Sultan Salah ud Din Ayyoubi Episode 3


*فاتح بیت المقدس*
*سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ*
*قسط نمبر* ۔ *3*
" ھم حضور کے قدموں میں آسمان سے تارے بھی نوچ کر بچھا سکتے ھے" ناجی نے کہا

اگر میری راہ میں کچھ بچھانا ھی چاھتے ھوں تو وہ ایک ھی چیز ھے جو مجھے بہت بھاتی ھے۔" سلطان صلاح الدین نے کہا

"آپ حکم دیں ۔۔ وہ کونسی چیز ھے جو سلطان کے دل کو بھاتی ھے" ناجی کے نایب نے کہا۔

"صلیبیوں کی لاشیں۔۔۔

سلطان صلاح الدین نے مسکرا کر کہا۔ مگر جلد ھی یہ مسکراھٹ ختم ھو گی۔ اس کے آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ اس نے دھیمی آواز میں جس میں غضب اور عتاب چھپا ھوا تھا۔کہا۔۔۔"

"مسلمانوں کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ، جانتے نہیں ھوں
صلیبی سلطنت ملت اسلامیہ کو چوھوں کی طرح کھا رھی ھے۔ اور جانتے ھوں کہ وہ کیوں کامیاب ھو رھے ھیں

صرف اسلیئے کہ ھم نے پھولوں کی پتیوں پر چلنا شروع کیا۔ ھم نے اپنی بچیوں کو ننگا کر کہ انکی عصمتیں روند ڈالی۔ میری نظریں فلسطین پر لگی ھوی ھے تم میری راہ میں پھول ڈال کر مصر سے بھی اسلامی جھنڈا اتروا دینا چاھتے ھوں کیا۔۔؟

سلطان صلاح الدین نے سب کو ایک نظر سے دیکھا اور دبدبے سے کہا۔ اٹھا لو یہ پھول میرے راستے سے ، میں نے ان پر قدم رکھا تو میری روح چھلنی ھو جاے گی ، ھٹا دو ان لڑکیوں کو میری آنکھوں سے ایسا نہ ھو کہی میری تلوار ان کی زلفوں میں الجھ کر بیکار ھو جاے"

"حضور کی جاہ حشمت"

"مجھے حضور نہ کہو" سلطان صلاح الدین نے بولنے والے کو یوں ٹوک دیا جیسے تلوار سے کسی کی گردن کاٹ دی ھوں سلطان صلاح الدین نے کہا

*" حضور تو وہ ھے جن کے نام کا تم کلمہ پڑھتے ھوں،*

جن کا میں غلام بے دام ھوں۔ میری جان فدا ھوں اس حضور پر جن کے مقدس پیغام کو میں نے سینے پر کندہ کر رکھا ھے میں یہی پیغام لیکر مصر آیا ھوں۔ صلیبی مجھ سے یہ پیغام چھین کر بحیرہ روم میں ڈبو دینا چاھتے ھے، شراب میں ڈبو دینا چاھتے ھے، میں بادشاہ بن کر نہیں آیا۔"

لڑکیاں کسی کے اشارے پر پھولوں کی پتیاں اٹھا کر وھاں سے ھٹ گی تھی، سلطان تیزی سے دروازے کے اندر چلا گیا۔ایک وسیع کمرہ تھا جس میں ایک لمبی میز رکھی گی تھی، جس پر رنگا رنگ پھول رکھے ھوئ تھے ان کے بیچ بھنے ہوئے بکروں کے بڑے بڑے ٹکڑے سالم مرغ اور جانے کیا کیا رکھا گیا تھا،
سلطان صلاح الدین
رک گیا اور اپنے نائب سے کہا کہ " کیا مصر کا ھر ایک باشندہ ایسا ھی کھانا کھاتا ھے"

" نہیں حضور غریب تو ایسے کھانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے،" نائب نے کہا

" تم کس قوم کے فرد ھوں سلطان صلاح الدین نے کہا کیا ان لوگوں کی قوم الگ ھے جو ایسے کھانوں کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔" کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا

" اس جگہ جتنے ملازم ھے اور جتنےسپاھی ڈیوٹی پر ھے ان سب کو بھلاو اور یہ کھانا انکو دیں دو۔"
سلطان صلاح الدین نےلپک کر ایک روٹی اٹھا اس پر دو تین بوٹیاں رکھی اور کھڑے کھڑے کھانے لگا،

نہایت تیزی سے روٹی کھا کر پانی پیا اور باڈی گارڈز کے کمانڈر ناجی کو ساتھ لیکر اس کمرے میں چلا گیا جو وایسراۓ کا دفتر تھا،

