فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
قسط نمبر 27
میلے کے تین ماہ بعد……سلطان کی فوج میں تین جرائم کی رفتار بڑھنے لگی ……چوری ، جواء بازی اور رات کی غیر حاضری……یہ جرائم اس سے پہلے بھی ہوتے تھے ، لیکن نہ ہونے کے برابر تھے ۔
فوجی میلے کے بعد یہ وبا کی صورت اختیار کرنے لگے۔ ان تینوں کی بنیاد جواء بازی تھی ۔چوری کی وارداتیں اسی تک محدود تھیں کہ سپاہی سپاہی کی کوئی ذاتی چیز چرا کر بازار میں بیچ ڈالتا تھا، مگر ایک رات فوج کے تین گھوڑے غائب ہوگئے ۔سواروں اور سپاہیوں کی تعداد پوری تھی ۔کوئی بھی غیر حاضر نہیں تھا، اگر اس نقصان کو نظر انداز کردیاجاتا تو اگلی بار دس گھوڑے چوری ہوجاتے ۔ اعلیٰ حکام تک رپورٹ پہنچی ۔انہوں نے فوجوں کو تنبیہ کی ، سزاسے ڈرایا ، مگر یہ تینوں جرائم بڑھتے گئے۔
ایک رات ایک سپاہی پکڑا گیا۔ وہ کہیں سے کیمپ میں آرہا تھا۔ اس سے پہلے رات کو غیر حاضر ہونے والے سپاہی چوری چھپے سنتریوں سے بچ کر نکل جاتے اور بچتے بچاتے آجاتے تھے، لیکن یہ سپاہی لڑکھڑاتا آرہاتھا ۔ سنتری نے اسے دیکھ لیا اور اُسے پکارا ۔ سپاہی رُک گیا اور گر پڑا ۔ سنتری نے دیکھا کہ یہ خون میں نہایا ہوا تھا۔ اسے اُٹھا کر اپنے عہدے دار کے پاس لے گیا۔ اس کی مرہم پٹی کی گئی ، مگر وہ زندہ نہ رہ سکا۔ مرنے سے پہلے اس نے بتایا
کہ وہ اپنے ایک ساتھی سپاہی کو قتل کر آیا ہے اور اس کی لاش کیمپ سے نصف کوس دور ایک خیمے میں پڑی ہے ۔اس کے بیان کے مطابق وہاں تین خیمے تھے ۔وہ لوگ خانہ بدوش تھے ۔ان کے پاس خوب صورت عورتیں تھیں ۔ وہ ان عورتوں کی نمائش فوجیوں میں کرتے تھے ۔ رات کو سپاہی وہاں تک پہنچ جاتے تھے ، وہ دوسروں کو بتاتے تو وہ بھی چلے جاتے ۔
وہ خانہ بدوش صرف عصمت فروش نہیں تھے ۔ ان کی ہر عورت اپنے ہر فوجی گاہک کو یہ تاثر دیتی تھی کہ وہ اس پر فدا ہے اور اس کے ساتھ شادی کر لے گی ۔بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ انہوں نے سپاہیوں میں رقابت پیدا کردی تھی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ یہ دو سپاہی خانہ بدوشوں کے خیمے میں لڑ پڑے ۔ ایک مارا گیا اور دوسرا زخمی ہوکر آیا اور بیان دے کر مرگیا۔
دوسرے سپاہی کی لاش لانے کے لیے آدمی روانہ کردئیے گئے ۔ ان کے ساتھ ایک کمان دار بھی تھا۔ مرنے والے سپاہی نے راستہ اور جگہ بتادی تھی ۔ وہاں گئے تو دیکھا کہ سپاہی کی لاش پڑی ہے ۔ خیمے نہیں ہیں ، وہاں کے نشان بتارہے تھے کہ یہاں سے خیمے اُکھاڑے گئے ہیں ۔ رات کے وقت اُن کی تلاش ممکن نہیں تھی ۔ سپاہی کی لاش اُٹھا لائے ۔اس حادثے کی رپورٹ سلطان ایوبی کو دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ فوج میں جرائم بڑھ گئے ہیں اور تین گھوڑے بھی چوری ہوچکے ہیں ۔
