فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ ﷲ
قسط نمبر ۔ 12
'' کیا ان کی تلاشی لی ہے؟'' .............
ایک سالار نے پوچھا ۔
'' لی ہے '' ........... محافظ نے جواب دیا ............. ''
یہ کہتے ہیں کہ ہم تاجر ہیں ۔ ان کا سارا سامان کھلوا کر دیکھا ہے ۔ جامہ تلاشی بھی لی ہے ۔ ان کے پاس ان خنجروں کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں '' ......... اس نے پانچ خنجر سلطان ایوبی کے قدموں میں رکھ دئیے ۔
'' ہم مراکش کے تاجر ہیں '' ...............
ایک تاجرنے کہا ........... '' سکندریہ تک جائیں گے ۔ دو روز گزرے ہمارا قیام یہاں سے دس کوس پیچھے تھا ۔ پرسوں شام یہ لڑکیاں ہمارے پاس آئیں ۔ ان کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سِسلی کی رہنے والی ہیں ۔ انہیں عیسائی فوج کاایک کماندار گھروں سے پکڑ کر ساتھ لے آیا اور ایک بحری جہاز میں جاسوار کیا ۔ ان کے ماں باپ غریب ہیں ۔یہ کہتی ہیں کہ
بے شمار جہاز اور کشتیاں چل پڑیں ۔ لڑکیوں والے جہاز میں چند اور کماندار قسم کے آدمی تھے اور اُن کی فوج بھی تھی ۔ وہ سب ان لڑکیوں کے ساتھ شراب پی کر عیش و عشرت کرتے رہے ۔ اس ساحل کے قریب آئے تو جہازوں پر آگ کے گولے گرنے لگے۔ تمام لوگ جہازوں سے سمندر میں کودنے لگے ۔ ان لڑکیوں کو انہوں نے ایک کشتی میں بٹھا کر جہاز سے سمندر میں اُتار دیا ۔ یہ بتاتی ہیں کہ انہیں کشتی چلانی نہیں آتی تھی ۔ کشتی سمندر میں ڈولتی اور بھٹکتی رہی ۔ پھر ایک روز خود ہی ساحل سے آلگی ۔ ہمارا قیام ساحل کے ساتھ تھا ۔ یہ ہمارے پاس آگئیں ۔ بہت ہی بُری حالت میں تھیں ۔ ہم نے انہیں پناہ میں لے لیا ۔ انہیں ہم دھتکار تو نہیں سکتے تھے ۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کا کیا کریں ۔ پچھلے پڑائو سے یہاں تک انہیں ساتھ لائے ہیں ۔ یہ سوار آگئے اور ہمارے سامان کی تلاشی لینے لگے ۔ ہم نے ان سے تلاشی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی امیرِ مصر کا حکم ہے ۔ ہم نے ان کی منت سماجت کی کہ ہمیں اپنے سلطان کے حضور لے چلو ۔ ہم عرض کریں گے کہ ان لڑکیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں ۔ ہم سفر میں ہیں ۔ انہیں کہاں کہاں لیے پھیریں گے ''
لڑکیوں سے پوچھا تو وہ سِسلی کی زبان بول رہی تھیں ۔ وہ ڈری ڈری سی لگتی تھیں ۔ ان میں سے دو تین اکٹھی ہی بولنے لگیں ۔
صلاح الدین ایوبی نے تاجروں سے پوچھا کہ ان کی زبان کون سمجھتاہے ؟
ایک نے بتایا کہ صرف میں سمجھتا ہوں ۔ یہ التجا کر رہی ہے کہ سلطان انہیں پناہ میں لے لے ۔ کہتی ہیں کہ ہم تاجروں کے قافلے کے ساتھ نہیں جائیں گی ، کہیں ایسا نہ ہو کہ راستے میں ڈاکو ہمیں اُٹھا کر لے جائیں ۔ اِدھر جنگ بھی ہو رہی ہے ۔ ہر طرف عیسائیوں اور مسلمانوں کے سپاہی بھاگتے دوڑتے پھر رہے ہیں ۔ ہمیں سپاہیوں سے بہت ڈر آتا ہے ۔ ہمیں جب گھروں ںسے اُٹھایا گیا تھا تو ہم سب کنواری تھیں ۔ ان فوجیوں نے بحری جہاز میں ہمیں طوائفیں بنائے رکھا ہے ۔
ایک لڑکی نے کچھ کہا تو اس کی زبان جاننے والے تاجر نے سلطان ایوبی سے کہا ........''
