فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
قسط نمبر : 19
ہمیں ہر قیمت پر ان لڑکیوں کو واپس لانا ہے ''…… ایملرک نے گرج کر کہا ۔ اس پر بحیرہ روم میں جو بیتی تھی ، اس کا وہ انتقام لینے کو پاگل ہوا جا رہا تھا ۔
وہ صلیبیوں کے متحدہ بیڑے اور اس بیڑے میں سوار لشکر کا سپریم کمانڈر بن کر اس اُمید پر گیا تھا کہ مصر کی فتح کا سہرا اس کے سر بندھے گا ، مگر
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے مصر کے ساحل کے قریب بھی نہ جانے دیا ۔ وہ جلتے ہوئے جہاز میں زندہ جل جانے سے بچا تو طوفان نے گھیر لیا ۔ اب بات کرتے اس کے ہونٹ کانپتے تھے اور وہ زیادہ تر باتیں میز پر مکے مار کر یا اپنی ران پرزور زور سے ہاتھ مار کر اپنے جذبات کااظہار کر رہا تھا ۔ اس نے کہا ……'' میں لڑکیوں کو بھی لائوں گا اور صلاح الدین ایوبی کو قتل بھی کروائوں گا ۔ میں انہی لڑکیوں کو مسلمانوں کی سلطنت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے استعمال کروں گا ''۔
'' میں سچے دل سے آپ کی تائید کرتا ہوں
شاہ ایملرک !''…… ریمانڈ نے کہا …… '' ہمیں تربیت یافتہ لڑکیوں کو اتنی آسانی سے ضائع نہیں کرنا چاہیے نہ ہم کریں گے۔ آپ سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ شام کے حرموں میں ہم کتنی لڑکیاں داخل کر چکے ہیں ۔ کئی مسلمان گورنر اور امیر ان لڑکیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ بغداد میں یہ لڑکیاں اُمراء کے ہاتھوں ایسے متعدد افراد کو قتل کراچکی ہیں جو صلیب کے خلاف نعرہ لے کر اُٹھے تھے۔ مسلمانوں کی خلافت کو ہم نے عورت اور شراب سے تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔ ان میں اتحاد نہیں رہا۔ وہ عیش و عشرت میں غرق ہوتے جارہے ہیں ۔ صرف دو آدمی ہیں جو اگر زندہ رہے تھے ہمارے لیے مستقل خطرہ بنے رہیں گے ۔
ایک نورالدین زنگی اور دوسرا صلاح الدین ایوبی ۔
اگر ان دونوں میں سے ایک بھی زیادہ دیر تک زندہ رہا تو ہمارے لیے اسلام کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر صلاح الدین ایوبی نے سوڈانیوں کی بغاوت دبالی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص اُس حد سے زیادہ خطرناک ہے ،
جس حد تک ہم اسے سمجھتے رہے ہیں ۔ ہمیں میدانِ جنگ سے ہٹ کر تخریب کاری کا محاذ بھی کھولنا پڑے گا ۔ مسلمانوں میں تفرقہ اور بے اطمینانی پھیلانے کے لیے ہمیں ان لڑکیوں کی ضرورت ہے ''۔
'' ہمیں اپنے کامیاب تجربوں سے فائدہ اُٹھانا چاہیے ''……
لوئی ہفتم کے بھائی رابرٹ نے کہا……
'' عرب میں ہم مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں ۔ مسلمان عورت، شراب اور دولت سے اندھا ہو جاتا ہے۔ مسلمان کو مارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے مسلمان کے ہاتھوں مروائو۔ مسلمان کو ذہنی عیاشی کا سامان مہیا کردو تو وہ اپنے دین اور ایمان سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ تم مسلمان کا ایمان آسانی سے خرید سکتے ہو ''……
اس نے عرب کے کئی امراء اور وزراء کی مثالیں دیں جنہیں صلیبیوں نے عورت، شراب اور دولت سے خرید لیا تھا اور انہیں اپنا درپردہ دوست بنا لیا تھا ۔