سلطان نے علی بن سفیان کو بلا کر کہا کہ وہ سپاہیوں کے بھیس میں اپنے سراغ رساں فوج میں شامل کرکے معلوم کرے کہ یہ جرائم کیوں بڑھ گئے ہیں ۔سلطان نے اس سلسلے میں البرق کو بھی حکم دیا۔
اس ''کیوں ''کا جواب شہر کے اندر موجود تھا، جہاں تک علی بن سفیان کے سراغ رساں کی رسائی محال تھی ۔ یہ ایک بہت بڑا قلعہ نما مکان تھا۔ مصریوں کا ایک کنبہ نہیں ،بلکہ پورا خاندان اس میں رہتاتھا۔ اس مکان اور مکینوں کو شہر میں عزت حاصل تھی ، کیونکہ یہاں خیرات بہت تقسیم ہوتی تھی ۔ناداروں کو یہاں سے مالی مدد ملتی تھی ۔فوجی میلے میں اس خاندان نے سلطان ایوبی کو اشرفیوں کی دو تھیلیاں فوج کے لیے پیش کی تھی ۔ یہ سودا گر خاندان تھا۔ مصرمیں سلطان ایوبی کے آنے سے پہلے یہ مکان سوڈانی فوج کے بڑے رتبے والوں اور انتظامیہ کے حاکموں کی مہمان گاہ بنارہا تھا۔ سوڈانیوں کو سلطان ایوبی نے آکر ختم کردیا تو اس خاندان کی وفاداریاں حکومت کے ساتھ رہیں اور یہ سلطان ایوبی کا وفادار ہوگیا۔
جس روز سلطان ایوبی نے البرق اور علی بن سفیان کو حکم دیا کہ وہ فوج میں جرائم کی وبا کی وجوہات معلوم کریں ، اس سے اگلی رات اس مکان کے ایک کمرے میں دس بارہ آدمی بیٹھے تھے ۔
شراب کا دور چل رہاتھا۔ کمرے میں ایک بوڑھا آدمی داخل ہوا۔اسے دیکھ کر سب اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ا سکے ساتھ ایک بڑی خوب صورت لڑکی تھی جس کا آدھا چہرہ نقاب میں تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ بند کردیاگیا اور لڑکی نے نقاب اُٹھادیا ۔وہ بوڑھے کے ساتھ بیٹھ گئی ۔
''کل امیرِ مصر تک اطلاع پہنچ گئی ہے کہ فوج میں جوئے بازی اور بدکاری بڑھ گئی ہے ''۔ بوڑھے نے کہا……''ہماری آج کی یہ نشست بہت اہم ہے ۔امیر نے سپاہیوں کے بھیس میں فوج میں سراغ رساں شامل کرنے کا حکم دے دیاہے ۔ ہمیں ان سراغ رسانوں کو ناکام کرنا ہے ۔تازہ اطلاع بڑی ہی اُمید افزاہے ۔ دومصری سپاہیوں نے ایک عورت پر لڑ کر ایک دوسرے کو قتل کردیا ہے ،یہ ہمای کامیابی کی ابتدا ہے ۔''
''تین مہینوں میں صرف ایک مسلمان سپاہی نے دوسرے کو قتل کیا اور خود بھی قتل ہوا ہے ''۔ ایک آدمی نے بوڑھے کی بات کاٹ کر کہا……''کامیابی کی یہ رفتار بہت سست ہے۔ کامیابی ہم اسے کہیں گے جب ایوبی کا کوئی نائب سالار اپنے سالار کو قتل کردے گا''۔
'' میں کامیابی اسے کہوں گا کہ جب کوئی سالار یا نائب سالار صلاح الدین ایوبی کو قتل کرد ے گا ''۔
بوڑھے نے کہا ……''مجھے معلوم ہے کہ ایک ہزار سپاہی قتل ہوجائیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا مطمعِ نظر ایوبی کا قتل ہے ۔آپ سب کو پچھلے سال کے دونوں واقعات یاد ہوں گے۔ساحل پر سلطان ایوبی پر تیر چلایا گیا اور وہ خطا گیا۔ روم سے آدمی آئے ، وہ ایسے ناکام ہوئے کہ سب کے سب مارے گئے اور ایک بد بخت مسلمان ہوگیا۔ اس سے کیا ظاہر ہوتاہے ؟