Sultan Salah ud Din Ayyoubi Episode 11


فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
قسط نمبر ۔ 11

صلیبیوں کے بحری بیڑے اور افواج کو بحیرئہ روم میں غرق کرکے صلاح الدین ایوبی ابھی مصر کے ساحلی علاقے میں ہی موجود تھا ۔ سات دن گزر گئے تھے ۔ صلیبیوں سے تاوان وصول کیا جا چکا تھا ، مگر بحیرہ روم میں ابھی تک بچے کھچے بحری جہازوں کو ، کشتیوں کو نگل اور انسانوں کو اُگل رہا تھا۔ صلیبی ملاح اور سپاہ جلتے جہازوں سے سمندر میں کود گئے تھے ۔ دور سمندر کے وسط میں سات روز بعد بھی چند ایک جہازوں کے بادبان پھڑپھڑاتے نظر آتے تھے ۔ ان میں کوئی انسان نہیں تھا ۔ پھٹے ہوئے بادبانوں نے جہازوں کو سمندر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا ۔ صلا ح الدین ایوبی نے اِن کی تلاشی کیلئے کشتیاں روانہ کر دی تھیں اور ہدایت دی تھی کہ اگر کوئی جہاز یا کشتی کام کی ہو تو وہ رسوں سے گھسیٹ لائیں اور جو اس قابل نہ ہوں، اِن میں سے سامان اور کام کی دیگر چیزیں نکال لائیں ۔ کشتیاں چلی گئی تھیں اور جہازوں سے سامان لا یا جا رہا تھا۔ ان میں زیادہ تر اسلحہ اور کھانے پینے کا سامان تھا یا لاشیں ۔

سمندر میں لاشوں کا یہ عالم تھا کہ لہریں انہیں اُٹھا اُٹھا کر ساحل پر پٹخ رہی تھیں ۔ ان میں کچھ تو جلی ہوئی تھیں اور کچھ مچھلیوں کی کھائی ہوئی۔ بہت سی ایسی تھیں جن میں تیر پیوست تھے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے تیروں، نیزوں ، تلواروں اور دیگر اسلحہ کا معائنہ بڑی غور سے کیا تھا اور انہیں اپنے اسلحہ کے ساتھ رکھ کر مضبوطی اور مار کامقابلہ کیا تھا زندہ لوگ بھی تختوں اور ٹوٹی ہوئی کشتیوں پر تیرتے ابھی سمندر سے باہر آرہے تھے ۔ ان بھوکے ، پیاسے ، تھکے اور ہارے ہوئے لوگوں کو لہریں جہاں کہیں ساحل پر لا پھینکتی تھیں ، وہ ہیں نڈھال ہو کر گر پڑتے اور مسلمان انہیں پکڑ لاتے تھے ۔ ساحل کی میلوں لمبائی میں یہی عالم تھا ۔ صلا ح الدین ایوبی نے اپنی سپاہ کو مصر کے سارے ساحل پر پھیلا دیا تھا اور انتظام کیا تھا کہ جہاں بھی کوئی قیدی سمندر سے نکلے ، اسے وہیں خشک کپڑے اورخوراک دی جائے اور جو زخمی ہوں ان کی مرہم پٹی بھی وہیں کی جائے ۔ اس اہتمام کے بعد قیدیوں کو ایک جگہ جمعہ کیا جا رہا تھا ۔