یہ کہتی ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے بادشاہ تک پہنچا دو ۔ ہو سکتا ہے اس کے دل میں رحم آجائے''۔
ایک اور لڑکی بول پڑی ۔ اس کی آواز رندھیائی ہوئی تھی۔ تاجر نے کہا.......'' یہ کہتی ہے کہ ہمیں عیسائی سپاہیوں کے حوالے نہ کیا جائے ۔ میں مسلمان ہو جائیں گی ، بشرطیکہ کوئی اچھی حیثیت والا مسلمان میرے ساتھ شادی کر لے '' ۔
دو تین لڑکیاں پیچھے کھڑی منہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ ان کے چہروں پر گھبراہٹ تھی ۔ بات کرتے شرماتی یا ڈرتی تھیں۔
صلاح الدین ایوبی نے تاجر سے کہا ............'' انہیں کہو کہ یہ عیسائیوں کے پاس نہیں جانا چاہتیں ۔ ہم انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔ یہ لڑکی جو کہہ رہی ہے کہ مسلمان ہو جائے گی ، بشرطیکہ کوئی مسلمان اس کے ساتھ شادی کر لے ، اسے کہوں کہ میں اس کی پیشکش قبول نہیں کر سکتا ، یہ خوف اور مجبوری کے عالم میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہے ۔ انہیں بتائو کہ انہیں مجھ پر اعتماد ہے تو میں انہیں اسلام کی بیٹیوں کی طرح پناہ میں لیتا ہوں ۔ اپنے دارالحکومت میں جا کر یہ انتظام کردوں گا کہ انہیں عیسائی راہبوں یا کسی پادری کے پاس بجھوادوں گا ۔
ادری یروشلم میں ہوں گے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب عیسائی قیدیوں کو آزاد کیا جائے گا تو میں کوشش کروں گا کہ ان کی شادیاں قابلِ اعتماد اور اچھی حیثیت کے قیدیوں کے ساتھ کردوں۔ انہیں یہ بھی بتادو کہ کسی مسلمان کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ انہیں اجازت ہوگی کہ کسی مسلمان سے ملیں ۔ ان کی ضروریات اور عزت کا خیال رکھا جائے گا''۔
تاجر نے لڑکیوں کو ان کی زبان میں سلطان ایوبی کی ساری باتیں بتائیں تو ان کے چہروں پر رونق آگئی۔ وہ ان شرائط پر رضا مند ہوگئیں۔ تاجر شکریہ ادا کر کے چلے گئے ۔ صلاح الدین ایوبی نے لڑکیوں کے لیے الگ خیمہ لگانے اور خیمے کے باہر ہر وقت ایک سنتری موجود رہنے کا حکم دیا ۔ وہ خیمے کی جگہ بتانے ہی لگا تھا کہ چھ صلیبی سلطان ایوبی کے سامنے لائے گئے ۔ وہ بہت ہی بُری حالت میں تھے ۔ان کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے ۔ کپڑوں پرخون بھی تھا ، ریت بھی۔ ان کے چہرے لاشوں کی مانند تھے ۔ ان کے متعلق بتایا گیا کہ ڈیڑھ دومیل دورساحل پر بے سُدھ پڑے تھے ۔ وہ ٹوٹی ہوئی کشتی پر تیر رہے تھے ۔ ایک دن کشتی پانی بھرجانے سے ڈوب گئی ۔ یہ سب تیر کر ساحل تک پہنچے ۔ کشتی میں بائیس آدمی سوار ہوئے تھے ۔ صرف یہ چھ زندہ بچے ۔ ان سے چلا نہیں جاتا تھا ۔ یہ صلیبی لشکرکے سپاہی تھے ۔ وہ سب ڈھڑام سے بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک چہرے سے لگتا تھا کہ معمولی سپاہی نہیں ہے ، وہ کراہ رہا تھا ۔ اس کے کپڑوں پر خون کا ایک دھبہ بھی نہ تھا، مگر زخمیوں سے زیادہ تکلیف میں معلوم ہوتا تھا۔ اس نے ساتوں لڑکیوں کو غور سے دیکھا اور پھر کراہنے لگا ۔
