*فاتح بیت المقدس*
*سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ ﷲ*
*قسط نمبر۔* *7*
جونہی سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی شاھانہ نشست پر بیٹھا۔ سر پٹ دوڑتے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنائی دینے لگی گھوڑے جب روشنی میں آے تب اس نے دیکھا کہ چار گھوڑے دایئں سے اور 4 بایئں سے آرھے تھے ھر ایک پر ایک ایک سوار تھا اور ان کے پاس ھتیار نہیں تھے وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آرھے تھے صاف ظاھر تھا کہ وہ ٹکرا جاینگے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کرینگے وہ ایک دوسرے کے قریب آے تو سوار رکابوں میں پاؤں جماے کھڑے ھوے پھر انھوں نے لگامیں ایک ایک ہاتھ میں تھام لی اور دوسرے بازو پھیلا دیئے دونوں اطرف کے گھوڑے بلکل آمنے سامنے آگیئے اور سواروں کی دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے الجھ گی۔ سواروں نے ایک دوسرے کو پکڑنے اور گرانے کی کوشش کی سب گھوڑے جب آگے نکل گیے تو دو سوار جو گھوڑوں سے گر گیئے تھے ریت پر قلابازیاں کھا رھے تھے ، ایک طرف کے ایک سوار نے دوسری طرف کے ایک سوار کو ایک بازو میں جھکڑ کر اسے گھوڑے سے اٹھا لیا تھا اور اسے اپنے گھوڑوں پر لاد کر لے جا رھا تھے ،
ھجوم نے اس قدر شور برپا کیا تھا کہ اپنی آواز خود کو سنائ نہیں دے رھی تھی۔ یہ سوار اندھیرے میں غائب ھوے تو دونوں اطرف سے اور چار چار
گھوڑسوار آے اور مقابلہ ھوا اس طرح آٹھ مقابلے ھوے اور اسکے بعد شتر سوار آے پھر گھوڑ سواروں اور شتر سواروں نے کئ کرتب دکھاے ۔ اسکے بعد
تیغ زنی اور بغیر ھتیاروں کے لڑائ کے مظاھرے ھوے جن میں کئ سپاھی زخمی ھوے
سلطان صلاح الدین ایوبی شجاعت اور بہادری کے ان مقابلوں میں جذب ھوکر رہ گیا تھا اسے ایسے ھی بہادر فوج کی ضرورت تھی سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان کے کان میں کہا " اگر اس فوج میں اسلامی جذبہ بھی ھوں میں اسی فوج سے ھی صلیبیوں کو گھٹنوں کے بل بٹھا سکتا ھوں
" اگر ناجی سے کمان لی جاۓ تو جذبہ بھی پیدا کیا جا سکتا ھے "
علی بن سفیان نے کہا مگر
سلطان صلاح الدین ایوبی ناجی جیسے سالار کو سبکدوش نہیں کرنا چاھتا تھا بلکہ سدھار کر راہ حق پر لانا چاھتا تھا۔ وہ اس جشن میں اپنی آنکھوں یہی دیکھنے آیا تھا کہ یہ فوج اخلاق اور مہارت کے لحاظ سے کیسی ھے اس کو ناجی کے اس بات سے ہی مایوسی ہوی تھی کہ ناجی کے کمانڈر اور سپاھی شراب پینا چاھتے ھے اور ناچ گانا بھی ھوگا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس درحواست کی منظوری صرف اس وجہ سے دی تھی کہ وہ دیکھنا چاھتا تھا کہ یہ فوج کس حد تک عیش و عشرت میں ڈوبی ھوئ ھے۔
