فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ ﷲ
قسط نمبر ۔ 17
علی بن سفیان قاہرہ پہنچ گیا۔ وہ جن کے تعاقب میں گیا تھا، اُن کا اُس سے آگے کوئی سراح نہیں مل رہا تھا۔ اس نے اپنے اُن جاسوسوں کو بلایا جو اس نے سوڈنی ہیڈ کوارٹر اور فوج میں چھوڑ رکھے تھے ۔ان میں سے ایک نے بتایا کہ گزشتہ رات ایک اونٹ آیا تھا۔ اندھیرے میں جو کچھ نظر آسکا، وہ دو سوار تھے ،ایک عورت اور ایک مرد ۔جاسوس نے یہ بھی بتایاکہ وہ کون سی عمارت میں داخل ہوئے تھے ۔علی بن سفیان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ وہاں چھاپہ مارتا۔ سوڈانی فوج سلطنتِ اسلامیہ کی فوج تھی، کوئی آزاد فوج نہیں تھی ،مگر علی نے اس خدشے کے پیش نظر چھاپہ نہ مارا کہ یہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔ اس کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ موبی اور فخر المصری کو گرفتار کرنا ہے ،بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ سوڈانی قیادت کے عزائم اور آئندہ منصوبے معلوم کیے جائیں ، تاکہ پیش بندی کی جاسکے ۔ اس نے اپنے جاسوسوں کو نئی ہدایات جاری کیں۔جاسوسوں میں غیر مسلم لڑکیاں بھی تھیں، جو عیسائی یا یہودی نہیں تھیں۔ یہ قحبہ خانوں کی بڑی ذہین اور تیز طرار لڑکیاں تھیں ،مگر علی بن سفیان نے ان پر کبھی سو فیصد بھروسہ نہیں کیا تھا، کیونکہ وہ دوغلا کھیل بھی کھیل سکتی تھیں ۔ ان لڑکیوں سے بھی اُس لڑکی موبی کا سراغ نہ مل سکا جس کے تعاقت میں علی آیاتھا۔
چار روز علی بن سفیان دارالحکومت سے باہر مارامارا پھر تارہا۔ اس کا دائرہ کار سوڈانی فوجی قیادت کے ارد گرد کا علاقہ تھا۔ پانچویں رات وہ باہر کھلے آسمان تلے بیٹھا اپنے دوجاسوسوں سے رپورٹ لے رہا تھا۔ اس کے تمام آدمیوں کو معلوم ہوتا تھا کہ کس وقت وہ کہاں ہوتا ہے ۔اُس کے گروہ کا ایک آدمی ایک آدمی کو ساتھ لیے اُس کے پاس آیا اور کہا……
''یہ اپنا نام فخر ی المصری بتاتا ہے ، جھاڑیوں میں ڈگمگاتا، گرتا اور اُٹھتا تھا۔ میں نے اس سے بات کی تو کہنے لگا کہ مجھے میری فوج تک پہنچا دو۔ اس سے اچھی طرح بولا بھی نہیں جاتا''……اس دوران فخر المصری بیٹھ گیا تھا۔ ''تم وہی کمان دار ہو جو محاذ سے ایک لڑکی کے ساتھ بھاگے ہو؟'' ۔علی بن سفیان نے اُس سے پوچھا ۔ ''میں سلطان کی فوج کا بھگوڑا ہوں ''……فخر نے ہکلائی لڑکھڑاتی زبان میں کہا……''سزائے موت کا حق دار ہوں ، لیکن میری پوری بات سن لیں ، ورنہ تم سب کو سزائے موت ملے گی ''۔ علی بن سفیان اُس کے لب و لہجے سے سمجھ گیا کہ یہ شخص نشے میں ہے یا نشے کی طلب نے اس کا یہ حال کررکھا ہے ۔وہ اسے اپنے دفتر میں لے گیا اور اسے وہ تھیلا دکھایا جو اسے راستے میں پڑا ملاتھا۔ پوچھا ……
''یہ تھیلا تمہارا ہے؟
