فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
قسط نمبر 23
بہت دیر بحث اور تکرار کے بعد میگنا نا ماریوس اپنے ایک ساتھی اور موبی کے ساتھ اپنی پارٹی سے رخصت ہوا ۔ سب نے انہیں دعائوں کے ساتھ الوداع کہا ۔انہوں نے دو اونٹ لیے ۔ ایک پر موبی سوائی ہوئی اور دوسرے پر دونوں مرد ۔ اُن کے پاس مصر کے سکے تھے اور سونے کی اشرفیاں بھی ۔ دونوں مردوں نے چغے اوڑھ لیے تھے ۔ میگنا نا ماریوس کی داڑھی خاصی لمبی ہو گئی تھی ۔ قید خانے میں دھوپ میں مشقت کر کرکے اس کا رنگ اٹلی کے باشندوں کی طرح گورا نہیں رہا تھا ۔ سیاہی مائل ہوگیا تھا ۔اس سے اس پر یہ شک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ یورپی ہے ۔ بھیس بدلنے کے لیے انہیں کپڑے دے کر بھیجا گیا تھا ، مگر ایک رکاوٹ تھی جس کا بظاہر کوئی علاج نہیں تھا ۔ وہ یہ کہ میگناناماریوس اٹلی کی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتا تھا ۔ موبی مصر کی زبان بول سکتی تھی ۔ دوسرا جو آدمی ان کے ساتھ گیاتھا ، وہ بھی مصر کی زبان نہیں جانتا تھا ۔ انہیں اس کا کو ئی علاج کرنا تھا ۔
وہ رات کو ہی چل پڑے ۔ موبی راستے سے واقف ہو چکی تھی ۔ وہ قاہر ہ سے ہی آئی تھی ۔ میگنا نا ماریوس نے اس پر بھی ایک چغہ ڈال دیا اور اس کے سر پر دوپٹے کی طرح چادر اوڑھ دی ۔
صبح کی روشنی میں سلطان ایوبی کے اُن سواروں کا دستہ جو اُن کے تعاقب میں گیا تھا ، گھوڑوں کے کھرے دیکھ کر روانہ ہوگیا ۔ یہ بہت سے گھوڑوں کے نشان تھے ، جو چھپ ہی نہیں سکتے تھے ۔ صبح سے پہلے صلیبیوں کے پارٹی لڑکیوں کو ساتھ لے کر چل پڑی ۔اُن کی رفتار خاصی تیز تھی ۔ ان کے تعاقب میں جانے والوں کا سفر رُک گیا ، کیونکہ رات کے وقت وہ زمین کو دیکھ نہیں سکتے تھے ، مگر صلیبیوں نے سفر جاری رکھا ۔ وہ آدھی رات کے وقت پڑائو کرنا چاہتے تھے ، وہ بہت جلدی میں تھے ۔
صبح کے دھند میں صلیبی جو آدھی رات کے وقت رُکے تھے ، چل پڑے ۔ اُن کے تعاقب میں جانے والوں کی پارٹی صبح کی روشنی میں روانہ ہوئی ۔ میگناناماریوس نے عقل مندی کی تھی کہ وہ اونٹوں پر گیا تھا ۔ اونٹ بھوک اور پیاس کی پرواہ نہیں کرتا ۔ رُکے بغیر گھوڑے کی نسبت بہت زیادہ سفر کر لیتا ہے ۔ اس سے میگناناماریوس کا سفر تیز ی سے طے ہو رہا تھا ۔
سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر تھی ، جب انہیں لاشیں نظر آئیں ۔ علی بن سفیان کے نائب نے بالیان کی لاش پہچان لی ۔ اُس کا چہرہ سلامت تھا ۔ اُس کے قریب اس کے چھ دوستوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ گِدھوں اور درندوں نے زیادہ تر گوشت کھا لیا تھا ۔ سوار حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے ۔ خون