کچھ دیر مسلمانوں کی کمزوریوں کے متعلق باتیں ہوئیں پھر لڑکیوں کو آزاد کرانے کے عملی پہلوئوں پر غور ہوا۔ آخریہ طے پایا کہ بیس نہایت دلیر آدمی اس کام کے لیے روانہ کیے جائیں اور وہ اگلی شام تک روانہ ہوجائیں ۔ اسی وقت چار پانچ کمانڈروں کو بلا لیا گیا ۔ انہیں اصل مقصد و مہم بتا کر کہا گیا کہ بیس آدمی منتخب کریں۔ کمانڈروں نے تھوڑی دیر اس مہم کے خطروں کے متعلق بحث مباحثہ کیا ۔ ایک کمانڈر نے کہا …… '' ہم پہلے ہی ایک ایسی فورس تیار کر رہے ہیں جو مسلمانوں کے کیمپوں پر شب خون مارا کرے گی اور ان کی متحرک فوج پر بھی رات کو حملے کر کے پریشان کرتی رہے گی۔ اس فورس کے لیے ہم نے چند ایک آدمی منتخب کیے ہیں ''۔
'' لیکن یہ آدمی سو فیصد قابلِ اعتماد ہونے چاہئیں ''…
آگسٹس نے کہا ۔'' وہ ہماری تمہاری نظروں سے اوجھل ہو کر ہی کام کریں گے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ نہ کریں اور واپس آ کر کہیں کہ وہ بہت کچھ کر کے آئے ہیں ''۔
'' آپ یہ سن کر حیران ہوں گے'' ……
ایک کمانڈر نے کہا ……'' کہ ہماری فوج میں ایسے سپاہی بھی ہیں جنہیں ہم نے جیل خانوں سے حاصل کیا ہے ، یہ ڈاکو ،چور اور رہزن تھے۔ انہیں بڑی بڑی لمبی سزائیں دی گئی تھیں ۔ انہیں جیل خانوں میں ہی مرنا تھا ۔ ہم نے ان سے بات کی تو وہ جو ش و خروش سے فوج میں آگئے ۔ آپ کو شاید یہ معلوم کر کے بھی حیرت ہو کہ ناکام حملے میں ان سزایافتہ مجرموں نے بڑی بہادری سے کئی جہاز بچائے ہیں …… میں لڑکیوں کو مسلمانوں سے آزاد کرنے کی مہم میں ایسے تین آدمی بھیجوں گا ''۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں عیش و عشرت کا رحجان بڑھ گیا اور اتحاد ختم ہو رہا تھا ۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کو اخلاقی تباہی تک پہنچانے میں ذہنی عیاشی کا ہر سامان مہیا کیا ……
اب انہیں یہ توقع تھی کہ مسلمانوں کو ایک ہی حملے میں ختم کر دیں گے، چنانچہ ان کے خلاف عیسائی دُنیا میں نفرت کی طوفانی مہم چلائی گئی اور ہر کسی کو اسلام کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی ۔ اس کے جواب میں معاشرے کے ہر شعبے کے لوگ صلیبی لشکر میں شامل ہونے لگے۔ ان میں پادری بھی شامل ہوئے اور عادی مجرم بھی گناہوں سے توبہ کر کے مسلمانوں کے خلاف مسلح ہو گئے ۔ بعض ملکوں کے جیل خانوں میں جو مجرم لمبی قید کی سزائیں بھگت رہے تھے ، وہ بھی فوج میں بھرتی ہوگئے ۔ ان مجرموں کے متعلق عیسائیوں کا تجربہ غالباً اچھا تھا ، جس کے پیش نظر ایک کمانڈر نے لڑکیوں کو آزاد کرانے اور صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کے لیے قیدی مجرموں کا انتخا ب کیا تھا ۔
صبح تک بیس انتہائی دلیر اور ذہین آدمی چن لیے گئے ۔ ان میں میگناناماریوس بھی تھا جسے روم کے جیل خانے سے لایا گیا تھا ۔ اس جاسوس کو جو طبیب کے بہروپ میں سلطان ایوبی کے کیمپ رہا اور فرار ہو کر آیا تھا ، اس کمانڈو پارٹی کا کمانڈر اور گائیڈ مقرر کیا گیا ۔ اس پارٹی کو یہ مشن دیا گیا کہ لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے نکالنا ہے ۔ اگر رابن اور اس کے چار ساتھیوں کو بھی آزاد کرایا جا سکے تو کرا لینا، ورنہ ان کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں ۔
دوسرا مشن تھا ، سلطان صلاح الدین ایوبی کا قتل۔ اس پارٹی کو کوئی عملی ٹریننگ نہ دی گئی ۔ صرف زبانی ہدایات اور ضروری ہتھیار دے کر اسی روز ایک بادبانی کشتی میں ماہی گیروں کے بھیس میں روانہ کر دیا گیا ۔
جس وقت یہ کشتی اٹلی کے ساحل سے روانہ ہوئی۔صلاح الدین ایوبی سوڈانیوں کی بغاوت مکمل طور پر دبا چکا تھا ۔ سوڈانیوں کے بہت سے کماندار مارے گئے یا زخمی ہو گئے تھے اور بہت سے سلطان ایوبی کے دفترکے سامنے کھڑے تھے ۔ انہوں نے ہتھیار ڈال کر شکست اور سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کر لی تھی ۔ وہ سلطان کے حکم کے منتظر تھے۔ سلطان اندر بیٹھا اپنے سالاروں وغیرہ کو احکام دے رہا تھا۔
