فاتح بیت المقدس
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
قسط نمبر 25
قاہرہ سے ڈیڑھ دو میل دور جہاں ایک طرفٍ ریت کے ٹیلے اور باقی ہر طرف صحراریت کے سمندر کی مانند اُفق تک پھیلا ہوا تھا، انسانوں کے سمندر تلے دب گیا تھا۔ یہ لاکھوں انسانوں کا ہجوم تھا۔ ان میں شتر سوار بھی تھے اور گھوڑا سوار بھی ۔ بہت سے لوگ گدھوں پر بھی سوار تھے ۔ تعداد ان کی زیادہ تھی ،جن کے پاس کوئی سواری نہیں تھی ۔ لاتعداد ہجوم چار پانچ دنوں سے صحرا کی اس وسعت میں جمع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ قاہرہ کے بازاروں میں بھیڑ اور رونق زیادہ ہوگئی تھی ۔ سرائے بھر گئی تھی ۔ یہ لوگ دور دور سے اس سرکاری منادی پر آئے تھے کہ چھ سات روز بعد قاہرہ کے مضافاتی ریگستان میں مصری فوج گھوڑ سواری ، شتر سواری، دوڑتے گھوڑوں اور اونٹوں سے تیر اندازی اور بہت سے جنگی کمالات کا مظاہرہ کرے گی ۔
منادی میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ غیرفوجی لوگ بھی ان مظاہروں میں جس کسی کو چاہیں تیغ زنی ، کُشتی ، دوڑتے گھوڑوں کی لڑائی اور تیر اندازی وغیرہ کے لیے للکار کر مقابلہ کرسکتے ہیں ۔
یہ منادی سلطان صلاح الدین ایوبی نے کرائی تھی ۔ اس کے دو مقاصد تھے ۔ ایک یہ کہ لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب ملے گی اور دوسرے یہ کہ جو لوگ ابھی تک سلطان کو فوجی لحاظ سے کمزور سمجھتے ہیں ،ان کے شکوک رفع ہوجائیں ۔ سلطان ایوبی کو جب یہ اطلاعیں ملنے لگیں کہ لوگ چھ روز پہلے ہی تماشہ گاہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا
مگر علی بن سفیان پریشان سا نظر آتا تھا۔ اس نے سلطان کے آگے اس پریشانی کا اظہار کربھی دیا تھا۔ سلطان ایوبی نے مسرت سے اُسے کہا تھا……
''اگر تماشائیوں کی تعداد لاکھ ہوجائے تو ہمیں پانچ ہزار سپاہی تو مل ہی جائیں گے ''۔
''محترم امیر!''
علی بن سفیان نے کہا…''میں تماشائیوں کے ہجوم کو کسی اور زاویے سے دیکھ رہاہوں ۔ میرے اندازے کے مطابق اگر تماشائیوں کی تعداد ایک لاکھ ہوئی تو اس میں ایک ہزار جاسوس ہوں گے ۔ دیہات سے عورتیں بھی آرہی ہیں ۔ان میں زیادہ تر سوڈانی ہیں ۔ان میں اکثر کا رنگ اتنا گورا ہے کہ عیسائی عورت ان میں چھپ سکتی ہے ''۔
''میں تمہاری اس مشکل کو اچھی طرح سمجھتا ہوں علی !