بہادری شجاعت شاہسواری تیغ زنی تلوار زنی میں تو یہ فوج جنگی معیار پر پورا اترتی تھی مگر جب کھانے کا وقت آیا تو یہ فوج بدتمیزیوں بلانوشوں اور ھنگامہ پرور لوگوں کا ھجوم بن گی، کھانے کا انتظام وسیع و عریض میدان میں کیا گیا تھا اور ان سے زرا دور سلطان صلاح الدین ایوبی اور دیگر مہمانون کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا سینکڑون سالم دنبے اور بکرے اونٹوں کی سالم رانیں اور ھزارو مرغ کھانے کے لیے موجود تھے دیگر لوازمات کا کوی شمار نہ تھا اور سپاھیوں کے سامنے شراب کے چھوٹے چھوٹے مشکیزے اور صراحیاں رکھ دی گی تھی ، سپاھی کھانے اور شراب پر ٹوٹ پڑے اور غٹاغٹ شراب چڑھانے لگے اور معرکہ آرائ ھونے لگی سلطان صلاح الدین ایوبی یہ منظر دیکھ رہا تھا اور خاموش تھا اسکے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا جو یہ ظاھر کرتا کہ وہ کیا سوچ رہا ھے اس نے ناجی سے صرف اتنا کہا " پچاس ھزار فوج میں آپ نے یہ آدمی کس طرح منتحب کیئے کیا یہ آپکے بدترین سپاھی ھے؟"
" نہیں امیر مصر ،،،!
یہ دو ھزار عسکری میرے بہترین سپاھی ھے آپ نے انکے مظاھرے دیکھے ان کی بہادری دیکھی ھے میدان جنگ میں جس جانبازی کا مظاھرہ کرینگے وہ آپکو حیران کردیگی آپ انکی بدتمیزی کو نہ دکھیں یہ آپکے اشارے پر جانیں قربان کردینگے میں انھیں کھبی کھبی کھلی چھٹی دے دیا کرتا ھوں کہ مرنے سے پہلے دنیا کے رنگ و بو کا پورا مزہ اٹھا لیں "
ناجی نے غلامانہ لہجے میں کہا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس استدلال کے جواب میں کچھ نہیں کہا ناجی جب دوسرے مہمانوں کی طرف متوجہ ھوا تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان سے کہا " میں جو دیکھنا چاھتا تھا وہ دیکھ لیا ھے یہ سوڈانی شراب اور ھنگامہ آرائ کے عادی ہیں ، تم کہتے ہو ان میں جذبہ نہیں ھے میں دیکھ رھا ھوں ان میں کردار بھی نہیں ھے ۔
اس فوج کو اگر تم لڑنے کے لیے میدان جنگ میں لے گیے تو یہ لڑنے کی بجاے اپنی جان بچانے کی فکر کرے گی اور مال غنیمت لوٹے گی اور مفتوح کی عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرے گی "
" اسکا علاج یہ ھے کہ آپ نے جو فوج مصر کے مختلف حصوں سے بھرتی کی ھے اسکو ناجی کے 50 ھزار فوج میں مدغم کرلیں برے سپاھی اچھے سپاھیوں کے ساتھ مل کر اپنی عادتیں بدل دیا کرتے ھے " علی بن سفیان نے کہا ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی مسکرایا اور کہا " تم یقینا میرے دل کا راز جانتے ھوں میرا منصوبہ یہی ھے جو میں ابھی تمہیں نہیں بتانا چاہ رھا تھا ، تم اسکا ذکر کسی سے نہ کرنا "
علی بن سفیان میں