صلا ح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار ساحلی علاقے میں گھوم پھر رہا تھا ۔ وہ اپنے خیمے سے کوئی دو میل دور نکل گیا تھا ۔ آگے چٹانی علاقہ آ گیا ۔ چٹانوں کی ایک سمت اور عقت میں صحرا تھا ۔ یہ سر سبز صحرا تھا جہاں کھجور کے علاوہ دوسری اقسام کے صحرائی درخت اور جھاڑیاں تھیں ۔ صلا ح الدین ایوبی گھوڑے سے اُترا اور پیدل چٹانوں کے دامن میں چل پڑا ۔ محافظ دستے کے چار سوار اس کے ساتھ تھے ۔ اس نے اپنا گھوڑا محافظوں کے حوالے کیا اور انہیں وہیں ٹھہرنے کو کہا۔اس کے ساتھ تین سالار تھے ۔ ان میں اس کا رفیقِ خاص بہائو الدین شداد بھی تھا ۔وہ اس معرکے سے ایک ہی روز پہلے عرب سے اس کے پاس آیا تھا ۔انہوں نے بھی گھوڑے محافظوں کے حوالے کیے اور سلطان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے ۔ موسم سرد تھا ۔ سمندر میں تلاطم نہیں تھا ۔ لہریں آتی تھیں اور چٹانوں سے دور ہی سے واپس چلی جاتی تھیں ۔ ایوبی ٹہلتے ٹہلتے دُور نکل گیا اور محافظ دستے کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ اس کے آگے ، پیچھے اور بائیں طرف اونچی نیچی چٹانیں اور دائیں طرف ساحل کی ریت تھی۔ وہ ایک چٹان پر کھڑا ہوگیا ، جس کی بلندی دو اڑھائی گز تھی ۔ اس نے بحیرہ روم کی طرف دیکھا ۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سمندر کی نیلاہٹ سلطان ایوبی کی آنکھوں میں اُتر آئی ہو ۔ اس کے چہرے پر فتح و نصرت کے مسرت تھی اور اس کی گردن کچھ زیادہ ہی تن گئی تھی ۔

اس نے ناک سکیڑ کر کپڑا ناک پر رکھ لیا ۔ بولا '' کس قدر تغفن ہے '' ............اس کی اور سالاروں کی نظریں ساحل پر گھومنے لگیں ۔ پھڑپھڑانے کی آواز سنائی دیں۔پھر ہلکی ہلکی چیخیں اور سیٹیاں سنائی دیں ۔ اوپر سے تین چار گدھ پر پھیلائے اُترتے
دکھائی دئیے اور چٹان کی اوٹ میں جدھر ساحل تھا ، اُترتے گئے ۔ ایوبی نے کہا ................. '' لاشیں ہیں'' ................ اُدھر گیا تو پندرہ بیس گز دور گدھ تین لاشوں کو کھا رہے تھے ، ایک گدھ ایک انسانی کھوپڑی پنجوں میں دبوچ کر اُڑا اور جب فضا میں چکر کاٹا تو کھوپڑی اس کے پنجوں سے چھوٹ گئی اور
صلا ح الدین ایوبی کے سامنے آن گری۔ کھوپڑی کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جیسے صلا ح الدین ایوبی کو دیکھ رہی ہوں ۔ چہرے اور بالوں سے صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی صلیبی کی کھوپڑی ہے۔ ایوبی کچھ دیر کھوپڑی کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھا اور کہا ...............
''ان لوگوں کو کھوپڑی مسلمانوں کی کھوپڑیوں سے بہتر ہیں ۔ یہ ان کھوپڑیوں کا کمال ہے کہ ہماری خلافت عورت اور شراب کی نذر ہوتی جا رہی ہے ''۔

''صلیبی چوہوں کی طرح سلطنتِ اسلامیہ کو ہڑپ کرتے چلے جارہے ہیں '' ۔ ایک سالار نے کہا ۔

'' اور ہمارے بادشاہ انہیں جزیہ دے رہے ہیں '' ...........
شداد نے کہا .......... '' فلسطین پر صلیبی قابض ہیں ۔

سلطان! کیا ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ ہم فلسطین سے انہیں
نکال سکیں گے ''۔

'' ﷲ کی ذات سے مایوس نہ ہو شداد '' ............
صلا ح الدین ایوبی نے کہا ۔

'' ہم اپنے بھائیوں کی ذات سے مایوس ہو چکے ہیں '' ............ ایک اور سالار بولا ۔

