Sultan Salah ud Din Ayyoubi Episode 8



*فاتح بیت المقدس*
*سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ ﷲ*
 *قسط نمبر۔* *8*
نصف شب کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے خیمے میں داخل ھوا جو ناجی نے نصب کیا تھا اندر اس نے قالین بچھا دیئے تھے پلنگ پر چیتے کی کال کی مانند پلنگ پوش تھا فانوس جو رکھوایا تھا اسکی ھلکی نیلی روشنی صحر کی شفاف چاندنی کی مانند تھی اور اندر کی فضا عطر بیز تھی خیمے کے اندر ریشمی پردے آویزاں تھے ناجی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ خیمے میں اندر گیا اور سلطان سے درخواست کرنے لگا کہ " اسے زرا سی دیر کے لیے خیمے میں آنے کی اجازت عطا فرمائیں

میں وعدہ خلافی سے بہت ڈرتا ھوں،،،،، " بھیج دو "
سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا

اور ناجی ھرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا خیمے سے باہر گیا ، تھوڑا ھی وقت گزرا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے محافظوں نے ایک رقاصہ کو اسکے خیمے کی طرف آتے دیکھا

خیمے کی ہر طرف مشعلیں روشن تھیں روشنی کا یہ انتظام علی بن سفیان نے کرایا تھا کہ رات کے وقت محافظ گروپیش میں اچھی طرح سے دیکھ سکے رقاصہ قریب آی تو انھوں نے اسے پہچان لیا انھوں نے اسے رقص میں دیکھا تھا یہ وھی لڑکی تھی جو پھول کے ٹوکرے میں سے نکلی تھی وہ زکوی تھی
وہ رقص کی لباس میں تھی یہ لباس توبہ شکن تھا ،
محافظوں کے کمانڈروں نے اسے روک لیا
زکوئ نے بتایا کہ اسے امیر مصر نے بلوایا ھے کمانڈر نے اسے بتایا کہ یہ ان امیروں میں سے نہیں ہیں کہ تم جیسی فاحشہ لڑکیوں کے ساتھ راتیں گزارے "

آپ ان سے پوچھ لیں میں بن بلاے آنے کی جرآت نہیں کر سکتی "

" انکا بلاوا تم کو کس نے دیا " کمانڈر نے پوچھا

" سالار ناجی نے کہا کہ تمھیں امیر مصر بلا رھے ھے آپ کہتے ھوں تو میں چلی جاتی ھوں امیر نے جواب طلبی کی تو تم خود بھگت لینا "
زکوی نے کہا

کمانڈر تسلیم نہیں کر سکتا تھا کہ امیر مصر نے ایک رقاصہ کو اپنے خیمے میں بلوایا ھے وہ سلطان کے کردار سے واقف تھے وہ اسکے اس حکم سے بھی واقف تھا کہ ناچنے گانے والیوں سے تعلق رکھنے والے کو 100 درے بھی مار جائے گے ، کمانڈر شش و پنج میں پڑ گیا ۔ سوچ سوچ کر اس نے ھمت کی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں اندر چلا گیا
سلطان اندر ٹہل رھا تھا کمانڈر نے ڈرتے ڈرتے کہا " باھر ایک رقاصہ کھڑی ھے کہتی ھے کہ حضور نے اسے بلوایا ھے
" اسے اندر بھیج دو" سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا ۔ کمانڈر باھر نکلا اور زکوئ کو اندر بھیج دیا ۔۔۔

سپاھیوں کو توقع تھی کہ ان کا امیر اور سالار اس لڑکی کو باھر نکال دیں گے وہ سب سلطان صلاح الدین ایوبی کی گرجدار آواز سننے کے لیے تیار ھو گئے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ھوا رات گزرتی جارھی تھی اندر سے دھیمی دھیمی باتوں کی آوازیں آرھی تھی ،

محافظ دستے کا کمانڈر بے قراری کے انداز میں ٹہل رھا تو ایک سپاھی نے کہا" کیا یہ حکم صرف ھمارے لیے ھے کہ کسی فاحشہ کے ساتھ تعلق رکھنا جرم ھے "

" ھاں حکم صرف ماتحتوں اور قانون صرف رعایا کے لیے ھوتا ھے " کمانڈر نے کہا

امیر مصر کو درے نہیں لگاے جاسکتے۔۔؟'"

