا تھا ۔ اس نے یہ جان لیا تھا کہ یہ کوئی جوان لڑکی ہے ، اگر بڑی عمر کی ہوتی تو اتنی تیز اور اتنا زیادہ نہ بھاگ سکتی ۔ تعاقب میں فخر دو میل فاصلہ طے کر گیا ۔ موبی نے جھاڑیوں اور اونچی نیچی زمین سے بہت فائدہ اُٹھایا ۔ اس کے مرد ساتھیوں کا خیمہ قریب آگیا تھا۔ وہ دوڑتی ہوئی وہاں تک جا پہنچی ۔ اس نے اپنے آدمیوں کو آوازیں دیں ۔ وہ گھبرا کر جاگے اور خیمے سے باہر آئے ۔ ایک نے مشعل جلالی ۔ یہ ڈنڈے کے سرے پر لپٹے ہوئے کپڑے تھے۔ ان کی آگ کی روشنی بہت زیادہ تھی ۔ فخر نے تلوار سونت لی اور ہانپتا کانپتا ان کے سامنے جا کھڑا ہوا
...............سلسلہ جاری ہے