Sultan Salah ud Din Ayyoubi Episode 6


*فاتح بیت المقدس*
*سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ ﷲ*
*قسط نمبر۔* *6*
اگلے دس دنوں میں ھزارہا تربیت یافتہ سپاھی امارت مصر کی فوج میں آگیے اور ان دس دنوں میں ذکوئ کو ناجی نے ٹرینئنگ دے دی کہ وہ سلطان کو کون کون سے طریقے سے اپنے حسن کی جال میں پھنسا کر اسکی شخصیت اور اسکا کردار کمزور کر سکتی ھے ۔ ناجی کے ھمراز دوستوں نے جب ذکوئ کو دیکھا تو انھوں نے کہا کہ مصر کے فرعون بھی اس لڑکی کو دیکھ لیتے تو وہ حدائ کے وعدے سے دستبردار ھو جاتے ، ناجی کا جاسوسی کا اپنا نظام تھا ، بہت تیز اور دلیر ،، وہ معلوم کر چکا تھا کہ
علی بن سفیان سلطان کا خاص مشیر ھے۔ اور عرب کا مانا ھوا سراغرساں ، اس نے علی کے پیچھے اپنے جاسوس چھوڑ دیئے تھے اور علی کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا تھا ۔
ذکوئ کو ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو اپنے جال میں پھسانے کے لیے تیار کیا تھا ، لیکن وہ محسوس نہیں کر سکا کہ مراکش کی رھنے والی یہ لڑکی خود اسکے اپنے اعصاب پر سوار ھوگی ھے ، وہ صرف شکل و صورت ھی کی دلکش نہیں تھی ، اسکی باتوں میں ایسا جادو تھا کہ ناجی اسکو اپنے پاس بٹھا کر باتیں ھی کیا کرتا تھا اس نے دو ناچنے گانے والیوں سے نگاہیں پھیر لی ، جو اسکی منظور نظر تھیں ، تین چار راتوں سے ناجی نے ان لڑکیوں کو اپنے کمرے میں بلایا بھی نہیں تھا، ناجی سونے کے انڈے دینے والی مرغی تھی جو انکے آغوش سے ذکوئ کی آغوش میں چلی گی تھی ،انھوں نے ذکوئ کو راستے سے ھٹانے کی ترکیبیں شروع کردی ، وہ آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ اسے قتل کیا جاے ، لیکن اسکو قتل کرنا اتنا آسان نہ تھا ، کونکہ ناجی نے اسے جو کمرہ دیا تھا اس پر دو محافظوں کا پہرہ ھوا کرتا تھا ، اسکے علاوہ یہ دونوں لڑکیاں اس مکان سے بلا اجازت نہیں نکل سکتی تھی جو ناجی نے انھیں دے رکھا تھا ، انھوں نے حرم کی خادمہ ) نوکرانی( کو اعتماد میں لینا شروع کیا ، وہ اسکے ہاتھوں ذکوئ کو زھر دینا چاھتی تھی۔۔

علی بن سفیان نے سلطان صلاح الدین ایوبی کا محافظ دستہ بدل دیا ، یہ سب امیر مصر کے پرانے باڈی گارڈز تھے ، اسکی جگہ علی نے ان سپاھیوں میں باڈی گارڈز کا دستہ تیار کیا جو نئے آے تھے ، یہ جانبازوں کا نیا دستہ تھا جو سپاہ گری میں بھی تاک تھا ، اور جذبے کے لحاظ سے ھر سپاھی اس دستے کا اصل میں مرد مجاھد تھا ۔ ناجی کو یہ تبدیلی بلکل بھی پسند نہیں تھی۔۔ لیکن اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے اس تبدیلی کی بے حد تعریف کی ، اور اسکے ساتھ ہی درخواست کی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اسکی دعوت کو قبول کریں ،

سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسکو جواب دیا کہ وی ایک آدھے دن میں اس کو بتاے گا کہ وہ کب ناجی کی دعوت قبول کرے گا ۔ ناجی کے جانے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی سے مشورہ کیا کہ وہ دعوت پر کب جاے ۔ علی نے مشورہ دیا کہ اب وہ کسی بھی روز دعوت کو قبول کریں۔۔