اور تم اس سے یہ چیزیں کھاتے رہے ہو؟'' ''ہاں ''……فخر المصری نے جواب دیا……''وہ مجھے اسی سے کھلاتی تھی ''۔ اس کے سامنے وہ تھیلا بھی پڑا تھا جو تھیلے کے اندر سے نکلا تھا۔علی نے اس میں سے چیزیں نکال کر سامنے رکھ لی تھیں ۔فخر نے یہ چیزیں دیکھیں تو جھپٹ کر مٹھائی کی قسم کا ایک ٹکڑا اُٹھا لیا۔ علی نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ فخر نے بے تابی سے کہا……''خدا کے لیے مجھے یہ کھانے دو۔ میری جان اور روح اسی میں ہے ''……مگر علی نے اُس سے وہ ٹکڑا چھین لیا اور اسے کہا……''مجھے ساری واردات سنائو، پھر یہ ساری چیزیں اُٹھا لینا''۔ فخر المصری نڈھال اور بے جان ہوا جا رہا تھا۔ علی بن سفیان نے اُسے ایک سفوف کھلادیا جو حشیش کا توڑ تھا۔ فخر نے اسے تمام تر واقعہ سنادیا کہ وہ کیمپ سے لڑکی کے تعاقب میں کس طرح گیا تھا۔ تاجروں نے اُسے قہوہ پلایا تھا،جس کے اثر سے وہ کسی اور ہی دُنیا میں جا پہنچا تھا۔ تاجروں )صلیبی جاسوسوں (نے اُس سے جو باتیں کی تھیں ، وہ بھی اس نے بتائیں اور پھر لڑکی کے ساتھ اس نے اونٹ پر جو سفر کیا تھا، وہ اس طرح سنایا کہ وہ مسلسل چلتے رہے ۔اونٹ نے بڑی اچھی طرح ساتھ دیا۔ رات کو وہ تھوڑی دیر قیام کرتے تھے۔ لڑکی اسے کھانے کو دوسرے تھیلے میں سے چیزیں دیتی تھی۔وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا۔ لڑکی نے اسے اپنی محبت کا یقین دلایا اور شادی کا وعدہ کیا تھا اور شرط یہ رکھی تھی کہ وہ اسے سوڈانی کمان دار کے پاس پہنچا دے۔ وہ راستے میں ہی لڑکی کو شادی کے بغیر بیوی بنانے کی کوشش کرتا رہا، لیکن لڑکی اسے اپنی بانہوں میں لے کر پیار اور محبت سے ایسے ارادے اور خواہش کو ماردیتی ۔ فخری نے محسوس تک نہ کیا کہ لڑکی اسے حشیش اور اپنے حسن و شباب کے
قبضے میں لیے ہوئے ہے ۔تیسرے پڑاو میں جب انہوں نے کھانے پینے کے لیے اونٹ روکا تو تھیلا غائب پایا جو اونٹ کے دوڑ نے سے کہیں گر پڑا تھا۔ لڑکی نے اسے کہا کہ واپس چل کر تھیلا ڈھونڈ لیتے ہیں ،لیکن فخر المصری نے کہا کہ وہ بھگوڑا فوجی ہے، خدشہ ہے کہ اس کا تعاقب ہو رہا ہوگا۔ لڑکی ضد کرنے لگی کہ تھیلا ضرور ڈھونڈیں گے۔ فخر نے اسے یقین دلایا کہ بھوکا مرنے کا کوئی خطرہ نہیں ، راستے میں کسی آبادی سے کچھ لے لیں گے ، مگر لڑکی آبادی کے قریب جانا نہ چاہتی تھی اور کہتی تھی کہ واپس چلو۔
فخر المصری نے اُسے زبردستی اونٹ پر بٹھا لیا اور اس کے پیچھے بیٹھ کر اونٹ کو دوڑا دیا۔ وہ سفر کی تیسری رات تھی ۔اگلی شام وہ شہر سے باہر سوڈانیوں کے ایک کمان دار کے ہاں پہنچ گئے ، مگر فخر المصری اپنے سر کے اندر ایسی بے چینی محسوس کرنے لگا، جیسے کھوپڑی میں کیڑے رینگ رہے ہوں۔ آہستہ آہستہ وہ حقیقی دُنیا آگیا۔ وہ سمجھ نہ سکا کہ یہ حشیش نہ ملنے کا اثر ہے ۔