2 گھنٹے بعد ناجی دفتر سے نکلا دوڑ کر اپنے گھوڑے پر سوار ھوا ایڑئ لگائ اور نظروں سے اوجھل ھوا۔ رات ناجی کے دو کمانڈر جو اسکے ھمراز تھے بیٹھے اسکے ساتھ شراب پی رھے تھے، ناجی نے کہا "

جوانی کا جوش ھے تھوڑے دنوں میں ٹھنڈا کرادونگا، کم بخت جو بھی بات کرتا ھے کہتا ھے
رب کعبہ کی قسم۔۔ صلیبیوں کو ملت اسلامیہ سے باھر نکال کر ھی دم لونگا۔"

" صلاح الدین ایوبی" ایک کمانڈر نے طنزیہ کہا۔ " اتنا بھی نہیں جانتا کہ ملت اسلامیہ کا دم نکل چکا ھے اب سوڈانی حکومت کرینگے"

" کیا آپ نے اسے بتایا نھی کہ یہ پچاس ھزار کا لشکر سوڈانی ھے اور یہ لشکر جسے وہ اپنی فوج سمجھتا ھے صلیبیوں کے خلاف نھیں لڑے گا۔" دوسرے کمانڈر نے ناجی سے پوچھا
"تمھارا دماغ ٹھکانے ھے اوروش ۔۔۔؟ میں اسے یقین دلا آیا ھوں کہ یہ 50 ھزار سوڈانی شیر صلیبیوں کے پرحچے اڑا دینگے ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ " ناجی چھپ ھوکر سوچ میں پڑ گیا

" لیکن کیا"

" اس نے مجھے حکم دیا ھے کہ مصرکے باشندوں کی ایک فوج تیار کرو۔ اس نے کہا ھے کہ ایک ھی ملک کی فوج ٹھیک نہیں ھوتی اس نے بولا کہ مصر کی فوج بناکر ان میں شامل کردو" ناجی نے کہا
" تو آپ نے کیا جواب دیا۔؟"
" میں نے کہا کہ حکم کی تعمیل ھوگی لیکن میں اس حکم کی تعمیل نہیں کرونگا،
ناجی نے جواب دیا،
مزاج کا کیسا ھے" اوروش نے کہا
" ضد کا پکا معلوم ھوتا ھے" ناجی نے کہا
" آپکے دانش اور تجربے کے آگے تو وہ کچھ بھی نہیں لگتا نیا نیا امیر مصر بن کر آیا ھےکچھ روز یہ نشہ طاری رھے گا" دوسرے کمانڈر نے کہا

" میں یہ نشہ اترنے نہیں دونگا اسی نشے میں ھی بدمست کر کہ مارونگا" ناجی نے جواب دیا۔

بہت دیر تک وہ سلطان کے خلاف باتیں کرتے رھے اور اس مسلئے پر غور کرتے رھے کہ اگر سلطان نے ناجی کی
بے تاج بادشاھی کے لیے خطرہ پیدا کردیا تو وہ کیا کرینگے، ادھر سلطان اپنے نائیبین کو سامنے بٹھاے یہ بات زھن نشین کرارھا تھا کہ وہ یہاں حکومت کرنے نہیں آیا اور نہ ھی کسی کو حکومت کرنے دیں گا اس نے انھیں کہا کہ اسکو جنگی طاقت کی ضرورت ھے اور اس نے یہ بھی کہا کہ اسکو یہاں کا فوجی ڈھانچہ بلکل پسند نہیں آیا
50 ھزار باڈی گارڈز سوڈانی ھے، ھمیں ملک کے ہر باشندے کو یہ حق دینا چاھیے کہ وہ ھمارے فوج میں سے آۓ اپنے جوھر دکھاے اور مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کریں یہاں کے عوام کا معیار زندگی اسی طرح بلند ھوسکتا ھے میں نے ناجی کو کہہ دیا ھے کہ وہ عام بھرتی شروع کردیں۔

" کیا آپکو یقین ھے کہ وہ آپکے حکم کی تعمیل کرے گا" ایک ناظم نے اس سےپوچھا۔

" کیا وہ حکم کی تعمیل سے گریز کریے گا"

" وہ حکم کی تعمیل سے گریز کر سکتا ھے وہ حکم کی تعمیل نہیں اپنی منواتا ھے فوجی امور اسکے سپرد ھے " ناظم نے جواب دیا

