Sultan Salah ud Din Ayyoubi Episode 26


فاتح بیت المقدس

سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ

قسط نمبر 26

میلے کی صبح طلوع ہوئی ۔ وہ میدان بہت ہی وسیع تھا جس کے تین اطراف تماشائیوں کا ہجوم تھا، جس طرف ریت کے ٹیلے تھے ادھر کسی کو نہیں جانے دیا گیا تھا۔ جنگی دف بجنے لگے ۔گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں اس طرح سنائی دیں ، جیسے سیلابی دریا آرہا ہو۔
گرد آسمان کی طرف اُٹھ رہی تھی ۔ یہ دو ہزار سے زیادہ گھوڑے تھے۔ پہلا گھوڑا سوار میدان میں داخل ہوا۔
یہ سلطان صلاح الدین ایوبی تھا ۔ اس کے دونوں طرف علم بردار تھے اور پیچھے سواروں کا دستہ تھا ۔ گھوڑوں پر پھول دار چادری ڈالی گئی تھیں ۔ہر سوار کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔ بر چھی کے چمکتے ہوئے پھل کے ساتھ رنگین کپڑے کی چھوٹی سی جھنڈی تھی۔ ہر سوار کی کمر سے تلوار لٹک رہی تھی ۔ گھوڑے دُلکی چال آرہے تھے ۔ سوار گردنیں تانے اور سینے پھیلائے بیٹھے تھے ۔
اُن کے چہروں پر جلالی تاثر تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھاجیسے یہ تماشائیوں کے دم بخود ہجوم سے
اعلیٰ و برتر ہوں ۔
اُن کی آن بان دیکھ کر تماشائیوں پر خاموشی طاری ہوگئی تھی ۔ ان پر رعب چھا گیا تھا ۔

تماشائی نیم دائرے میں کھڑئے تھے ۔ ان کے پیچھے تماشائی گھوڑوں پر بیٹھے تھے اور ان کے پیچھے کے تماشائی اونٹوں پر بیٹھے تھے۔ ایک ایک گھوڑے اور ایک ایک اونٹ پر دودو تین تین آدمی بیٹھے تھے ۔ ان کے آگے ایک جگہ شامیانہ لگایا گیا تھا، جس کے نیچے
کرسیاں رکھی تھی۔ یہاں اونچی حیثیت والے تماشائی بیٹھے تھے۔ ان میں تاجر بھی تھے ۔ سلطان کی حکومت کے افسر اور شہر کے معززین بھی ۔ان میں قاہرہ کی مسجدوں کے امام بھی بیٹھے تھے۔ انہیں سب سے آگے بٹھایا گیا تھا، کیونکہ سلطان ایوبی مذہبی پیشوائوں اور علماء کا اس قدر احترام کرتا تھا کہ ان کی موجودگی میں ان کی اجازت کے بغیر بیٹھتا نہیں تھا۔ ان میں سلطان کے وہ افسر بھی بیٹھے تھے جو انتظامیہ کے تھے ، لیکن ان کا تعلق فوج سے تھا۔سلطان نے انہیں خاص طور پر کہا تھا کہ ان زعماء میں بیٹھ کر ان کے ساتھ دوستی پیدا کریں ۔ان میں خادم الدین البرق تھا ۔
علی بن سفیان کے بعد یہ دوسرا آدمی تھا جو سلطان ایوبی کے خفیہ منصوبوں ، مملکت اور فوج کے ہر راز سے واقف تھا۔ اس کا کام ہی ایسا تھا اور اس کا عہدہ سالار جتنا تھا۔ جنگ کے منصوبے اور نقشے اسی کے پاس ہوتے تھے ۔ اس کی عمر چالیس سال کے قریب تھی۔ وہ عرب کے مردانہ حسن اور جلال کا پیکر تھا۔ جسم توانا اور چہرہ ہشاش بشاش تھا۔