یہ صلاح الدین ایوبی کا حکم تھا کہ ہر ایک قیدی اسے دکھایا جائے ، چونکہ قیدی ابھی تک سمندر سے بچ بچ کر نکل رہے تھے ، اس لیے ہر ایک قیدی سلطان ایوبی کے سامنے لایا جا تا تھا۔اس نے قیدیوں کو بھی دیکھا۔ کسی سے کوئی بات نہ کی البتہ اس قیدی کو جو سب سے زیادہ کراہ رہاتھا اور جس کے جسم پر کوئی زخم بھی نہ تھا ، سلطان نے غور سے دیکھا اور آہستہ سے اپنے سالاروں سے کہا ............ ''
علی بن سفیان ابھی
تک نہیں آیا ۔ ان تمام قیدیوں سے جو اب تک ہمارے پاس آچکے ہیں ، بہت کچھ پوچھنا ہے ۔ ان سے معلومات لینی ہیں ''۔اس نے اس قیدی کی طرف دیکھ کرکہا ........
'' یہ آدمی کماندار معلوم ہوتا ہے ۔ اسے نظر میں رکھنا اور جب بھی علی بن سفیان آئے تو اسے کہنا کہ اس سے تفصیلی پوچھ گچھ کرے۔ معلوم ہوتا ہے اسے اندر کی چوٹیں آئی ہیں ۔شاید پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں ........... انہیں فوراً زخمی قیدیوں کے خیموں میں پہنچا دو ۔ انہیں کھلائو اور ان کی مرہم پٹی کرو ''۔
قیدیوں کو اس طرف لے جایا گیا جس طرف زخمی قیدیوں کے خیمے تھے ۔ لڑکیاں انہیں جاتا دیکھتی رہیں، پھر ان لڑکیوں کو بھی لے گئے ۔ فوج کے خیموں سے تھوڑی دور لڑکیوں کے لیے خیمہ نصب کیا جارہا تھا، وہاں سے
کوئی سو قدم دور زخمی قیدیوں کے خیمے تھے، وہاں بھی ایک خیمہ گاڑا جارہا تھا اور چھ نئے زخمی قیدی زمین پر لیٹے ہوئے تھے ۔ لڑکیاں ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ دونوں خیمے کھڑے ہو گئے۔ لڑکیاں اپنے خیمے میں چلی گئیں اور زخمیوں کے اُن کے اپنے خیمے میں لے گئے ۔ ایک سنتری لڑکیوں کے خیمے کے باہر کھڑا ہو گیا ۔ لڑکیوں کے لیے کھانا آگیا جو انہوں نے کھا لیا ۔ پھر ایک لڑکی خیمے سے نکل کر اس خیمے کی طرف دیکھنے لگی جس میں نئے چھ زخمی قیدیوں کے لے گئے تھے ۔ اس کے چہرے پر اب گھبراہٹ اورخوف کا کوئی تاثر نہیں تھا ۔سنتری نے اسے دیکھا اور اسے نے سنتری کو دیکھا ۔ لڑکی نے مُسکرا کر اشارہ کیا کہ وہ زخمیوں کے خیمے کی طرف جانا چاہتی ہے ۔ سنتری نے سر ہلا کر اسے روک دیا ۔ لڑکیوں کو خیمے سے دُور جانے یا کسی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی ۔لڑکیوں اور چھ زخمیوں کے خیموں کے درمیان بہت سے درخت تھے ۔ بائیں طرف مٹی کا ایک ٹیلا تھا جس پر
جھاڑیاں تھیں ۔
سورج غروب ہوگیا ۔ پھر رات تاریک ہونے لگی ۔ کیمپ کے غل غپاڑے پر نیند غالب آنے لگی اور پھر زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں رات کے سکوت میں کچھ زیادہ ہی صاف سنائی دینے لگیں۔ دور پرے بحیرئہ روم کا شور دبی دبی مسلسل گونج کی طرح سنائی دے رہا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی کے اس جنگی کیمپ میں جاگنے والوں میں چند ایک سنتری تھے یا وہ زخمی قیدی جنہیں زخم سونے دیتے تھے یا صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے اندر دِن کا سماں تھا ، وہاں کسی کو نیند نہیں آئی تھی ۔ سلطان ایوبی کے تین سالار اس کے پاس بیٹھے تھے اور باہر محافظ دستہ بیدار تھا۔
سلطان ایوبی نے ایک بار پھر کہا ..........''
