*ISLAMIC HEROS*
*فاتح بیت المقدس*
*سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ ﷲ*
*قسط نمبر* ۔ *9*
اپنے مرکزی دفتر پہنچ کر وہ علی بن سفیان اور اپنے نائب کو اندر لے گیا اور دروازہ بند کردیا وہ سارا دن کمرے میں بندے رھے سورج غروب ھوا تاریکی چھا گی کمرے کے اندر کھانا تو دور پانی بھی نہیں گیا ، رات خاصی گزر چکی تھی جب وہ تینوں کمرے سے نکلے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوے
علی بن سفیان ان سے الگ ھوا تو محافظ دوستوں کے ایک کمانڈر نے اسے روکا اور کہا۔۔۔
" محترم ۔۔! ھمارا فرض ھے کہ حکم مانے اور زبانیں بند رکھے لیکن میرے دستے میں ایک مایوسی پھیل گی ھے خود میں بھی اسکا شکار ھوا ھوں"
" کیسی مایوسی "
علی بن سفیان نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کمانڈر نے کہا "محافظ کہتے ھے کہ سپہ سالار کو اگر شراب پینے کی اجازت ھے تو ھمیں اس سے کیوں منع کیا گیا ھے اگر آپ میری شکایت کو گستاخی سمجھے تو سزا دیں دے لیکن میری شکایت سنیں ھم اپنے امیر کو اللہ کا برگزیدہ انسان سمجھتے تھے اور اس پر دل و جان سے فدا تھے مگر رات،،،،،،"
" مگر رات کو اسکے خیمے میں ایک رقاصہ گی" علی بن سفیان نے کمانڈر کی بات مکمل کرتے ھوے کہا " تم نے کوی گستاخی نہیں کی ، گناہ امیر کریں یا غلام سزا میں کوئی فرق نہیں ، گناہ بہرحال گناہ ھے میں یقین دلاتا ھوں آپکو کہ امیر مصر اور رقاصہ کے پچھلی رات کی ملاقات میں گناہ کا کوی عنصر نہیں کوئی تعلق نہیں ،،
یہ کیا تھا۔۔؟ ابھی میں تمہیں نہیں بتاونگا آھستہ آھستہ وقت گزرتے ھوے تم سب کو پتہ چل جاے گا کہ رات کو کیا ھوا تھا "
علی بن سفیان نے کمانڈر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا میری بات غور سے سنو عامر بن صالح ۔ تم پرانے عسکری ھوں اچھی طرھ جانتے ھوں کہ فوج اور فوج کے سربراہوں کے کچھ راز ھوتے ھے جن کی حفاظت ھم سب کا فرض ھے رقاصہ کا امیر مصر کے خیمے میں جانا بھی ایک راز ہے اپنے جانبازوں کو شک میں نہ پڑنے دو اور کسی سے ذکر تک نہ ھو کہ رات کو کیا ھوا تھا"
علی بن سفیان نے کہا
یہ کمانڈر پرانا تھا اور علی بن سفیان کی قابلیت سے آگاہ تھا سو اس نے اپنے دستے کے تمام شکوک رفع کیئے اگلے روز سلطان صلاح الدین ایوبی دوپہر کا کھانا کھا رھے تھے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاغ دی گی کہ ناجی آئے ھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی کھانے سے فارغ ھوکر ناجی سے ملے ، ناجی کا چہرہ بتارھا تھا کہ غصہ میں ھے اور گھبرایا ھوا ھے اس نے ھکلاتے ھوے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" قابل صدا احترام امیر مصر۔۔۔
کیا یہ حکم آپ نے جاری کیا ھے کہ سوڈانی فوج کی پچاس ھزار نفری مصر کی اس فوج مین مدغم کردی جاے جو حال ھی میں تیار ھوی ھے "
" ھاں ناجی میں نے