" بادشاھوں کا کوئی کردار نہیں ھوتا
سلطان صلاح الدین ایوبی شراب بھی پیتا ھوگا ھم پر جھوٹی پارسائ کا رعب جمایا جاتا ھے" کمانڈر نے کہا

انکی نگاھوں میں
صلاح الدین کا جو بت تھا وہ ٹوٹ گیا تھا اس بت میں سے ایک عربی شہزادہ نکلا جو عیاش تھا پارسائ کے پردے میں گناہ کا مرتکب ھو رھا تھا،،
ناجی بہت ت خوش تھا، سلطان صلاح الدین ایوبی کی خوشنودی کے لیے اس نے شراب سونگی بھی نہیں تھی وہ اپنے خیمے میں بیٹھا مسرت سے جھوم رھا تھا اسکے سامنے اسکا نائب سالار اوروش بیٹھا ھوا تھا "
اس لڑکی کو گیے بہت وقت ھو گیا ھے معلوم ھوتا ھے ھمارا تیرے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دل میں اتر گیا ھے "
اوروش نے کہا۔۔۔۔" ھمارا تیر خطا کب گیا تھا اگر خطا جاتا بھی تو اب تک ھمارے آجاتا"

ناجی نے قہقہ لگا کر کہا ' تم ٹھیک کہتے ھوں ۔ زکوئ انسان کے روپ میں ایک طلسم ھے ورنہ سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا
پتھر کھبی نا ٹوٹ سکتا ۔" اوروش نے کہا

" میں نے سے جو سبق دیئے تھے وہ زکوی کے کھبی وھم و گمان میں بھی نہ آے ھونگے اب سلطان صلاح الدین ایوبی کے حلق سے شراب اترانی باقی رہ گی ھے " ناجی نے کہا ۔

ناجی کو باھر آھٹ سنائ دی ناجی نے دور سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کی طرف دیکھا ، پردے گرے ھوے تھے اور سپاھی کھڑے تھے اس نے اندر جا کر اوروش سے کہا" اب میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ھوں کہ میری زکوئ نے سلطان کا بت توڑ ڈالا ھے"
رات کا آخری پہر تھا جب زکوئ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے سے باھر نکلی ناجی کے خیمے میں جانے کے بجاے وہ دوسری طرف چلی گی راستے میں ایک آدمی کھڑا تھا جو سر سے پاؤں تک ایک ھی لبادے میں چھپا ھوا تھا اس نے دھیمی سی آواز میں زکوئ کو پکارا وہ اس آدمی کے پاس چلی گی وہ اسکو خیمے میں لیے گیا بہت دیر بعد وہ اس خیمے سے نکلی اور ناجی کے خیمے کی رہ لی.

ناجی اس وقت تک جاگ رھا تھا اور کئ بار سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کی طرف باھر نکل کر دیکھ چکا تھا کہ زکوئ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو پھانس لیا ھے اور اسے آسمان کی بلندیوں سے گھسیٹ کر ناجی کی پست زہنیت میں لے آی ،،،"
اوروش رات بہت ھوگی ھے وہ ابھی تک واپس نھی آی" ناجی نے کہا ۔۔۔۔۔"
وہ اب آے گی بھی نھی ، ایسے ہیرے کو کوی شہزادہ واپس نہیں کرتا وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جائے گا تم نے اس پر بھی غور کیا ھے۔۔؟" اوروش نے کہا

" نہیں میں نے اپنی چال کا یہ پہلو تو سوچا ھی نہیں تھا " ناجی نے کہا

کیا یہ نہیں ھوسکتا کہ امیر مصر زکوئ کے ساتھ شادی کر لیں اس صورت میں لڑکی ھمارے کام کی نہیں رھے گی"
اوروش نے کہا ۔"
وہ ھے تو ھوشیار ۔۔۔ مگر رقاصہ کا کیا بھروسہ ،،
وہ رقاصہ کی بیٹی ھے اور تجربہ کار بھی۔۔۔۔ دھوکہ بھی دے سکتی ھے۔۔" ناجی نے کہا ،،، وہ گہرئ سوچ میں تھا کہ زکوئ خیمے میں داخل ھوی، اس نے ھنس کر کہا

" اپنے امیر مصر کا وزن کرو لاؤ اتنا سونا آپ نے میرا یہی انعام مقرر کیا تھا نا۔۔؟"