علی بن سفیان ابھی تک نہیں آیا '' ........... اس کے لہجے میں تشویش تھی ۔ اس نے کہا ..........'' اس کا قاصد بھی نہیں آیا''۔
''اگر کوئی گڑبڑ ہوتی تو اطلاع آچکی ہوتی '' .......... ایک سالار نے کہا .............
'' معلوم ہوتا ہے وہاں سب ٹھیک ہے ''۔
''اُمید تو یہی رکھنی چاہیے ''.............
صلاح الدین ایوبی نے کہا ........ '' لیکن پچاس ہزار کے لشکر نے بغاوت کردی تو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا ۔ وہاں نفری ڈیڑھ ہزار سوار اور دو ہزار سات سو پیادہ ہیں ۔ان کے مقابلے میں سوڈانی بہتر اور تجربہ کار عسکری ہیں اور تعداد میں بہت زیادہ ''۔
'' ناجی اور اس کے سازشی ٹولے کے خاتمے کے بعد بغاوت ممکن نظر نہیں آتی ''۔ ایک اور سالار نے کہا ۔ '' قیادت کے بغیر سپاہی بغاوت نہیں کریں گے ''۔
''پیش بندی ضروری ہے '' ............ صلاح الدین ایوبی نے کہا ...... '' لیکن علی آجائے تو پتہ چلے گا کہ پیش بندی کس قسم کی کی جائے ''۔
صلیبیوں کو روکنے کیلئے تو سلطان ایوبی خود آیا تھا لیکن دارالحکومت میں سوڈانی فوج کی بغاوت کا خطرہ تھا۔ علی بن سفیان کو سلطان ایوبی نے وہیں چھوڑ دیا تھا ، تا کہ وہ سوڈانی لشکر پر نظر رکھے اور بغاوت کو اپنے خصوصی فن سے دبانے کی کوشش کرے ۔اسے اب تک صلاح الدین ایوبی کے پاس آکر وہاں کے احوال و کوائف بتانے تھے مگر وہ نہیں آیاتھا ۔ جس سے سلطان ایوبی بے چین ہوا جارہا تھا ۔
وہ جب اپنے سالاروں کے ساتھ قاہرہ کی صورتِ حال کے متعلق باتیں کر رہا تھا ، اس کا تمام کیمپ گہری نیند سو چکا تھا مگر وہ ساتوں لڑکیاں جاگ رہی تھیں ، جنہیں سلطان ایوبی نے پناہ میں لے لیا تھا۔ ایک بار سنتری نے خیمے کا پردہ اُٹھاکر دیکھا ، اندر دیا جل رہا تھا ۔ پردہ ہٹتے ہی لڑکیاں خراٹے لینے لگیں ۔ سنتری نے دیکھا وہ پوری سات ہیں اور سو رہی ہیں تو اس نے پردہ گرایا اور خیمے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا ۔ خیمے کے پردے کے ساتھ جو لڑکی تھی اس نے نیچے سے پردہ ذرا اوپر اُٹھایا ۔ پردہ آہستہ سے چھوڑکر اس نے ساتھ والی کے کان میں کہا .......' 'بیٹھ گیا ہے ''............ ساتھ والی نے اگلی لڑکی کے کان میں کہا .......' 'بیٹھ گیا ہے ''............ اور اس طرح کانوں کانوں میں یہ اطلاع ساتوں لڑکیوں تک پہنچ گئی کہ سنتری بیٹھ گیا ہے۔ ایک لڑکی جو خیمے کے دوسرے دروازے کے ساتھ تھی آہستہ سے اُٹھ کر بیٹھی اور بستر سے نکل گئی ۔ بستر زمین پر بچھے تھے ۔ اس لیے اوپر لینے والے کمبل اس طرح بستر پر ڈال دئیے جیسے ان کے نیچے لڑکی لیٹی ہوئی ہے ۔
وہ پائوں پر سرکتی خیمے کے دروازے تک گئی ۔ پردہ ہٹایا اور باہر نکل گئی ۔ باقی چھ لڑکیوں نے آہستہ آہستہ خراٹے لینے شروع کر دئیے ۔ سنتری کو معلوم تھا کہ یہ سمندر سے بچ کر نکلی ہئی پناہ گزین لڑکیاں ہیں ، کوئی خطرناک قیدی تو نہیں ۔ وہ بیٹھ کر اونگھتا رہا ۔ لڑکی دبے پائوں ایسے رُخ پر ٹیلے کی طرف چلتی گئی جس رُخ سے اس کے اور سنتری کے درمیان خیمہ حائل رہا ۔ٹیلے کے پاس پہنچ کر اس نے اُس خیمہ کا رُخ کر لیا جس میں چھ نئے قیدی رکھے گئے تھے ۔ رات تاریک تھی ، وہاں کچھ درخت تھے ۔ سنتری اب اُدھر دیکھتا بھی تو اسے لڑکی نظر نہ آتی ۔ لڑکی بیٹھ گئی اور پائوں سے سرک سرک کر آگے بڑھنے لگی ۔ آگے ریت کی ڈھیریاں سی تھیں ۔ وہ اُن کی اوٹ میں سرکتی ہوئی خیمے کے قریب پہنچ گئی ، مگر وہاں ایک سنتر ٹہل رہا تھا۔ لڑکی ایک ڈھیری کے پاس لیٹ گئی ۔ سنتری اسے سیاہ سائے کی طرح نظر آرہا تھا ۔ وہ اب دو سنتریوں کے درمیان تھی ۔ ایک اس کے اپنے خیمے کا اور دوسرا زخمیوں کے خیمے کا ۔
وہ اب دو سنتریوں کے درمیان تھی ۔ ایک اس کے اپنے خیمے کا اور دوسرا زخمیوں کے خیمے کا ۔ اسے ڈر یہ تھا کہ زخمیوں کا سنتری اس کی طرف آگیا تو وہ پکڑی جائے گی ۔
بہت دیر انتظار کے بعد سنتری دوسرے زخمیوں کی طرف چلا گیا ۔ لڑکی ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتی خیمے تک پہنچ گئی اور پر دہ اُٹھا کر اندر چلی گئی ۔ اندر اندھیرا تھا ۔ دو تین زخمی آہستہ آہستہ کراہ رہے تھے ۔ شاید ان میں سے کسی نے خیمے کا پردہ اُٹھتا دیکھ لیا تھا ۔ اس نے نحیف آواز میں پوچھا.......... ''کون ہے ''...... لڑکی نے منہ سے ''شی '' کی لمبی آواز نکالی اورسرگوشی میں پوچھا .............. ''رابن کہاں ہے؟ ''...........