……یہ کہ سلطان کو قتل کرنا آسان نہیں جتنا آپ لوگ سمجھتے ہیں ۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایوبی قتل ہوجائے تو اس کا جانشین اس سے زیادہ سخت اور کٹر مسلمان ثابت ہو۔ اس لیے یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے کہ اس کی فوجوں کو اس خوب صورت تباہی کے راستے پر ڈال دو ، جس پر صلیب کے پرستاروں نے بغداد اور دمشق کے مسلمان اُمراء اور حاکموں کو ڈال دیاہے ''۔
''صلیب کے پرستاروں اور سوڈانیوں کو شکست کھائے ایک سال گزر گیاہے ''۔
ایک نے کہا……''اس ایک سال میں آپ نے کیا کیا ہے؟……
محترم !آپ بڑا لمبا راستہ اختیار کررہے ہیں ۔دو آدمیوں کا قتل بے حد لازمی ہے ۔ایک صلاح الدین ایوبی ، دوسرا علی بن سفیان ''۔
''اگر علی بن سفیان کو ختم کردیاجائے تو ایوبی اندھا اور بہرہ ہوجائے گا''۔ ایک اور نے کہا۔
''میں نے وہ آنکھیں حاصل کرلی ہیں جو سلطان ایوبی کے سینے کے ہر ایک راز کو دیکھ سکتی ہیں''۔ بوڑھے نے کہا اور اس لڑکی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا جو اس کے ساتھ آئی تھی ۔بوڑھے نے کہا……''یہ ہیں وہ آنکھیں ۔دیکھ لو اِن آنکھوں میں کیا جادو ہے ۔تم سب نے صلاح الدین ایوبی کے ایک حاکم خادم الدین البرق کانام سنا ہوگا۔تم میں سے بعض نے اسے دیکھا بھی ہوگا۔ صرف دو آدمی ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے سینے میں دیکھ سکتے ہیں ۔ایک علی ، دوسرا البرق ۔علی بن سفیان کو قتل کرنا حماقت ہوگیا، میں نے جس طرح البرق پر قبضہ کر لیاہے ، اسی طرح علی پر بھی کرلوں گا''۔
''البرق آپ کے قبضے میں آچکاہے ؟
……ایک نے پوچھا ۔
''ہاں! ''بوڑھے نے لڑکی کے ریشمی بالوں کو ہاتھ سے چھیڑ کر کہا……''میں نے اسے اِن زنجیروں میں جکڑ لیا ہے ۔ میں نے آج آپ سب کو چند اور باتیں بتانے کے علاوہ یہ خوش خبری بھی سنانے کے لیے بلایا ہے ۔ہمیں جلدی برخاست ہونا ہے ،کیونکہ ہم سب کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ٹھیک نہیں ۔اس لڑکی کو تم سب شاید جانتے ہو۔ مجھے بالکل اُمید نہیں تھی کہ یہ اتنی اُستادی سے یہ ڈرامہ کھیل لے گی۔اس کی عمر دیکھئے ،پختہ نہیں ہے ۔ میں نے پورے ایک سال ایسے موقع کی تلاش میں مارا مارا پھر تارہا کہ علی بن سفیان یا البرق کو یادونوں کو پھانس سکوں ۔میں ان سے ملا کبھی نہیں ،کیونکہ میں ان کی شناخت میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ فوجی حکام کو سلطان شہریوں سے دور رکھتا تھا۔ آخر اس نے فوجی میلے کا علان کیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ اس نے اپنے فوجی کمان داروں ، سالاروں اور عہدے داروں سے کہا ہے کہ میلے میں وہ شہریوں میں بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں اور ان پر اپنا رعب نہیں ، بلکہ اعتماد پیدا کریں ۔ مجھے علی بن سفیان کہیں نظر نہیں آیا۔ اس لڑکی کو میں ساتھ لے گیا تھا، البرق نظر آگیا۔ اس کے ساتھ دوکرسیاں خالی تھیں ۔ میں نے لڑکی کو اس کے پاس بٹھادیا۔ اسے میں آٹھ مہینوں سے استادی طریقے سکھارہا تھا۔ مجھے اپنا بوڑھا خاوند اور اپنے آپ کو خریدی ہوئی مظلوم لڑکی بتا کر اس نے البرق جیسے مومن کو اپنی خوب صورتی میں گرفتار کرلیا۔ ملاقات کا وقت اور جگہ طے کرلی ۔ میں نے اسے بتایا کہ اسے کھنڈر میں کیاناٹک کھیلناہے ۔لڑکی کھنڈر میں چلی گئی ۔میں چار آدمیوں کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ دو آدمی اس وقت یہاں موجود ہیں ۔دو کو آپ سب نہیں جانتے ۔ وہ ہمارے گروہ کے آدمی ہیں۔اس نے البرق پر ثابت کردیا کہ یہ اس کی خاطر جان دے دے گی۔ ہمارے چاروں ساتھیوں نے البرق پر اور اس پر تلواروں سے حملے کیے ۔ اس نے برچھی کے وار کیے ۔یہ ناٹک اس قدر حقیقی معلوم ہوتا تھا کہ البرق کو شک تک نہ ہوا۔ کم بخت کے دماغ میں یہ بھی نہ آئی کہ تلواروں کے اور برچھی کے اتنے وار ہوئے ، مگر کوئی زخمی تک نہ ہوا۔میں نے یہ کہہ کر یہ کھیل ختم کیا کہ یہ لڑکی اتنی بہادر ہے کہ کسی بہادر کے پاس ہی اچھی لگتی ہے ۔ میں نے اسے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے البرق کے حوالے کردیا''۔
''میں نے اسے اپنا نام آصفہ بتا رکھاہے ''۔
لڑکی نے کہا……''میں حیران ہوں کہ اتنی پختہ عمر کا حاکم اتنی آسانی سے میرے جال میں پھنس گیا ہے ۔میں نے اسے شراب کا عادی بنایا ہے ۔اس نے کبھی نہیں پی تھی ۔ پہلی بیوی اسی گھر میں رہتی ہے ۔ا سکے بچے بھی ہیں ، لیکن وہ سب کو جیسے بھول گیا ہے ''……لڑکی نے محفل کو تفصیل سے بتایا کہ اس نے کیسے کیسے طریقوں سے سلطان ایوبی کے اس معتمد خاص کی عقل کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے ۔
''ان تین مہینوں میں یہ لڑکی مجھے صلاح الدین ایوبی کے کئی قیمتی راز دے چکی ہے ''۔
بوڑھے نے کہا…… ''سلطان ایوبی بہت زیادہ فوج تیار کررہاہے ۔ اس میں سے وہ آدھی مصر میں رکھے گا اور باقی نصف کو اپنی کمان میں عیسائی
بادشاہوں کے خلاف لڑانے کے لیے جائے گا۔ اس کی نظر یروشلم پر ہے ، لیکن البرق سے اس لڑکی نے جو راز لیے ہیں ، وہ یہ ہیں کہ سلطان سب سے پہلے اپنے مسلمان حکمرانوں اور قلعہ داروں کو متحد کرے گا ۔ ان کے اتحاد کو صلیب کے پرستاروں نے بالکل اسی طرح بکھیر دیاہے جس طریقے سے ہم نے البرق کو اپنے قبضے میں لیا
ہے ''۔
''تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ البرق اب ہمارے گروہ کا فرد ہے؟''……ایک آدمی نے پوچھا۔
''نہیں ''۔بوڑھے نے جواب دیا۔ ''وہ سچے دِل سے ایوبی کا وفادار ہے ۔ وہ اتنا ہی وفادار اس لڑکی کا بھی ہے۔
یہ لڑکی سلطان ، قوم اور اسلام کی وفاداری کا اظہار ایسے والہانہ طریقے سے کرتی ہے کہ البرق اسے ، قوم کی جانباز بیٹی سمجھتا ہے ۔اس لڑکی کے حسن و جوانی اور محبت کے عملی اظہار کا جادو الگ ہے ۔ البرق کو ہم اپنے ساتھ نہیں ملا سکتے ۔ ضرورت ہی کیا ہے ۔وہ پوری طرح ہمارے ہاتھوں میں کھیل رہاہے ''۔
