فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
قسط نمبر: 18
اُدھر صلیبیوں نے بھی جاسوسی اور تخریب کاری کا انتظام مستحکم کرنا شروع کردیا ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کے واقع نگاروں کی تحریروں میں ایک شخص سیف اللہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے کہ اگر کسی انسان نے سلطان ایوبی کی عطاعت کی ہے تو وہ سیف اللہ تھا۔
سلطان کے گہرے
دوست اور دستِ راست بہائوالدین شداد کی اس ڈائری میں جو آج بھی عربی زبان میں محفوظ ہے، سیف اللہ کا ذکر ذرا تفصیل سے ملتا ہے ۔ یہ شخص جس کا نام کسی باقاعدہ تاریخ میں نہیں ملتا ، صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد سترہ سال زندہ رہا ۔واقع نگار لکھتے ہیں کہ ا س نے عمر کے یہ آخری سترہ سال سلطان ایوبی کی قبر کی مجاوری میں گزارے تھے۔ اس نے وصیت کی تھی کہ وہ مر جائے تو اسے سلطان کے ساتھ دفن کیا جائے ، مگر سیف اللہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ وہ ایک گمنام انسان تھا ، جسے عام قبرستان میں دفن کیا گیا اور وہ وقت جلدی ہی آگیا کہ اس قبرستان پر انسانوں نے بستی آباد کر لی اور قبرستان کا نام و نشان مٹا ڈالا ۔
تاریخی لحاظ سے سیف اللہ کی اہمیت یہ تھی کہ وہ سمندر پار سے صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے آیا تھا ۔ اُس وقت اس کا نام میگناناماریوس تھا ۔ اُس نے اسلام کا صرف نام سنا تھا ۔ اسے کچھ علم نہیں تھا کہ اسلام کیسا مذہب ہے ۔ صلیبیوں کے پروپیگنڈے کے مطابق اسے یقین تھا کہ اسلام ایک قابلِ نفرت مذہب اور مسلمان ایک قابلِ نفرت قوم ہے جو عورتوں کا شیدائی اور انسانی گوشت کھانے کا عادی ہے ۔
لہٰذا میگناناماریوس
جب کبھی مسلمان کا لفظ سنتا تھا تو وہ نفرت سے تھوک دیا کرتا تھا ۔ وہ بے مثال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب صلاح الدین ایوبی تک پہنچا تو میگناناماریوس قتل ہو گیا اور اس کے مُردہ وجود سے سیف اللہ نے جنم لیا ۔
تاریخ میں ایسے حکمرانوں کی کمی نہیں، جنہیں قتل کیا گیا یا جن پر قاتلانہ حملے ہوئے ، لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی تاریخ کی اُن معدودے چند شخصیتوں میں سے ہے ، جسے قتل کرنے کی کوششیں دشمنوں نے بھی کیں اور اپنوں نے بھی ، بلکہ اپنوں نے اسے قتل کرنے کی غیروں سے زیادہ سازشیں کیں۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ سلطان کی داستانِ ایمان فروز کے ساتھ ساتھ ایمان فروشوں
کی کہانی بھی چلتی ہے۔ اسی لیے صلاح الدین ایوبی نے بارہا کہا تھا ۔
*'' تاریخ اسلام وہ وقت جلدی دیکھے گی ، جب مسلمان رہیں گے تو مسلمان ہی لیکن اپنا ایمان بیچ ڈالیں گے اور صلیبی ان پر حکومت کریں گے ''۔*
آج ہم وہ وقت دیکھ رہے ہیں ۔