اسے جواب ملا ........... ''اُدھر سے تیسرا''.............¬.. لڑکی نے تیسرے آدمی کے پائوں ہلائے تو آواز آئی ''کون ہے ''...... لڑکی نے جواب دیا ............ ''موبی '' ۔
رابن اُٹھ بیٹھا ۔
ہاتھ لمبا کر کے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اسے اپنے بستر میں گھسیٹ لیا ۔ اسے اپنے پاس لٹا کر اوپر کمبل ڈال دیا ۔ بولا ..........'' سنتری نہ آجائے ، میرے ساتھ لگی رہو ''........... اس نے لڑکی کو اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا ............ '' میں اس اتفاق پر حیران ہو رہا ہوں کہ ہماری ملاقات ہو گئی ہے ۔ یہ ایک معجزہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ۔ ہم نے بہت بُری شکست کھائی ہے ، لیکن یہ سب دھوکا تھا ''........... یہ وہی زخمی قیدی تھا جو دوسروں سے الگ تھلگ اور چہرے سے جسم جثّے سے معمولی سپاہی نہیں بلکہ اعلیٰ رتبے کا لگتا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی نے بھی کہا تھا کہ یہ کوئی معمولی سپاہی نہیں ، اس پرنظر رکھنا ، علی بن سفیان اس سے تفتیش اور تحقیقات کرے گا۔
'' کتنے زخمی ہو ؟'' لڑکی نے اس سے پوچھا ............ '' کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی ؟''
'' میں بالکل ٹھیک ہوں '' .............
رابن نے جواب دیا ........... '' خراش تک نہیں آئی ۔ انہیں بتایا ہے کہ اندر کی چوٹیں ہیں اور سینے کے اندر شدید درد ہے ، لیکن میں بالکل تندرست ہوں ''۔
'' پھر یہاں کیوں آگئے؟ '' ............. لڑکی نے پوچھا ۔
'' میں نے بہت کوشش کی کہ مصر میں داخل ہوجائوں اورسوڈانی لشکر تک پہنچ سکوں لیکن ہر طرف اسلامی فوج پھیلی ہوئی ہے ۔ کوئی راستہ نہیں ملا ۔ ان پانچ زخمیوں کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ زخمی بن کر یہاں آگیا ۔ اب فرار کی کوشش کروں گا جو ابھی ممکن نظر نہیں آتی ''.............. اس نے ذرا غصے سے کہا ..........'' مجھے دو سوالوں کا جواب دو ۔ ایوبی کو میں نے زندہ دیکھا ہے ، کیوں ؟
کیا تیر ختم ہوگئے تھے یا وہ حرام خور بزدل ہو گئے ہیں ؟
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تم سات کی سات لڑکیاں مسلمانوں کی قید میں کیوں آگئیں ؟ کیا وہ پانچوں مر گئے ہیں یا بھاگ گئے ہیں ؟''
'' وہ زندہ ہیں رابن ! '' ........ موبی نے کہا .......'' تم کہتے ہو کہ خدائے یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظورہے لیکن میں کہتی ہوں کہ ہمارا خدا ہمیں کسی گناہ کی سزا دے رہا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی اسے لیے زندہ ہے کہ تیر اس کے پائوں کے درمیان ریت میں لگا تھا '' ۔
'' کیا تیر کسی لڑکی نے چلایا تھا ؟'' .......... رابن نے پوچھا ............ '' کرسٹوفر کہاں تھا؟''
'' اُسی نے تیر چلایا تھا مگر .........''
'' کرسٹوفر کا تیر خطا گیا ؟'' ............. رابن نے حیرت سے تڑپ کر پوچھا ........... ''
وہ کرسٹوفر جس کی تیر اندازی نے شاہ آگسٹسن کو حیران کر دیا اور اس کی ذاتی تلوار انعام میں لی تھی ، یہاں آکر اس کا نشانہ اتنا چوک گیا کہ چھ فٹ لمبا اور تین فٹ چوڑا صلاح الدین ایوبی اس کے تیر سے بچ گیا؟ بد بخت کے ہاتھ ڈر سے کانپ گئے ہوںگے ''۔
'' فاصلہ زیادہ تھا '' ............ موبی نے کہا .......... '' اور کرسٹوفر کہتا تھا کہ تیر کمان سے نکلنے ہی لگا تھا کہ کھلی ہوئی آنکھ میں مچھر پڑ گیا۔ اسی حالت میں تیر نکل گیا ''۔
''پھر کیا ہوا ؟''
'' جو ہونا چاہیے تھا ''....... موبی نے کہا ..........''
