Sultan Salah ud Din Ayyoubi Episode 10


*فاتح بیت المقدس*
*سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ ﷲ*
*قسط نمبر۔10*

زکوئ کا رخ ادھر ھی تھا ، وہ جھاڑیوں سے نکلی ھی تھی کہ بائیں طرف سے سیاہ بھوت اٹھا چاندنی بڑی صاف تھی لیکن پھر بھی اسکا چہرہ نظر نہیں آرھا تھا اسکے پاؤں کی آھٹ بھی نہیں تھی، بھوت کا ھاتھ اوپر اٹھا چاندنی میں خنجر چمکا اور بجلی کی سی تیزی سے زکوئ کے بائیں کندھے اور گردن کے درمیان اتر گیا زکوئ کی کوی چیخ نہیں نکلی ، خنجر اسکے کندھے سے نکال دیا گیا ۔ زکوئ نے اتنا گہرا وار کھا کر اپنے کمر بند سے اپنا بھی خنجر نکالا، بھوت نے اس پر دوسرا وار کیا تو زکوئ نے اسکے خنجر والے بازو کو اپنے بازو سے روک کر اپنا خنجر بھوت کے سینے میں اتار دیا ۔ زکوئ کو چیخ سنائ دی جو کسی عورت کی تھی۔
زکوئ نے اپنا خنجر کھینچ کر دوسرا وار کیا جو اسکے پیٹ میں پورا خنجر اتر گیا ۔ اسکے ساتھ ھی زکوئ کے اپنے پہلو میں بھی خنجر لگا لیکن وہ اتنا گہرا نہیں تھا ۔ اسکے ساتھ ہی حملہ کرنے والی عورت چکرا کر گر گی۔

زکوئ نے یہ نہیں دیکھا کہ اس پر حملہ کرنے والا کون تھا ۔ وہ ڈور پڑی اسکے جسم سے خون تیزی سے بہہ رھا تھا سلطان صلاح الدین کا مکان اسکو چاندنی میں نظر آنے لگا، آدھا فاصلہ طے کر کہ زکوئ کو چکر آنے لگے اسکی رفتار سست ھوگی اس نے چلانا شروع کیا

" علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔¬۔۔۔ایوبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔¬۔" علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔-۔۔۔ایوبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔¬۔۔۔"

سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس عظیم جاسوس زکوئ کے کپڑے خون سے سرخ ھونے لگے، وہ بھت مشکل سے اپنے قدم گھسیٹنے لگی تھی ، اس عظیم جاسوس کی منزل تھوڑی بھت ھی قریب تھی لیکن اس تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آرھا تھا ، زکوئ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے ایک قیمتی راز حاصل کیا تھا وہ مسلسل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی ایوبی کہہ کر پکار رھی تھی، قریب ھی ایک گشتی سنتری پھیر رھا تھا اسے آواز سنائ تو وہ دوڑ کر وھاں پہنچ گیا، زکوئ اس پر گر پڑی اور کہا

" مجھے امیر مصر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس پہنچا دو ۔۔۔۔۔۔۔۔جلدی۔۔۔۔۔
بہت جلدی"

سنتری نے جب اسکا خون دیکھا تو اسکو پیٹھ پر لاد کر دوڑ پڑا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے کمرے میں بیٹھا علی بن سفیان سے رپورٹ لیں رھا تھا

اسکے دو نائب بھی موجود تھے یہ رپورٹیں کچھ اچھی نہیں تھی ، علی بن سفیان نے بغاوت کے خدشے کا اظہار کیا تھا جس پر غور ھورھا تھا ، اتنے میں دربان دوڑتا ھوا آیا کہ ایک سپاھی ایک زخمی لڑکی کو اٹھاۓ باھر کھڑا ھے ، کہتا ھے یہ لڑکی امیر مصر سے ملنا چاھتی ھے۔ یہ سنتے ھی علی بن سفیان کمان سے نکلے ھوے تیر کی طرح باھر دوڑا ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی جب یہ الفاظ سنے تو وہ بھی علی کے پیچھے دوڑا، اتنے میں لڑکی کو اندر لایا گیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے)چیخ کر کہا "
طبیب اور جراح کو جلدی سے بلاو"
لڑکی کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھیوں نے اٹھا کر
اپنے پلنگ پوش پر لٹا دیا تھوڑے ھی وقت میں پلنگ پوش بھی خون سے سرخ ھو رھا تھا