بتاتا تھا کہ انہیں مرے ہوئے زیادہ دِن نہیں گزرے ۔ اگر یہ بغاوت کی رات مرے ہوتے تو خون کا نشان تک نہ ہوتا اور اُن کی صرف ہڈیاں رہ جاتیں ۔ یہ ایک معمہ تھا جسے کوئی نہ سمجھ سکا ، وہاں سے پھر گھوڑوں کے نشان چلے ۔ سواروں نے گھوڑے دوڑا دئیے ۔ نصف میل تک گئے تو اونٹوں کے پائوں کے نشان بھی نظر آئے ۔ وہ بڑھتے ہی چلے گئے ۔ سورج غروب ہوا تو بھی نہیں رُکے ، کیونکہ اب مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں کا علاقہ شروع ہو گیا تھا ، جس میں ایک راستہ بل کھاتا ہوا گزرتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہاں سے گزرنے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔
صلیبی اسی راستے سے گزرے تھے اور بحیرہ روم کی طر ف چلے جا رہے تھے ۔ ٹیلوں کا علاقہ دُور تک پھیلا ہوا تھا ، وہاں سے تعاقب کرنے والے نکلے تو رُک گئے ، کیونکہ آگے ریتلا میدان آ گیا تھا ۔
صبح کے وقت چلے تو کسی نے کہا کہ سمندر کی ہوا آنے لگی ہے ۔ سمندر دُور نہیں تھا مگر صلیبی ابھی تک نظر نہیں آئے تھے ۔ راستے میں ایک جگہ کھانے کے بچے کھچے ٹکڑوں سے پتہ چلا کہ رات یہاں کچھ لوگ رُکے تھے ۔ گھوڑے بھی یہاں باندھے گئے تھے ۔ پھر یہ گھوڑے وہاں سے چلے ۔ زمین کو دیکھ کر تعاقب کرنے والوں نے گھوڑوں کوایڑیں لگا دیں۔ سورج اپنا سفر طے کرتا گیا اور آگے نکل گیا ۔ گھوڑوں کو ایک جگہ آرام دیا گیا ۔ پانی پلایا اور یہ دستہ روانہ ہو گیا ۔ سمندر کی ہوائیں تیز ہوگئی تھیں اور ان میں سمندر کی بُو صاف محسوس ہوتی تھی ۔ پھر ساحل کی چٹانیں نظر آنے لگیں۔ زمین بتا رہی تھی کہ گھوڑے آگے آگے جا رہے ہیں اور یہ بے شمار گھوڑے ہیں ۔
ساحل کی چٹانیں گھوڑوں کی رفتار سے قریب آرہی تھیں ۔ تعاقب کرنے والوں کو ایک چٹان پر دو آدمی نظر آئے ۔ وہ اس طرف دیکھ رہے تھے ۔ وہ تیزی سے سمندر کی طرف اُتر گئے ۔ گھوڑے اور تیز ہو گئے ۔ چٹانوں کے قریب گئے تو انہیں گھوڑے روکنے پڑے ، کیونکہ کئی جگہوں سے چٹانوں کے پیچھے جایا جا سکتا تھا ۔ایک آدمی کو چٹان پر چڑھ کر آگے دیکھنے کو بھیجا گیا ۔ وہ آدمی گھوڑے سے اُتر کر دوڑتا گیا اور ایک چٹان پر چڑھنے لگا ۔ اوپر جا کر اس نے لیٹ کر دوسری طرف دیکھا اور پیچھے ہٹ آیا ۔ وہیں سے اس نے سواروں کو اشارہ کیا کہ پیدل آئو ۔ سوار گھوڑوں سے اُترے اور دوڑتے ہوئے چٹان تک گئے ۔ سب سے پہلے
علی بن سفیان کا نائب اوپر گیا ۔ اس نے آگے دیکھا اور دوڑ کر نیچے اُترا۔ اس نے اپنے دستے کو بکھیر دیا اور انہیں مختلف جگہوں پر جانے کو کہا ۔