علی بن سفیان بھی موجود تھا۔ اس فتح میں اس کا بہت عمل دخل تھا۔ صلیبیوں کو شکست دینے میں بھی اس کے نظامِ جاسوسی نے بہت کام کیا تھا ، بلکہ یہ دونوں کامیابیاں جاسوسی کے نظام کی ہی کامیابیاں تھیں۔ سلطان ایوبی کو جیسے اچانک کچھ یاد آگیا ہو۔ اس نے علی بن سفیان سے کہا ……
''علی ! ہمیں ان جاسوس لڑکیوں اور اُن کے ساتھیوں کے متعلق سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا ۔ وہ ابھی تک ساحل پر قیدی کیمپ میں ہیں ۔ ان سب کو فوراً یہاں لانے کا بندوبست کرو اور تہ خانے میں ڈال دو ''۔
'' میں ابھی پیغام بھجوا دیتا ہوں '' … علی بن سفیا ن نے کہا ……'' ان سب کہ یہاں پہرے میں بلوا لیتا ہوں …سلطان ! آپ شاید ساتویں لڑکی کو بھول گئے ہیں ۔ وہ سوڈانیوں کے ایک کماندار بالیان کے پاس تھی ۔ اسی لڑکی سے جاسوسوں اور بغاوت کا انکشاف ہوا تھا ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بالیان ان کمانداروں میں نہیں ہے جو باہر موجود ہیں اور وہ زخمیوں میں بھی نہیں ہے اور وہ مرے ہوئے لوگوں میں بھی نہیں ہے ۔ مجھے شک ہے کہ ساتویں لڑکی جس کانام فخرالمصری نے موبی بتایا تھا ، بالیان کے ساتھ کہیں روپوش ہوگئی ہے ''۔
'' اپنا شک رفع کرو علی ''… سلطان ایوبی نے کہا …'' یہاں مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ بالیان لاپتہ ہے تو وہ بحیرہ روم کی طرف نکل گیا ہوگا ۔ صلیبیوں کے سوا اسے اور کون پناہ دے سکتا ہے ۔
بہرحال ان جاسوسوں کو تہہ خانوں میں ڈالو اور اپنے جاسوس فوراً تیار کرکے سمندر پار بھیج دو ''۔
'' زیادہ ضرورت تہ یہ ہے کہ اپنے جاسوس اپنے ہی ملک میں پھیلا دئیے جائیں ''۔ یہ مشورہ دینے والا سلطان نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی فوج کا سپہ سالار تھا ۔ اس نے کہا … '' ہمیں صلیبیوں کی طرف سے اتنا خطرہ نہیں، جتنا اپنے مسلمان امراء سے ہے ۔ اپنے جاسوس ان کے حرموں میں داخل کر دئیے جائیں تو بہت سی سازشیں بے نقاب ہوں گی ''۔ اُس نے تفصیل سے بتایا کہ یہ خود ساختہ حکمران کس طرح صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ سلطان زنگی اکثر پریشان رہتے ہیں کہ باہر کے حملوں کو روکیں یا اپنے گھر کو اپنے ہی چراغ سے جلنے سے بچائیں ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ روائیداد غور سے سنی اور کہا …
'' اگر تم لوگ جن کے پاس ہتھیار ہیں ، دیانت دار اور اپنے مذہب سے مخلص رہے تو باہر کے حملے اور اندر کی سازشیں قوم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ تم اپنی نظریں سرحدوں سے دور آگے لے جائو ۔ سلطنت اسلامیہ کی کوئی سر حد نہیں ۔ تم نے جس روز اپنے آپ کو اور رب کے اس عظیم مذہبِ اسلام کو سرحدوں میں پابند کرلیا اور اس روز میں یوں سمجھو گا کہ تم اپنے ہی قید خانے میں قید ہو گئے ہو ۔ پھر تمہاری سرحدیں سکڑنے لگیں گی۔ اپنی نظریں بحیرہ روم سے آگے لے جائو۔ سمندر تمہارا راستہ نہیں روک سکتے ۔ گھر کے چراغوں سے نہ ڈرو، یہ تو ایک پھونک سے گل ہو جائیں گے ۔ ان کی جگہ ہم ایمان کے چراغ روشن کریں گے''۔
'' ہمیں اُمید ہے کہ ہم ایمان فروشی روک لیں گے،
سلطانِ محترم !''… سالار نے کہا … ''
ہم مایوس نہیں ''۔
'' صرف دو لعنتوں سے بچو میرے عزیز رفیقو!''