'' تم ٹھیک کہتے ہو '' ......... سلطان نے کہا ......... '' حملہ جو باہر سے ہوتا ہے ، اسے ہم روک سکتے ہیں ۔ کیا تم میں سے کوئی سوچ بھی سکتاتھا کہ کفار کے اتنے بڑے بحری بیڑے کو تم اتنی تھوڑی طاقت سے نذرِ آتش کرکے ڈبو سکو گے ؟
تم نے شاید اندازہ نہیں کیا کہ اس بیڑے میں جو لشکر آرہا تھا ، وہ سارے مصر پر مکھیوں کی طرح چھا جاتا ۔
اللہ نے ہمیں ہمت دی اور ہم نے کھلے میدان میں نہیں بلکہ صرف گھات لگا کر اس لشکر کو سمندر کی تہہ میں گم کر دیا ، مگر میرے دوستو ! حملہ جو اندر سے ہوتا ہے اسے تم اتنی آسانی سے نہیں روک سکتے ۔ جب تمہارا اپنا بھائی تم پر وار کرے گا تو تم پہلے یہ سوچو گے کہ کیا تم پر واقعی بھائی نے وار کیاہے ؟تمہارے بازو میں اسکے خلاف تلوار اُٹھانے کی طاقت نہیں ہوگی ۔ اگر تلوار اُٹھائو گے اور اپنے بھائی سے تیغ آزمائی کرو گے تو دشمن موقع غنیمت جان کر دونوں کو ختم کر دے گا ''۔

وہ آہستہ آہستہ ساحل پر چٹان کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا ۔ چلتے چلتے رُک گیا۔ جھک کر ریت سے کچھ اُٹھایا اور ہتھیلی پر رکھ کر سب کو دکھایا ۔ یہ ہتھیلی جتنی بڑی صلیب تھی جو سیاہ لکڑی کی بنی ہوئی تھی ۔ اُس کے ساتھ ایک مضبوط دھاگہ تھا ۔ اُس نے ان لاشوں کے بکھرے ہوئے اعضاء کو دیکھا ، جنہیں گدھ کھا رہے تھے ۔ پھر کھوپڑی کو دیکھا جو گدھ کے پنجوں سے اُس کے سامنے گری تھی ۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا
کھوپڑ ی تک گیا ۔ تین گدھ کھوپڑی کی ملکیت پر لڑ رہے تھے ۔ صلا ح الدین ایوبی کو دیکھ کر پرے چلے گئے ۔ سلطان ایوبی نے صلیب کھوپڑی پر رکھ دی اور دوڑ کر اپنے سالاروں سے جا ملا ۔ کہنے لگا ........'' میں نے صلیبیوں کے ایک قیدی افسر سے باتیں کی تھیں۔ اس کے گلے میں بھی صلیب تھی ۔ اس نے بتایا کہ صلیبی لشکر میں جو بھی بھرتی ہوتا ہے اس سے صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا جاتا ہے کہ وہ صلیب کے نام پر جان کی بازی لگا کر لڑے گا اور وہ روئے زمین سے آخری مسلمان کو بھی ختم کر کے دم لے گا ۔ اس حلف کے بعد ہر لشکری کے گلے میں صلیب لٹکا دی جاتی ہے ۔ یہ صلیب مجھے ریت سے ملی ہے۔ معلوم نہیں کس کی تھی ۔ میں نے اس کھوپڑی پر رکھ دی ہے تا کہ اس کی روح صلیب کے بغیر نہ رہے ۔ اس نے صلیب کی خاطر جان دی ہے۔ سپاہی کو سپاہی کے حلف کا احترام کرنا چاہیے ''۔