دوسری طرف سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ صلیبی وہاں موجود تھے ۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں سمندر چٹانوں کو کاٹ کر اندر آجاتا تھا ۔ اس پارٹی نے اپنی کشتی وہاں باندھی تھی ۔وہ گھوڑوں سے اُتر کر کشتی میں سوار ہو رہے تھے ۔ کشتی بہت بڑی تھی ۔ لڑکیاں کشتی میں سوار ہو چکی تھیں ۔ گھوڑے چھوڑ دئیے گئے تھے ۔ اچانک اُن پر تیر برسنے لگے ۔ تمام کو ہلاک نہیں کرنا تھا ۔ انہیں زندہ پکڑنا تھا ۔ بہت سے کشتی سے کود گئے اور کشتی کے چپو مارنے لگے ۔ پیچھے جو رہ گئے وہ تیروں کا نشانہ بن گئے تھے ۔ کشتی میں جانے والوں کو للکارا گیا ، مگر وہ نہ رُکے ، وہاں سمندر گہرا تھا ۔ کشتی آہستہ آہستہ جاری تھی ۔ اِدھر سے اشارے پر تیر اندازوں نے کشتی پر تیر برسا دئیے ۔ چپوئوں کی حرکت بند ہو گئی ۔ تیروں کی دوسری باڑ گئی ، پھر تیسری اور چوتھی باڑ لاشوں میں پیوست ہوگئی ۔ اُن میں اب کوئی بھی زندہ نہیں تھا ۔ کشتی وہیں ڈولنے لگی ۔ سمندر کی موجیں ساحل کی طرف آتیں اور چٹانوں سے ٹکڑا کر واپس چلی جاتی تھیں ۔ ذرا سی دیر میں کشتی ساحل پر واپس آگئی ۔ سواروں نے نیچے جا کر کشتی پکڑ لی ، وہاں صرف لاشیں تھیں ، بعض کو دو دو تیر لگے تھے ۔
کشتی کو باندھ دیا گیا اور سواروں کا دستہ محاذ کی طرف روانہ ہوگیا ۔ کیمپ دُور نہیں تھا ۔
میگنا نا ماریوس قاہرہ کی ایک سرائے میں قیام پذیر تھا ۔ اس سرائے کا ایک حصہ عام اور کمترمسافروں کے لیے تھا اور دوسرا حصہ امراء اور اونچی حیثیت کے مسافروں کے لیے ۔ اس حصے میں دولت مند تاجر بھی قیام کرتے تھے ۔ اُن کے لیے شراب اور ناچنے گانے والیاں بھی مہیا کی جاتی تھیں ۔ میگنا نا ماریوس اسی خاص حصے میں ٹھہرا ۔ موبی کو اُس نے اپنی بیوی بتایا اور اپنے ساتھی کو معتمد ملازم ۔ موبی کی خوبصورتی نے سرائے والوں پر میگنا نا ماریوس کا رعب طاری کر دیا ۔ ایسی حسین اور جوان بیوی کسی بڑے دولت مند ہی کی ہو سکتی تھی ۔ سرائے والوں نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی ۔ موبی نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے صلاح الدین ایوبی کے گھر اور دفتر کے متعلق معلومات حاصل کر لیں ۔ اس نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ سلطان ایوبی نے سوڈانیوں کو معافی دے دی ہے اور سوڈانی فوج توڑ دی ہے ۔ اسے یہ بھی پتہ چل گیاکہ سوڈانی سالاروں اور کماندارو کے حرم خالی کر دئیے گئے ہیں اور یہ بھی کہ انہیں زرعی زمینیں دی جارہی ہیں ۔
یہ میگنا نا ماریوس کی غیر معمولی دلیری تھی یا غیر معمولی حماقت کہ وہ اس ملک کی زبان تک نہیں جانتاتھا ۔ پھر بھی انتے خطرناک مشن پر آگیا تھا ۔ اُسے اس قسم کے قتل کی اور اتنے بڑے رتبے کے انسان تک رسائی حاصل کرنے کی کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی ۔ وہ ذہنی لحاظ سے انتشار اور خلفشار کا مریض تھا ، پھر بھی وہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے آیا، جس کے اردگرد محافظوں کا پورا دستہ موجود رہتا تھا۔ اس کے دستے کے کمانڈر نے اسے کہا تھا کہ تم پاگل ہو، تم نے جتنی باتیں کی ہیں ۔ ان میں ذرا سی بھی عقل کی بو نہیں آئی ۔ بظاہر میگنا نا ماریوس پاگل ہی تھا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بڑے آدمیوں کو قتل کرنے والے عموماً پاگل ہوتے ہیں ۔ اگر پاگل نہیں تو اُن کے ذہنی توازن میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہوتی ہے ۔ یہی کیفیت اٹلی کے اس سزا یافتہ آدمی کی تھی ۔ اس کے پاس ایک ہتھیار ایسا تھا جو ڈھال کا کام بھی دے سکتا تھا ۔ یہ تھی موبی ۔ موبی مصر کی صرف زبان ہی نہیں جانتی تھی ، بلکہ اُسے اور اس کی مری ہوئی چھ ساتھی لڑکیوں کو مصری اور عربی مسلمانوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور دیگر معاشرتی اونچ نیچ کے متعلق لمبے عرصے کے لیے ٹریننگ دی گئی تھی ۔ وہ مسلمان مردوں کی نفسیات سے بھی واقف تھی ۔ اداکاری کی ماہر تھی اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ مردوں کو انگلیوں پر نچانا اور بوقتِ ضرورت اپنا پورا جسم کسی مرد کو پیش کرنا جانتی تھی ۔
یہ تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ بند کمرے میں میگنا نا ماریوس ، موبی اور ان کے ساتھی نے کیا کیا باتیں کیں اور کیا منصوبہ بنایا ۔ البتہ ایسا ثبوت پرانی تحریروں میں ملتا ہے کہ تین چار روز سرائے میں قیام کے بعد میگنا نا ماریوس باہر نکلا ، تو اس داڑھی دُھلی دھلائی تھی ۔ اس کے چہرے کا رنگ سوڈانیوں کی طرح گہرا بادامی تھا ، جو مصنوعی ہو سکتا تھا ، لیکن مصنوعی لگتا نہیں تھا ۔ اس نے معمولی قسم کا چغہ اور سر پر معمولی قسم کا رومال اورعمامہ باندھ رکھا تھا ۔ موبی سر سے پائوں تک سیاہ برقعہ نما لبادے میں تھی اور اس کے چہرے پر باریک نقاب اس طرح پڑا تھا کہ ہونٹ اور ٹھوڑی ڈھکی ہوئی تھی پیشانی تک چہرہ ننگا تھا۔ پیشانی پر اس کے بھورے ریشمی بال پڑے ہوئے تھے اور اس کا حسن ایسا نکھرا ہوا تھاکہ راہ جاتے لوگ رُک کر دیکھتے تھے۔ ان کا ساتھی معمولی سے لباس میں تھا ، جس سے پتہ چلتا تھا کہ نوکر ہے۔ سرائے کے باہر دو نہایت اعلیٰ نسل کے گھوڑے کھڑے تھے ۔ یہ سرائے والوں نے میگنا نا ماریوس کے لیے اُجرت پر منگوائے تھے ، کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سیر کے لیے جانا چاہتا ہے ۔ میگنا نا مایوس اور موبی گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور جب گھوڑے چلے تو ان کاساتھی نوکروں کی طرح پیچھے پیچھے چل پڑا ۔
صلاح الدین ایوبی اپنے نائبین کو سامنے بٹھائے سوڈانیوں کے متعلق احکامات دے رہا تھا ۔ وہ یہ کام بہت جلدی ختم کرنا چاہتا تھا ،