''سلطان نے کہا……
''لیکن تم جانتے ہوکہ میں نے جس میلے کا انتظام کیا ہے ، وہ کیوں ضروری ہے۔ تم اپنے محکمے کو اور زیادہ ہوشیار کردو''۔
''میں اس کے حق میں ہوں !'' ……علی بن سفیان نے کہا……
''یہ میلہ بہت ہی ضروری ہے ۔ میں نے اپنی پریشانی آپ کو پریشان کرنے کے لیے نہیں بتائی ، صرف یہ اطلاع پیش کی ہے کہ یہ میلہ اپنے سات کیا خطرہ لارہا ہے ۔ قاہرہ میں عارضی قحبہ خانے کھل گئے ہیں جو ساری رات شائقین سے بھرے رہتے ہیں ۔تماشائیوں میں سے بعض نے شہر کے باہر خیمے نصب کر لیے ہیں ۔میرے گروہ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ ان میں بھی قمار بازوں اور عصمت فروشوں کے خیمے موجود ہیں ۔کل میلے کا دن ہے ۔ ناچنے گانے والیوں نے تماشائیوں سے دولت کے ڈھیر اکٹھے کر لیے ہیں ''۔
''میلہ ختم ہوجائے گا تو یہ غلاظت بھی ہجوم کے ساتھ ہی صاف ہوجائے گی
''۔سلطان نے کہا……
''میں اس پر پابندی عائد نہیں کرنا چاہتا ۔ مصر کی اخلاقی حالات اچھے نہیں ہیں ۔
رقص اور عصمت فروشی ایک دو دنوں میں ختم نہیں کی جاسکتی ۔ ابھی مجھے زیادہ سے زیادہ تماشائیوں کی ضرورت ہے ۔مجھے فوج تیار کرنی ہے اور تم جانتے ہو
علی ! ہمیں بہت زیادہ فوج کی ضرورت ہے ۔ میں نے فوج اور انتظامیہ کے سربراہوں کے افلاس میں یہ ضرورت وضاحت سے بیان کردی تھی ''۔
''میں آپ کو اس وضاحت سے روک نہیں سکا تھا،
امیر محترم !''……
علی بن سفیان نے کہا……''میری سراغ رساں نگاہوں میں ان سربراہوں میں نصف ایسے ہیں جو ہمارے وفادار نہیں ۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں کچھ ایسے ہیں جو آپ کو اس تخت پر نہیں دیکھنا چاہتے اور باقی جو ہیں اُن کی دل چسپیاں سوڈانیوں کے ساتھ ہیں ۔میں نے ان میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک ایک آدمی چھوڑ رکھا ہے ۔ میرے آدمی مجھے ان کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ''۔
''کسی کی کوئی خطرناک سرگرمی سامنے آئی ہے ؟
سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''نہیں ۔ ''علی بن سفیان نے جواب دیا……''سوائے اس کے ، کہ یہ لوگ اپنی حیثیت اور رتبوں کو فراموش کرکے راتوں کو مشکوک خیموں میں اور اُن مکانوں میں جاتے ہیں جو عارضی قحبہ خانے اور رقص گاہیں بن گئے ہیں ۔دو نے تو ناچنے والی لڑکیوں کو گھروں میں بھی بلایا ہے ……
ان سے زیادہ میرا دماغ اُن دو بادبانی کشتیوں پر گھوم رہا ہے جو دس روز گزرے ، بحیرۂ روم کے ساحل کے ساتھ دیکھی گئی تھیں''۔
''اُن میں کیاخاص بات تھی ؟''…… سلطان ایوبی نے پوچھا ۔