البرق کے ساتھ ایک لڑکی بیٹھی تھی ۔ بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ نوجوان تھی ۔لڑکی کے ساتھ ایک آدمی بیٹھا تھا جس کی عمر ساٹھ سال سے کچھ زیادہ تھی۔ وہ کوئی امیر کبیر لگتاتھا۔البرق کئی بار اس لڑکی کی طرف دیکھ چکا تھا۔ ایک بار لڑکی نے بھی اسے دیکھا تو مسکرادی ۔ پھر اس نے بوڑھے کی طرف دیکھا تو اس کی مُسکراہٹ غائب ہوگئی۔
گھوڑے تماشائیوں کے سامنے سے گزر گئے تو شتر سوار آگئے ۔
اونٹوں کو گھوڑوں کی طرف رنگ دار چادروں سے سجایا گیا تھا۔ ہر سوار کے ہاتھ میں ایک لمبا نیزہ اور اس کے پھل سے ذرانیچے تین تین انچ چوڑے اور ڈیڑ ھ ڈیڑھ فٹ لمبے دورنگے کپڑے جھنڈیوں کی طرف بندھے ہوئے تھے۔ ہوا میں وہ پھڑ پھڑ اتے بہت ہی خوب صورت لگتے تھے ۔ہر سوار کے کندھوں سے ایک کمان آویزاں اور اونٹ کی زین کے ساتھ رنگین ترکش بندھی تھی۔ اونٹوں کی گردنیں خم کھا کر اوپر کو اُٹھی ہوئیں اور سر جیسے فخر سے اونچے ہوگئے تھے ۔ سواروں کی شان نرالی تھی ۔
گھوڑ سواروں کی طرح ہر شتر سوار سامنے دیکھ رہا تھا۔ اُن کی آنگیں بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتی تھیں۔
یہ اونٹ انہی اونٹوں جیسے تھے جن پر تماشائی بیٹھے ہوئے تھے، لیکن فوجی ترتیب ،فوجی چال اور فوجی سواروں کے نیچے وہ کسی اور جہاں کے لگتے تھے۔

البرق نے اپنے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی کو ایک بار پھر دیکھا ۔اب کے لڑکی نے اسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں ایسا جادو تھا کہ البر ق نے اپنے آپ میں بجلی کا جھٹکا محسوس کیا۔

لڑکی کے ہونٹوں پر شرم و حیا کا تبسم آگیا اور اس نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے بوڑھے کو دیکھا تو اس کا تبسم نفرت میں بدل گیا۔ البرق کی ایک بیوی تھی، جس میں سے اُس کے چار بچے تھے۔ وہ شاید اس بیوی کو بھول گیا تھا۔ وہ لڑکی کے اس قدر قریب بیٹھا تھا کہ لڑکی کا اُٹھا ہوا ریشمی نقاب ہوا سے اُڑ کر کئی بار البرق کے سینے سے لگا۔ ایک بار ا س نے نقاب ہاتھ سے پرے کیا تو لڑکی نے شرما کر معذرت کی ۔البرق مسکرایا ، منہ سے کچھ نہ کہا۔

شتر سواروں کے پیچھے پیادہ فوج آرہی تھی۔ ان میں تیر اندازوں اور تیغ زنوں کے دستے تھے۔اُن کی ایک ہی جیس چال ، ایک ہی جیسے ہتھیار اور ایک ہی جیسا لباس تماشائیوں پر وہی تاثر طاری کررہا تھا۔ جو سلطان ایوبی کرنا چاہتا تھا۔ سپاہیوں کے چہروں پر تندرستی اور توانائی کی رونق تھی اور وہ خوش و خرم اور مطمئن نظر آتے تھے ۔یہ ساری فوج نہیں ، صرف منتخب دستے تھے ۔ ان کے پیچھے منجنیقیں آرہی تھیں، جنہیں گھوڑے گھسیٹ رہے تھے ۔ ہر منجنیق دستے کے پیچھے ایک ایک گھوڑا گاڑی تھی جس میں بڑے بڑے پتھر اور ہانڈیوں کی قسم کے برتن رکھے تھے ۔ ان میں تیل جیسی کوئی چیز بھری ہوئی تھی جو منجنیقوں سے پھینکی جاتی تھی ۔ جہاں یہ برتن گرتاتھا وہ کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ کر سیال مادے کو بہت سی جگہ پر بکھیر دیتا تھا۔ اس پر آتشیں تیر چلائے جاتے تو سیال مادہ شعلے بن جاتاتھا ۔

سلطان ایوبی کی قیادت میں یہ سوار اور پیادہ دستے ، نیم دائرے میں کھڑے اور بیٹھے ہوئے تماشائیوں کے آگے سے دُور آگے نکل گئے ۔