کل سارا دن اور رات کا کچھ حصہ صرف کر کہ اور بڑی گہری سوچ و بچار کے بعد یہ فیصلہ تحریر کیا ھے کہ جس فوج کے تم سالار ھوں اسے مصر کی فوج میں اس طرح مدغم کردیا جاے کہ ھر دستے میں سوڈانیوں کی نفری صرف دس فیصد ھو اور تمھیں یہ حکم بھی مل چکا ھوگا کہ اب تم اس فوج کے سالار نہیں ھوگے تم فوج کے مرکزی دفتر میں آجاوگے " سلطان صلاح الدین ایوبی نے تحمل سے جواب دیا،
" عالی مقام مجھے کس جرم کی سزا دی جارھی ھے" ناجی نے کہا
" اگر تمھیں یہ فیصلہ پسند نہیں تو فوج سے الگ ھو جاو" سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
"معلوم ھوتا ھے میرے خلاف سازش کردی گی ھے آپ کو بلند دماغ اور گہری نظر سے چھان بین کرنی چاھیے مرکز میں میرے بہت سے دشمن ھے" ناجی نے کہا
" میرے دوست میں نے یہ فیصلہ صرف اسلیئے کیا کہ کہ میری انتظامیہ اور فوج سے سازشوں کا خطرہ ھمشہ کے لیے نکل جاۓ اور میں نے یہ فیصلہ اسلیئے کیا ھے کہ کسی کا عہدہ کتنا ھی کیوں نہ بلند ھوں اور کتنا ھی ادنیٰ کیوں نہ ھوں وہ شراب نہ پیئے ھلڑ بازی نہ کریں اور فوجی جشنوں میں ناچ گانے نہ ھوں" صلاح الدین ایوبی نے کہا۔
" لیکن عالی جاہ۔۔۔ میں تو حضور سے اجازت لی تھی" ناجی نے کہا
" میں نے شراب اور ناچ گانے کی اجازت صرف اسلیئے دی تھی کہ اس فوج کی اصل حالت میں دیکھ سکوں جسے تم ملت اسلامیہ کا فوج کہتے ھوں ، میں پچاس ھزار نفری کو برطرف نہیں کرسکتا مصری فوج میں اس کو مدغم کر کہ اسکے کردار کو سدھار لونگا اور یہ بھی سن لو کہ ھم میں کوی مصری سوڈانی شامی عجمی نہیں ھے ھم سب مسلمان ھے ھمارا جھنڈا ایک اور مذھب ایک ھے " سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
" امیر عالی مرتبت نے یہ تو سوچا ھوتا کہ میری کیا عزت رہ جاے گی" ناجی نے کہا
"جس کے تم اھل ھوں، اپنی ماضی پر ھی نظر ڈالوں ضروری نہیں کہ اپنی کارستانیوں کی داستانیں مجھ سے ھی سنو فورا واپس جاو اور اپنی فوج کی نفری سامان جانور سامان خوردونوش وغیرہ کے کاغذات تیار کر کہ میرے نایب کے حوالے کرو سات دن کے اندر اندر میرے حکم کی تعمیل ضروری ھونی چاھیے" سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
ناجی نے کچھ کہنا چاہ لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی ملاقات کے کمرے سے باھر نکل گیے .............
یہ بات ناجی کے خفیہ حرم میں پہنچ گی تھی کہ زکوئ کو شاہ مصر نے رات بھر شرف باریابی بخشا ھے،
زکوئ کے خلاف حسد کی آگ پہلے ھی پھیلی ھوی تھی، اسے آے ابھی تھوڑا ھی عرصہ گزرا تھا لیکن آتے ھی ناجی نے اسکو اپنے پاس رکھا تھا ، اسے زرا سی دیر کے لیے بھی اس حرم میں جانے نہیں دیتا جہاں ناجی کی دلچسپ ناچنے والی لڑکیاں رھتی تھی زکوی کو اس نے الگ کمرہ دیا تھا، انھیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ ناجی زکوی کو صلاح الدین کو موم کرنے کی ٹرینگ دے رھا ھے اور کس بڑے تخریبی منصوبے پر کام کر رھا ھے ، یہ رقاصایئں بس یہی دیکھ کر جل بھن گی تھی کہ زکوئ نے ناجی پر قبضہ کرلیا تھا،اور ناجی کے دل میں ان کے خلاف نفرت پیدا کردی گی ھے ،
حرم کی دو لڑکیاں زکوئ کو ٹھکانے لگانے کی سوچ رھی تھی،