''سلطان ایوبی اور کیا کرنا چاہتاہے؟''۔اس گروہ کے ایک رُکن نے پوچھا۔
''اس کے ذہن میں سلطنتِ اسلامیہ ہے ''۔ بوڑھے نے کہا۔
''وہ صلیب کی سلطنت میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کا منصوبہ بناچکاہے ۔
ہمارے ان جاسوسوں کو جو سمند رپار سے آئے ہیں ،ایوبی نے گرفتار اور بے کار کرنے کے لیے علی بن سفیان کی نگرانی میں ایک بہت بڑا گروہ تیار کیاہے۔ البرق سے حاصل کی ہوئی اطلاعات کے مطابق اس نے جانبازوں کی ایک الگ فوج تیار کی ہے ، جسے وہ صلیبی ملکوں میں بھیج کر جاسوسی اور تباہی کرائے گا۔ اس فوج کی ٹریننگ شروع ہوچکی ہے ۔صلاح الدین ایوبی کے منصوبے بہت خطرناک ہیں ۔ انہی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے فوجی میلے کا ڈھونگ رچایا اور چھ سات ہزار جوان بھرتی کر لیے ہیں ۔لوگ ابھی تک بھرتی ہورہے ہیں ۔بھرتی ہونے والوں میں سوڈانی بھی ہیں ۔مجھے اوپر سے جو ہدایات ملی ہیں ،وہ یہ ہیں کہ ایوبی کی فوج میں بدکاری کے بیج بونے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں عورت اور جواء داخل کردو''۔
بوڑھے نے بتایا کہ اس نے فوجی میلے کے فوراً بعد اپنے آدمی بھرتی کرادئیے تھے ۔انہوں نے بڑی خوبی سے فوج میں جواء شروع کرادیاہے ۔جواء اور عورت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو چوری اور قتل تک لے جاتی ہیں ۔اس نے دوسرا طریقہ یہ بتایا کہ عصمت فروش عورتوں کو ٹریننگ دے کر فوجی کیمپوں کے ارد گرد چھوڑ دیا گیا ہے ، جو یہ ظاہرنہیں ہونے دیتیں کہ وہ پیشہ ور ہیں ۔انہوں نے سلطان کے فوجیوں کو بدی کے راستے پر ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان میں رقابت بھی پیدا کردی ہے ۔
بوڑھے نے کہا……''
اس کی کامیابی
پرسوں سامنے آئی ہے۔دوسپاہی ایک عورت کے خیمے میں بیک وقت پہنچ گئے ۔دونوں لڑپڑے اور ایک دوسرے کو بُری طرح زخمی کردیا۔ایک تو خیمے میں ہی مرگیا۔ دوسرے کے متعلق پتہ چلا کہ کیمپ میں جاکر مرگیاہے ……یہ رپورٹ سلطان ایوبی تک پہنچ گئی ہے۔ اس نے
علی بن سفیان اور
البرق کو حکم دیا ہے کہ فوجوں میں اپنے سراغ رساں بھیج کر معلوم کریں کہ جواء بازی ، چوری چکاری اور بدکاری کیوں بڑھتی جارہی ہے۔ لہٰذا آپ سب ان تمام عورتوں سے جو اسی کام میں مصروف ہیں ،کہہ دیں کہ کیمپوں کے قریب نہ جائیں ''۔
اسی مجلس میں یہ بھی بتایا گیا کہ آصفہ جس کا اصلی نام کچھ اور تھا، پانچویں ، چھٹی رات اس بوڑھے کو اطلاعیں دینے جاتی ہے جو وہ البرق سے حاصل کرتی ہے ،
جس رات اُسے باہر
نکلنا ہوتاہے ،وہ البرق کو شراب میں ایک خاص سفوف گھول کر پلادیتی ہے۔ا سکے اثر سے صبح تک اس کی آنکھ نہیں کھل سکتی ۔