دوسرے دن سلطان صلاح الدین ایوبی نے ناجی کو بتایا کہ وہ کسی بھی رات دعوت پر آسکتا ھے ، ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو تین دن کے بعد کی دعوت دی اور بتایا کہ یہ دعوت کم اور جشن زیادہ ھوگا اور یہ جشن شہر سے دور صحرا میں مشغلوں کی میں منایا جاے گا،
ناچ گانے کا انتظام ھوگا، باڈی گارڈز کے گھوڑے اپنا کرتب دکھائے گئے ،، شمشیر زنی اور بغیر تلوار کے لڑئیوں کے مقابلے ھونگے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو رات وھی قیام کرنا پڑے گا ، رہائش کے لیے خیمے نصب ھونگے ، سلطان صلاح الدین ایوبی پروگرام کی تفصیل سنتا رھا اس نے ناچنے گانے پر اعتراض نہیں کیا تھا ، ناجی نے ڈرتے اور جھجکتے ھوے کہا " فوج کے بیشتر سپاھی جو مسلمان نہیں یا جو ابھی نیم مسلمان ھے کھبی کھبی شراب پیتے ھے ، وہ شراب کے عادی نہیں لیکن وہ اجازت چاھتے ھے کہ جشن میں انھیں شراب پینے کی اجازت دی جاۓ "
"آپ ان کے کمانڈر ھوں آپ چاھیے تو ان کو اجازت دے دیے نہ چاھیں تو میں آپ پر اپنا حکم مسلط نہیں کرنا چاھتا
" سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا

ؔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا اقبال بلند ھوں میں کون ھوتا ھوں اس کام کی اجازت دینے والا جس کو آپ سخت ناپسند کریں " ناجی نے کہا

" انھیں اجازت دے دیں کہ جشن کی رات ھنگامہ آرائ اور بدکاری کے سوا سب کچھ کر سکتے ھے اگر شراب پی کر کسی نے ھلہ گلہ کیا تو اس کو سخت سزا دی جاے گی"

سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا ۔

یہ خبر جب سلطان صلاح الدین ایوبی کے سپاھیوں تک پہنچی کہ ناجی سلطان صلاح الدین ایوبی کے اعزاز میں جشن منعقد کر رھا ھے اور اس میں ناچ گانا بھی ھوگا شراب بھی ھوگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس جشن کی دعوت ان سب خرافات کے باوجود بھی قبول کی ھے تو وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رھے ۔ کسی نے کہا کہ ناجی جھوٹ بولتا ھے اور دوسروں پر اپنا رعب ڈالنا چاھتا ھے اور کسی نے کہا ناجی کا سلطان صلاح الدین ایوبی پر بھی چل گیا ۔یہ راۓ ناجی کے ان افسروں کو بھی پسند آی جو ناجی کے ھم نوا اور ھم پیالہ تھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے چارج لیتے ھی ان کی عیش و عشرت شراب اور بدکاری حرام کردی تھی ،

سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسا سخت ڈسپلن رائج کیا کہ کسی کو بھی پہلے کی طرح اپنے فرائض سے کوتاھی کی جرآت نہیں ھوتی تھی ، وہ اس پر خوش تھے کہ نئے امیر مصر نے ان کو رات کی شراب کی اجازت دی تھی تو کل وہ بھی خود ان سب چیزوں کا رسیا ھو جاے گا ،،

صرف علی بن سفیان تھا جسے معلوم تھا کہ سلطان نے ان سب خرافات کی اجازت کیوں دی تھی ۔

