Sultan Salah ud Din Ayyoubi Episode16-2


فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی
قسط 16 پارٹ 2

پانچواں آدمی جو درخت کے تنے کے ساتھ بندھا ہوا تھا تڑپ تڑپ کر مرچکا تھا۔
اونٹ کے پائوں کے
نشان صف نظر آرہے تھے ۔ علی بن سفیان نے نہایت سرعت سے دس سوار بلائے اور انہیں اپنی کمان میں لے کر اس طرف روانہ ہوگیا، جدھر اونٹ گیا تھا، مگر اونٹ کی روانگی اور اس کے تعاقب میں علی بن سفیان کی روانگی میں ، چودہ پندرہ گھنٹوں کا فرق تھا، اونٹ تیز تھا اور اسے آرام کی بھی زیادہ ضرورت نہیں تھی ۔اونٹ ، پانی اور خوراک کے بغیر چھ سات دِن تروتازہ رہ سکتا ہے ۔
ا سکے مقابلے میں گھوڑوں کو راستے میں کئی بار آرام، پانی اور خوراک کی ضرورت تھی ۔ان عناصر نے تعاقب ناکام بنادیا۔ اونٹ نے چودہ پندرہ گھنٹوں کا فرق پورا نہ ہونے دیا۔ فخر المصری نے تعاقب کے پیشِ نظر قیام بہت کم کیا تھا۔ علی بن سفیان کو راستے میں صرف ایک چیز ملی ، یہ ایک تھیلا تھا۔ اس نے رُک کر تھیلا اُٹھایا ،کھول کر دیکھا، اس میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں ۔ اسی تھیلے میں ایک اور تھیلا تھا۔ اس میں بھی وہی چیزیں تھیں ۔علی بن سفیان کے سونگھنے کی تیز حس نے اسے بتادیا کہ ان اشیاء میں حشیش ملی ہوئی ہے ۔راستے میں اُسے دوجگہ ایسے آثار ملے تھے ، جن سے پتہ چلتا تھا کہ یہاں اونٹ رُکا ہے اور سوار یہاں بیٹھے ہیں ۔کھجوروں کی گٹھلیاں ، پھلوں کے بیج اور چھلکے بھی بکھرے ہوئے تھے ۔تھیلے نے اسے شک میں ڈال دیا۔ اس کے ذہن میں یہ شک نہ آیا کہ فخرالمصری کو حشیش کے نشے میں لڑکی اپنے محافظ کے طور پر ساتھ لے جارہی ہے ۔تاہم اس نے تھیلا اپنے پاس رکھا ، مگر تھیلے کی تلاشی اور قیام نے وقت ضائع کردیاتھا۔

فخر المصری اور موبی منزل پر نہ بھی پہنچتے اور راستے میں پکڑے بھی جاتے تو کوئی فرق نہ پڑتا ۔سوڈنی لشکر میں ناجی ،اوروش اور ان کے ساتھی جو زہر پھیلا چکے تھے وہ اثر کر گیا تھا۔ فاطمی خلافت کے وہ فوجی سربراہ جو برائے نام جرنیل اور دراصل حاکم بنے ہوئے تھے ،سلطان صلاح الدین ایوبی کو ایک ناکام امیر اور
بے کار حاکم ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ مسلمان حکمران حرم میں اُن لڑکیوں کے اسیر ہوگئے تھے ۔حکومت کا کاروبار خود ساختہ افسر چلارہے تھے ، من مانی اور عیش و عشرت کررہے تھے ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ صلاح الدین ایوبی جیسا کوئی مذہب پسند اور قوم پرست قائد قوم کو جگا دے اور حکمرانوں اور سلطانوں کو حرم کی جنت سے باہر لاکر حقائق کی دُنیا میں لے آئے ۔ سلطان ایوبی کے پہلے معرکوں سے جو اس نے اپنے چچا شیر کوہ کی قیادت میں لڑے تھے ، یہ لوگ جان چکے تھے کہ اگر یہ شخص اقتدار میں آگیا تو اسلامی سلطنت کو مذہت اور اخلاقیات کی پابندیوں میں جکڑلے گا۔ لہٰذا انہوں نے ہر وہ داو کھیلا جو سلطان ایوبی کو چاروں شانے چت گرا سکتا تھا۔ انہوں نے درپردہ صلیبیوں سے تعاون کیا اور ان کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کے لیے زمین ہموار کی اور اس کے راستے میں چٹانیں کھڑی کیں ۔اگر نور الدین زنگی نہ ہوتا تو آج نہ صلاح الدین ایوبی کا تاریخ میں نام ہوتا ، نہ آج نقشے پر اتنے زیادہ اسلامی ممالک نظر آتے..
نور الدین زنگی نے ذرا سے اشارے پر بھی سلطان ایوبی کو کمک اور مدد بھیجی ۔صلیبیوں نے مصری فوج کے سوڈانیوں کے بلاوے پر بحیرہ روم سے حملہ کیا تو نورالدین زنگی نے اطلاع ملتے ہی خشکی پر صلیبیوں کی ایک مملکت پر حملہ کر کے اُن کے اس لشکر کو مفلوج کردیا جو مصر پر حملہ کرنے کے لیے جارہا تھا۔یہ تو سلطان ایوبی کا نظامِ جاسوسی ایسا تھا کہ اس نے صلیبیوں کا بیڑہ غرق کردیا۔ اب علی بن سفیان نے زنگی کی طرف برق رفتار قاصد یہ خبر دینے کے لیے دوڑا دئیے تھے کہ سوڈانیوں کی بغاوت کا خطرہ ہے اور ہماری فوج کم بھی ہے ، دوحصوں میں بٹ بھی گئی ہے ۔قاصد پہنچ گئے تھے اور نورالدین زنگی نے خاصی فوج کو مصرکی طرف کوچ کا حکم دے دیا تھا۔ بعض مورخین نے اس فوج کی تعداد دوہزار سوار اور پیادہ لکھی ہے اور کچھ اس سے زیادہ بتاتے ہیں ۔
بہرحال زنگی نے اپنی مشکلات اور ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سلطان ایوبی کی مشکلات اور ضروریات کو اہمیت اور اولیت دی ، مگر اس کی فوج کو پہنچنے کے لیے بہت دِن درکار تھے ۔ مسلمان نام نہاد فوجی اور دیگر سرکردہ شخصیتوں نے دیکھا کہ مصر میں سلطان ایوبی کے خلاف بے اطمینانی اور بغاوت پھوٹ رہی ہے تو انہوں نے اسے ہوا دی ۔ در پردہ سوڈانیوں کو اُکسایا اور اپنے مخبروں کے ذریعے یہ بھی معلوم کرلیا کہ سوڈانیوں کے سالاروں کو مروا کر خفیہ طریقے سے دفن کردیا گیا ہے ۔ سوڈانی لشکر کے کم رتبے والے کمان دار سالار بن گئے اور صلاح الزین ایوبی کی اس قلیل فوج پر حملہ کرنے کے منصوبے بنانے لگے ، جو مصر میں مقیم تھی ۔ وہ سلطان ایوبی کی آدھی فوج اور سلطان کی دار الحکومت سے غیر حاضری سے فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے ۔ منصوبہ ایسا تھا کہ جس کے تحت پچاس ہزار سوڈانی فوجی سیاہ گھٹا کی طرح مصر کے آسمان سے اسلام کے چاند کو روپوش کرنے والی تھی ۔

.........سلسلہ جاری ہے


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form