اب انھوں نے دیکھا کہ زکوئ کو امیر مصر نے بھی رات بھر اپنے خیمے میں رکھا تو وہ پاگل ھو گئ، اسکو ٹھکانے لگانے کا واحد طریقہ قتل تھا، قتل کے دو ھی طریقے ھو سکتے تھے زھر یا کراے کے قاتل۔ جو زکوئ کو سوتے ھوے ھی قتل کردیں، دونوں ھی طریقے ناممکن لگ رھے تھے کیونکہ زکوئ باھر نہیں نکلتی تھی اور اندر جانے تک اسکو رسائ کا کوی زریعہ نہیں تھا،
ان دونوں نے حرم کی سب سے زیادہ ھوشیار چالاک ملازمہ کو اعتماد میں لیا تھا ، اسے انعام و اکرام دیتی رھتی تھی، جب حسد کی انتہا نے انکی آنکھوں میں خون اتار دیا تو انھوں نے اس ملازمہ کو منہ مانگا انعام دے کر اپنا مدعا بیان کیا ، یہ ملازمہ بڑی خرانٹ اور منجھی ھوی عورت تھی، اس نے کہا کہ سالار کی رہائش گاہ میں جاکر زکوئ کو زھر دینا مشکل نہیں ، موقعہ محل دیکھ کر اسکو خنجر سے قتل کیا جاسکتا ھے اس کے لیے وقت چاھیے اس نے وعدہ کیا کہ وہ زکوئ کی نقل حرکت پر نظر رکھے گی ھوسکتا ھے کوی موقعہ مل جاے ، اس جرائم پیشہ عورت نے یہ بھی کہا کہ اگر موقعہ نہیں ملا تو حشیشن کی مدد لی
جاسکتی ھے مگر وہ معاوضہ بھت زیادہ لیتے ھے دونوں لڑکیوں نے اسکو یقین دلایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ دے سکتی ہیں ھے.
ناجی اپنے کمرے میں بھت غصے کی عالم میں ٹہل رھا تھا زکوئ اسکو ٹھنڈہ کرنے کی کوشش کر رھی تھی لیکن اسکا غصہ مزید بڑھتا چلا جا رھا تھا ،
" آپ مجھے اسکے پاس جانے دیں میں اسکو شیشے میں اتار لونگی" زکوی نے کہا
" بیکار ھے ،،،،،، وہ کمبحت حکم نامہ جاری کرچکا ھے ، جس پر عمل بھی ھوچکا ھے مجھے اس نے کہی کا نہیں رہنے دیا ، اس پر تمھارا جادو نہیں چل سکا مجھے معلوم ھے میرے خلاف سازش کرنے والے لوگ کون ھے وہ میری ابھرتی ہوی حثیت سے حسد محسوس کر رھے ھے میں امیر مصر بننے والا تھا ، یہاں کے حکمرانوں پر میں نے حکومت کی ھے حالانکہ میں معمولی سا سالار تھا اب میں سالار بھی نہیں رھا،"
ناجی نے دربان کو بلا کر کہا کہ اوورش کو بلاے، اسکا ھمراز اور نائب آیا تو اس نے بھی اسی موضوع پر بات کی اسے وہ کوی نئی خبر نہیں سنا رھا تھا، اوورش کے ساتھ وہ صلاح الدین کے نئے حکم نامے پر تفصیلی تبادلہ خیال کرچکا تھا مگر دونوں اسکے خلاف کوئی تفصیلی کاروائ نھی سوچ سکے تھے اب ناجی کے دماغ میں جوابی کاروائ آگی تھی اس نے اوورش کو کہا " میں نے جوابی کاروائ سوچ لی ھے "
" کیا " اوورش نے کہا
" بغاوت " ناجی نے کہا اور اوورش اسکو چپ چاپ دیکھتا رھا۔ ناجی نے اسکو کہا " تم حیران ھو گیے ھوں کیا تمھیں شک ھے کہ یہ 50 ھزار سوڈانی فوج ھماری وفادار نہیں ۔۔۔؟کیا سلطان کے مقابلے میں مجھے اور تمھیں اپنا سالار اور خیر خواہ نہیں سمجھتی ۔۔؟
کیا تم اس فوج کو یہ کہہ کر بغاوت پر آمادہ نہیں کر سکتے کہ تمھیں مصر کا غلام بنایا جا رھا ھے مصر تمھارا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "
" میں نے اس اقدام پر غور نہیں کیا تھا بغاوت کا انتظام ایک اشارے پر ھو سکتا ھے لیکن مصر کی نئی فوج بغاوت کو دبا سکتی ھے اور اس نئی فوج کو کمک بھی مل سکتی ھے ، حکومت سے ٹکر لینے سے پہلے ھمیں ھر پہلو پر غور کرنا چاھیے" اوورش نے کہا