صلاح الدین ایوبی راستے میں سے واپس آگیا۔ اُس کے گھوڑے کے آگے علم برداروں کے گھوڑے ، دائیں ، بائیں اور پیچھے محافظو کے گھوڑے اور اُن کے پیچھے نائب سالاروں کے گھوڑے تھے۔ سلطان نے گھوڑا روک لیا، کود کر اُترا اور تماشائیوں کو ہاتھ ہوا میں لہرالہرا کر سلام کرتا شامیانے کے نیچے چلا گیا،

وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔سلطان ایوبی نے سب کو سلام کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔

سوار اور پیادہ دستے دُور آگے جاکر ٹیلوں کے عقب میں چلے گئے ۔ میدان خالی ہوگیا۔ ایک گھوڑا سوار سرپٹ گھوڑا دوڑ اتا آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گھوڑے کی لگام اور دوسرے میں اونٹ کی رسی تھی ۔ اونٹ گھوڑے کی رفتار کے ساتھ دوڑتا آرہا تھا۔میدان کے وسط میں آکر گھوڑے سوار گھوڑے پر کھڑا ہوگیا۔ اس نے باگیں چھوڑ دیں ۔ وہ اُچھل کر اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہوگیا، وہاں سے کود کر گھوڑے پر سوار ہوا۔گھوڑے اور اونٹ کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ گھوڑے کی پیٹھ سے وہ اونٹ کی پیٹھ پر چلا گیااور دُور آگے جاکر غائب ہوگیا۔

خادم الدین البرق دائیں کو ذراساجھکا۔ اُس کے منہ اور لڑکی کے سر کے درمیان دو تین انچ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ لڑکی نے اسے دیکھا ۔البرق مُسکرایا۔
لڑکی شرماگئی ۔
بوڑھے نے دونوں کو دیکھا۔ اس کے بعد بوڑھے کے ماتھے کے شِکن گہرے ہوگئے ۔

اچانک ٹیلوں کے پیچھے سے ہانڈیوں کی طرح کے مٹی کے وہ برتن جو گھوڑا گاڑیوں پر لدے ہوئے تھے ،اوپر کو جاتے ، آگے آتے اور میدان میں گرتے نظر آئے ۔بر تن ٹوٹتے تھے تو تیل اچھل کر بکھر جاتا تھا۔کم و بیش ایک سو برتن گرے اور اُن سے نکلا ہوا مادہ تقریباٍ ایک سو گز لمبائی اور اسی قدر چوڑائی میں بکھر گیا۔ایک ٹیلے پر چھ تیر انداز نمودار ہوئے ۔انہوں نے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلائے جو سیال مادے والی جگہ گڑ گئے ۔ فوراً وہ تمام جگہ ایک ایسا شعلہ بن گئی جو گھوڑے کی پیٹھ تک بلند اور کوئی ایک سو گز تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک طرف سے چار گھوڑ سوار گھوڑے پوری رفتار سے دوڑتے آئے ۔ شعلے کے قریب آکر وہ رُکے نہیں ۔رفتار کم بھی نہ کی ۔ چاروں شعلے میں چلے گئے ۔ تماشائی دم بخود تھے کہ وہ جل جائیں گے مگر وہ اتنے وسیع شعلے میں دوڑتے نظر آرہے تھے ۔آخر وہ چاروں شعلے میں سے نکل گئے ۔تماشائیوں نے داد و تحسین کا وہ شور بلند کیا کہ آسمان پھٹنے لگا۔ دو سواروں کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی ۔ دونوں بھاگتے گھوڑوں سے ریت پر گرے اور تھوڑی دور لڑھکنیاں کھاتے گئے ۔ان کے کپڑوں کی آگ بجھ گئی۔

البرق اس شور و غل اور سواروں کے کمالات سے نظریں پھیرے ہوئے لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔لڑکی اس کی طرف دیکھتی اور ذرا سا مسکرا کر بوڑھے کو دیکھنے لگتی تھی۔ بوڑھا اُٹھ کر جانے کیوں چلا گیا۔ لڑکی اسے جاتا دیکھتی رہی ۔

البر ق کو معلوم تھا کہ لڑکی بوڑھے کے ساتھ آئی ہے ۔ اس نے لڑکی سے پوچھا۔

''تمہارے والد صاحب کہاں چلے گئے ہیں؟''

''یہ میرا باپ نہیں ''……لڑکی نے جواب دیا……
''میرا خاوند ہے ''۔

''خاوند؟''……
البرق نے حیرت سے پوچھا……''کیا یہ شادی تمہارے والدین نے کرائی ہے ؟''

