*فاتح بیت المقدس*
*سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ ﷲ*
*قسط نمبر۔* *2*
مگر مصر پہنچ کر سلطان پر انکشاف ھوا کہ اسکا مقابلہ صرف صلیبیوں سے نہیں ھے بلکل اسکے اپنے مسلمان بھائیوں نے اسکی راہ میں بڑے بڑے حسین جال بنا رکھے ھے جو صلیبیوں کے عزائم اور جنگی قوتوں سے زیادہ خطرناک ھے تو یہ تھا ہلکہ سا تعارف
مصر میں جن زعما نے سلطان کا استقبال کیا ان میں ایک ناجی نامی سالار بہت اھمیت کا حامل تھا، سلطان نے سب کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ سلطان کے ھونٹوں پر مسکراھٹ اور زبان پر پیار کی چاشنی تھی۔ بعض پرانے افسروں نے سلطان کو ایسی نظروں سے دیکھا جن میں طنز اور تمسحیر تھی۔ وہ صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے واقف تھے یا یہ کہ یہ ایک شاھی حاندان کا فرد ھے اور اپنے چچا کا جانشین ھے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نورالدین زنگی کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی کا کیا رشتہ ھے ، ان سب کی نگاھوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی اھمیت بس اسکے خاندان بیک گراونڈ کی وجہ سے تھی یا صرف یہ کہ وہ مصر کا وایسراۓ بن کر آیا تھا اس کے سوا انھوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو کوی وقعت نہ دی، ایک بوڑھے افسر نے اپنے ساتھ کھڑے افسر کے کان میں کہا"
"بچہ ھے۔۔۔۔۔ اسے ھم پال لینگے،"
اس وقت کے مورخ یہ نہیں لکھ پاے کہ آیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکی نظریں بھانپ لی تھی کہ نہیں ۔ وہ استقبال کرنے والے اس ھجوم میں بچہ لگ رھا تھا، البتہ جب وہ ناجی کے سامنے ہاتھ ملانے کے لیے رکا تو اسکے چہرے پر تبدیلی آگی۔ وہ ناجی سے ہاتھ ملانا چاھتا تھا لیکن ناجی جو اسکے باپ کے عمر کا تھا سب سے پہلے درباری خوشامدیوں کی طرح جھکا پھر ایوبی سے بغل گیر ھوگیا اس نے ایوبی کی پیشانی کو چھوم کر کہا۔
"میری خون کا آخری قطرہ بھی آپکی حفاظت کے لیے ھوگا۔ تم میرے پاس زنگی اور شردہ کی امانت ھوں"
"میری جان عظمت اسلام سے زیادہ قیمتی نہیں محترم اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سنبھال کر رکھیں، صلیبی سیاہ گھٹاوں کی طرح چھا رھے ھیں۔" سلطان نے کہا۔
ناجی جواب میں مسکرایا جیسے سلطان نے کوی لطیفہ سنایا ھوں،
سلطان صلاح الدین اس تجربہ کار سالار کی مسکراھٹ کو غالبا نہیں سمجھ سکا۔
ناجی فاطمی خلافت کا پروردہ سالار تھا، وہ مصر میں باڈی گارڈز کا کمانڈر انچیف تھا۔جس کی نفری پچاس ھزار تھی اور ساری کی ساری نفری سوڈانی تھی۔یہ فوج اس وقت کے جدید ھتیاروں سے لیس تھی اور یہی فوج ناجی کا ھتیار بن گی تھی جس کے زور پر ناجی بے تاج بادشاہ بن گیا تھا، وہ سازشوں اور مفاد پرستوں کا دور رھا ، اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم ھوگی تھی، صلیبیوں کی بھی نہایت دلکش تحزیب کاریاں شروع رھی۔
زر پرستی اور تعیش کا دور دورہ تھا۔جس کے پاس زرا سی بھی طاقت تھی وہ اسکو دولت اور اقتدار کے لیے استعمال کرتا تھا۔سوڈانی باڈی گارڈ فوج کا کمانڈر ناجی مصر میں حکمرانوں اور دیگر سربراھوں کے لیے دھشت بنا ھوا تھا۔
اللہ نے اسکو سازش
ساز دماغ دیا تھا۔
ناجی کو اس دور کا بادشاہ ساز کہا جاتا تھا بنانے اور بگاڑنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے سلطان صلاح الدین کو دیکھا تو اسکے چہرے پر ایسی مسکراھٹ آئی جیسے ایک کمزور اور حفیف بھیڑ کو دیکھ کر ایک بھیڑیئے کے دانت نکل آتے ھے، سلطان صلاح الدین اس کا زھر حندہ سمجھ نہ سکا۔۔ سلطان صلاح الدین کے لیے سب سے زیادہ اھم آدمی ناجی ھی تھا۔کیونکہ وہ پچاس ھزار باڈی گارڈز کا کمانڈر رھا۔اور سلطان صلاح الدین کو فوج کی بہت اشد ضرورت تھی۔ سلطان صلاح الدین سے کہا گیا کہ حضور بڑی لمبی مسافت سے تشریف لاے ھے پہلے آرام کر لیں تو سلطان صلاح الدین نے کہا،
" میرے سر پر جو دستار رکھی گی ھے میں اسکے لائق نہ تھا اس دستار نے میری نیند اور آرام ختم کردی ھے کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچھے لیکر نہیں جاینگے جس کے نیچھے میرے فرائض میرا انتظار کر رھے ھیں۔"
"کیا حضور کام سے پہلے طعام لینا پسند کرینگے" اسکے نائب نے کہا
سلطان صلاح الدین نے کچھ سوچا اور اسکے ساتھ چل پڑا۔۔ لمبے ٹرنگے باڈی گارڈز اس عمارت کے سامنے دو رویہ دیوار بن کر کھڑے تھے جس میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔
سلطان صلاح الدین نے فوجیوں قدبت اور ھتیار دیکھے تو اسکے چہرے پر رونق آگی۔لیکن دروازے میں قدم رکھتے ھی یہ رونق ختم ھوگی
وھاں چار نوجوان لڑکیاں جن کے جسموں میں زھد شکن لچک اور شانوں پر بکھرے ھوے ریشمی بالوں میں قدرت کا حسن سمویا ھوا تھا ھاتھوں میں پھولوں کی پتیوں سے بھری ھوی ٹوکریاں لیں ھوے کھڑی تھی۔ انھوں نے سلطان صلاح الدین کے قدموں میں پتیاں پھینکنا شروع کی اور اسکے ساتھ دف کی تال پر طاوس درباب اور شہنایئوں کا مسحور کن نغمہ ابھرا۔
سلطان صلاح الدین نے راستے میں پھولوں کی پتیاں دیکھ کر قدم پیچھے کر لیے، ناجی اور اسکا نایب سلطان صلاح الدین کے دایئں بایئں تھے۔ وہ دونوں جھک گیے اور سلطان صلاح الدین کو آگے بڑھنے کی دعوت دی۔۔ یہ وہ انداز تھا جو مغلوں نے ھندوستان میں رائج کیا تھا،
" صلاح الدین پھولوں کی پتیاں مسلنے نھی آیا"
ایوبی نے ایسی مسکراھٹ سے کہا جو لوگوں نے بھت ھی کم کسی کے ھونٹوں پر دیکھی تھی۔
.........جاری ہے