اُس کی تصوراتی بادشاہی اور ذہن میں بسائی ہوئی جنت تھیلے میں کہیں ریگزار میں گرگئی تھی ۔ لڑکی نے اُس کے سامنے کمان دار کو صلیبیوں کا پیغام دیا اور اسے بغاوت پر اُکسایا۔ فخر پاس بیٹھا سنتا رہا اور اُس کے ذہن میں کیڑے بڑے ہوکر تیزی سے رینگنے لگے ۔ نشہ اتر چکا تھا ۔چانچہ اُس نے بے خوف و خطر کمان دار سے یہ بھی کہہ دیا کہ سلطان ایوبی اور علی بن سفیان کے درمیان یہ غلط فہمی پیدا کرنی ہے کہ وہ ظاہری طور پر نیک بنے پھرتے ہیں مگر عورت اور شراب کے دلدادہ ہیں۔ اُن کی اس طویل گفتگو میں بغاوت کی باتیں بھی ہوئیں۔ اس وقت تو فخر المصری پوری طرح بیدار ہو چکا تھا، لیکن سر کے اندر کی بے چینی اسے بہت پریشان کررہی تھی ۔لڑکی نے کمان دار سے کہا کہ اگر بغاوت کرنی ہے تو وقت ضائع نہ کریں۔ سلطان ایوبی محاذ پر ہے اور اُلجھا ہوا ہے ۔لڑکی نے یہ جھوٹ بولا کہ صلیبی تین چار دنوں بعد دوسرا حملہ کرنے والے ہیں۔سلطان ایوبی کو یہاں سے بھی فوج محاذ پر بلانی پڑے گی۔ کمان دار نے لڑکی کو بتایا کہ چھ سات دنوں تک سوڈانی لشکر یہاں کی فوج پر حملہ کردے گا۔ فخر یہ ساری گفتگو سنتارہا۔ آدھی رات کے بعد اُسے الگ کمرے میں بھیج دیا گیا جہاں اُس کے سونے کا انتظام تھا۔ لڑکی اور کمان دار دوسرے کمرے میں رہے ۔درمیان میں دروازہ تھا جو بند کر دیا گیا ۔اسے نیند نہیں آرہی تھی۔اُس نے دروازے کے ساتھ کان لگائے تو اُسے ہنسی کی آزوازیں سنائی دیں، پھر لڑکی کے یہ الفاظ سنائی دئیے……''اسے حشیش کے زور پر یہاں تک لائی ہوں اور اس کی محبوبہ بنی رہی ہوں۔مجھے ایک محافظ کی ضرورت تھی ۔حشیش کا تھیلا راستے میں گر پڑاہے۔ اگر صبح اسے ایک خوراک نہ ملی تو یہ پریشان کرے گا''…… اس کے بعد فخر نے دوسرے کمرے سے جو آوازیں سنیں ، وہ اسے صاف بتارہی تھیں کہ شراب پی جارہی ہے اور بد کاری ہورہی ہے۔ بہت دیر بعد اُسے کمان دار کی آواز سنائی دی……''یہ آدمی اب ہمارے لیے بے کار ہے ۔ اسے قید میں ڈال دیتے ہیں یا ختم کرادیتے ہیں ''……لڑکی نے اس کی تائید کی ۔ فخر المصری پوری طرح بیدار ہوگیا اور وہاں سے نکل بھاگنے کی سوچنے لگا۔رات کا پچھلا پہر تھا۔ وہ اس کمرے سے نکلا۔ اس کا دماغ ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ کبھی تو دماغ صاف ہوجاتا، مگر زیادہ دیر ماوف رہتا۔ صبح کی روشنی پھیلنے تک وہ خطرے سے دُور نکل گیا تھا ۔ اسے اب دوہرے تعاقب کا خطرہ تھا ۔ دونوں طرف اسے موت نظر آرہی تھی ۔ اپنی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتا تو بھی مجرم تھا اور اگر سوڈانی پکڑ لیتے تو فوراً قتل کر دیتے ۔ وہ دن بھر فرعونوں کے کھنڈروں میں چھپا رہا ۔ حشیش کی طلب ، خوف اور غصہ اُس کے جسم و دماغ کے بے کار کر رہا تھا ۔ رات تک وہ چلنے سے بھی معذور