''اس نے مجھے خریدا ہے ''……
لڑکی نے اُداس لہجے میں کہا۔

''وہ کہاں گیا ہے ؟''……البرق نے پوچھا۔

''ناراض ہوکر چلا گیا ہے ''…لڑکی نے جواب دیا…''اسے شک ہوگیا ہے کہ میں آپ کو دلچسپی سے دیکھتی ہوں ''

''کیا تم واقعی مجھے دلچسپی سے دیکھتی ہو؟''……
البر ق نے رومانی انداز سے پوچھا۔

لڑکی کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مُسکراہٹ آگئی ۔دھیمی سی آواز میں بولی ۔ ''میں اس بوڑھے سے تنگ آگئی ہوں۔ اگر کسی نے مجھے اس سے نجات نہ دلائی تو میں خود کشی کرلوں گی''۔

میدان میں سوار اور پیادہ فوجی حیران کن کرتب دکھا رہے تھے اور حرب و ضرب کے مظاہرے کرہے تھے ۔ تماشائیوں نے جنگی مظاہرے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انہوں نے صرف سوڈانی فوج دیکھی تھی جو خزانے کے لیے سفید ہاتھی
بنی ہوئی تھی ۔
اس کے کمان دار بادشاہوں کی طرف باہر نکلتے تھے ۔ ان کے ساتھ اگر فوج کا دستہ ہو
تو وہ دیہات کے لیے مصیبت بن جاتے تھے۔ مویشی تک کھول کر لے جاتے تھے ۔ کسی کے پاس اچھی نسل کا اونٹ ، گھوڑا دیکھتے تو زبردستی لے جاتے تھے۔ لوگوں کے دِل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ فوج رعایا پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے رکھی جاتی ہے ، لیکن سلطان کی فوج بہت مختلف تھی ۔ایک تو وہ دستے تھے جو مظاہرے میں شریک تھے ۔باقی فوج کو سلطان کی ہدایات کے مطابق تماشائیوں میں پھیلا دیا گیا تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر ان پر یہ تاثر پیدا کریں کہ فوجی ان کے بھائی ہیں اور انہی میں سے ہیں ۔بد تمیزی یا بد اخلاقی کرنے والے فوجی کے لیے بڑی سخت سزا مقرر کی گئی تھی۔

خادم الدین البرق جو سلطان ایوبی کی جنگی مشاورتی محکمے کا سربراہ اور راز داں تھا، سلطان کی ہدایات اور میلے کے شور و غل سے بالکل ہی لاتعلق ہوگیا تھا۔ لڑکی ایک جادو بن کر اس کی عقل پر غالب آگئی تھی ۔اس نے لڑکی میں دلچسپی کا ظہار کیا، اسے لڑکی نے قبول کرلیا تھا۔ اس سے دونوں کے لیے سہولت پیدا ہوگئی ۔ البرق نے کہیں ملنے کو کہا تو لڑکی نے جواب دیا کہ وہ خریدی ہوئی لونڈی ہے اور بوڑھے نے اسے قید میں رکھا ہوا ہے ۔
وہ اس پر ہر وقت نظر رکھتا ہے ۔لڑکی نے یہ بھی بتایا کہ بوڑھے کے گھر چار بیویاں ہیں … البرق نے اپنے رُتبے کو فراموش کردیا۔ عشق باز نوجوان کی طرح اُس نے ملاقات کی وہ جگہیں بتانی شروع کردیں جہاں آوارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہیں جاتا تھا۔ ان جگہوں میں ایک جگہ لڑکی کو پسند آگئی۔ یہ شہر سے باہر قدیم زمانے کاکوئی کھنڈر تھا۔ البرق نے لڑکی سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اسے بوڑھے سے آزاد کرانے کی کوشش کرے گی..

تیسری رات البرق گھر سے نکلا وہ حاکموں کی شان سے گھر سے نکلا کرتا تھا،مگراس رات وہ چوروں کی طرح باہر نکلا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک طرف چل پڑا ۔ قاہرہ پر سکوت طاری تھا۔ فوجی میلہ ختم ہوئے دو دِن گزر گئے تھے ۔ باہر سے آئے ہوئے تماشائی جاچکے تھے۔ سرکاری حکم کے تحت عارضی قحبہ خانے اٹھا دئیے گئے تھے۔

