Kahaf Episode 15-1

 #Do_not_copy_paste_without_my_permission

کہف

بقلم_رابعہ_خان

آخری_قسط

شزا اندھا دھند گھر میں داخل ہوٸ تھی۔ لاٶنج میں براجمان رامین اور عابد نے لمحے بھر کو نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا اور دھک سے رہ گۓ۔ اس کا دوپٹہ کندھے سے لٹکا زمین پر جھول رہا تھا۔ بکھرے بال اور ہونٹ سے پھوٹتی خون کی باریک دھار نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ کلاٸیوں پر جا بجا خراشیں تھیں اور گردن پر دوپٹہ کھنچنے کا نشان بے حد واضح ہو کر سرخ پڑ رہا تھا۔ 

”ماں۔۔ بابا۔۔ را۔۔ رابیل۔۔ رابیل ٹھیک نہیں ہے۔۔“ 

وہ بھاگتی ہوٸ آگے بڑھ آٸ۔  وہ دونوں بیک وقت اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہوۓ تھے۔ چہرے پر فق سا تاثر لیۓ، عابد نے آگے بڑھ کر اس کے لرزتے جسم کو سہارا دیا تھا۔ 

”یہ سب۔۔ یہ سب کیا ہے بچے اور کہاں سے آرہی ہو تم۔۔؟ رابیل کہاں ہے۔۔؟ کیا ہوا ہے۔۔؟“ 

ایک نظر پلٹ کر انہوں نے دروازے کی جانب بھی دیکھا تھا۔ رامین نے بھی آگے بڑھ کر اسے دیکھا۔۔ وہ اس کے حلیے سے اس قدر ششدر تھیں کہ کچھ بول ہی نہ پارہی تھیں۔۔ 

”کیا ہوا ہے۔۔؟ رابیل کہاں ہے۔۔؟“ 

لیکن ہوش میں آتے ہی انہوں نے اسے اپنی جانب پھیر کر کانپتی آواز میں پوچھا تو اس کے آنسو بے ساختہ ہی ابلے۔ اس کی بلند سسکیاں ہی تھیں، جس کے باعث ردا بھی اپنے کمرے سے نکل آٸ تھی۔ لیکن آگے کا منظر دیکھ کر وہ بھی اپنے دروازے کے باہر ہی ٹھہر گٸ تھی۔ 

”وہ اور میں۔۔ پھپھو کے گھر گۓ تھے۔۔ ار۔۔ ارحم بھاٸ نے بلایا تھا ہمیں۔۔ لیکن۔۔ لیکن پھر۔۔“ 

”لیکن پھر کیا شزا۔۔؟؟!“ 

رامین اس پر چلاٸیں تو اس کا اندر باہر لرز کر رہ گیا۔ سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیسے انہیں حقیقت بتاۓ۔ عابد بھی اب خوفزدہ سی سوالیہ نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ ردا بھی پاس چلی آٸ تھی۔۔ 

”انہوں نے رابیل کے ساتھ بدتمیزی کی۔۔ اور پھپھو نے مجھے مارا۔۔ وہ مجھے پتا نہیں کہاں لے کر جارہی تھیں۔۔ لیکن م۔۔ میں انہیں مار کر بھاگ آٸ۔۔ رابیل وہیں تھی۔۔ مجھے نہیں پتا پھر کیا ہوا۔۔ میں نے بس اس کی چیخیں سنی تھیں۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ آگے کیا ہوا۔۔“ 

اور رامین بے دم ہو کر صوفے پر گری تھیں۔ عابد جامد ہوچکے تھے اور ردا۔۔ اس نے تحیر سے آنکھیں پھیلا کر شزا کو دیکھا تھا۔

”تو ابھی رابی کہاں ہیں۔۔؟“ 

”مجھے نہیں پتا۔۔“ 

اس نے کہا اور وہیں بے جان قدم لیۓ بیٹھتی چلی گٸ۔ عابد دروازے کی جانب دوڑے تھے۔ سب جیسے لمحوں ہی میں تلپٹ ہوگیا تھا۔ یکایک فون بجنے کی آواز پر رک کر لمحے بھر کو کال رسیو کی۔ دوسری جانب شاید معاذ تھا۔۔ اس کی ٹھنڈی اور بے جان سی آواز عابد کی سماعتوں میں اتری تو انہیں اپنا وجود زلزلوں کی زد میں محسوس ہوا تھا۔ 

”معاذ راب۔۔“ 

”رابیل محفوظ ہے۔۔“ 

اس کی اگلی بات سن کر وہ جہاں کے تہاں کھڑے رہ گۓ تھے۔ پھر بکھرتی سانسوں کو بمشکل معمول پر لا کر گویا ہوۓ۔ ان کا رکتا سانس یکدم ہی بحال ہوا تھا۔ 