ہوا جا رہا تھا ۔ پھر اُسے یہ بھی احساس نہ رہا کہ دِن ہے یا رات اور وہ کہاں ہے ۔ اس کے دماغ میں یہ اِرادہ بھی آیا کہ اس عیسائی لڑکی کو جا کر قتل کر دے ۔ یہ سوچ بھی آئی کہ اونٹ یا گھوڑا مل جائے اور وہ محاز پر سلطان ایوبی کے قدموں میں جا گرے ۔ مگر جو بھی سوچ آتی تھی ، اس پر اندھیرا چھا جاتا تھا جو اُس کی آنکھوں کے سامنے ہر چیز تاریک کر دیتا تھا ۔ اسی حالت میں اسے یہ آدمی ملا ۔ وہ چونکہ جاسوس تھا ، اس لیے تربیت کے مطابق اُس نے فخرالمصری کے ساتھ دوستی اور ہمدردی کی باتیں کیں اور اسے علی بن سفیان کے پاس لے آیا ۔
تصدیق ہو گئی کہ سوڈانی لشکر حملہ اور بغاوت کرے گا اور یہ کسی بھی لمحے ہو سکتا ہے ۔ علی بن سفیان سوچ رہا تھا کہ مقامی کمانڈروں کو فوراً چوکنا کرے اور سلطان ایوبی کو اطلاع دے، مگر وفت ضائع ہونے کا خطرہ تھا ۔ اتنے میں اسے پیغام ملا کہ صلاح الدین ایوبی بلا رہے ہیں ۔ وہ حیران ہو کر چل پڑا کہ سلطان کو تو وہ محاظ پر چھوڑ آیا تھا ۔
وہ سلطان ایوبی سے ملا تو سلطان نے بتایا … '' مجھے اطلاع مل گئی تھی کہ ساحل پر صلیبی جاسوسوں کا ایک گروہ موجود ہے اور اُن میں سے کچھ اِدھر بھی آگئے ہوں گے ۔ محاظ پر میرا کوئی کام نہیں رہ گیا تھا ۔ میں کمان اپنے رفیقوں کو دے کر یہاں آگیا ۔ دِل اس قد ر بے چین تھا کہ میں یہاں بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہا تھا ۔ یہاں کی کیا خبر ہے ؟'' علی بن سفیان نے اُسے ساری خبر سنا دی اور کہا …'' اگر آپ چاہیں تو میں زبان کا ہتھیار استعمال کر کے بغاوت کو روکنے کی کوشش کروں یا سلطان زنگی کی مدد آنے تک ملتوی کرادوں ۔ میں جاسوسوں کو ہی استعمال کر سکتا ہوں ۔ ہماری فوج بہت کم ہے ۔ حملے کو نہیں روک سکے گی ''۔ سلطان ایوبی ٹہلنے لگا ۔ اُس کا سر جھکا ہوا تھا ۔ وہ گہری سوچ میں کھو گیا تھا اور علی بن سفیان اسے دیکھ رہا تھا ۔ سلطان نے رُک کر کہا …… '' ہاں علی !تم اپنی زبان اور اپنے جاسوس استعمال کرو ، لیکن حملے کو روکنے کیلئے نہیں ، بلکہ حملے کے حق میں ۔ سوڈانیوں کو حملہ کرنا چاہیے ، مگر رات کے وقت جب ہماری فوج خیموں میں سوئی ہوئی ہوگی ''۔ علی بن سفیان نے حیرت سے سلطان کو دیکھا ۔ سلطان نے کہا ……'' یہاں کے تمام کمانداروں کو بلوالو اور تم بھی آجائو '' ……
سلطان صلاح الدین نے علی بن سفیان کو یہ ہدایت بڑی سختی سے دی ……
'' یہ سب کو بتا دینا کہ میرے متعلق اُس کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ میں محاظ سے یہاں آگیا ہوں ۔ سوڈانیوں سے میری یہاں موجودگی کو پوشیدہ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ میں بڑی احتیاط سے خفیہ طریقے سے آیا ہوں ''۔ تین راتیں بعد ……