''سلطان !'' ……
شداد نے کہا …… ''
یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ صلیبی یروشلم کے مسلمان باشندوں کا کتنا کچھ احترام کررہے ہیں ۔ وہاں سے مسلمان بیوی بچوں کو ساتھ لے کر بھاگ رہے ہیں۔ہماری بیٹیوں کی آبرو لوٹی جا رہی ہے ۔ ہمارے قیدیوں کو انہوں نے ابھی تک نہیں چھوڑا ۔ مسلمان جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ کیا ہم ان عیسائیوں سے انتقام نہیں لیں گے ؟

''انتقام نہیں ''............ صلاح الدین ایوبی نے کہا.........
'' ہم فلسطین لیں گے مگر فلسطین کے راستے میں ہمارے اپنے حکمران حائل ہیں ''..... وہ چلتے چلتے رُک گیا اور بولا .......
'' کفار نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر سلطنتِ اسلامیہ کے خاتمے کا حلف اُٹھایا ہے ۔ میں نے اپنے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر اور ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر قسم کھائی ہے کہ فلسطین ضرور لوں گا اور سلطنتِ اسلامیہ کی سرحدیں اُفق تک لے جائوں گا مگر میرے رفیقو! مجھے اپنی تاریخ کا مستقبل کچھ روشن نظر نہیں آتا ۔ ایک وقت تھا کہ عیسائی بادشاہ تھے اور ہم جنگجو۔ اب ہمارے بزرگ بادشاہ بنتے جارہے ہیں اور عیسائی جنگجو۔ دونوں قوموں کا رحجان دیکھ کر میں کہہ رہا ہوں کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمان بادشاہ بن جائیں گے ، مگر عیسائی ان پرحکومت کریں گے ۔ مسلمان اسی میں
بد مست رہیں گے کہ
ہم بادشاہ ہیں ، آزاد ہیں مگر وہ آزاد نہیں ہوں گے ۔ میں فلسطین لے لوں گا مگر مسلمانوں کا رحجان بتا رہا ہے کہ وہ فلسطین گنوا بیٹھیں گے ۔ عیسائیوں کی کھوپڑی بڑی تیز ہے ..... پچاس ہزار سوڈانی لشکر کون پال رہا تھا ! ہماری خلافت اپنی آستین میں ناجی نام کا سانپ پالتی رہی ہے ۔ میں پہلا امیر مصر ہوں جس نے دیکھا ہے کہ یہ لشکر ہمارے لیے نہ صرف بیکار ہے ، بلکہ خطرناک بھی ہے ۔ اگر ناجی کا خط پکڑا نہ جاتا تو آج ہم سب اس لشکر کے ہاتھوں مارے جا چکے ہوتے یااس کے قیدی ہوتے ........''

اچانک ہلکا سا زناٹہ سنائی دیا اور ایک تیر صلاح الدین ایوبی کے دونوں پائوں کے درمیان ریت میں لگا ۔جدھر سے تیر آیا تھا ، اِس طرف سلطان ایوبی کی پیٹھ تھی.........

.سالاروں میں سے بھی کوئی اُدھر نہیں دیکھ رہا تھا ۔ سب نے بِدک کر اس طرف دیکھا ، جدھر سے تیر آیا تھا ۔ اُدھر نوکیلی چٹانیں تھیں ۔تینوں سالار اور صلاح الدین ایوبی دوڑ کر ایک ایسی چٹان کی اوٹ میں ہوگئے جو دیوار کی طرح عمودی تھی ۔ انہیں توقع تھی کہ اور بھی تیر آئیں گے ۔ تیروں کے سامنے میدان میں کھڑے رہنا کوئی بہادری نہیں تھی ۔ شداد نے منہ میں انگلیاں رکھ کر زور سے سیٹی بجائی ۔ محافظ دستہ پابر کاب تھا ۔ان کے گھوڑوں کے سرپٹ ٹاپو سنائی دئیے ۔ اس کے ساتھ ہی تینوں سالار اس طرف دوڑ پڑے جس طرف سے تیر آیاتھا۔ وہ بکھر کر چٹانوں پر چڑھ گئے ۔ چٹانیں زیادہ اونچی نہیں تھیں ۔ صلاح الدین ایوبی بھی ان کے پیچھے گیا۔ ایک سالار نے اسے دیکھ لیا اور کہا ....... '' سلطان !
آپ سامنے نہ آئیں ''
مگر سلطان ایوبی رُکا نہیں ۔