کیونکہ اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ سلطان زنگی کی بھیجی ہوئی فوج، مصر کی نئی فوج اور وفادار سوڈانیوں کو ساتھ ملا کر ایک فوج بنائے گا اور فوری طور پر یروشلم پر چڑھائی کرے گا ۔ بحیرہ روم کی شکست کے بعد ، جبکہ سلطان زنگی نے فرینکوں کو بھی شکست دے دی تھی ، ایک لمبے عرصے تک صلیبیوں کے سنبھلنے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔ ان کے سنبھلنے سے پہلے ہی سلطان ایوبی ان سے یروشلم چھین لینے کا منصوبہ بنا چکا تھا ۔ اس سے پہلے وہ سوڈانیوں کو زمینوں پر آباد کر دینا چاہتا تھا ، تا کہ کھیتی باڑی میں اُلجھ جائیں اور ان کی بغاوت کا امکان نہ رہے ۔
نئی فوج کی تنظیمِ نو اور ہزار سوڈانیوں کو زمینوں پر آباد کرنے کا کام آسان نہیں تھا ۔
ان دونوں کاموں میں خطرہ یہ تھا کہ سلطان ایوبی کی فوج اور اپنی انتظامیہ میں ایسے اعلیٰ افسر موجود تھے جو اُسے مصر کی امارت کے سرابراہ کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ سوڈانیوں کی فوج کو توڑ کربھی سلطان ایوبی نے اپنے خلاف خطرہ پیدا کر لیا تھا ۔ اس فوج کے چندایک اعلیٰ حکام زندہ تھے ۔ انہوں نے سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کر لی تھی ، مگر علی بن سفیان کی انٹیلی جنس بتا رہی تھی کہ بغاوت کی راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں موجود ہیں ۔
انٹیلی جنس کی رپورٹ یہ بھی تھی کہ ان باغی سربراہوں کی اپنی شکست کا اتنا افسوس نہیں ، جتنا صلیبیوں کی شکست کا غم ہے ، کیونکہ وہ بغاوت دب جانے کی بعد بھی صلیبیوں سے مدد لینا چاہتے تھے اور مصرکی انتظامیہ اور فوج کے دو تین اعلیٰ حکام کو سوڈانیوں کی شکست کا افسوس تھا ، کیونکہ وہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ صلاح الدین ایوبی مارا جائے گا یا بھاگ جائے گا ۔
یہ غدار بےایمانو کا ٹولہ تھا ، لیکن سلطان ایوبی کاایمان مضبوط تھا ۔ اس نے مخالفین سے واقف ہوتے ہوئے بھی اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ اُن کے ساتھ نرمی اور خلوص سے پیش آتا رہا۔ کسی محفل میں اُس نے ان کے خلاف کوئی بات نہ کی اورجب کبھی اس نے ماتحتوں سے اور فوج سے خطاب کیا توایسے الفاظ کبھی نہ کہے کہ میں اپنے مخالفین کو مزہ چکھادوں گا۔ کبھی دھمکی آمیز یا طنزیہ الفاظ استعمال نہیں کیے ۔ البتہ ایسے الفاظ اکثر اس کے منہ سے نکلتے تھے ……'' اگر کسی ساتھی کو ایمان بیچتا دیکھو تو اُسے روکو ۔ اسے یاد دلائو کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرو تاکہ وہ دشمن کے اثر سے آزاد ہوجائے '' ……
لیکن در پردہ مخالفین کی سر گرمیوں سے باخبر رہتا تھا ۔