" پہلے بتاو ھوا کیا" ناجی نے بے قراری سے کہا ۔۔۔۔۔ " جو آپ چاھتے تھے ۔۔ آپکو یہ کس نے بتایا کہ صلاح الدین پتھر ھے فولاد ھے " اس نے زمین پر پاؤں کا ٹھڈ مارکر کہا " وہ اس ریت سے زیادہ بے بس ھے جس کو ھوا کے جھونکے اڑاتے پھرتے ھے " زکوی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔ "

یہ تمھارے حسن کا جادو اور زبان کی طلسم نے اسے ریت بنایا ورنہ یہ کمبحت چٹان ھے"

اوروش نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ھاں چٹان تھا لیکن اب رتیلا ٹیلا بھی نہیں " زکوی نے کہا

" میرے متعلق کوی بات ھوی"؟ ناجی نے کہا ۔۔۔۔۔۔" ھاں پوچھ رھا تھا کہ ناجی کیسا انسان ھے میں نے کہا کہ مصر میں اگر آپکو کسی پر بھروسہ کرنا چاھیے تو وہ ناجی ھے اس نے کہا کہ تم کس طرح ناجی کو جانتی ھوں میں نے کہا کہ وہ میرے باپ کے گہرے دوست ھے ھمارے گھر گیے تھے اور کہہ رھے تھے کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا غلام ھوں مجھے سمندر میں کودنے کا حکم دینگے تو میں کود جاونگا پھر اس نے
مجھ سے پوچھا کہ تم باعصمت لڑکی ھوں، میں نے کہا میں آپکی لونڈی ھوں آپکا ھر حکم سر آنکھون پر ۔ کہنے لگا کہ کچھ دیر میرے پاس بیٹھو میں بیٹھ گی ، پھر وہ اگر پتھر تھا تو موم بن گیا اور میں نے موم کو اپنے سانچے میں ڈال لیا ، اس سے رخصت ھونے لگی تو اس نے مجھ سے معافی مانگی ، کہنے لگا میں نے زندگی میں پہلا گناہ کیا ھے ، میں نے کہا یہ گناہ نہیں ہے
آپ نے میرے ساتھ
کوی دھوکہ نہیں کیا زبردستی نہیں کی مجھے بادشاھوں کی طرح حکم دے کر نہیں بلوایا، میں خود آئ تھی اور پھر بھی آونگی۔"

زکوئ نے ھر بات اس طرح کھل کر سنائ جس طرح اسکا جسم عریاں تھا ناجی نے جوش مسرت سے پاگل ہوتا جارہا تھا
اوروش زکوئ کو خراج تحسین اور ناجی کو مبارک باد دے کر خیمے سے نکل گیا

صحرا کی اس پراسرار رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا وہ کسی بھی صحرائ صبح سے محتلف نہیں تھی مگر اس صبح کے اجالے نے اپنے تاریک سینے میں ایک راز چھپا لیا تھا جس کی قیمت اس سلطنت اسلامیہ جتنی تھی جس کے قیام اور استحکام کا حواب سلطان صلاح الدین ایوبی نے دیکھا اور اس کی تعبیر کا عزم لیکر جوان ھوا ، گزشتہ رات اس صحرا میں جو واقعہ ھوا اسکے 2 پہلو تھے ایک پہلو سے ناجی اور اوروش واقف تھے

دوسرے سے سلطان صلاح الدین ایوبی کا محافط دستہ واقف تھا اور سلطان صلاح الدین ایوبی اسکا سراغرسان اور جاسوس علی بن سفیان اور زکوئ تین ایسے افراد تھے جو اس واقعے کے دونوں پہلوں سے واقف تھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی اور اسکے سٹاف کو ناجی نے نہایت ھی شان اور عزت کے ساتھ رخصت کیا ، سوڈانی فوج دو رویہ کھڑی "
سلطان صلاح الدین ایوبی زندباد" کے نعرے لگا رھی تھی،
سلطان صلاح الدین ایوبی نے نعروں کے جواب میں ہاتھ لہرانے مسکرانے اور دیگر تکلفات کی پرواہ نھی کی ناجی سے ہاتھ ملایا اور اپنے گھوڑے کو ایڑی لگای اسکے پیچھے اپنے محافط اور دیگرے سپاہ کو بھی اپنے گھوڑے دوڑانے پڑے اپنے مرکزی دفتر پہنچ کر وہ علی بن سفیان اور اپنے نایب کو اندر لے گیا اور دروازہ بند کردیا ۔

........جاری ھے


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form