اس وقت تک بحیرہ روم کے ساحل سے فوج کو واپس بلا لیا گیا تھا، وہاں ڈھکی چھپی جگہوں پر دودو فوجی سمندر پر نظر رکھنے کے لیے بٹھا دئیے گئے تھے ۔علی بن سفیان نے ماہی گیروں اور صحرائی خانہ بدوشوں کے لباس میں ساحلی پر انٹیلی جنس کے چند آدمی مقرر کر دئیے تھے ۔ یہ اہتمام ایک تو اس لیے کیاگیا تھا کہ صلیبی اچانک حملہ نہ کر دیں اور دوسرے اس لیے کہ ادھر سے صلیبیوں کے جاسوس نہ آسکیں ، مگر ساحل بہت لمبا تھا۔ کہیں کہیں چٹانیں بھی تھیں ، جہاں سمندر اندر آجاتا تھا۔ سارے ساحل پر نظر نہیں رکھی جاسکتی تھی ۔دس روز گزرے ایسی ہی ایک جگہ سے جہاں سمندر چٹانوں کے اندر آیاہوا تھا، دو بادبانی کشتیاں نکلتی دیکھی تھیں ۔ وہ شاید رات کو آئی تھیں۔
انہیں جاتا دیکھ کر سلطان کے دو سوار سر پٹ گھوڑے دوڑاتے اس جگہ پہنچے ، جہاں سے کشتیاں نکل کر گئی تھیں ۔ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔کوئی انسان نہیں تھا اور کشتیاں سمندر میں دور چلی گئی تھی کشتیوں اور بادبانوں کی ساخت بتاتی تھی کہ یہ مصر کے ماہی گیروں کی نہیں ۔ سمندر پار معلوم ہوتی تھیں۔ سوار تھوڑی دُور تک صحرا میں گئے ۔ انہیں کسی انسان کا سراغ نہیں ملا۔انہوں نے قاہرہ اطلاع بھجوا دی تھی کہ ساحل کے ساتھ دو مشکوک کشتیاں دیکھی گئی ہیں ۔ علی بن سفیان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ ریگزار میں انہیں ڈھونڈ لیتا جو کشتیوں میں سے اُترے تھے ۔ اطلاع پہنچتے پہنچتے تین دِن گزرگئے تھے ۔یہ بھی یقین نہیں تھا کہ کشتیوں سے کون اُترا ہے ۔
علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کے اس سوال کے جواب میں
کہ ان کشتیوں میں
کیا خاص بات تھی،
یہ وضاحت کردی اور کہا……''ہم میلے کی منادی ڈیڑھ مہینے سے کرارہے ہیں۔ ڈیڑھ مہینے میں خبر یورپ کے وسط تک پہنچ سکتی ہے اور وہاں سے جاسوس آسکتے ہیں ۔ مجھے یقین کی حد تک شک ہے کہ تماشائیوں کے ساتھ صلیبیوں کے جاسوس میلے میں آگئے ہیں ۔قاہرہ میں اس وقت لڑکیاں عارضی طور پر نہیں ، مستقل طور پر فروخت ہورہی ہیں ۔ سلطان سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے خریدار معمولی حیثیت کے لوگ نہیں ہوسکتے ۔ ان خریداروں میں قاہرہ کے تاجر، ہماری انتظامیہ اور فوج کے سربراہ اور نامی گرامی بردہ فروش شامل ہیں ۔بکنے والی لڑکیوں میں صلیبیوں کی جاسوس لڑکیاں ہوسکتی ہیں اور یقینا ہوں گی''۔
سلطان ایوبی ان اطلاعوں سے پریشان نہ ہوا۔ بحیرۂ روم میں صلیبیوں کو شکست دئیے تقریباًایک سال گزر گیا تھا۔ علی بن سفیان نے سمندر پار جاسوسی کا انتظام کر رکھا تھا جو مضبوط اور سوفیصد قابلِ اعتماد نہیں تھا۔ تاہم یہ اطلاع مل گئی تھی کہ صلیبیوں نے مصر میں جاسوس اور تخریب کار بھیج رکھے ہیں ۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ مصر کے متعلق ان کے منصوبے کیا ہیں ۔ بغداد اور دمشق سے آنے ولی اطلاعوں سے پتہ چلا تھا کہ صلیبیوں نے زیادہ تر دبائو ادھر ہی رکھا ہواہے ۔ وہاں خصوصاً شام میں ، وہ مسلمان اُمرا کو عیاشیوں اور شراب میں ڈبوتے چلے جارہے تھے ۔