”کہاں ہے وہ۔۔؟“ 

”میں ایڈریس آپ کو ٹیکسٹ کررہا ہوں۔ آپ وہاں چلے جاٸیں۔ میری خالہ کے پاس ہے وہ۔۔ اسے وہی ٹریٹ کرینگی۔۔ ہاسپٹل لے جانے کی ضرورت نہیں ہے اسے۔۔“ 

”اور تم کہاں ہو۔۔؟“ 

اب کہ ان کی آواز کافی حد تک برابر ہوچکی تھی۔ وہ خود پر لمحوں ہی میں قابو پا چکے تھے۔ 

”میں۔۔ میں سبق دے کر آتا ہوں انہیں۔۔“ 

”میری بات۔۔ معاذ میری بات سنو۔۔“ 

انہوں نے جلدی سے کہہ کر فون کان سے ہٹا کر دیکھا۔ رابطہ ابھی تک منقطع نہیں ہوا تھا۔ تیزی سے فون کان پر لگا کر انہوں نے اسے روکنا چاہا لیکن اب کہ وہ فون رکھ چکا تھا۔ شکستہ انداز میں فون کان سے ہٹاتے ہوۓ وہ پلٹے۔۔ رامین انہی کی جانب بے چینی سے بڑھ رہی تھیں۔ ردا اور شزا سفید چہرے لیۓ انہیں ہی دیکھ رہی تھیں۔۔ 

”کیا ہوا۔۔ کہاں ہے میری بچی۔۔؟ کیا کہہ رہا تھا معاذ۔۔؟“ 

وہ ایک ہی سانس میں بے بے ربط سے سوال پوچھے گٸیں تو عابد نے آگے بڑھ کر انہیں خود سے لگایا۔ لمحوں ہی میں وہ ٹوٹی بکھری سی نظر آنے لگی تھیں۔ 

”ٹھیک ہے وہ۔۔ محفوظ ہے۔۔ معاذ نے اسے حفاظت سے اسے اپنی خالہ کے گھر پہنچا دیا ہے۔۔“ 

ان کی بات پر اٹکی سانسیں بے ساختہ ہی بحال ہوٸ تھیں۔ شزا اور ردا بھاگ کر ان کی جانب بڑھیں۔ انہیں ابھی کہ ابھی بس رابیل کو دیکھنا تھا۔ بس اس سے ملنا تھا۔ 

”کہاں ہے اسکی خالہ کا گھر۔۔؟ مجھے لے کر جاٸیں عابد۔۔ مجھے میری بچی سے ملنا ہے۔ میرا دل ڈوب رہا ہے۔۔ پلیز مجھے لے کر جاٸیں وہاں۔۔“ 

اسی اثناء میں ان کا فون پیغام دیتی ٹون سے بجا تو انہوں نے تیزی سے پیغام کھول کر نگاہوں کے سامنے کیا۔ پیغام معاذ کی جانب سے تھا۔ اس نے انہیں سلوی کے گھر کا پتہ بھیجا تھا۔ اگلے پل اب وہ چاروں باہر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ان کی رابیل ٹھیک نہیں تھی۔۔ ان کا دل گواہی دیتا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں تھی۔۔ 

”سر سلطان۔۔ وہ کچھ دیر کے لیۓ اپنے گھر کے آگے رکا ہے۔ کیا ہم اس سے آگے بھی اس کا پیچھا کریں۔۔؟“ 

معاذ کچھ دیر کے لیۓ اپنے گھر کی طرف رکا تھا۔ اسے خبر نہیں تھی کہ سلطان کے آدمی اس کے پیچھے یوں آٸیں گے۔ شاید سلطان کو اندازہ تھا کہ ایسا انتہاٸ قدم وہ ضرور بالضرور اٹھاۓ گا، جبھی تو وہ اس کا پیچھا کرنا نہیں چھوڑسکا تھا۔ اسے پتا تھا کہ انسان کے اندر موجود کونسی حس،کب بیدار ہوتی ہے۔ 

”نہیں۔۔ خاموشی سے پیچھا کرو اس کا۔ اور ہاں۔۔ جن تین آدمیوں کو تم نے اس کے ریسٹورینٹ کے باہر دیکھا تھا، ان کی کھوج بھی لگاٶ۔ میں بھی دیکھوں۔۔ کن حرام کی اولادوں نے ہاتھ ڈالا ہے ہمارے جگر پر۔۔“ 