قاہرہ تاریک رات کی آغوش میں گہری نیند میں سویا ہوا تھا ۔ ایک روز پہلے قاہرہ کے لوگوں نے دیکھا تھا کہ اُن کی فوج جو مصر سے تیار کی گئی تھی ، شہر سے باہر جا رہی تھی ۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ فوج جنگی مشقوں کیلئے شہر سے باہر گئی ہے ۔ نیل کے کنارے جہاں ریتلی چٹانیں اور ٹیلے ہیں وہاں دریا اور ٹیلوں کے درمیان فوج نے جا کر خیمے گاڑ دئیے تھے ۔ فوج پیادہ بھی تھی ، سوار بھی …… رات کا پہلا نصف گزر رہا تھا کہ قاہرہ کے سوئے ہوئے باشندوں کو دُور قیامت کا شور سنائی دیا ۔ گھوڑوں کے سرپٹ بھاگنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ سوئے ہوئے لوگ جاگ اُٹھے ، وہ سمجھے کہ فوج جنگی مشق کر رہی ہے ، مگر شور قریب آتا اور بلند ہوتا گیا ۔ لوگوں نے چھتوں پر چڑھ کر دیکھا ۔ آسمان لال سرخ ہو رہا تھا ۔ بعض نے دیکھا کہ دور دریائے نیل سے آگ کے شعلے اُٹھتے اور تاریک رات کا سینہ چاک کرتے خشکی پر کہیں گرتے تھے ۔ پھر شہر میں سینکڑوں سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دئیے۔ شہر والوں کو ابھی معلوم نہیں تھا کہ یہ جنگی مشق نہیں ، باقاعدہ جنگ ہے اور جو آگ لگی ہوئی ہے ، اس میں سوڈانی لشکر کا خاصا بڑا حصہ زندہ
جل رہا ہے ۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی ایک بے مثال چال تھی ۔ اس نے دارالحکومت میں مقیم قلیل فوج کو دریائے نیل جور ریتلے ٹیلوں کے درمیان وسیع میدان میں خیمہ زن کر دیا تھا ۔ علی بن سفیان نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا ۔ اس نے سوڈانی لشکر میں اپنے آدمی بھیج کر بغاوت کی آگ بھڑکا دی تھی اور اس کے کمانداروں سے یہ فیصلہ کروالیا تھا کہ رات کو جب سلطان کی فوج گہری نیند سوئی ہوئی ہوگی ، اس پر سوڈانی فوج حملہ کر دے گی اور صبح تک ایک ایک سپاہی کا صفایا کر کے دارالحکومت پر بے خوف و خطر قابض ہوجائے گی اور سوڈانی فوج کا دوسرا حصہ بحیرئہ روم کے ساحل پر مقیم فوج پر حملہ کرنے کیلئے روانہ کر دیا جائے گا …… اس فیصلے اور منصوبے کے مطابق سوڈانی فوج کا ایک حصہ نہایت خفیہ طریقے سے رات کو بحیرہ روم کے محاظ کیطرف روانہ کر دیا گیا اور دوسرا حصہ دریائے نیل کے کنارے خیمہ زن فوج پر ٹوٹ پڑا ۔ اس فوج نے سیلاب کی طرح ایک میل وسیت میں پھیلی ہوئی خیمہ گاہ پر ہل بول دیا اور بہت ہی تیزی سے اس علاقے میں پھیل گی ۔ اچانک خیموں پر آگ اور تیل کے بھیگے ہوئے کپڑوں کے جلتے گولے برسنے لگے۔ نیل بھی آگ برسانے لگا ۔ خیموں کو آگ لگ گئی اور شعلے آسمان تک پہنچنے لگے ۔ سوڈانی فوج کو خیموں میں سلطان ایوبی کی فوج کا نہ کوئی سپاہی ملا ، نہ گھوڑا ، نہ کوئی سوار۔ اس فوج کو وہاں تمام خیمے خالی ملے ۔ کوئی مقابلے کیلئے نہ اُٹھا اور اچانک آگ ہی آگ پھیل گئی ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ سلطان ایوبی نے رات کے پہلے پہر خیموں سے اپنی فوج نکال کر ریتلے ٹیلوں کے پیچھے چھپا دیا تھا اور خیموں میں خشک گھاس کے ڈھیر لگوا دئیے تھے ۔ خیموں پر اور اندر بھی تیل چھڑک دیا تھا ۔ اس نے کشتیوں میں چھوٹی منجنیقیں رکھوا کر شام کے بعد ضرورت کی جگہ بجھوا دی تھیں ۔ جونہی سوڈانی فوج خیمہ گاہ میں آئی سلطان کی چھپی ہوئی فوج نے آگ والے تیر اور نیل سے کشتیوں میں رکھی ہوئی منجنیقوںنے آگ کے گولے پھینکنے شروع کر دئیے۔ خیموں کو آگ لگی تو گھاس اور تیل نے وہاں دوزخ کا منظر دیا ۔ سوڈانیوں کے گھوڑے اپنے پیادہ سپاہیوں کو روندنے لگے ۔ سپاہیوں کے لیے آگ سے نکلنا نا ممکن ہو گیا ۔ چیخوں نے آسمان کا جگر چاک کر دیا ۔ اس قدر آگ نے رات کو دِن بنا دیا ۔ سلطان ایوبی کو مٹھی بھر فوج نے آگ میں جلتی سوڈانیوں کی فوج نے گھیرے میں لے لیا ، جو آگ سے بچ کر نکلتا تھا ، وہ تیروں کا نشانہ بن جاتا تھا ، جو فوج بچ گئی ، وہ بھاگ نکلی ۔ اُدھر سوڈانیوں کی جو فوج محاظ کی طرف سلطان کی فوج پر حملہ کرنے جا رہی تھی ، اُس کا بھی صلاح الدین ایوبی نے انتظام کر رکھا تھا ۔ چند ایک دستے گھات لگا ئے بیٹھے تھے۔ اِن دستوں نے اُس فوج کے پچھلے حصے پر حملہ کر کے ساری فوج میں بھگڈر مچادی ۔ یہ دستے ایک حملے میں جو نقصان کر سکتے تھے، کر کے اندھیرے میں غائب ہو گئے ۔ سوڈانی فوج سنبھل کر چلی تو پچھلے حصے پر پھر ایک اور حملہ ہوا ۔ یہ برق رفتار سوار تھے جو حملہ کر کے غائب ہو گئے ۔ صبح تک اس فوج کے پچھلے حصے پر تین حملے ہوئے ۔ سوڈانی سپاہی اسی سے بدل دل ہو گئے۔ انہیں مقابلہ کرنے کا تو موقع ہی نہیں ملتا تھا ۔ دن کے وقت کمانداروں نے بڑی مشکل سے فوج کا حوصلہ بحال کیا ، مگر رات کو کوچ کے دوران اُن کا پھر وہی حشر ہوا ۔ دوسری رات تاریکی میں اُن پر تیر بھی برسے ۔ انہیں اندھیرے میں گھوڑے دوڑنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں جو اُن کی فوج کے عقب میں کشت و خون کرتی دور چلی جاتی تھیں ۔ تین چار یورپی مورخوں نے جن میں لین پول اور ولیم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ، لکھا ہے کہ دشمن کی کثیر نفری پر رات کے وقت چند ایک سواروں سے عقبی حصے پر شب خون مارنا اور غائب ہو جانا سلطان ایوبی کی ایسی جنگی چال تھی جس نے آگے چل کر صلیبیوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس طرح سلطان ایوبی دشمن کی پیش قدمی کی رفتار کو بہت سست کر دیتا تھا اور دشمن کو مجبور کر دیتا تھا کہ وہ اُ س کی پسند کے میدان میں لڑے جہاں سلطان ایوبی نے جنگ کا پانسہ پلٹنے کا انتظام کر رکھا ہوتا تھا ۔ ان مورخین نے سلطان ایوبی کے ان
جانبازسواروں کی