سلطان ایوبی نے کہا …'' مایوسی اور ذہنی عیاشی ۔ انسان پہلے مایوس ہوتا ہے ، پھر ذہنی عیاشی کے ذریعے راہِ فرار اختیار کرتا ہے ''۔
اس دوران علی بن سفیان جا چکا تھا ۔ اس نے فوراً ایک قاصد بحیرہ روم کے کیمپ کی طرف اس پیغام کے ساتھ روانہ کر دیا کہ رابن، اس کے چار ساتھیوں اور لڑکیوں کو گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار کر کے بیس محافظوں کے پہرے میں دارالحکومت کو بھیج دو …قاصد کو روانہ کر کے اس نے اپنے ساتھ چھ سات سپاہی لیے اور کماندار بالیان کی تلاش میں نکل گیا ۔ ان نے ان سوڈانی کمانداروں سے جو باہر بیٹھے تھے، بالیان کے متعلق پوچھ لیا تھا ۔ سب نے کہا تھا کہ اسے لڑائی میں کہیں بھی نہیں دیکھا گیا تھا اور نہ ہی وہ اس فوج کے ساتھ گیا تھا جو بحیرئہ روم کی طرف سلطان کی فوج پر حملہ کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی ۔ علی بن سفیان بالیان کے گھر گیا تو وہاں اس کی بوڑھی خادمائوں کے سوا اور کوئی نہ تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ بالیان کے گھر میں پانچ لڑکیاں تھیں ۔ ان میں جس کی عمر ذرا زیادہ ہوجاتی تھی ، اسے وہ غائب کر دیتا اور اس کی جگہ جوان لڑکی لے آتا تھا ۔ ان خامائوں نے بتایا کہ بغاوت سے پہلے اس کے پاس ایک فرنگی لڑکی آئی تھی جو غیر معمولی طور پر خوبصورت اور ہوشیار تھی ۔ بالیان اس کا غلام ہو گیا تھا ۔ بغاوت کے ایک روز بعد جب سوڈانیوں نے ہتھیار ڈال دئیے تو بالیان رات کے وقت گھوڑے پر سوار ہوا، دوسرے گھوڑے پر اس فرنگی لڑکی کو سوار کیا اور معلوم نہیں دونوں کہاں روانہ ہوگئے ۔ ان کے ساتھ سات گھوڑ سوار تھے۔ حرم کی لڑکیوں کے متعلق بوڑھیوں نے بتایا کہ وہ گھر میں جو ہاتھ لگا اُٹھا کر چلی گئی ہیں ۔
علی بن سفیان وہاں سے واپس ہوا توایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا آیا اور علی بن سفیان کے سامنے رُکا۔ اس پر فخرالمصری سوار تھا۔ کود کر گھوڑے سے اُترا اور ہانپتی کانپتی آواز میں بولا … '' میں آپ کے پیچھے آیا ہوں ۔ میں بھی اسی بدبخت بالیان اور اس کافر لڑکی کو ڈھونڈ رہا تھا ۔ میں ان سے انتقام لوں گا ۔ جب تک ان دونوں کو اپنے ہاتھوں قتل نہیں کرلوں گا ، مجھے چین نہیں آئے گا ۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کدھر گئے ہیں ۔ میں نے ان کا پیچھا کیا ہے لیکن ان کے ساتھ سات مسلح محافظ تھے ، میں اکیلا تھا ۔ وہ بحیرہ روم کی طرف جا رہے ہیں ، مگر عام راستے سے ہٹ کر جارہے ہیں ''… اس نے علی بن سفیان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ '' ﷲ کے لیے مجھے صرف چار سپاہی دے دیں ، میں ان کے تعاقت میں جائوں گا اور انہیں ختم کرکے آئوں گا ''۔
علی بن سفیان نے اسے اس وعدے سے ٹھنڈا کیا کہ وہ اسے چار کی بجائے بیس سوار دے گا ۔ وہ ساحل سے آگے اتنی جلدی نہیں جا سکتے ۔ میرے ساتھ رہو۔ علی بن سفیان مطمئن ہوگیا کہ یہ تو پتہ چل گیاہے کہ وہ کسطرف گئے ہیں ۔
جاری ہے