علی بن سفیان کا محکمہ بہت ہی زیادہ مصروف ہوگیا تھا ۔ سلطان ایوبی کو زیرِ زمین سیاست کی اطلاعیں باقاعدگی سے دی جارہی تھیں ۔
اب اس محکمے کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ محافظوں اور شتربانوں کے قتل کی اطلاع بھی قاہرہ آچکی تھی ۔ اس سے پہلے جاسوسوں کا گروہ جس میں لڑکیاں بھی تھیں ۔ محافظوں سے نا معلوم افراد نے آزاد کرالیا تھا ۔ ان دو واقعات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ملک میں صلیبی جاسوس اور چھاپہ مار موجود ہیں اور یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں یہاں کے باشندوں کی پشت پناہی اور پناہ حاصل ہے ۔ ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ چھاپہ ماروں اور لڑکیوں کو عین اس وقت ختم کر دیا گیا ہے ، جب وہ کشتی میں سوار ہو رہے تھے ۔ چھاپہ ماروں کی سرگرمیوں کوروکنے کے لیے فوج کے دو دستے سارے علاقے میں گشت کے لیے گزشتہ شام روانہ کر دئیے گئے اور انٹیلی جنس کے نظام کو اور زیادہ وسیع کر دیا گیا تھا ۔
سلطان صلاح الدین قدرے پریشان بھی تھا ۔ وہ کیا عزم لے کر مصر میں آیا تھا اور اب سلطنت اسلامیہ کے استحکام اور وسعت کے لیے اس نے کیا کیا منصوبے بنائے تھے ، مگر اُس کے خلاف زمین کے اوپر سے بھی اور زمین کے نیچے سے بھی ایسا طوفان اُٹھا تھا کہ اسکے منصوبے لرزنے لگے تھے ۔ اُسے پریشانی یہ تھی کہ مسلمان کی تلوار مسلمان کی گردن پر لٹک رہی تھی ۔ ایمان نیلام ہونے لگا تھا ۔
سلطنت اسلامیہ کی خلافت بھی سازشوں کے جال میں اُلجھ کر سازشوں کا حصہ اور آلئہ کار بن گئی تھی ۔ زن اور زر نے عرب سر زمین کو ہلا ڈالا تھا ۔ سلطان ایوبی اس سے بھی بے خبر نہیں تھا کہ اسے قتل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ، لیکن اس پر وہ کبھی پریشان نہیں ہوا تھا ۔ کہا کرتا تھا کہ میری جان اللہ کے ہاتھ میںہے ۔ اس کی ذاتِ باری کو جب زمین پر میرا وجود بیکار لگے گاتو مجھے اُٹھالے گا۔لہٰذا اس نے اپنے طور پر اپنی حفاظت کی کبھی فکر نہیں کی تھی ۔
یہ تو اُس کی فوجی انتظامیہ کا بندو بست تھا کہ کہ اسکے گرد محافظوں کے دستے اور انٹیلی جنس کے آدمی موجود رہتے تھے اور علی بن سفیان تو اس معاملے میں بہت چوکس تھا ۔ایک تو یہ اُس کی ڈیوٹی تھی ، دوسرے یہ کہ وہ سلطان ایوبی کو اپنا خلیفہ ضرور سمجھتا تھا ۔
اس روز سلطان ایوبی نائبین کو احکامات اور ہدایات دے رہا تھا ،
جب دو گھوڑے اس کے محافظ دستے کی بنائی ہوئی حد پر رُکے۔ انہیں محافظوں کے کمانڈر نے روک لیا تھا۔ سوار میگناناماریوس اور موبی تھے ۔وہ گھوڑے سے اُترے تو گھوڑوں کی باگیں ان کے ساتھی نے تھام لیں ۔ موبی نے کمانڈر سے کہا کہ وہ اپنے باپ کو ساتھ لائی ہے۔ سلطان ایوبی سے ملنا ہے ۔ کمانڈر نے میگناناماریوس سے بات کی اور ملاقات کی وجہ پوچھی ۔