" کسی کو بلاو میں اپنا فرض ادا کر چکی ھوں " لڑکی نے نحیف سی آواز میں کہا

" تمھیں زخمی کس نے کیا ھے زکوئ :
علی نے کہا

" پہلے میری بات سن لو شمال مشرق کی طرف سوار دوڑا دو ، دو سوار جاتے نظر آینگے دونوں کے چغے بادامی رنگ کے ھیں ، ایک کا گھوڑا بادامی اور دوسرے کا سیاہ ھے وہ تاجر لگتے ھے ان کے پاس سالار ناجی کا تحریری پیغام ھے جو عیسائ بادشاہ فرینک کو بھیجا گیا ھے ۔ ناجی کی یہ سوڈانی فوج بغاوت کرے گی مجھے اور کچھ نہیں معلوم ، سلطان آپکی سلطنت خطرے میں ھے ان دو سواروں کو راستے میں ھی پکڑ لو۔ تفصیل ان کے پاس ھے " بولتے بولتے زکوئ پر غشی طاری ھو گی

دو طبیب آگیے انھوں نے خون بند کرنے کی کوشش کی زکوئ کے منہ میں دوایئاں ڈالی جن کے اثر سے زکوئ پھر سے بولنے کے قابل ھوئ ، مثال کے طور پر ناجی نے اوورش کے ساتھ کیا باتیں کی ناجی نے زکوئ کو کیسے اپنے کمرے میں جانے کو کہا ناجی کا غصہ اور بھاگ دوڑ دو سواروں کا آنا جانا وغیرہ، پھر اس نے بتایا کہ اسکو یہ علم نہیں کہ اس پر حملہ کرنے والا کون تھا ، وہ موقعہ موزوں دیکھ کر ادھر ھی آرھی تھی کہ پیچھے سے کسی نے خنجر گھونپ دیا اس نے اپنا خنجر نکال کر اس پر حملہ کیا۔ حملہ آور کی چیخ بتا رھی تھی کہ وہ کوی عورت تھی اس نے جگہ بتا دی تو اسی وقت فوجی وھاں دوڑا دیئے گیئے زکوئ نے کہا کہ وہ انسان زندہ نہیں ھوگا کونکہ میں نے وار اسکے سینے اور پیٹ پر کیئے تھے

زکوئ کا خون نہیں روک رھا تھا زیادہ تر خون پہلے بہہ گیا تھا

سلطان صلاح الدین کا یہ جاسوس اپنی آخری سانسیں لے رھا تھا اپنے فرض پر اپنی زندگی قربان ھو رھی تھی ، زکوئ نے امیر مصر سلطان صلاح الدین کا ھاتھ پکڑا اور چھوم کر کہا

" اللہ آپکو اور آپکی سلطنت کو سلامت رکھے آپ شکست نہیں کھا سکتے ، مجھ سے زیادہ کوی نہیں بتا سکتا کہ سلطان ایوبی کا ایمان کتنا پختہ ھے ،

" پھر اس نے علی بن سفیان سے کہا " علی۔۔۔۔! میں نے کوتاھی تو نہیں کی۔۔؟ آپ نے جو فرض دیا تھا وہ میں نے پورا کردیا

" تم نے اس سے زیادہ پورا کیا ھے ھمارے تو وھم و گمان میں بھی نھی تھا کہ ناجی اتنی خطرناک حد تک کاروائ کر سکتا ھے اور تمھیں جان کی قربانی دینی پڑے گی میں نے تم کو صرف مخبری کے لیے وھاں بھیجا تھا"
علی بن سفیان نے کہا

" اے کاش۔۔۔۔۔۔! میں مسلمان ھوتی ۔۔۔۔۔ زکوئ نے کہا اسکے آنسو نکل آے" میرے اس کام کا جو بھی معاوضہ بنتا ھے وہ میرے اندھے باپ اور صدا بیمار ماں کو دینا جن کی مجبوریوں نے مجھے بارہ سال کی عمر میں رقاصہ بنادیا "

زکوئ کا سر ایک طرف ڈھلک گیا آنکھیں آدھی کھلی ہوئی تھی اور اسکے ھونٹ آدھے نیم دا مسکرا رھے تھے طبیب نے نبض پر ھاتھ رکھا اور سلطان کی طرف دیکھ کر سر ھلا دیا زکوئ کی روح اسکے زخمی جسم سے آزاد ھوی تھی، ایک غیر مسلم نے اسلام کی عظمت اور سلطان سے وفاداری کی خاطر جان قربان کردی۔