صلاح الدین ایوبی ساحل پر گیا تھا تو اس کے تین کمانڈر تھے اور چار محافظوں کا دستہ تھا۔ وہ ہر طرف پھیل گئے ۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی تھی کہ علاقہ چٹانی تھا ، کرسٹوفر بچ کے نکل آیا اور پھر ہمیں اتنا وقت مل گیا کہ ترکش اور کمان ریت میں دبا کر اوپر اونٹ بٹھا دیا ۔ سپاہی آگئے تو کرسٹو فر نے انہیں بتایا کہ وہ پانچوں مراکش کے تاجر ہیں اور یہ لڑکیاں سمندر سے نکل کر ہماری پناہ میں آئی ہیں ۔ مسلمان سپاہیوں نے ہمارے سامان کی تلاشی لی ۔ انہیں تجارتی سامان کے سوا کچھ بھی نہ ملا ۔ وہ ہم سب کو سلطان ایوبی کے سامنے لے گئے ۔ ہم نے یہ ظاہر کیا کہ ہم سسلی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتیں ۔ کرسٹوفر نے ایوبی سے کہا کہ وہ ہماری زبان جانتا ہے ۔ ہم ساتوں لڑکیوں نے چہروں پر گھبراہٹ اور خوف پیدا کر لیا ''۔
موبی نے رابن کو وہ ساری باتیں سنائیں جو سلطان ایوبی کے ساتھ ہوئی تھیں ۔ یہ سات لڑکیاں اور پانچ آدمی جو مراکشی تاجروں کے بھیس میں تھے، حملے سے دو روز پہلے ساحل پر اُتر گئے تھے۔ پانچوں آدمی صلیبیوں کے تجربہ کار جاسوس اور کمانڈو تھے اور لڑکیاں بھی جاسوس تھیں۔ جاسوسی کے علاوہ ان کے ذمے یہ کام بھی تھا کہ مسلمان سالاروں کو اپنے جال میں پھانسیں ۔
وہ خوبصورت تو تھیں ہی ، انہیں جاسوسی اور ذہنوں کی تخریب کاری کی خاص ٹریننگ دی گئی تھی۔ اس ٹریننگ میں اداکاری خاص طور پر شامل تھی ۔ پانچ مردوں کا یہ مشن تھا کہ صلاح الدین ایوبی کو ختم کرنا اور ناجی کے ساتھ رابطہ رکھنا ۔ یہ لڑکیاں مصر کی زبان روانی سے بول سکتی تھیں ، لیکن انہوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا ۔ رابن اس شعبے کا سربراہ تھا ۔ اسے ناجی تک پہنچنا تھا ، مگر صلاح الدین ایوبی اور علی بن سفیان کی چال نے یہاں کے حالات کا رُخ ہی اُلٹا کر دیا ۔
''کیا تم صلاح الدین ایوبی کو جال میں نہیں پھانس سکتیں ؟''.........
رابن نے پوچھا ۔
'' ابھی تو یہاں پہلی رات ہے '' ........... موبی نے کہا .............. ''
اس نے ہمارے متعلق جو فیصلہ دیا ہے ، اگر وہ سچے دِل سے دیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ مرد نہیں پتھر ہے ، اگر اُسے ہمارے ساتھ کوئی دلچسپی ہوتی تو کسی ایک لڑکی کو اپنے خیمے میں بلا لیتا .........اسے قتل کرنا بھی آسان نہیں ۔ وہ ایک ہی بار ساحل پر آیا تھا ، مگر تیر خطا گیا ۔ وہ سالاروں اور محافظوں کے نرغے
میں رہتا ہے ۔ اِدھر ایک سنتری ہمارے سر پر کھڑا ہے اور محافظوں کے پورے دستے نے صلاح الدین ایوبی کے خیمے کو گھیر رکھا ہے ''۔
..........جاری ہے