"میں غور کرچکا ھوں میں عیسائ بادشاھوں کو مدد کے لیے بلا رھا ھوں ، تم دو پیامبر تیار کرو انھیں بہت دور جانا ھے اور میری بات بہت غور سے سنو ،، زکوئ تم اپنے کمرے میں چلی جاو " ناجی نے کہا زکوی اپنے کمرے میں چلی گی اور وہ دونوں ساری رات اپنے کمرے میں بیٹھے رھے۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں فوجوں کو مدغم کرنے کا دورانیہ 7 دن رکھا تھا ، کاغذی کاروائ ہوتی رھی ناجی پوری طرح سے تعاون کرتا رھا
7 روز گزر چکے تھے ناجی ایک بار پھر سلطان صلاح الدین ایوبی سے ملا لیکن کوئی شکایت نہیں کی ، تفصیلی رپورٹ دیں کر کہا کہ سات دن میں دونوں فوجیں ایک ھوجاے گی ،
سلطان صلاح الدین ایوبی کے نایئبین نے بھی یقین دلایا کہ ناجی ایمانداری سے تعاون کر رھا ھے مگر علی بن سفیان کی رپورٹ کسی حد تک پریشان کن تھی ، انہیں انٹیلی جنس نے رپورٹ دی تھی کہ سوڈانی فوج میں کسی حد تک
بے اطمینانی اور ابتری پائ جا رھی ھے وہ مصری فوج میں مدغم ھونے پر خوش نہیں ہیں اور ان میں یہ افواھیں پھیلائ جا
رھی تھی کہ مصری فوج میں مدغم ھوکر انکی حثیت غلاموں جیسی ھو جاے گی، انکو مال غنیمت بھی نہیں ملے گا اور ان سے غلاموں کی طرح کا کام لیا جاے گا اور سب سے بڑی بات کہ انکو شراب نوشی کی اجازت نہیں ھوگی علی بن سفیان نے سلطان صلاح الدین ایوبی تک یہ خبریں پہنچا دی ،،
سلطان نے اسے کہا کہ یہ لوگ طویل وقت سے عیش کی زندگی بسر کر رھے ھیں انکو یہ تبدیلی پسند نہیں آے گی ، مجھے امید ھے کہ وہ نئے حالات اور ماحول کے عادی ھوجائنگے،
" اس لڑکی سے ملاقات ھوی کہ نہیں "
سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا
" نہیں اس سے ملاقات ممکن نظر نہیں آرھی میرے آدمی ناکام ھوچکے ھے ناجی نے اسکو قید کر کہ رکھا ھے " علی بن سفیان نے کہا
رات ابھی ابھی تاریک ھوئ تھی زکوئ اپنے کمرے میں تھی ناجی اور اوورش ساتھ والے کمرے میں تھے اسے گھوڑوں کے قدموں کی آوازیں سنائ دی اس نے پردہ ھٹادیا ، باہر کے چراغوں کی روشنی میں اسکو دو گھوڑ سوار دکھائ دیئے ۔ لباس سے وہ تاجر معلوم ہو رھے تھے گھوڑوں سے اتر کر وہ ناجی کے کمرے کی طرف بڑھے تو انکی چال بتا رھی تھی کہ یہ تاجر نہیں ہیں
اتنے میں اوورش باھر نکلا دونوں گھوڑ سوار اسکو دیکھ کر رک گیے اور اوورش کو سپاھیوں کے انداز سے سلام کیا ، اوورش نے ان کے گرد گھوم کر انکا جائزہ لیا اور پھر کہا کہ اپنے ہھتیار دکھاو دونوں نے پھرتی سے چغے کھولے اور ھتیار دکھاے دیئے انکے پاس چھوٹی چھوٹی تلواریں اور ایک ایک نیزہ تھا اوورش انکو کمرے کے اندر لیے گیا دربان باھر کھڑا تھا
زکوئ گہرے سوچ میں پڑ گی وہ کمرے سے نکلی اور ناجی کے کمرے کی طرف بڑھ گی
مگر دربان نے اسکو دروازے پر ھی رکا اور کہا کہ اسے حکم ملا ھے کہ کسی کو اندر جانے نہ دیں زکوئ کو وھاں ایسی حثیت حاصل ھو تھی کہ وہ کمانڈروں پر بھی حکم چلایا کرتی تھی ۔ دربان کے کہنے سے وہ سمجھ گی کہ کوی خاص بات ھے