سلطان صلاح الدین نے کہا" یہ کسی بھی مذھب سے تھی زکوئ کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کرو اس نے اسلام ھی کے لیے جان قربان کی ھے اگر چہ یہ ھمیں دھوکہ بھی دے سکتی تھی "

دربان نے اندر آکر کہا کہ باھر ایک عورت کی لاش آگی ھے جب
دیکھا گیا تو وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کی لاش تھی جاۓ وقوعہ سے دو خنجر ملے تھے اس عورت کو کوئی نہیں پہچنتا تھا یہ ناجی کے حرم کی ایک ملازمہ تھی جس کو انعام کی لالچ نے زکوئ پر حملہ کرنے پر مجبور کیا رات کو ھی زکوئ کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرحاک کیا گیا اور ملازمہ کی لاش گھڑا کھود کر دفنا دی گی ، دونوں کو نہایت خفیہ انداز سے دفنا دیا گیا ، جب تدفین ھو رھی تھی تو سلطان صلاح الدین نے نہایت اعلی قسم کے آٹھ جوان گھوڑے منگواۓ آٹھ جوان منگواے گیے ان کو علی بن سفیان کی کمان میں ناجی کے ان دو گھوڑ سواروں کے پیچھے دوڑا دیا گیا جو ناجی کا تحریری پیغام عیسای بادشاہ کو پہنچا رھے تھے۔۔۔۔۔۔۔

لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زکوئ کون تھی۔۔۔۔؟
وہ مراکش کی ایک رقاصہ تھی کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اسکا مذھب کیا تھا وہ مسلمان نہیں تھی وہ عیسائ بھی نہیں تھی۔۔

علی بن سفیان
سلطان کے جاسوسی اور سراع رسانی کا سربراہ تھا اور اسے دوسروں کے راز معلوم کرنے کے کئ ڈھنگ اختیار کرنے پڑتے تھے ، صلاح الدین اسکو اپنے ساتھ مصر لایا تھا یہاں آکر معلوم ھوا کہ یہاں کا سالار ناجی نہایت ھی شیطان اور سازشی ھے اسکے اندرون حالات معلوم کرنے کے لیے علی نے جاسوسوں کا ایک جال بچھا دیا ۔۔

اس اقدام سے علی بن سفیان کو ایک بات یہ معلوم ھوی کہ ناجی حشیشن کی طرح اپنے محالفین کو زہر اور حسین لڑکیوں سے پھنساتا اور اپنا گرویدہ بناتا اور مروتا ھے،
علی بن سفیان نے تلاش و بسار کے بعد کسی کی وساطت سے زکوئ کو مراکش سے حاصل کیا اور خود بردہ فروش کا روپ دھار کر ناجی کے ہاتھ بیچ دیا

، زکوئ میں ایسا جادو تھا کہ ناجی اسکو سلطان کے پھنسانے کے لیے استعمال کرنا چاھتا تھا لیکن ناجی خود اس لڑکی کے دام میں پھنس گیا اور پھنسا بھی ایسا کہ زکوئ کے سامنے وہ اپنے سالار سے تمام باتیں کیا کرتا تھا ، ناجی نے زکوئ کو جشن کی رات سلطان صلاح الدین کے خیمے میں بھیج دیا اور اپنی اس فتح پر بہت خوش ھورھا تھا کہ اس نے صلاح الدین کا بت تھوڑ دیا ھے ، اب وہ اس لڑکی کے ہاتھوں شراب پلا سکے گا اور سلطان کو اپنا گرویدہ بنا لے گا مگر ناجی کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں ھوسکا کہ زکوئ سلطان کی جاسوسہ تھی ، زکوئ سلطان کو اسی رات رپورٹیں دیتی رھی اور سلطان سے ھدایت لیتی رھی زکوئ سلطان کے خیمے سے نکل کر دوسری طرف چلی گی تھی جہاں زکوئ کو سر منہ کپڑے میں لپیٹا ایک آدمی ملا تھا وہ آدمی علی بن سفیان تھا جس نے زکوئ کو مزید کچھ اور ھدایت دی تھی ۔ اسکے بعد زکوئ ناجی کے گھر سے باھر نہ نکل سکی جس کی وجہ سے وہ علی کو کوی رپورٹ نہ دے سکی ۔ آخر کار اسکو اسی رات موقع مل گیا اور وہ ایسی رپورٹیں لیکر پہنچی جس کا علم صرف اللہ ھی کو تھا ۔ یہ زکوئ کی بدنصیبی تھی کہ زکوئ کے خلاف حرم میں صرف اسلیئے سازش ہوی کہ اس نے
ناجی پر قبضہ جمایا ھے یہ اور زکوئ قتل ھوگی لیکن مرنے سے پہلے وہ تمام اطلاعیں سلطان تک پہنچانے میں کامیاب رھی ۔