مجلس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ مصرکے شہریوں اور قصبوں میں خفیہ قحبہ خانے اور قمار خانے قائم کردئیے گئے ہیں ۔ان کے اثرات اُمید افزا ہیں ۔تربیت یافتہ عورتیں اچھے اچھے گھرانوں کے نوجوانوں کو بدکاری کے راستے پر ڈالتی جارہی ہیں ۔اب کوشش یہ کی جائے گی کہ مسلمان لڑکیوں میں بھی بے حیائی کا رجحان پیدا کیا جائے۔
یہ محفل جو جاسوسوں کا ایک خفیہ اجلاس تھا، برخاست ہوئی ۔
وہ سب اکٹھے باہر نہ نکلے ۔ایک آدمی باہر جاتا تھا۔ دس پندرہ منٹ بعد دوسرا آدمی نکلتا تھا۔ بوڑھا بھی چلایا تھا۔ صرف آصفہ اور ایک آدمی رہ گیا ۔آصفہ نے نقاب میں چہرہ چھپایا اور اس آدمی کے ساتھ نکل گئی ۔
البرق نے آصفہ کو ایک راز بنا کے رکھا ہوا تھا۔ اس نے ابھی کسی کونہیں بتایا تھا کہ اس نے دوسری شادی کرلی ہے ۔دوسری شادی معیوب نہیں تھی ،لیکن وہ ڈرتا تھا کہ دوست مذاق کریں گے کہ اتنا عرصہ ایک بیوی کے ساتھ گزار کر چالیس سال کی عمر میں نوجوان لڑکی کے ساتھ شادی کرلی ،مگر یہ بھید چھپ نہ سکا۔
علی بن سفیان نے شہر میں اور فوجی کیمپوں کے ارد گرد اپنے جاسوس پھیلا رکھے تھے ۔اسے یہ اطلاعیں مل رہی تھی کہ فوجی میلے کے بعد شہر میں بھی جواء اور بدکاری بڑھ رہی ہے۔ ایک روز ایک سراغ رساں نے
علی بن سفیان کو یہ رپورٹ دی کہ گزشتہ تین مہینوں میں اس نے چار بار دیکھا ہے کہ خادم الدین البرق کے گھر سے رات اُس وقت جب سب سو جاتے ہیں ،ایک عورت سیاہ لبادے میں لپٹی ہوئی نکلتی ہے۔وہ تھوڑی دور جاتی ہے تو ایک آدمی اس کے ساتھ ہوجاتا ہے ۔سراغ رساں نے بتایا کہ دوبار اس نے یہیں تک دیکھا، تیسری بار اس نے اس عورت کا پیچھا کیا، وہ اس آدمی کے ساتھ ایک مکان میں چلی گئی ۔وہاں سے کچھ دیر بعد نکلی اور اُس آدمی کے ساتھ واپس چلی گئی۔
اس سراغ رساں نے بتایا کہ اس نے اس عورت کو گزشتہ رات گھر سے نکلتے ،ایک آدمی کے ساتھ جاتے دیکھا تو تعاقب کیا۔وہ اسی مکان میں داخل ہوگئی ۔ذر اسی دیر بعد وہ ایک آدمی کے ساتھ مکان سے نکلی ۔وہ دونوں شہر کے ایک بہت بڑے مکان میں داخل ہوگئے ۔سراغ رساں مکان سے دُور دُور رہا۔بہت سا وقت گزر جانے کے بعد اس مکان سے ایک ایک کرکے گیارہ آدمی نکلے ۔ آخر میں عورت ایک آدمی کے ساتھ نکلی ۔سراغ رساں اندھیرے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کے تعاقب میں گیا۔ البرق کے مکان سے کچھ دُور آدمی ایک اور طرف چلا گیا اور عورت البرق کے مکان میں داخل ہوگئی۔
سراغ رساں البرق جیسے حاکم کے گھر کے متعلق کوئی بات کہنے کی جرأت نہیں کرسکتاتھا، لیکن علی بن سفیان کی ہدایات اور احکام بڑے ہی سخت تھے۔ اس نے اپنے جاسوسوں ، مخبروں اور سراغ رسانوں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کی کسی حرکت کو شک سے دیکھیں تو بھی اسے بتائیں اور وہ کسی کے رتبے کا لحاظ نہ کریں ،جہاں انہیں کسی قسم کا شک ہو، خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، وہ علی بن سفیان کو تفصیل سے بتائیں ۔یہ سبق جاسوسی کی ٹریننگ میں شامل تھا کہ جاسوسی کی کامیابی کا دارومدار ایسی ہی حرکتوں اور باتوں سے ہوتا ہے ،جنہیں بے معنی سمجھ کر نظر انداز کردیاجاتاہے۔