اسے یاد آیا کہ ناجی
نے اسکی موجودگی میں اوورش سے کہا تھا میں عیسائ بادشاھوں کو مدد کے لیے بلا رھا ھوں ، تم دو پیامبر تیار کرو انھیں بہت دور جانا ھے آو میری بات بہت غور سے سنو اور پھر اس نے زکوئ کو اندر جانے کا کہا اور ناجی پھر بغاوت کی باتیں کرنے لگا۔ یہ سب سوچ کر وہ اپنے کمرے میں واپس چلی گی اسکے اور ناجی کے خاص کمرے کے درمیان ایک دروازہ تھا جو دوسری طرف سے بند تھا اس نے اسی دروازے کے ساتھ کان لگا دیئے ، ادھر کی آوازیں سنایی دے رھی تھی پہلے تو اسے کوی بات سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن بعد میں اسکو ناجی کی آواز بڑی صاٖف سنائ دے رھی تھی
" آبادیوں سے دور رھنا اگر کوی شک میں پڑے تو سب سے پہلے اس پیغام کو غائب کرنا ، جان پر کھیل جانا جو بھی تمھارے راستے میں حائل ھو اس کو راستے سے ھٹا دینا تمھارا سفر 4 دنوں کا ھے 3 دن میں پہچنے کی کوشش کرنا سمت یاد کرلو " " شمال مشرق" ناجی کہ رھا تھا
دونوں آدمی باھر نکلے زکوئ بھی باھر نکلی اس نے دیکھا کہ دونوں سوار گھوڑوں پر سوار ھو رھے تھے ، ناجی اور اوورش بھی باھر نکلے تھے وہ شاید ان کو الوداع کہنے کے لیے باھر کھڑے تھے گھوڑ سوار بہت تیزی سے روانہ ھوے ناجی نے زکوئ کو بھلا کر کہا کہ میں باھر جا رھا ھوں ، کام بہت لمبا ھے دیر لگے گی تم آرام کر لو اگر اکیلیے دل نہ لگے تو گھوم پھیر لینا "
" ھاں جب سے آی ھوں باھر ھی نہیں نکلی" زکوئ نے کہا
ناجی اور اوورش بھی چلے گے زکوئ نے چغہ پہنا کمر میں خنجر کو اڑیسا اور حرم کی طرف چل پڑی وہ جگہ کچھ سو گز دور تھی وہ ناجی پر یہ ظاھر کرانا چاھتی تھی کہ وہ حرم کے اندر ھی جا رھی ھےدربان کو بھی اس نے یہی بتایا حرم کے اندر جب زکوئ داخل ھوئ تو حرم والیوں نے اسکو دیکھ کر حیران ھوی وہ پہلی بار وھاں آئ تھی سب نے اسکا استقبال کیا اور اسکو پیار کیا ، ان دونوں لڑکیوں نے بھی اسکا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا جو زکوئ کو قتل کرنا چاھتی تھی زکوئ سب سے ملی اور سب کے ساتھ باتیں کی پھر حرم سے باھر نکلی وہ خرانٹ ملازمہ بھی وھی تھی جسے نے زکوئ کو قتل کرنا تھا اس نے زکوئ کو بڑے غور سے دیکھا اور زکوئ باھر نکل گی
حرم والے مکان اور ناجی کے رھایش گاہ کا درمیانی علاقہ اونچا نیچا تھا اور ویران، زکوئ حرم سے نکلی تو ناجی کی رھایشگاہ کے بجاے بھت تیز تیز دوسری سمت کی طرف چل پڑی ، ادھر ایک پگڈنڈی بھی تھی لیکن زکوئ زرا اس سے دور جا رھی تھی ، زکوئ سے 15۔20 قدم دور ایک ساہ سایہ بھی چلا جا رھا تھا وہ کوی انسان ھو سکتا تھا لیکن سیاہ لبادے میں لپٹے ھونے کی وجہ سے کوی بھوت ھی لگ رھا تھا زکوئ کی رفتار تیز ھوئ تو اس بھوت نے بھی اپنی رفتار اور تیز کردی ، آگے گھنی جھاڑیاں تھی زکوئ ان میں سے روپوش ھوی ، سیاہ بھوت بھی جھاڑیوں سے روپوش ھوگیا ۔ وھاں سے کوئی اڑھائ 300 سو گز دور سلطان صلاح الدین کی رھایشگاہ تھی جس کے اردگرد فوج کے اعلی رتبوں کے افراد رھتے تھے
.......... جاری ہے