علی بن سفیان کا محکمہ اب یہ سراغ لگاتا پھر رہاتھا کہ باہر سے آئی ہوئی کتنی لڑکیا ں اور کتنے مشکوک لوگ شہر یا مضافاتی دیہات میں رہ گئے ہیں ۔میلے کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔ دوہی دنوں میں چار ہزار جوان فوج میں بھرتی ہوگئے تھے اور مزید بھرتی کی توقع تھی۔

البرق شہر سے نکل گیا اور اس نے اُس کھنڈر کا رُخ کیا جہاں لڑکی کو آنا تھا۔ صحرائی گیدڑوں کے سوا زمین و آسمان گہری نیند سو گئے تھے ۔ لڑکی نے البرق سے کہاتھا کہ وہ بوڑھے کی قیدی ہے اور وہ اُس پر ہر وقت نظر رکھتا ہے ، پھر بھی البرق اس اُمید پر جارہا تھا کہ لڑکی ضرور آئے گی ۔ممکنہ خطروں سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس ایک خنجر تھا۔ عورت ایسا جادو ہے کہ جس پر طاری ہوجائے وہ کسی کی پرواہ ہیں کیا کرتا ۔عقل و دانش اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ البرق پختہ عمر کا آدمی تھا مگر وہ نادان نوجوان بن گیا تھا،اسے اندھیرے میں کھنڈر کے قریب ایک تاریک سایہ، سر سے پائوں تک لبادے میں لپٹا ہوا نظر آیا اور کھنڈر کے کھڑے سیاہ بھوت میں جذب ہوگیا تو وہ تیز تیز چلتا کھنڈر میں پہنچا گری ہوئی دیوار کے شگاف سے وہ اندر آگیا۔ آگے اندھیرہ کمرہ تھا۔ چھت میں بڑی زور سے کوئی بہت بڑا پرندہ پھڑ پھڑا یا۔ البرق نے ہوا کے تیز جھونکے محسوس کیے اور اچانک اس کے منہ پر تھپڑ پڑا اس کے ساتھ ہی اسے ''چی چی''کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ جان گیا کہ یہ بڑے چمگادڑ ہیں جن کے پنجے اس کا منہ نوچ ڈالیں گے۔ وہ بیٹھ گیا اور پائوں پر سرکتا کمرے سے نکل گیا ۔ کمرہ اڑتے چمگادڑوں سے بھر گیا تھا۔

آگے صحن تھا، جس کے ارد گرد گول برآمدہ تھا۔ البرق نے یہ بھی نہ سوچا کہ ایک خریدی ہوئی قیدی لڑکی جس پر ہر وقت نظر رکھی جاتی ہے، اس ہیبت ناک کھنڈر میں کیسے آئے گی، مگر برآمدے میں اس کے قدموں کی دبی دبی آہٹ نے اسے بتایا کہ یہاں کوئی موجود ہے ۔اس نے کمر سے خنجر نکال کر ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے سر پر چمگادڑ اُڑ رہے تھے، پھڑ پھڑانے کی آوازیں ڈرائونی تھیں ۔

البرق نے آہستہ سے پکارا……

''آصفہ!''…… لڑکی نے اُسے اپنا نام بتا دیا تھا اور میلے میں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کس طرح فروخت ہوئی ہے ۔

''آپ آگئے ؟''……
اسے آصفہ کی آواز سنائی دی۔ وہ برآمدے میں سے دوڑتی آئی اور البرق کے ساتھ چپک گئی ۔کہنے لگی……
''آپ کی خاطر جان کو خطرے میں ڈال کر آئی ہوں ۔مجھے جلدی واپس جانا ہے ۔بوڑھے کو شراب میں نیند کا سفوف پلاآئی ہوں ۔وہ جاگ نہ اُٹھے ''۔

''کیا تم اُسے شراب میں زہر نہیں پلاسکتی ؟''
……البرق نے پوچھا۔

''میں نے کبھی قتل نہیں کیا''……
آصفہ نے کہا……
''میں نے تو کبھی یہ بھی نہیں سوچا
تھا کہ اس طرح کسی غیر مرد سے ملنے اس ڈرائونے کھنڈر میں آئوں گی۔''

…اچانک ان کے پیچھے برآمدہ روشن ہوگیا، جس کمرے میں سے البرق گزر کر آیا تھا، اس میں سے دو مشعلیں نکلیں ۔یہ لکڑیوں کے سروں پر تیل بھیگے ہوئے کپڑے لپیٹ کر بنائی گئی تھیں۔ اُن کے شعلے خاصے بڑے تھے۔ البرق نے آصفہ کو اپنے پیچھے کرلیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ کیا یہ کھنڈر میں رہنے والی بدروحیں تھیں ؟یا لڑکی کے تعاقب میں اس کا خاوند آگیا تھا؟… البرق ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک آواز گرجی …''دونوں کو قتل کردو''۔