”جی سر۔۔“ 

ان میں سے ایک نے فون کان سے ہٹایا۔ پھر دوسرے کی جانب دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

”سر نے کہا ہے کہ ہمیں ابھی پیچھا کرنا ہے اس کا۔ ایسے نہیں چھوڑنا اسے۔۔ ویسے ہے کون یہ۔۔؟ جس کا سر سلطان جیسے آدمی کو اس قدر ڈر ہے۔۔؟“ 

کھوجتی نگاہوں سے اس نے اپنے سے آگے قدرے فاصلے پر کھڑی اس کی کار کو دیکھا۔ پھر یونہی اپنے برابر بیٹھے شخص سے سوال کیا۔ جو شاید اتنا ہی بے خبر تھا، جتنا کہ وہ خود۔۔ 

”میں بھی نہیں جانتا اسے۔ لیکن ورک پلیس پر بہت سے لوگ جانتے ہیں اسے۔ بہت سے لوگوں سے ذکر بھی سن چکا ہوں اس کا۔ سب یہی کہتے ہیں کہ وہ تاریک دنیا کا حصہ رہا تھا لیکن پھر کسی وجہ سے سلطان نے اسے اس دنیا سے بے دخل کردیا۔ اب وہ عام سا ریسٹورینٹ چلاتا ہے۔“ 

”ہاں اتنا تو میں بھی جانتا ہوں۔۔“ 

پہلے والے نے اثبات میں سر ہلا کر اس کی بات سے اتفاق کیا تھا۔ لیکن پھر برابر والے کی بے چین سی نگاہوں کی جنبش پر وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔۔ 

”کیا ہوا۔۔؟“ 

”میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ وہ کوٸ بہت انتہاٸ قدم اٹھانے والا ہے۔۔“ 

”تمہیں کیسے پتا۔۔؟“ 

”ہم جیسے مجرم لوگوں کے پاس اور ہوتا ہی کیا ہے سرکار۔۔“ 

اس کے سوال پر اس نے تلخی سے مسکرا کر سر جھٹکا تھا۔ 

”ہمارے پاس ہماری چھٹی حس ہی تو ہوتی ہے، جو آخر تک ہماری حفاظت کرتی ہے۔ نہیں تو ہم کب سے گولیوں کا نشانہ بن کر اللہ کو پیارے ہوجاٸیں۔۔“ 

اس کے جواب پر برابر والے نے گہرا سانس لیا تھا۔ پھر یونہی گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ 

”بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ۔۔ یہ آدمی زنجیر کے ساتھ بہت اچھا ہے۔۔“ 

اور اس کے کہنے کے ساتھ ہی معاذ ہاتھ پر زنجیر کا ایک سرا لپیٹتے ہوۓ گھر سے باہر نکلا تھا۔ ان دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔ پھر بے یقین نگاہوں سے اپنے سامنے موجود وجود کو۔۔ جو گاڑی کے اندر بیٹھ کر گاڑی بھگا لے جارہا تھا۔ 

”زنجیر کے ساتھ اچھا ہے۔۔! مطلب۔۔؟“ 

”وہ شاہی کا شاگرد رہا ہے۔ اسے زنجیر سے انسان قتل کرنے آتے ہیں سلمان۔ وہ زنجیر کو بہت اچھے سے استعمال کرنا جانتا ہے اور جانتے ہو۔۔“ 

اس نے بہت کچھ سمجھتے ہوۓ ایگنیشین میں چابی گھما کر گاڑی کے جامد انجن کو حرکت دی اور تیزی سے گاڑی اس کی گاڑی کے پیچھے دوڑاٸ۔۔ 

”وہ کیوں یہ گنز استعمال نہیں کیا کرتا۔ صرف اس لیۓ کہ بندوق سے نکلی ہر گولی اپنا نشان چھوڑ جاتی ہے۔ ہر نکلی گولی بذات خود، جرم کا ثبوت ہوتی ہے، ہر گولی اپنے چلانے والے کی گواہ ہوتی ہے لیکن زنجیر۔۔“ 

معاذ کے ہاتھ میں لپٹی زنجیر پر بہت سے نشان تھے۔ وہ نشان۔۔ جن کا احساس وہ بخوبی کرسکتا تھا۔ 

”زنجیر۔۔ کوٸ گواہ نہیں چھوڑتی۔۔!!“ 

اور برابر میں بیٹھے شخص کو آج اندازہ ہوا تھا کہ وہ اتنا خطرناک کیسے تھا۔ لوگوں کے درمیان رہ کر شاید اس کے اندر کی یہ خصلت مر گٸ ہوتی اور مر بھی جاتی۔۔ اگر جو یہ لوگ۔۔ اسے پیچھے نہ دھکیلتے۔۔ لیکن اب۔۔ اب دیر ہوگٸ تھی۔۔ اب شاید بہت دیر ہوگٸ تھی۔۔ 