یہی وصف تھی کہ وہ دوسرے کے دل کا راز جان لیتا تھا اور غیر معمولی طور پر زہین تھا وہ کچھ اور کہنے ھی لگا تھا کہ ان کے سامنے مشعلیں روشن ھوی ، زمین پر بیش قیمت قالین بچھے ھوے تھے ، شہنائ اور سارنگ کا ایسا میٹھا نغمہ ابھرا کہ مہمانوں پر سناٹا چھا گیا ایک طرف سے ناچنے والیوں کی قطار نمودار ھوی ، بیس لڑکیاں ایسے باریک اور نفیس لباس میں چلی آرھی تھی ہر ایک کا لباس باریک چغہ سا تھا جو شانوں س ٹحنوں تک تھا ان کے بال کھولے ھوے تھے اور اسی ریشم کا حصہ نظر آرھے تھے جسکا انھوں نے لباس پہنا ھوا تھا صحرا کی ھلکی ھلکی ھوا سے اور لڑکیوں کی کے چال سے یہ ڈھیلا ڈھالا لباس ھلتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے پھولدار پودوں کی ڈالیاں ھوا میں تیرتی ھوی آرھی ھوں ھر ایک کے لباس کا رنگ جدا تھا ھر ایک کی شکل و صورت ایک دوسرے سے مختلف تھی وہ چلتی آرھی تھی لیکن قدم اٹھتے نظر نہیں آرھے تھے وہ ھوا کی لہروں کی مانند تھی وہ نیم دائرے میں ھوکر رہ گی سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف منہ کر کہ تغظیم کے لیے جھکی سب کے بال سرک کر شانوں پر آگے سازندوں نے ان ریشمی بالوں اور جسموں کے جادو میں طلسم پیدا کردیا تھا
دو سیاہ فام دیو ھیکل حبشی جن کے کمر کے گرد چیتوں کی کالی تھی ایک بڑا سا ٹوکرہ اٹھاے تیز تیز قدم چلتے آے اور ٹوکرا نیم دائرے کے سامنے رکھ دیا ساز سپیروں کے بین کی دھن بجانے لگے ، حبشی مست سانڈوں کی طرح پھنکارتے ھوے غیب ھوے ٹوکری میں سے ایک بڑی کلی اٹھی اور پھول کی طرح کھل گئ، اس پھول میں سے ایک لڑکی کا چہرہ نمودار ھوا اور پھر وہ اوپر کو اٹھنے لگی یوں لگنے لگا جیسے یہ سرخ بادلوں میں ایک چاند نکل رھا ھوں یہ لڑکی اس دنیا کی معلوم نہیں ھوتی تھی اسکی مسکراھٹ بھی عارضی تھی اسکے آنکھوں کی چمک بھی مصر کی کیسی لڑکی کے آنکھوں کی چمکسے نہیں ملتی تھی اور جب لڑکی نے پھول کی چوڑی پتیوں میں سے باھر قدم رکھا تو اسکے جسم کی لچک نے تماشیئوں کو مسحور کردیا ،
علی بن سفیان نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف دیکھا اسکے ھونٹوں پر مسکراھٹ تھی ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسکے کانوں میں میں کہا " علی ۔۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ اتنی خوبصورت ھوگی "
ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس آکر کہا " امیر مصر کا اقبال ھوں ۔۔۔
اس لڑکی کا نام زکوئ ھے اسے میں نے آپکی خاطر اسکندریہ سے بلوایا ھے ، یہ پیشہ ور رقاصہ نہیں یہ طوافِ بھی نہیں ہے اسکو رقص سے پیار ھے شوقیہ ناچتی ھے کسی محفل میں نہیں جاتی میں اسکے باپ کو جانتا ہوں ساحل پر مچھلیوں کا کاروبار کرتا ھے ۔ یہ لڑکی آپکی عقیدت مند ھے آپکو پیغمبر مانتی ھے میں اتفاق سے اسکے گھر اس کے باپ سے ملنے گیا تو اس لڑکی نے استدعا کی کہ سنا ھے سلطان صلاح الدین ایوبی امیر مصر بن کر آرہے ھے اللہ کے نام پر مجھے اس سے ملوا دو۔میرے پاس اپنی جان اور رقص کے سوا کچھ بھی نہیں جو میں اس عظیم ھستی کے پاؤں میں پیش کرسکوں۔۔
قابل صد احترام امیر میں نے آپ سے رقص اور ناچ کی اجازت اس لیے مانگی تھی کہ میں اس لڑکی کو آپکے حضور پیش کرنا چاھتا تھا "