محافظ پہنچ گئے ۔ صلاح الدین ایوبی نے انہیں کہا ........... ''ہمارے گھوڑے یہیں چھوڑدو اور چٹانوں کے پیچھے جائو ۔اُدھر سے ایک تیر آیا ہے، جو کوئی نظر آئے اسے پکڑ لائو ''۔

سلطان ایوبی چٹان کے اوپر گیا تو اُسے انچی نیچی چٹانیں دُور دُور تک پھیلی ہوئی نظر آئیں ۔ وہ اپنے سالاروں کو ساتھ لیے پچھلی طرف اُتر گیا اور ہر طرف گھوم پھر کر اور چٹانوں پر چڑھ کر دیکھا ۔ کسی انسان کا نشان تک نظر نہ آیا ۔ محافظ چٹانی علاقے کے اندر ، اوپر اور اِدھر اُدھر گھوڑے دوڑا رہے تھے ۔ صلاح الدین ایوبی نیچے اُتر کے وہاں گیا جہاں ریت میں تیر گڑھا ہو تھا ۔ اس نے اپنے رفیقوں کو بلایا اور تیر پر ہاتھ مارا، تیر گر پڑا ۔ سلطان ایوبی نے کہا ........ '' دُور سے آیا ہے اس لیے پائوں میں لگا ہے ، ورنہ گردن یا پیٹھ میں لگتا ۔ ریت میں بھی زیادہ نہیں اُترا '' ... اس نے تیر اُٹھا کر دیکھا اور کہا ... '' صلیبیوں کا ہے ، حشیشین کا نہیں ''۔

''سلطان کی جان خطرے میں ہے '' ......... ایک سالا ر نے کہا ۔

'' اور ہمیشہ خطرے میں رہے گی ''............ صلاح الدین ایوبی نے ہنس کر کہا ...... ..
''میں بحیرہ روم میں کفار کی وہ کشتیاں دیکھنے نکلا تھا جو ملاحوں کے بغیر ڈول رہی ہیں ، مگر میرے عزیز دوستو! کبھی نہ سمجھنا کہ صلیبیوں کی کشتی ڈول رہی ہے ، وہ پھر آئیں گے ۔ گھٹائوں کی طرح گرجتے آئیں گے اور برسیں گے بھی ، لیکن وہ زمین کے نیجے سے اور پیٹھ کے پیچھے سے بھی وار کریں گے ۔ ہمیں اب صلیبیوں سے ایسی جنگ لڑنی ہے جو صرف فوجیں نہیں لڑیں گی ۔ میں جنگی تربیت میں ایک اضافہ کر رہا ہوں ۔ یہ فنِ حرب و ضرب کا نیا باب ہے ۔ اسے جاسوسوں کی جنگ کہتے ہیں ''۔

سلطان صلاح الدین ایوبی تیر ہاتھ میں لیے گھوڑے پر سوار ہوگیا اور اپنے کیمپ کی طرف چل پڑا ۔ اس کے سالار بھی گھوڑوں پر سوار ہوگئے ۔ ان میں سے ایک نے سلطان کے دائیں طرف اپنا گھوڑا کر دیا ، ایک نے بائیں کو اور ایک نے اپنا گھوڑا اس کے با لکل پیچھے اور قریب رکھا ، تا کہ کسی بھی طرف سے تیر آئے تو صلاح الدین ایوبی تک نہ پہنچ سکے