سلطان ایوبی خاموش ھوا جیسے اس پر کچھ اثر ھوا ھی نہیں ھوں۔اس نے سب کو رخصت کردیا اور صرف علی بن سفیان کو اپنے ساتھ رکھا، علی بن سفیان جاسوس اور جوابی جاسوسی کا ماھر تھا، اسے سلطان بغداد سے اپنے ساتھ لایا تھا، وہ اڈھیڑ عمر آدمی تھا اداکاری چرب زبانی بھیس بدلنے کا ماھر تھا، اس نے جنگوں میں جاسوسی کی بھی اور جاسوسوں کو پکڑا بھی تھا، اسکا اپنا ایک گروہ تھا جو آسمان سے تارے بھی توڑ لاسکتا تھا، سلطان کو جاسوسی کی اھمیت سے واقفیت تھی۔ فنی مہارت کے علاوہ علی بن سفیان میں وھی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں تھا،

" تم نے سنا علی یہ لوگ کہتے ھے کہ ناجی کسی سے حکم نہیں لیتا اپنی منواتا ھے"

صلاح الدین نے کہا

" ھاں میں نے سن لیا ھے اگر میں چہرے پہچاننے میں غلطی نہیں کرتا تو میری راۓ میں باڈی گارڈز کا یہ کمانڈر جس کا نام ناجی ھے ناپاک زھنیت کا مالک ھے اس کے مطابق میں پہلے سی ھی کچھ جانتا ھوں یہ فوج جو ھمارے خزانے سے تنحواہ لے رھی ھے دراصل ناجی کی زاتی فوج ھے اس نے حکومتی حلقوں میں ایسی ایسی سازشیں کی ھے جس نے حکومتی ڈھانچے کو بے حد کمزور کردیا ھے، آپکا یہ فیصلہ بلکل بجا ھے کہ فوج میں ہر خطے کے سپاھی ھونے چاھیے میں آپکو تفصیلی ریپورٹ دونگا۔ مجھے شک ھے کہ سوڈانی فوج اسکی وفادار ھے ھماری نہیں ۔ آپکو اس فوج کی ترتیب اور تنظیم بدلنی پڑے گی۔ یا ناجی کو سبکدوش کرنا پڑے گا" علی بن سفیان نے کہا
" میں اپنے ھی صفوں میں اپنے دشمن پیدا نہیں کرنا چاھتا ناجی اپنے گھر کا بھیدی ھے اسکو سبکدوش کرکے دشمن بنالیادانشمندی نہیں ھماری تلواریں غیروں کے لیے ھے
اپنوں کو خون بہانے کے لیے نہیں میں ناجی کی زہنیت کو پیار اور محبت سے بدل سکتا ھوں تم اس فوج کی زہنیت معلوم کرنے کی کوشیش کرو اور مجھے ٹھیک ریپورٹ دو کہ فوج کہاں تک ھماری وفادار ھے۔"
سلطان صلاح الدین نے کہا۔

مگر ناجی اتنا کچا نہیں تھا اسکی زھنیت پیار اور محبت کے بکھیڑوں سے آزاد تھی اسے اگر پیار تھا تو اپنے اقتدار اور شیطانیات کے ساتھ، اس لحاظ سے وہ پتھر تھا، مگر جیسے وہ اپنے جال میں پھنسا لینا چاھتا تھا اسکے سامنے موم بن جاتا تھا اس نے سلطان صلاح الدین کے سامنے یہی رویہ اختیار کیا یہاں تک کہ وہ سلطان صلاح الدین کے سامنے بھیٹتا بھی نہیں ، ھاں میں ھاں ملاتا چلا جاتا ، اس نے مصر کے مختلف حصوں سے سلطان صلاح الدین کے حکم کے مطابق فوج کے لیے عام بھرتی شروع کی تھی اگرچہ یہ کام اسکے مرضی کے خلاف تھا، دن گزرتے گیے سلطان صلاح الدین اسے کچھ کچھ پسند کرنے لگا تھا ناجی نے سلطان صلاح الدین کو یقین دلایا تھا کہ سوڈانی فوج اسکے حکم کی منتظر ھے اور یہ قوم کی توقعات پر پورا اترے گی ناجی دو تین بار سلطان صلاح الدین کو کہہ چکا تھا کہ سوڈانی فوج باڈی گارڈز کی طرف سے اسے دعوت دینا چاھتا ھے اور فوج اس کے اعزاز میں جشن منانے کو بےتاب ھے لیکن سلطان صلاح الدین یہ دعوت مصروفیات کی وجہ سے قبول نہیں کر سکا۔۔


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form