اس سراغ رساں نے چار مرتبہ جو مشاہدہ کیاتھا، وہ علی بن سفیان کے لیے اہم تھا، وہ البرق کی بیوی ک اچھی طرح جانتا تھا، وہ ایسی عورت نہیں تھی کہ راتوں کو کسی غیر مرد کے ساتھ باہر جائے ۔البرق کی کوئی جوان بیٹی بھی نہیں تھی۔
یہ تو کسی کو بھی علم نہ تھا کہ البرق نے ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ شادی کر لی ہے ۔اس نے اس مسئلے پر بہت غور کیا، اُسے یہ خیال بھی آگیا کہ البرق اس کا دوست بھی ہے ۔اُسے حق پہنچتا تھا کہ اس کے دوست کے گھر میں کوئی گڑبڑ ہے اس کے لیے کچھ کرے ،
مگر اس کے ذہن میں جوسوچ غالب تھی ،وہ یہ تھی کہ شہر میں مشکوک عورتوں کا ریلا سا آگیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ البرق کسی بدکار عورت کے چکر میں میں آگیا ہو؟
ایک طریقہ اس کے
دماغ میں آگیا۔ اس نے اپنے محکمے کی ایک عورت کو اس روپ میں البرق کے گھر میں بھیجا کہ وہ ایک مظلوم عورت ہے ۔ا س کا خاوند مر گیا ہے اور اس کے بیٹے آوارہ ہوگئے ہیں ، لہٰذا اس کی اعانت کی جائے ۔
ہدایت کے مطابق یہ عورت اُس وقت البرق کے گھر میں گئی جب وہ گھر میں نہیں تھا۔ دوسری ہدایت کے مطابق وہ سارے گھر میں پھری تو اُسے آصفہ نظر آگئی۔ یہ عورت البرق کی پہلی بیوی سے ملی ۔اپنی ''فریاد'' پیش کی اور کہا کہ وہ البرق کی پہلی بیوی( البرق سے اس کی سفارش کرے) ۔باتوں باتوں میں اس نے کہا ……''آپ کی بیٹی کی شادی ہوگئی ہے یا ابھی کنواری ہے؟'' ……اسے جواب ملا ……''یہ میری بیٹی نہیں ، میرے خاوند کی دوسری بیوی ہے ۔
تین مہینے ہوئے انہوں نے شادی کی ہے''۔
علی بن سفیان کے لیے یہ اطلاع حیران کن تھی۔اس کے دل میں یہی شک پیدا ہوگیا کہ رات کو باہر جانے والی اس کی نئی بیوی ہوسکتی ہے ۔علی نے ایک اور عورت کے ہاتھ البرق کی پہلی بیوی کو پیغام بھیجا کہ وہ اُسے کہیں باہر ملنا چاہتا ہے ، مگر البرق کو پتہ نہ چلے ، اس نے یہ بھی کہلا بھیجا کہ ان کے گھر کے متعلق کوئی بہت ہی ضروری بات کرنی ہے۔
علی نے ملاقات کے لیے ایک جگہ بھی بتادی اور وقت وہ بتا دیا جب
البرق دفتر میں مصروف ہوتا تھا…… وہ آگئی ۔علی بن سفیان کے دل میں اس معزز عورت کا بہت ہی احترام تھا ۔اس نے البرق کی بیوی سے کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ البرق نے دوسری شادی کرلی ہے ۔
بیوی نے جواب دیا……''ﷲ کا شکر ہے کہ اس نے دوسری شادی کی ہے ۔چوتھی اور پانچویں نہیں کی''۔
باتیں کرتے کرتے علی بن سفیان نے پوچھا ۔''وہ کیسی ہے؟''
''بہت خوب صورت ہے ''۔بیوی نے جواب دیا۔