جشن کی شام آگی ، ایک تو چاندنی رات تھی ، صحرا کی چاندنی اتنی شفاف ھوتی ھے کہ ریت کے زرے بھی نظر آجاتے ھے ، دوسرے ھزارھا مشعلوں نے وھاں کی صحرا کو دن بنایا تھا ، باڈی گارڈز کا ھجوم تھا جو ایک وسیع میدان کے گرد دیواروں کی طرح کھڑے تھے ، ایک طرف جو مسند سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے رکھی گی تھی وہ کسی بہت بڑے بادشاہ کا تخت معلوم ھوتا تھا ، اسکے دایئں بایئں بڑے مہمانوں کے لیے نششتیں رکھی گی تھی ، اس وسیع و عریض تماشہ گاہ سے تھوڑی دور مہمانوں کے لیے نہایت خوبصورت خیمے نصب تھے ، ان سے ھٹ کر ایک بڑا خیمہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے نصب کیا گیا تھا جہاں اسے رات بسر کرنی تھی۔ ۔

علی بن سفیان نے صبح سورج غروب ھونے سے پہلے وھاں جاکر محافظ کھڑے کردیئے تھے ۔ جب علی بن سفیان وھاں محافظ کھڑے کر رھا تھا تو ناجی ذکوئ کو آخری ھدایات دے رھا تھا۔

اس شام ذکوی کا حسن کچھ زیادہ ھی نکھر آیا تھا ۔ اسکے جسم سے عطر کی ایسی بھینی بھینی خوشبو اٹھ رھی تھی۔ جس میں سحر کا تاثر تھا اس نے بال عریاں کندھوں پر پھیلا دیے تھے ۔ سفید کندھوں پر سیاھی مائل بھورے بال زاھدوں کے نظروں کو گرفتار کرتے تھے اسکے ھونٹوں پر قدرتی تبسم ادھ کھلی کلی کی طرح تھی ،،

ناجی نے اسکو سر سے پاؤں تک دیکھا " تمھارے حسن کا شاید سلطان صلاح الدین ایوبی پر اثر نہ ھو تو اپنی زبان استعمال کرنا ، وہ سبق بھولنا نہیں جو میں اتنے دنوں سے تمھیں پڑھا رھا ھوں۔اور یہ بھی نہ بھولنا کہ اسکے پاس جاکر اسکی لونڈی نہ بن جانا ۔ انجیر کا وہ پھول بن جانا جو درخت کی چھوٹی پر نظر آتا ھے مگر درخت پر چڑھ کر دیکھو تو غائب ۔

اسے اپنے قدموں میں بٹھالینا میں تمھیں یقین دلاتا ھوں کہ تم اس پتھر کو پانی میں تبدیل کرسکتی ھوں ۔ اس سرزمین میں قلوپطرہ نے سینرز جیسے مرد آھن کو اپنے حسن و جوانی سے پھگلا کر مصر کے ریت میں بہادیا قلوپطرہ تم سے زیادہ خوبصورت نہیں تھی میں نے تم کو جو سبق دیا ھے وہ قلو پطرہ کی چالیں تھی، عورت کی یہ چالیں کھبی ناکام نہیں ھو سکتی۔" ناجی نے کہا۔ذکوئ مسکرا رھی تھی اور بڑے غور سے سن رھی تھی مصر کی ریت نے ایک اور حسین قلوپطرہ کو حسین ناگن کی طرح جنم دیا تھا مصر کی تاریح اپنے آپ کو دھرانے والی تھی سورج غروب ھوا تو مشعلیں جل گی

سلطان صلاح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار آگیا ۔ سلطان کے آگے پیچھے دایئں بایئں اس محافظ دستے کے گھوڑے تھے جو علی بن سفیان نے منتحب کیئے تھے ، اسی دستے میں سے ھی اس نے دس محافظ شام سے پہلے ھی یہاں لاکر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے گرد کھڑے کردیئے تھے ، سازندوں نے دف کی آواز پر استقبالیہ دھن بجائ اور صحرا" امیر مصر سلطان صلاح الدین ایوبی زندہ باد " کے نغروں سے گونجنے لگا ناجی نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور کہا" آپ کے جانثار عظمت اسلام کے پاسبان آپکو بسروچشم خوش آمدید کہتے ھے ان کی
بے تابیاں اور بے قراریاں دیکھیں آپ کے اشارے پر کٹ مریں گے۔" اور خوشامد کے لیے اسکو جتنے الفاظ یاد آے ناجی نے کہہ دیئے

...........جاری ہے


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form