" کیا آپ نے اسے بتایا تھا کہ میں کسی لڑکی کو رقص یا عریانی کی حالت میں اپنے سامنے نہیں دیکھ سکتا یہ لڑکیاں جنہیں آپ جن لباسوں میں ملبوس کر کے لاے ھے بلکل ننگی ھے"
سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا ۔۔ "
عالی مقام میں نے بتایا تھا کہ امیر مصر رقص کو ناپسند کرتے ھے لیکن یہ کہتی تھی کہ امیر مصر میرا رقص پسند کرینگے کیونکہ اس میں گناہ کی دعوت نہیں یہ ایک باعصمت لڑکی کا رقص ھوگا میں سلطان کے حضور اپنا جسم نہیں اپنا رقص پیش کرونگی اگر میں مرد ھوتی تو سلطان کی جان کی حفاظت کے لیے محافظ دستے میں شامل ھو جاتی"
ناجی نے کھسیانہ
ھوکر کہا
" آپ کیا کہنا چاھتے ھے اس لڑکی کو اپنے پاس بلا کر حراج تحسین پیش کرو کہ
تم ھزاروں لوگوں کے سامنے اپنا جسم ننگا کر کہ بہت اچھا ناچتی ھوں ؟ اسے اس پر شاباش دو کہ تم نے مردوں کے جنسی جذبات بھڑکانے میں خوب مہارت حاصل کی ھے۔۔؟ سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا ۔۔۔
" نہیں امیر مصر میں اسے اس وعدے پر یہاں لایا ھوں کہ آپ سے شرف باذیابی بخشے گیں یہ بڑی دور سے اسی امید پر آی ھے ، زرا دیکھیئے اسے۔۔ اسکی رقص میں پیشہ وارنہ تاثر نہیں خود سپردگی ھے۔۔۔۔
دیکھیئے وہ آپکو کیسی نظروں سے دیکھ رھی ھے بیشک عبادت صرف اللہ کی کیجاتی ھے لیکن یہ رقص کی اداؤں سے عقیدت سے آپکی عبادت کر رھی ھے ، آپ اسے اپنے خیمے میں اندر آنے کی اجازت دیں ، تھوڑی سی دیر کے لیے ۔
اسے مستقبل کی وہ ماں سمجھے جس کی کوکھ سے اسلام کے جانباز پیدا ھونگے یہ اپنے بچوں کو فخر سے بتایا کرے گی کہ مجھے سلطان صلاح الدین ایوبی سے تنہائی میں باتیں کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا"
ناجی نے نہایت پر اثر اور خوشامدی لہجے میں سلطان صلاح الدین ایوبی سے منوالیا کہ یہ لڑکی جسے ناجی نے ایک بردہ فروش سے خریدا تھا شریف باپ کی باعصمت بیٹی ھے ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی سے کہلوا لیا کہ " اچھ اسے میرے خیمے میں بھیج دینا "
زکوئ نہایت آھستہ آھستہ جسم کو بل دیتی اور بار بار سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف دیکھ کر مسکرا رھی تھی ، باقی لڑکیاں تتلیوں کی طرح جسے اسکے آس پاس اڑ رھی تھی ، یہ اچھل کود والا رقص نہیں تھا ،
شعلوں کی روشنی میں کھبی تو یوں لگتا تھا جیسے ھلکے نیلے شفاف پانی میں جل پریاں تیر رھی ھو
چاندنی کا اپنا ایک تاثر تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کے مطلق کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ
وہ بیٹھ کر کیا سوچ رھا تھا ناجی کے سپاھی جو شراب پی کر ھنگامہ کر رھے تھے وہ بھی جیسے مر گیے تھے ، زمین اور آسمان پر وجد طاری تھا ناجی اپنی کامیابی پر بھت مسرور تھا اور رات گزرتی جا رھی تھی۔۔۔۔
جاری ہے ٭٭٭٭٭