''شریف بھی ہے ؟''…… علی بن سفیان نے پوچھا ……''آپ کو اس پر کسی قسم کا شک تو نہیں؟…… کچھ دیر تک وہ گہری سوچ میں پڑی رہی ۔علی نے کہا……''اگر میں یہ کہوں کہ وہ کبھی کبھی رات کو باہر چلی جاتی ہے تو آپ بُرا تو نہ جانیں گی ؟''
وہ مُسکرائی اور کہنے لگی……''میں خود پریشان تھی کہ یہ بات کس سے کروں ۔ میرے خاوند کا یہ حال ہے کہ اس کا غلام ہوگیا ہے ۔ مجھ سے تو اب بات بھی نہیں کرتا۔ میں اس لڑکی کے خلاف خاوند کے ساتھ بات کروں تو وہ مجھے گھر سے نکال دے ۔وہ سمجھے گا کہ میں حسد سے شکایت کررہی ہوں ۔یہ لڑکی صاف نہیں ۔ ہمارے گھر میں شراب کی بو بھی کبھی نہیں آئی تھی ۔ اب وہاں مٹکے خالی ہوتے ہیں ''۔
''شراب ؟''
علی بن سفیان نے چونک کر پوچھا……
''البرق شراب بھی پینے لگاہے ؟''
''صرف پیتا نہیں ''۔بیوی نے کہا ……
''بد مست اور مدہوش ہوجاتا ہے۔ میں نے چھ بار اس لڑکی کو رات کے وقت باہر جاتے اور بہت دیر بعد آتے دیکھا ہے ۔میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جس رات لڑکی کو باہر جانا ہوتا ہے ،
اس رات البرق بے ہوش ہوتاہے ۔صبح بہت دیر سے اُٹھتا ہے ۔ لڑکی بدمعاش ہے ۔اسے دھوکہ دے رہی ہے''۔
''لڑکی بدمعاش نہیں''۔ علی بن سفیان نے کہا…''وہ جاسوس ہے۔
وہ البرق کو نہیں ، قوم کو دھوکہ دے رہی ہے''۔
''جاسوس ؟'' بیوی نے چونک کر کہا……''میرے گھر میں جاسوس ؟'' وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔دانت پیس کر بولی……
''آپ جانتے ہیں کہ میں شہید کی بیٹی ہوں ۔البرق پکا مسلمان تھا ۔ اس نے زندگی اسلام کے نام پر وقف کررکھی تھی۔
میں بچوں کو جہاد کے لیے تیار کرہی ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ میرے بچوں کا باپ ایک جاسوس لڑکی کے قبضے میں آگیا ہے۔ میں اپنے بچوں کے باپ کو قربان کرسکتی ہوں ، قوم اور اسلام کو قربان ہوتا نہیں دیکھ سکتی ۔ میں دونوں کو قتل کردوں گی''۔
علی بن سفیان نے اسے بڑی مشکل سے ٹھنڈا کیا اور اسے سمجھا یا کہ ابھی یہ یقین کرنا ہے کہ یہ لڑکی جاسوس ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ البرق بھی جاسوسوں کے گروہ میں شامل ہوگیا ہے یا اسے شراب پلا کر صرف استعمال کیاجارہا ہے ۔ اس عورت کو یہ بھی بتایا گیا کہ جاسوسوں کو قتل نہیں ، گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے متعلق پوچھا جاتا ہے ۔ علی بن سفیان نے اسے کچھ ہدایات دیں اور اُسے کہا کہ وہ لڑکی کی ہر حرکت پر نظر رکھے ……یہ عورت چلی گئی ۔یوں معلوم ہوتا تھا جیسے علی بن سفیان کی ہدایات پر ٹھنڈے دل سے عمل کرے گی ، مگر اس کی چال اور اسکے انداز سے یہ بھی معلوم ہوتاتھا کہ کسی بھی وقت بے قابو ہوجائے گی ۔ وہ حرم کی عورت نہیں تھی، وہ خاوند کی وفادار بیوی اور ملک و ملت پر جان نثار کرنیوالی قوم کی بیٹی تھی۔
.........سلسلہ جاری ہے