اس نے ”رضا ہاٶس“ کا دروازہ پار کیا اور اسی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ اس کا سپاٹ اور بے جان چہرہ ویسا ہی تھا۔۔ یخ ۔۔ ہر قسم کے جذبات سے عاری۔۔ خالی سا۔۔ 

لاٶنج ہی میں اسے وہ تین تن و مند سے آدمی نظر آگۓ تھے۔ زینوں سے ارحم قدم قدم اتر رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں قید زنجیر زور سے جکڑی۔ اس کی آنکھیں لمحے بھر میں سرخ ہوگٸ تھیں۔ وہ جو آرام سے زینے اتر رہا تھا، اسے یوں سامنے دیکھ کر اگلے ہی پل چونکا۔ زینوں کے عین اوپر سے اترتیں صاٸمہ بھی اپنی جگہ پر ساکت ہوٸ تھیں۔ اسے دیکھ کر لاٶنج میں براجمان وہ تین مرد بے ساختہ اٹھے تھے لیکن اس کی خون آشام آنکھیں، ارحم پر ساکت تھیں۔ 

”تم۔۔ تم میرے گھر میں کیسے آۓ۔۔؟“ 

اور اس نے جواب دیۓ بنا بھاگ کر درمیانی فاصلہ عبور کیا تھا۔ 

”پکڑو اسے۔۔“ 

وہ یکدم چیخا تو تینوں مرد معاذ پر جھپٹے۔ اس نے گھما کر بھاری زنجیر سے وار کیا تو ایک لڑھک کر دور جا گرا۔ دوسرے کے گلے میں اس نے اگلے ہی لمحے زنجیر کا بل دیا تو وہ سانس رکنے پر مچلنے لگا۔ اس نے جیب میں اڑسا چھوٹا سا تیز دھار چاقو نکال کر اس کے ہاتھ میں گاڑا تو وہ بے ساختہ بلبلا کر نیچے گرا۔ تیسرا مرد اب کہ کانپ رہا تھا۔۔ اس نے لات مار کر قدموں میں گرے آدمی کو پرے کیا۔۔ پھر پیشانی پر ابھرا پسینہ جیکٹ کی آستین سے رگڑا۔ اس پر جیسے حیوانیت طاری ہوگٸ تھی۔۔ اس نے قدم آگے بڑھاۓ لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آٸ۔ آگے والا چلاتا ہوا ڈر کر دروازے سے باہر بھاگ چکا تھا۔ اگلے ہی لمحے اب اس کی نگاہیں زینوں کی جانب اٹھیں تو ارحم کی گردن پر پسینے کی بوندیں پھوٹ نکلیں۔ اسے اپنی موت آج سامنے ہی نظر آرہی تھی۔ 

”میں نے منع کیا تھا ناں تمہیں ارحم۔۔ کہ اس سے دور رہنا۔ لیکن تمہیں میری بات سمجھ نہیں آٸ۔ پتا نہیں تم لوگوں کو زبان کی بات سمجھ کیوں نہیں آتی۔۔!“ 

”میرے گھر سے ابھی کہ ابھی دفع ہوجاٶ۔ میرے بیٹے نے نہیں، بلکہ تمہاری بیوی نے اکسایا ہے اسے ایسی حرکت کرنے پر۔۔“ 

صاٸمہ کی پھنکار پر اس نے آنکھیں لمحے بھر کو بند کی تھیں۔ تیرہ سال قبل کی داستان شاید پھر سے دہراٸ جارہی تھی۔ وہ اس کی ماں پر بھی یونہی الزام لگارہی تھی اور اس کی ماں۔۔ اس کی ماں کا گھٹتا سانس اسے بھی سانس کے ساتھ دشواری دینے لگا تھا۔ 

”میں نے کہا تھا کہ اس سے دور رہو۔۔!“ 

وہ چیخا تھا۔۔ گردن کے آس پاس بچھی نسیں ابھر کر سرخ ہورہی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں قید زنجیر اس قدر سختی سے کَسی ہوٸ تھی کہ اس کا خون رکنے لگا تھا۔ رگوں میں جیسے کوٸ کڑوا سیال گھول رہا تھا۔ 

”تم جیسے غنڈے موالی سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ دفع ہوجاٶ اپنی نحوست لے کر ابھی کہ ابھی۔۔“ 