زکوئ کے مرنے کے کچھ عرصہ بعد وہ معاوضہ جو علی بن سفیان نے زکوئ کے ساتھ طے کیا تھا ۔ سلطان کی طرف سے انعام اور وہ رقم جو علی بن سفیان نے ناجی سے بردہ فروش کی صورت میں ناجی سے وصول کی تھی ، مراکش میں زکوئ کے معذور والدین کو ادا کردئ گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موت کے اس رات کے ستارے ٹوٹ گیے
اور جب صبح ھوئ
تو علی بن سفیان
آٹھ سواروں کے ساتھ انتہائ تیز رفتاری سے شمال مشرق کی طرف جا رجا تھا ، آبادیاں دور پیچھے ھٹتی جا رھی تھی۔ علی کو معلوم تھا کہ شاہ فرینک کے ھیڈ کوارٹر تک پہنچنےکا راستہ کونسا ھے ۔ رات انھوں نے گھوڑوں کو آرام دیا ۔ یہ عربی گھوڑے تھے جو تھکے ہوئے بھی تازہ دم لگتے تھے ۔ دور کجھور کے چند درختوں میں علی کو 2 گھوڑے جاتے نظر آے ، علی نے اپنے دستے کو راستہ بدلنے اور اوٹ میں ھونے کے لیے ٹیلوں کے ساتھ ساتھ ھو جانے کو کہا ، علی صحرا کا راز دان تھا بھٹکنے کا کوی خدشہ نہ تھا ،
علی نے رفتار اور تیز کردی ، اگلے دو سواروں اور اس دستے کے بیچ کوئ 4 میل کا فاصلہ رہ گیا ۔ یہ فاصلہ تو طے ھوا لیکن گھوڑے تھک گیے تھے ، وہ جب کھجوروں کے درحتوں تک پہنچے تو دو سوار کوئ دو میل دور مٹی کے ایک پہاڑی کے ساتھ ساتھ جا رھے تھے ، ان کے گھوڑے بھی شاید تھک گیے تھے دونوں سوار اترے اور نظروں سے اوجھل ھوگیے