سیف اللہ کی کہانی اُس وقت سے شروع ہوتی ہے ، جب سلطان ایوبی نے صلیبیوں کا متحد بیڑہ بحیرہ روم میں
نذرِ آب و آتش کیا تھا۔ ان کے کچھ بحری جہاز بچ کر نکل گئے تھے ۔ سلطان ایوبی بحیرہ روم کے ساحل پر اپنی فوج کے ساتھ موجود رہا اور سمندر میں سے زندہ نکلنے والے صلیبیوں کو گرفتار کرتا رہا ۔ ان میں سات لڑکیاں بھی تھیں جن کا تفصیلی ذکر آپ پڑھ چکے ہیں ۔ مصر میں سلطان کی سوڈانی سپاہ نے بغاوت کر دی جسے سلطان نے دبا لیا ۔ اُسے سلطان زنگی کی بھیجی ہوئی کمک بھی مل گئی ۔ وہ اب صلیبیوں کے عزائم کو ختم کرنے کے منصوبے بنانے لگا۔
بحیرئہ روم کے پار روم شہر کے مضافات میں صلیبی سربراہوں کی کانفرنس ہو رہی تھی ۔
ان میں شاہ آگسٹس تھا،شاہ ریمانڈ اور شہنشائی ہفتم کا بھائی رابرٹ بھی ۔
کفار کی اس کانفرنس میں سب سے زیادہ قہر و غضب میں آیا ہوا ایک شخص تھا جس کا نام ایملرک تھا ۔
وہ صلیبیوں کے اس متحدہ بیڑے کا کمانڈر تھا جو مصر پر فوج کشی کے لیے گیا تھا مگر صلاح الدین ایوبی ان پر ناگہانی آفت کی طرح ٹوٹ پڑا اور اس بیڑے کے ایک بھی سپاہی کو مصر کے ساحل پر قدم نہ رکھنے دیا ۔ مصر کے ساحل پر جو صلیبی پہنچے ، وہ سلطان ایوبی کے ہاتھ میں جنگی قیدی تھے۔صلیبیوں کی کانفرنس میں ایملرک کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ اس کا بیڑہ غرق ہوئے پندرہ
دِن گزر گئے تھے۔ وہ پندرہویں دن اٹلی کے ساحل پر پہنچا تھا ۔ سلطان ایوبی کے آتشیں تیر اندازوں نے اس کے جہاز کے بادبان اور مستول جلا ڈالے تھے۔ یہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے ملاحوں اور سپاہیوں نے آگ پر قابو پا لیا تھا اور وہ جہاز کو بچا لے گئے تھے مگر بادبانوں کے بغیر جہاز سمندر پر ڈولتا رہا۔ پھر طوفان آگیا۔اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہی تھی ۔ بہت سے کچے کھچے جہاز اور کشتیاں اس طوفان میں غرق ہوگئی تھیں ۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ ایملرک کا جہاز ڈولتا، بھٹکتا ، ڈوب ڈوب کر اُبھرتا اٹلی کے ساحل سے جا لگا ۔ اس میں اس کے ملاحوں کابھی کمال شامل تھا ۔ انہوں نے چپوئوں کے زور پر جہاز کو قابومیں رکھاتھا ۔
ساحل پر پہنچتے ہی اس نے ان تمام ملاحوں اور سپاہیوں کے بے دریغ انعام دیا ۔ صلیبی سربراہ وہیں اس کے منتظر تھے۔ وہ اس پر غور کرنا چاہتے تھے کہ انہیں دھوکہ کس نے دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ شک سوڈانی سالار ناجی پر ہی ہو سکتا تھا ۔اسی کے خط کے مطابق انہوں نے حملے کے لیے بیڑہ روانہ کیا تھا مگر ان کے ساتھ ناجی کا تحریری رابطہ پہلے بھی موجود تھا ۔ انہوں نے ناجی کے اس خط کی تحریر پہلے دو خطوں سے ملائی تو انہیں شک ہوا کہ یہ کوئی گڑبڑ ہے ۔ انہوں نے قاہرہ میں جاسوس بھیج رکھے تھے مگر ان کی طرف سے بھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی ۔ انہیں یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ناجی اور اس کے سازشی سالاروں کو خفیہ طریقے سے مروا دیا اور رات کی تاریکی میں گمنام قبروں میں دفن کر دیا تھا اور صلیبی سربراہوں اور بادشاہوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ جس خط پر انہوں نے بیڑہ روانہ کیا تھا ، وہ خط ناجی کا ہی تھا ، مگر حملے کی تاریخ سلطان ایوبی نے تبدیل کر کے لکھی تھی ۔ جاسوسوں کو ایسی معلومات کہیں سے بھی نہیں مل سکتی تھیں۔
یہ کانفرنس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی ۔ ایملرک کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی ۔ وہ شکست خوردہ تھا ۔ غصے میں بھی تھا اور تھکا ہوا بھی تھا ۔ کانفرنس اگلے روز کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی ……
رات کے وقت یہ تمام سربراہ شکست کا غم شراب میں ڈبو رہے تھے ۔ایک آدمی اس محفل میں آیا ۔ اسے صرف ریمانڈ جانتا تھا ۔ وہ ریمانڈ کا قابلِ اعتماد جاسوس تھا ۔ وہ حملے کی شام مصر کے ساحل پر اُترا تھا ۔ اس سے تھوڑی ہی دیر بعد صلیبیوں کا بیڑہ آیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے یہ بیڑہ سلطان ایوبی کی قلیل فوج کے ہاتھوں تباہ ہوا تھا ۔
یہ جاسوس مصر کے ساحل پر رہا اور اس نے بہت سی معلومات مہیا کر لی تھیں ۔ ریمانڈ نے اس کا تعارف کرایا تو سب اس کے گرد جمع ہو گئے ۔ اس جاسوس کو معلوم تھا کہ صلیبی سربراہوں نے سلطان ایوبی کو قتل کرانے کیلئے رابن نام کا ایک ماہر جاسوس سمندر پار بھیجا تھا اور اس کی مدد کے لیے پانچ آدمی اور سات جوان اور خوبصورت لڑکیاں بھیجی گئی تھیں ۔ اس جاسوس نے بتایا کہ رابن زخمی ہونے کا بہانہ کر کے صلاح الدین ایوبی کے کمیپ میں پہنچ گیا تھا ۔
اس کے پانچ آدمی تاجروں کے بھیس میں تھے۔ ان میں کرسٹوفر نام کے ایک آدمی نے ایوبی پر تیر چلایا مگر تیر خطا گیا ۔ پانچوں آدمی پکڑے گئے اور ساتوں لڑکیاں بھی پکڑی گئیں۔ انہوں نے کہانی تو اچھی گھڑلی تھی ۔ سلطان ایوبی نے لڑکیوں کو پناہ میں لے لیا اور پانچوں آدمی کو چھوڑ دیا تھا ، مگر ایوبی کا ماہر سراغ رساں جس کا نام علی بن سفیان ہے ،اچانک آگیا ۔ اس نے سب کو گرفتار کر لیا اور اور پانچ میں سے ایک آدمی کو سب کے سامنے قتل کر اکے دوسروں سے اقبالِ جرم کروالیا۔ جاسوس نے کہا ……'' میں نے اپنے متعلق بتایا تھا کہ طبیب ہوں، اس لیے سلطان نے مجھے زخمیوں کی مرہم پٹی کی ڈیوٹی دے دی ۔ وہیں مجھے یہ اطلاع ملی کہ سوڈانیوں نے بغاوت کی تھی جو دبالی گئی ہے اور سوڈانی افسروں اور لیڈروں کو ایوبی نے گرفتار کر لیا ہے ۔ رابن ، چارآدمی اور چھ لڑکیاں ایوبی کی قید میں ہیں ، لیکن ابھی تک ساحل پر ہیں ۔ ساتویں لڑکی جو سب سے زیادہ ہوشیار ہے ، لاپتہ ہے ۔ اُس کا نام موبینا ارتلاش ہے ، موبی کہلاتی ہے ۔ ایوبی بھی کیمپ میں نہیں ہے اور اس کا سراغ رساں علی بن سفیان بھی وہاں نہیں ہے ۔میں بڑی مشکل سے نکل کر آیا ہوں ۔ بہت زیادہ اُجرت پر تیز رفتار کشتی مل گئی تھی ۔ میں یہ خبر دینے آیا ہوں کہ رابن ، اس کے آدمی اور لڑکیاں موت کے خطرے میں ہیں ۔