جرأت اور برق رفتاری کی بہت تعریف کی ہے ۔ آج کے جنگی مبصر ، جن کی نظر جنگوں کی تاریخ پر ہے ، رائے دیتے ہیں کہ آج کے کمانڈو اور گوریلا آپریشن کا موجد صلاح الدین ایوبی ہے ۔ وہ اس طریقہ جنگ سے دشمن کے منصوبے درہم برہم کر دیا کرتا تھا ۔ سوڈانیوں پر اس یہی طریقہ آزمایا اور صرف دو راتوں کے بار بار شب خون سے اس نے سوڈانی سپاہیوں کا لڑنے کا جذبہ ختم کر دیا ۔ ان کی قیادت میں کوئی دماغ نہ تھا ۔ یہ قیادت فوج کو سنبھال نہ سکی ۔ اس فوج میں علی بن سفیان کے بھی آدمی سوڈانی سپاہیوں کے بھیس میں موجود تھے ۔ انہوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ عرب سے ایک لشکر آرہا ہے جو انہیں کاٹ کر رکھ دے گا ۔ انہوں نے بددلی اور اور فرار کا رحجان پیدا کرنے میں پوری کامیابی حاصل کی ۔ فوج غیر منظم ہو کر بکھر گئی۔ نیل کے کنارے اس فوج کا جو حشر ہوا ، وہ عبرت ناک تھا ……یہ افواہ غلط ثابت نہ ہوئی کہ عرب سے فوج آرہی ہے ۔ نورالدین زنگی کی فوج آگئی جس کی نفری بہت زیادہ نہیں تھی ۔ بعض مورخین نے دو ہزار سوار اور دو ہزار پیادہ لکھی ہے ۔ بغض کے اعدادو شمار اس کے کچھ زیادہ ہیں ۔ تا ہم صلاح الدین ایوبی کو سہارا مل گیا اور اُس نے فوراً اس کمک کی قیادت سنبھال لی ۔ اس کیفیت میں جب کہ سوڈانیوں کا پچاس ہزار لشکر سلطان ایوبی کے آگ کے پھندے میں اور اُدھر صحرا میں شب خونوں کی وجہ سے بد نظمی کا شکار ہو گیا تھا ، یہ تھورڑی سی کمک بھی کافی تھی ۔ سلطان ایوبی اس کمک سے اور اپنی فوج سے سوڈانیوں کا قتلِ عام کر سکتا تھا ، لیکن اُس نے ڈپلو میسی سے کام لیا ۔ سوڈانی کمان کے کمانداروں کو پکڑا اور انہیں ذہن نشیں کرایا کہ اُن کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں رہا ، لیکن وہ انہیں تباہ نہیں کرے گا ۔ کمانداروں نے اپنا حشر دیکھ لیا تھا ۔ وہ اب سلطان کے عتاب اور سزا سے خائف تھے ، لیکن سلطان نے انہیں بخش دیا اور سزا دینے کی بجائے سوڈانیوں کی بچی کچھی فوج کو سپاہیوں سے کاشت کاروں میں بدل دیا ۔انہیں زمینیں دیں اور کھیتی باڑی میں انہیں سرکاری طور پر مدد دی اور پھر انہیں یہ اجازت بھی دے دی کہ ان میں سے جو لوگ فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہیں، ہو سکتے ہیں ۔ سوڈانیوں کو یوں دانشمندی سے ٹھکانے لگانے لگا کر صلاح الدین ایوبی نے نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی فوج اور اپنی فوج کو یکجا کرکے اس میں وفادار سوڈانیوں کو بھی شامل کر کے ایک فوج منظم کی اور صلیبیوں پر حملے کے منصوبے بنانے لگا ۔اس نے علی بن سفیان سے کہا کہ وہ اپنے جاسوسوں اور شب خون مارنے والے جانبازوں کے دستے فوراً تیار کرے۔ اُدھر صلیبیوں نے بھی جاسوسی اور تخریب کاری کا انتظام مستحکم کرنا شروع کردیا ۔
.............جاری ہے