صلاح الدین ایوبی نے اس تیر پر ذرا سی بھی پریشانی کا اظہار نہ کیا جو کسی نے اسے قتل کرنے کیلئے چلایا تھا ۔اپنے رفیق سالاروں کو اپنے خیمے میں بٹھائے ہوئے وہ بتا رہا تھا کہ جاسوس اورشب خون مارنے والے دستے کس قدر نقصان کرتے ہیں ۔ وہ کہہ رہا تھا .......... ''میں علی بن سفیان کو ایک ہدایت دے چکا ہوں ، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ، کیونکہ فوراً ہی مجھے اس حملے کی خبر ملی اور عمل درآمد دھرا رہ گیا ۔ تم سب فوری طور پر یوں کرو کہ اپنے سپاہیوں اور ان کے عہدے داروں میں سے ایسے افراد منتخب کرو جو دماغی اور جسمانی ًلحاظ سے مضبوط اور صحت مند ہوں ۔ باریک بین ، دور اندیش، قوت فیصلہ رکھنے والے جانباز قسم کے آدمی چنو۔ میں نے علی کو ایسے آدمیوں کی جو صفات بتائیں تھیں وہ سب سن لو ۔ اُن میں اونٹ کی مانند زیادہ سے زیادہ دِن بھوک اور پیاس برداشت کرنے کی قوت ہو ۔ چیتے کی طرح جھپٹنا جانتے ہوں ، عقاب کی طرح ان کی نظریں تیز ہوں ، خرگوش اور ہرن کی طرح دوڑ سکتے ہوں۔ مسلح دشمن سے ہتھیار کے بغیر بھی لڑ سکیں ۔ ان میں شراب اور کسی دوسری نشہ آور چیز کی عادت نہ ہو۔ کسی لالچ میں نہ آئیں ۔ عورت کتنی ہی حسین مل جائے اور زر و جواہرات کے انباران کے قدموں میں لگا دئیے جائیں ، وہ نظر اپنے فرض پر رکھیں .........

''اپنے دوستوں اور ان کے کمان داروں کو خاص طور پر ذہن نشین کرایں کہ عیسائی بڑی ہی خوب صورت اور جوان لڑکیوں کو جاسوسی کے لیے اور فوجوں میں بے اطمینانی پھیلانے کے لیے اور عسکریوں کو جذبے کے لحاظ سے بیکار کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ میں نے مسلمانوں میں یہ کمزوری دیکھی ہے کہ عورت کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ میں مسلمان عورت کو اس مقاصد کے لیے دشمن کے علاقے میں کبھی نہیں بھیجوں گا ۔ہم عصمتوں کے محافظ ہیں ، عصمت کو ہتھیار نہیں بنائیں گے ۔ علی بن سفیان نے چند ایک لڑکیاں رکھی ہوئی ہیں ، لیکن وہ مسلمان نہیں اور وہ عیسائی بھی نہیں ،مگر میں عورت کاقائل نہیں ''۔

محافظ دستے کا کمانڈر خیمے میں آیا اور اطلاع دی کہ محافظ کچھ لڑکیوں اور آدمیوں کے ساتھ لائے ہیں ۔ سلطان ایوبی باہر نکلا ۔ اس کے تینوں سالار بھی تھے ۔ باہر پانچ آدمی کھڑے تھے ، جن کے لمبے چغے ، دستاریں اور ڈیل ڈول بتا رہی تھی کہ تاجر ہیں اور سفر میں ہیں ۔ان کے ساتھ سات لڑکیاں تھیں ۔ ساتوں جوان تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوب صورت ۔ ان محافظوں میں سے ایک نے جو سلطان پر تیر چلانے والے کی تلاش میں گئے تھے بتایا تھا کہ انہوں نے تمام علاقہ چھان مارا ، انہیں کوئی آدمی نظر نہیں آیا ۔ دور پیچھے گئے تو یہ لوگ تین اونٹوں کے ساتھ ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے ۔
..........جاری ہے


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form