میگناناماریوس نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔ وہ یہ زبان سمجھتا ہی نہیں تھا۔ موبی نے اپنا نام اسلامی بتایا تھا ۔ ان نے کمانڈر سے کہا …… '' اس سے بات کرنا بے کار ہے، یہ گونگا اور بہرہ ہے …… ملاقات کا مقصد ہم سلطان ایوبی کو یا اس کے کسی بڑے افسر کو بتائیں گے ''۔
علی بن سفیان باہر ٹہل رہاتھا ۔ اس نے میگناناماریوس اورموبی کو دیکھا تو ان کے پاس آگیا۔ اس نے اسلام و علیکم کہا تو موبی نے وعلیکم السلام کہا۔ کمانڈر نے اسے بتایا کہ یہ سلطان سے ملنا چاہتے ہیں ۔
علی بن سفیان نے میگناناماریوس سے ملاقات کی وجہ پوچھی تو موبی نے اسے بتایا کہ یہ میرا باپ ہے ، گونگا اور بہرہ ہے۔ علی بن سفیان نے انہیں بتایا کہ سلطان ابھی بہت مصروف ہیں ، فارغ ہو جائیں گے تو اُن سے ملاقات کا وقت لیا جائے گا ۔
اس نے کہا ……''
آپ ملاقات کا مقصد بتائیں ۔ہو سکتا ہے کہ آپ کا کام سلطان سے ملے بغیر ہو جائے ۔
سلطان چھوٹی چھوٹی شکایتوں کے لیے ملاقات کاوقت نہیں نکال سکتے۔ متعلقہ محکمہ از خود ہی شکایت رفعہ کر دیتا ہے ''۔
'' کیا سلطان ایوبی اسلام کی ایک مظلوم بیٹی کی فریاد سننے کے لیے وقت نہیں نکال سکیں گے ؟''……
موبی نے کہا ……''مجھے جو کچھ کہنا ہے ، وہ میں ان ہی سے کہوں گی ''۔
'' مجھے بتائے بغیر آپ سلطان سے نہیں مل سکیں گی ''……
علی بن سفیان نے کہا ۔'' میں سلطان تک آپ کی فریاد پہنچائوں گا ۔ وہ ضروری سمجھیں گے تو آپ کو اندر بلا لیں گے'' …… علی بنی سفیان انہیں اپنے کمرے میں لے گیا ۔
موبی نے شمالی علاقے کے کسی قصبے کا نام لے کر کہا ……
''دو سال گزرے سوڈانی فوج وہاں سے گزری ۔ میں بھی لڑکیوں کے ساتھ فوج دیکھنے کے لیے باہر آگئی ۔ ایک کماندار نے اپنا گھوڑا موڑا اور میرے پاس آکر میرا نام پوچھا ۔ میں نے بتایا تو اس نے میرے باپ کو بلایا ۔ اسے پرے لے جا کر کوئی بات کی ، کسی نے کماندار سے کہا کہ یہ گونگا اور بہرہ ہے ۔ کماندار چلا گیا ۔ شام کے بعد چار سوڈانی فوجی ہمارے گھر آئے اور مجھے زبردستی اُٹھا کر لے گئے اور کماندار کے حوالے کردیا ۔اس کا نام بالیان تھا ۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے آیا اور حرم میں رکھ لیا ۔ اُس کے پاس چار اور لڑکیاں تھیں۔میں نے اسے کہا کہ میرے ساتھ باقاعدہ شادی کرلے، لیکن اس نے مجھے شادی کے بغیر ہی بیوی بنائے رکھا ۔ دوسال اس نے مجھے اپنے پاس رکھا ۔ سوڈانی فوج نے بغاوت کی تو بالیان چلا گیا ۔ معلوم نہیں مارا گیا ہے یا قید میں ہے ۔ آپ کی فوج اس کے گھر میں آئی اور ہم سب لڑکیوں کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا تم سب آزاد ہو
............سلسلہ جاری ہے