" وہ پہاڑیوں کے اوٹ میں بیٹھ گیئے ھے" علی نے کہا اور راستہ بدل دیا ۔ فاصلہ کم ھوتا گیا اور جب فاصلہ کچھ سو گز رھ گیا تو وہ دونوں بندے اوٹ سے باھر آے ، انھوں نے گھوڑوں کے سرپٹ دوڑنے کا شور سن لیا تھا ۔ وہ دوڑ کر غائب ہوگئے
علی بن سفیان نے گھوڑے کو ایڑی لگائ ۔ تھکے ھوۓ گھوڑے نے وفاداری کا ثبوت دیا اور اپنی رفتاری تیز کردی ۔ باقی گھوڑے بھی تیز ہوگئے وہ جب پہاڑی کے اندر گیئے تو دونوں سوار نکل چکے تھے مگر زیادہ دور نہیں گیئے تھے ۔ وہ شاید گھبرا بھی گئے تھے آگے ریتیلی چٹانیں بھی تھی ۔ انھیں راستہ نہیں مل رھا تھا کھبی دائیں جاتے کھبی بائیں ۔
علی بن سفیان نے اپنے گھوڑے ایک صف میں پھیلا دئے اور بھاگنے والوں سے ایک سو گز دور جا پہنچا ۔ ایک تیر انداز نے دوڑتے ہوئے گھوڑے سے تیر چلایا جو ایک گھوڑے کے ٹانگ میں جا لگا ۔ گھوڑا بے لگام ھوا۔ تھوڑی سی اور بھاگ دوڑ کے بعد وہ دونوں گھیرے میں آگیئے تھے اور انھوں نے ھتیار ڈال لیئے ،
سوال جواب پر انھوں نے جھوٹ بولا اور اپنے آپ کو تاجر ظاھر کرنے لگے ، لیکن جیسے ھی تلاشی لی گی تو وہ تحریری پیغام مل گیا جو ناجی نے انکو دیا۔ ان دونوں کو حراست میں لیا گیا۔ گھوڑوں کو آرام کا وقت دیا گیا ۔ اور پھر یہ دستہ واپس آگیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی بڑی بے چینی سے انکا انتظار کر رھا تھا ، دن گزر گیا رات بھی گزرتی جا رھی تھی۔ آدھی رات گزر گی ، ایوبی لیٹ گیا ۔ اور اسکی آنکھ لگ گئ۔ سحر کے وقت دروازے پر ھلکے سے دستک پر ایوبی کی آنکھ کھل گی دوڑ کر دروازہ کھولا تو علی بن سفیان کھڑا تھا اسکے پیچھے آٹھ سوار اور وہ دو قیدی کھڑے تھے ۔ علی اور قیدیوں کو سلطان نے اپنے سونے کے کمرے میں ھی بلالیا علی سلطان کو ناجی کا پیغام سنانے لگا ۔ پہلے تو سلطان کے چہرے کا رنگ ھی پیلا پڑھ گیا پھر جیسے خون جوش مار کر سلطان کے چہرے اور آنکھوں میں چڑھ آیا ھوں۔ ناجی کا پیغام خاصا طویل تھا ناجی نے صلیبیوں کے بادشاہ فرینک کو لکھا تھا کہ وہ فلاں دن اور فلاں وقت یونیانیوں رومیوں اور دیگر صلیبیوں کی بحریہ سے بحیرہ روم کی طرف سے مصر میں فوجیں اتار کر حملہ کردیں، حملے کی اطلاع ملتے ھی 50 ھزار سوڈانی فوج بھی امیر مصر کے خلاف بغاوت کردے گی ، مصر کی نئی فوج ایک ھی وقت میں بغاوت اور حملے کے جواب کی قابل نہیں ، اس کے عوض ناجی نے تمام تر مصر یا مصر کے ایک بڑے حصے کی بادشاھت کی شرط رکھی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں پیغام لیکر جانے والوں کو قید خانے میں ڈال دیا ، اور اسی وقت نئی مصری فوج سے ایک دستہ بھیج کر ناجی اور ناجی کے نایئبین کو ان کے گھروں میں ہی نظر بند کردیا ۔ ناجی کے حرم کی تمام کی تمام لڑکیاں آزاد کردی گئ ، ناجی کے تمام خزانے کو سرکاری خزانے میں ڈال کر سرکاری خزانہ بنا دیا گیا اور یہ تمام کاروائی خفیہ رکھی گئ،
سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی کی مدد سے اس خط میں جو پکڑا گیا تھا حملے کی تاریح مٹا کر اگلی تاریح لکھ دی۔ دو زہین فوجیوں کو شاہ فرینک کی طرف روانہ کیا گیا، ان دونوں فوجیوں کو یہ ظاھر کرنا تھا کہ وہ ناجی کے پیامبر ھے ۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکو روانہ
کر کہ سوڈانی فوج
کو مصری فوج میں مدغم کرنے کا حکم
روک دیا ،

آٹھویں روز وہ دونوں پیامبر واپس آگیے اور شاہ فرنک کا جوابی خط جو اس نے ناجی کے نام لکھا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کو دیا ، شاہ فرنک نے لکھا تھا کہ حملے کی تاریخ سے دو دن قبل سوڈانی فوج بغاوت کردیں ، تاکہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو صلیبیوں کا حملہ روکنے کی حوش تک نہ رھے ،
علی بن سفیان نے ان
دو پیامبروں کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی اجازت سے نظر بند کردیا ، یہ نظربندی باعزت تھی، جس میں دونوں کے آرام اور بہترین کھانوں کا خاص خیال رکھا گیا ، یہ ایک احتیاطی تدبیر تھی کہ یہ اھم راز فاش نہ ھوں ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے بحیرہ روم کے ساحل پر اپنی فوج کو چھپا لیا جہاں صیلبیوں نے لنگرانداز ھوکر اپنی فوجیں اتارنی تھی ، حملے میں ابھی کچھ دن باقی تھے۔۔

ایک مورخ سراج الدین نے لکھا ھے کہ سوڈانی فوج نے شاہ فرینک کے حملے سے پہلے ھی بغاوت کردی تھی ،
جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے طاقت سے نہیں بلکہ پیار ڈپلومیسی اور اچھے حسن سلوک سے بدل لی تھی ، بغاوت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باغیوں کو اپنا سالار ناجی کہی بھی نظر نہیں آیا اور اسکا کوی نائب بھی سامنے نہیں آیا،،،،، وہ سب تو قید میں تھے ،،