لڑکیوں کا بچانا لازمی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ سب جوان ہیں اور چنی ہوئی خوبصورت ہیں ۔
مسلمان ان جو حال کر رہے ہوں گے ، اس کا آپ تصور کر سکتے ہیں ''۔
''ہمیں یہ قربانی دینی پڑے گی ''……
شاہ آگسٹس نے کہا۔
'' اگر مجھے یقین دلا دیا جائے کہ لڑکیوں کو جان سے مار دیا جائے گا تو میں یہ قربانی دینے کیلئے تیار ہوں ''…… ریمانڈ نے کہا……
'' مگر ایسا نہیں ہوگا، مسلمان اس کے ساتھ وحشیوں کا سلوک کر رہے ہوں گے ۔ لڑکیاں ہم پر لعنت بھیج رہی ہوں گی ، میں انہیں بچانے کی کوشش کروں گا ''۔
''یہ بھی ہو سکتا ہے ''……رابرٹ نے کہا …… '' کہ مسلمان ان لڑکیوں کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ہمارے خلاف جاسوسی کیلئے استعمال کرنے لگیں ۔ بہر حال ہمارا یہ فرض ہے کہ انہیں قید سے آزاد کروائیں ۔ میں اس کے لیے آپنا آدھا خزانہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہوں ''۔
'' یہ لڑکیاں صرف اس لیے قیمتی نہیں کہ یہ لڑکیاں ہیں ''…… جاسوس نے کہا…… '' وہ دراصل تربیت یافتہ ہیں ۔ اتنے خطرناک کام کے لیے ایسی لڑکیاں ملتی ہی کہاں ہیں ۔
آپ کسی جوان لڑکی
کو ایسے کام کیلئے تیار نہیں کر سکتے کہ وہ دشمن کے پاس جا کر اپنا آپ دشمن کے حوالے کر دے۔دشمن کی عیاشی کا ذریعہ بنے اور جاسوس اور تخریب کاری کرے ۔ اس کام میں عزت تو سب سے پہلے دینی پڑتی ہے اور یہ خطرہ تو ہر وقت لگا رہتا ہے کہ جوں ہی دشمن کو پتہ چلے گا کہ یہ لڑکی جاسوس ہے تو اسے اذیتیں دی جائیں گی ،پھر اسے جان سے مار دیا جاگے گا ۔……
ان لڑکیوں کو ہم نے زرِ کثیر صرف کرکے خاص کیا ۔ پھر ٹریننگ دی تھی اور انہیں بڑی محنت سے مصر اور عرب کی زبان سکھائی تھی ۔ ایک ہی بار تجربہ کار لڑکیوں کو ضائع کرنا عقل مندی نہیں ''۔
'' کیا تم کہہ سکتے ہو کہ لڑکیوں کو ایوبی کے کیمپ سے نکالا جا سکتا ہے ؟'' ……آگسٹس نے پوچھا ۔
'' جی ہاں !''…… جاسوس نے کہا…… '' نکالاجا سکتا ہے ؟''…… اس کے لیے غیر معمولی طور پر دلیر اور پختہ کار آدمیوں کی ضرورت ہے مگر یہ بھی وہ سکتا ہے کہ وہ ایک دو دنوں تک رابن ، اس کے چار آدمیوں اور لڑکیوں کے قاہرہ جائیں ۔ وہاں سے نکلا لیں ۔وہاں سے نکالنا بہت ہی مشکل ہوگا ۔ اگر ہم وقت ضائع نہ کریں تو ہم انہیں کیمپ میں ہی لے جائیں گے ۔ آپ مجھے بیس آدمی دے دیں۔ میں ان کی رہنمائی کروں گا ، لیکن آدمی ایسے ہوں جو جان پر کھیلنا جانتے ہوں ''۔
............جاری ہے