مشعلیں قریب آئیں تو اُن کے ناچتے شعلوں میں البرق اور آصفہ کو چار آدمی نظر آئے ۔
ایک کے ہاتھ میں برچھی اور تین کے پاس تلواریں تھیں ۔ انہوں نے مشعلیں زمین میں گاڑ دیں۔ کھنڈر کا صحن روشن ہوگیا۔ چاروں آدمی البرق کے گرد بھوکے بھیڑیوں کی طرح آہستہ آہستہ چکر میں چلنے لگے۔ آصفہ اس کے پیچھے تھی۔ برآمدے میں سے ایک اور آواز آئی……
''مل گئے ؟
زندہ نہ چھوڑنا''……
یہ لڑکی کے بوڑھے خاوند کی آواز تھی۔

آصفہ البرق کے عقب سے آگے آگئی ۔
اس نے حقارت اور غصے بوڑھے سے کہا……
''آگے آئو اور مجھے قتل کردو۔ میں تم پر لعنت بھیجتی ہون ۔میں اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوں ''

چاروں مسلح آدمی اِن کے گرد کھڑے تھے ۔برچھی والے نے برچھی آہستہ آہستہ آصفہ کی طرف کی اور اس کی نوک اس کے پہلو لگا کر کہا……''مرنے سے پہلے برچھی کی نوک دیکھ لو، لیکن تم سے پہلے یہ شخص تڑپ تڑپ کر تمہارے سامنے مرے گا، جس کی خاطر تم یہاں آئی ہو''۔

آصفہ نے جھپٹا مار کر برچھی پکڑلی اور جھٹکادے کر برچھی چھین لی۔ آصفہ البرق سے الگ ہوگئی اور للکار کر کہا……''آئو،
آگے آئو۔
میں دیکھتی ہوں کہ تم مجھ سے پہلے اس آدمی کو کس طرح قتل کرتے ہو''۔

البرق خنجر آگے کیے اس کے سامنے آگیا۔ لڑکی نے برچھی سے اس پروار کیا جس سے اس نے برچھی چھینی تھی۔وہ آدمی پیچھے کو بھاگا۔ اس کے ساتھیوں نے البرق پر حملہ کرنے کی بجائے صرف پینترے بدلے ۔وہ البرق کو آسانی سے قتل کر سکتے تھے، مگر وہ بڑھ کر حملہ نہیں کر رہے تھے ۔آصفہ کی للکار گرج رہی تھی ۔ وہ بڑھ کر وار کرتی تھی ، مگر وار خالی جاتا تھا۔ البرق نے ایک آدمی پر خنجر سے حملہ کیا تو دو آدمی اس کے پیچھے آئے ۔آصفہ ایک ہی جست میں اس کے پیچھے ہوگئی ۔اُس کے ہاتھ میں لمبی برچھی تھی جو تلوار کا مقابلہ کر سکتی تھی ۔ خنجر تلوار کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بوڑھا ایک طرف کھڑا اپنے آدمیوں کو للکاررہاتھا۔ تھوڑی سی دیر انہوں نے البر ق اور آصفہ پر حملے کیے۔ آصفہ اُن پر ٹوٹ پڑتی تھی ۔ البرق وار بچاتا تھا اور خنجر سے وار کرنے کی کوشش کرتا تھا، مگر عجیب امر یہ تھا کہ لڑکی کے حملوں کے باوجود کوئی زخمی نہیں ہوا۔ بوڑھے کے آدمیوں نے بھی تیغ زنی کے جوہر دکھائے ، مگر البرق اور آصفہ کو خراش تک نہ آئی ۔ اتنے میں بوڑھ نے کہا ''رُک جائو''……اور لڑائی بند ہوگئی ۔

''میں ایسی بے وفا لڑکی کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتا''……
بوڑھے نے کہا……
''مجھے معلوم نہیں تھاکہ یہ اتنی دلیر اور بہادر ہے، اگر اسے میں زبردستی لے بھی گیا تو یہ مجھے قتل کردے گی''۔

''میں تمہیں اس کی پوری قیمت دوں گا''……البرق نے کہا……
''کہو، تم نے اسے کتنے میں خریدا تھا''۔