سلطان صلاح الدین ایوبی نے ناجی اور اسکے نایئبین کو کی گردنیں قلم کروا دیں اور رات میں ھی گمنام قبروں میں دفن کرادیا "

ان دونوں مورحوں اور ایک اور مورح " لین پول" نے بھی صلیبیوں کے بحریہ کے اعداد و شمار ایک جیسے ھی لکھے ھے وہ لکھتے ھے کہ خط میں دی ہوئی تاریح کے عین مطابق صلیبیوں کی بحری بیڑے جس میں فرینک کی یونان کی روم کی اور سسلی کی بحریہ شامل تھی ، متحدہ کمان میں بحریہ روم میں نمودار ہوئی ، مورخین کے مطابق اس بحریہ میں جنگی جہازوں کی تعداد 150 تھی ، یہ جنگی جہاز بہت بڑے تھے ان میں مصر میں اتارنے کے لیے فوجیں تھی اس فوج کا صلیبی کمانڈر ایمئرک تھا جن بادبانی کشتیوں میں رسد تھی اسکی ٹھیک تعداد کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ، جہاز دو قطاروں میں آرھے تھے۔۔۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے دفاغ کی کمانڈ اپنے پاس رکھی ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے بحریہ کو مزید قریب آنے دیا جال بچھایا
جا چکا تھا۔ سب سے پہلے بڑے جہاز لنگر انداز ھوے ھی تھے کہ ان پر اچانک آگ برسنے لگی ، یہ منجنیقوں سے پھینکے ھوے آگ کے گولے اور ایسے تیر بھی جن کے پچھلے حصے جلتے ھوے شعلے کے مانند تھے ، مسلمانوں کے اس برساتی ہوئی
آگ نے صلیبیوں کے جہازوں کے بادبانوں کو آگ لگا دی ، جہاز لکڑی کے تھے جو فورا جل اٹھے ، ادھر سے مسلمانوں کے چھپے ھوے جہاز آگیئے انھوں نے بھی آگ ھی برسائ ، یوں معلوم ھو رھا تھا جیسے بحیرہ روم جل رھا ھوں، صلیبیوں کے جہاز موڑ کر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے اور ایک دوسرے کو خود ھی آگ لگانے لگے جہازوں سے صلیبی فوج سمندر میں کھود رھی تھی ان میں سے جو سپاھی زندہ ساحل پر آرھے تھے وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے فوجیوں کے تیروں کا نشانہ بن رھے تھے

ادھر شیر اسلام نورالدین زنگی نے فرینک کے سلطنت پر حملہ کردیا فرینک نے اپنی فوج مصر خشکی کے زریعے روانہ کردی تھی ، فرینک اس وقت سمندر میں جنگی بیڑے کے ساتھ تھا جب اسکو اپنی سطنت پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچھا کر بھاگ گیا لیکن جب وہ وھاں پہنچا،،،تو،،،،،،،،،،¬
وھاں کی دنیا بدل گی تھی،،،

بحیرہ روم میں صلیبیوں کا متحدہ بیڑہ تباہ ھوچکا تھا اور فوج جل اور ڈوب کر ختم ھورھی تھی ، صلیبیوں کا ایک کمانڈر ایملرک بچ گیا اس نے ھتیار ڈال کر صلح کی درخواست کی جو بہت بڑی رقم کے عوض منظور کی گی ، یونان اور سسلی کے کچھ جہاز بچ گیئے تھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکو جہاز واپس لے جانے کی اجازت دی مگر راستے میں ھی ایسا طوفان آیا کہ تمام بچے کچھے جہاز وھی غرق ھوے

١٩دسمبر ١١٦٩ کے روز صلیبیوں نے اپنی شکست پر دستحط کئے اور ،
سلطان صلاح الدین ایوبی کو تاوان ادا کردیا

بیشتر مورخین اور ماھرین حرب و ضرب نے ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس فتح کا سہرہ ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے انٹیلی جنس کے سر باندھا ھے ،

رقاصہ زکوئ کا زکر اس دور کے ایک مراکشی وقائع نگار اسد السدی نے کیا ھے ، اور علی بن سفیان کا تعارف بھی اسی وقائع نگار کی تحریر سے ھوا ھے ، یہ ایک ابتدا ھے۔ ، سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی اب پہلے سے بھی زیادہ خطروں میں گر رھی ھے۔۔۔۔

.........جاری ھے


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form