سلطان نور الدین زنگی کی موجود گی میں صلیبی ابھی براہِ راست ٹکر لینے کی جرأت نہیں کررہے تھے ۔بحیرۂ روم میں جب صلاح الدین ایوبی نے اُن کا بیڑہ بمع لشکر غرق کردیا تھا ، اُدھر عرب میں سلطان زنگی نے صلیبیوں کی مملکت پر حملہ کرکے انہیں صلح پر مجبور کیا اور جزیہ وصول کرلیا تھا۔ اس معرکے میں بہت سے صلیبی سلطان زنگی کی قید میں آئے تھے ۔جن میں رینالٹ نام کا ایک صلیبی سالار بھی تھا۔ سلطان زنگی نے ان قیدیوں کو رہا نہیں کیا تھا، کیونکہ صلیبیوں نے مسلمان جنگی قیدیوں کو شہید کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ صلیبی عہد شکنی بھی کرتے تھے ۔
سلطان ایوبی کو اطمینان تھا کہ اُدھر سلطان زنگی سلطنتِ اسلامیہ کی پاسبانی کر رہا ہے ، پھر بھی وہ فوج تیار کر رہا تھا تاکہ صلیبیوں سے فلسطین لیاجائے اور عرب کی سر زمین کو کفار سے پاک کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ مصر کا دفاع مضبوط کرنا چاہتا تھا۔ بیک وقت حملے اور دفاع کے لیے بے شمار فوج کی ضرورت تھی ۔ مصر میں بھرتی کی رفتار سلطان ایوبی کے عزائم کے مطابق سست تھی ۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سوڈانیوں کی جو فوج توڑ دی گئی تھی ، اس کے کماندار اور عہدے دار دیہات میں سلطان ایوبی کے خلاف پروپیگنڈا کرتے پھر رہے تھے ۔ اس فوج میں سے تھوڑی سی تعداد سلطان کی فوج میں وفاداری کا حلف اُٹھا کر شامل ہوگئی تھی۔ کچھ فوج مصر سے تیار کرلی گئی تھی اور کچھ سلطان زنگی نے بھیج دی تھی ۔ مصر کے لوگوں نے ابھی یہ فوج نہیں دیکھی تھی، نہ ہی انہوں نے سلطان ایوبی کو دیکھا تھا ۔سلطان ایوبی نے اس میلے کا اعلان کر کے اپنے فوجی سربراہوں اور اُن کے ماتحت کمان داروں وغیرہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں سے ملیں اور پیار و محبت سے ان کا اعتماد حاصل کریں ۔ انہیں باور کرائیں کہ وہ انہی میں سے ہیں اور ہم سب کا مقصد یہ ہے کہ خدا اور رسول ﷺ کی سلطنت کو دُور دُور تک پھیلا نا اور ا سے صلیبی فتنے سے پاک کرنا ہے ۔
میلے سے ایک روز پہلے علی بن سفیان ،
سلطان کو جاسوسوں کے خطرے سے آگاہ کر رہا تھا۔اس نے کہا…… ''امیرِ محترم ! مجھے جاسوسوں کا کوئی ڈر نہیں ، دراصل خطرہ اپنے ان کلمہ گو بھائیوں سے ہے جو کفار کے اس زمین دوز حملے کو کامیاب بناتے ہیں ۔اگر ان کا ایمان مضبوط ہو تو جاسوسوں کا پورا لشکر بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ میلے کے تماشائیوں میں جو ناچنے والی لڑکیاں نظر آرہی ہیں ۔وہ صلیبیوں کا جال ہیں، تاہم میرا گروہ دِن رات مصروف ہے''۔
''اپنے آدمیوں سے یہ کہہ دو کہ کسی جاسوس کو جان سے
نہ ماریں ''……
سلطان ایوبی نے کہا…''زندہ پکڑو ۔ جاسوس دشمن کے لیے آنکھ اور کان ہوتاہے ،لیکن ہمارے لیے وہ زبان ہے ۔وہ تمہیں اُن کی خبریں دے گا، جنہوں نے اُسے بھیجاہے ''۔
سلسلہ جاری ہے
0