بوڑھا ہاتھ بڑھا کر آگے بڑھا اور البرق سے ہاتھ ملا کر بولا……''میرے پاس دولت کی کمی نہیں ۔ میں یہ لڑکی تمہیں بخش دیتا ہوں ۔اسے تمہارے ساتھ اتنی محبت ہے کہ تمہاری خاطر اتنے سارے آدمیوں کے مقابلے میں آگئی ہے ۔ میں اسے اس لیے بھی تمہارے حوالے کرتاہوں کہ یہ جنگجو نسل کی لڑکی ہے ۔ میں تاجر اور سودا گرہوں ۔یہ کسی تم جیسے جنگجو کے گھر میں اچھی لگے گی ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تم سلطان صلاح الدین ایوبی کی حکومت کے حاکم ہو۔ میں سلطان کا وفادار اور مرید ہوں ۔ میں تمہیں ناراض نہیں کرناچاہتا، جائو۔ میں نے اسے طلاق دی اور اسے تم پر حلال کردیا……چلو، دوستو!
انہیں اکیلا چھوڑ دو''……وہ مشعلیں اُٹھا کر چلے گئے ۔

البرق کی حیرت کی انتہا یہ تھی کہ اس کے پائوں تلے زمین ہلنے لگی ۔اسے یقین نہیں آرہاتھا ۔وہ اسے بوڑھے کا فریب سمجھ رہا تھا۔ اسے یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ یہ لوگ راستے میں گھات لگا کر ان دونوں کو قتل کریں گے ۔ آصفہ کے ہاتھ میں برچھی تھی ، وہ البرق نے لے لی اور کچھ دیر بعدکھنڈر سے نکلے ۔ وہ دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتے تیز تیز چلنے لگے۔ذراسی آہٹ سنائی دیتی تو وہ چونک کر رُک جاتے ۔ ہر طرف اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتے اور آہستہ آہستہ چل پڑتے ۔ شہر میں داخل ہوئے تو ان کی جان میں جان آئی ۔ آصفہ نے رک کر بازو البرق کے گلے میں ڈال دئیے اور پوچھا۔''آپ کو مجھ پر اعتماد ہے یا نہیں ؟……البرق پر جذبات کا اتنا غلبہ تھا کہ کچھ بول نہ سکا۔ لڑکی نے اسے بے دام خرید لیا تھا۔ اسے یہ تو اب پتہ چلا تھا کہ لڑکی اسے کیسی دیوانگی سے چاہتی ہے اور کتنی بہادر ہے ۔دراصل وہ لڑکی کے حسن پر مر مٹا تھا۔
اُس کی بیوی اس کی ہم عمر تھی ۔آصفہ کو دیکھ کر اس نے محسوس کیا کہ وہ بیوی اس کے کام کی نہیں رہی ۔

اُس دور میں جب عورت فروخت ہوتی تھی ، گھر میں بیوی کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ بیک وقت چار بیویاں تو خاوند اپنا حق سمجھتا تھا، لیکن جو پیسے والے تھے ، وہ دو دو چار خوب صورت لڑکیا ں بغیر نکاح کے رکھ لیتے تھے ۔ مسلمان اُمراء کو عورت نے ہی تباہ کیا تھا۔ ان کے ہاں یہ بھی رواج تھا کہ ایک آدمی کی بیویاں خاوند کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوب صورت لڑکیاں خاوند کو بطور تحفہ پیش کرتی تھیں ۔

البرق جب آصفہ کو ساتھ لیے گھر میں داخل ہوا تو سب سوئے ہوئے تھے ۔صبح اس کی بیوی نے اپنے خاوند کے پلنگ پر اتنی حسین لڑکی دیکھی تو اسے ذرہ بھر محسوس نہ ہوا کہ اس کا سہاگ اُجڑ گیا ہے ،بلکہ وہ خوش ہوئی کہ اس کے اتنے اچھے خاوند کو اتنی خوب صورت لڑکی مل گئی ہے ۔ اسکے آجانے سے وہ کچھ فرائض سے سبکدوش ہوئی تھی ۔البرق کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ ایسی ایک اور بیوی یا داشتہ رکھ سکتا تھا۔

صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کو عورت سے اور عورت کو مسلمانوں سے آزاد کرناچاہتا تھا۔ وہ ایک خاوند ایک بیوی کا حکم نافذ کرنا چاہتا تھا ، مگر ابھی وہ ہر اُس امیر اور وزیر کو دشمن بنانے سے ڈرتا تھا جس نے کئی کئی لڑکیوں کو گھروں میں رکھاہوا تھا۔عورت کے خریدار یہی لوگ تھے۔ انہی کی دولت سے عورت کھلی منڈی میں نیلام ہوتی تھی ۔اغوا کی وارداتیں ہوتی تھیں ۔قتل اور خون خرابے ہوتے تھے اور اُمراء اور حاکموں کی زن پرستی کا ہی نتیجہ تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے لڑکیوں کی وساطت سے سلطنتِ اسلامیہ کی جڑوں میں زہر بھردیا تھا۔ اس کے علاوہ سلطان ایوبی کو یہ احساس بھی پریشان کیے رکھتا تھا کہ یہی عورت مردوں کے دوش بدوش کفار کے خلاف لڑا کرتی تھی ، مگر اب یہ عورت جہاد میں مرد کے لیے آدھی قوت تھی ، مرد کی تفریح اور عیاشی کا ذریعہ بن گئی ہے ۔ اس سے صرف یہ نہیں ہوا کہ قوم کی آدھی جنگی قوت ختم ہوگئی ہے ، بلکہ عورت ایک ایسا نشہ بن گئی ہے جس نے قوم کی مرادنگی کو بیکار کردیاہے ۔

سلطان ایوبی عورت کی عظمت بحال کرنا چاہتا تھا ۔اُس نے ایک منصوبہ تیار کر رکھا تھا جس کے تحت وہ غیر شادی شدہ لڑکیوں کو باقاعدہ فوج میں بھرتی کرنا چاہتا تھا۔ اسی کے تحت حرم بھی خالی کرنے تھے ، مگر ایسے احکام وہ اسی صورت میں نافذ کرسکتا تھا کہ سلطنت کی خلافت یا امارت اس کے ہاتھ آجائے ۔ یہ مہم بڑی دشوار تھی ۔ اس کے دشمنوں میں اپنوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں بےایمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ اسے یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ اس کا ایک معتمد خاص اور حکومت کے رازوں کا رکھوالا ،
خادم الدین البرق بھی ایک نوجوان حسینہ کو گھر لے آیا ہے اور یہ لڑکی اس کے اعصاب پر ایسی بُری طرح چھا گئی ہے کہ وہ اب فرائض سلطنت سے
بے پروا ہوسکتا ہے ۔

فوجی میلے میں مصر کے لوگ سلطان ایوبی کی فوجی طاقت سے مرعوت نہیں ہوئے ،
بلکہ اسے اسلامی اور مصری فوج سمجھ کر اس سے متاثر ہوئے تھے ۔سلطان ایوبی
تقریر یں کرنے والا حاکم نہیں تھا، لیکن اس دن اتنے بڑے اجتماع سے اس نے خطاب کرنا ضروری سمجھا۔ اس نے کہا کہ یہ فوج قوم کی عصمت کی محافظ اور اسلام کی پاسبان ہے ۔ اس نے صلیبیوں کے عزائم تفصیل سے بیان کیے اور مصریوں کو بتایا کہ عرب میں مسلمان اُمراء اور حاکمون کی تعیش پرستی کی وجہ سے صلیبیوں نے وہاں مسلمان کا جینا حرام کررکھا ہے ۔ وہ قافلوں کو لوٹ لیتے ہیں ، مسلمان لڑکیوں کو اغوا کرکے بے آبرو کرتے ،پھر انہیں بیچ ڈالتے ہیں
……
سلطان ایوبی نے لوگوں کو قومی جذبے سے آگاہ کرکے انہیں کہا کہ وہ فوج میں بھرتی ہوکر اپنی بیٹیوں کی عصمت اور اسلام کی عظمت کی پاسبانی کریں۔

سلطان کی تقریر میں جوش تھا اور ایسا تاثر کہ تماشائیوں کے دلوں میں ہلچل مچ گئی اور اسی روز جوان آدمی فوج میں بھرتی ہونے لگے۔

دس روز تک بھرتی ہونے والوں کی تعداد چھ ہزار ہوگئی ۔اس میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار جوان اپنے اونٹ ساتھ لائے اور ایک ہزار کے قریب گھوڑوں اور خچروں سمیت آئے ۔ سلطان نے انہیں جانوروں کا معاوضہ فوری طور پر اداکردیا اور فوج نے ان کی ٹریننگ شروع کردی ۔

.........سلسلہ جاری ہے


sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form