وہ اب بھی باز نہیں آٸ تھیں۔ اس نے قدم زینوں کی جانب بڑھاۓ تو زمین پر گرے آدمی نے ہاتھوں سے اس کے قدموں کو جکڑا۔۔ وہ اگلے ہی پل منہ کے بل گرا تھا۔ ارحم نے تیزی سے نیچے اتر کر اس کے ہاتھ سے زنجیر چھیننی چاہی تو اس نے اسی تیزی سے اس کا گریبان پکڑ کر اسے زمین پر گھیسٹا تھا۔ وہ توازن برقرار نہ رکھنے کے باعث بری طرح، الجھ کر گرا۔ 

اس نے قدم جکڑنے والے کو گھوم کر زوردار مکا مارا تھا۔ اتنی زور سے کہ، اس کی اپنے ہاتھ کی اوپری جلدی پھٹ چکی تھی۔ وہ ناک پر بھاری مکا لگنے کے باعث اگلے ہی پل بلبلا کر دور ہوا تھا۔ ارحم اٹھ کر اوپر کی جانب بھاگا تو اس نے اس کے قدموں میں زنجیر پھنسا کر گرایا۔ اس کا منہ بری طرح سے زینوں سے ٹکرایا تھا۔  اگلے ہی پل اسے کوٸ بھی موقع دیۓ بغیر وہ اسے گریبان سے گھسیٹ کر اٹھا رہا تھا۔۔ پھر ایک زور دار مکا اس کی زخمی کنپٹی پر مارا۔۔ ارحم کے سر پر لمحے بھر کو سارا گھر گھوم کر رہ گیا تھا۔ 

”چھوڑو۔۔ چھوڑو میرے بیٹے کو جانور۔۔“ 

صاٸمہ نے اس کے فولاد ہاتھوں کو ارحم کے گریبان سے جھٹکنا چاہا تو اس نے ایک ہاتھ جھٹک کر انہیں دور دھکا دیا۔ قوت سے دھکا لگنے پر وہ دور جا گری تھیں۔ 

”کیوں کیا تم نے ایسا۔۔؟ کیوں تکلیف دی تم نے اسے۔۔؟“ 

وہ ایک ہی بات دہراتا، اسے گھسیٹتا ہوا دیوار تک لایا اور اس کے سر کو پوری قوت سے دیوار میں دے مارا۔۔ ارحم کے سر سے اب خون کا ایک فوارہ بہہ نکلا تھا۔ اسکے سامنے ساری دنیا گھومنے لگی تھی۔ 

”میں نے منع کیا تھا ناں۔۔!“ 

اس نے جمے ہاتھ کا مکا اس کے جبڑے پر مارا تو خون کے بہت سے چھینٹے اڑے۔ لہو میں لتھڑے بہت سے دانت ٹوٹ کر گرے تھے۔ 

”آج کے بعد کسی کے ساتھ تم اس طرح کا کوٸ بھی عمل کرنے کے قابل نہیں رہوگے۔۔“ 

اس نے اسے ایک جانب دھکا دے کر زمین بوس کیا تھا پھر اپنی گری زنجیر لینے پیچھے کو مڑا۔ خون آلود ہاتھ پر زنجیر کا ایک سرا باندھا۔۔ سرد نگاہوں سے اس کا نیم مردہ وجود دیکھا۔ بکھرے بالوں والی رابیل اگلے ہی لمحے اس کے سامنے گھومی تھی۔ اس کا خیال آتے ہی اس کی کنپٹیوں میں خون ایک بار پھر سے ٹھوکریں مارنے لگا تھا۔ اس نے دانت جما کر، اس کے گلے میں زنجیر کسی اور دونوں ہاتھوں کو پوری طاقت کے ساتھ پیچھے کی جانب کھینچا۔ وہ قاتل نہیں تھا۔۔ لیکن شاید آج۔۔ آج وہ قاتل بننے جارہا تھا۔۔ وہ نہ تو رابیل کا معاذ لگ رہا تھا اور نہ ہی حبیبہ کا۔ بلکہ ابھی تو وہ معاذ ہی نہیں لگ رہا تھا۔ 

اسی پل داخلی دروازے سے سلطان داخل ہوا اور پھر اسے دیکھ کر چند لمحے کے لۓ اپنی جگہ ہی جم سا گیا۔ ارحم کے حلق سے اب غر غر کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ اس نے گردن کے گرد لپٹی زنجیر اور زور سے جکڑی تو وہ پیر رگڑنے لگا۔۔ معاذ پسینے سے شرابور ہونے لگا تھا۔۔ اس کے ماتھے پر گرتے بال اس ٹھنڈ میں بھی پسینے کے باعث ماتھے پر چپک گۓ تھے۔ ہاتھوں کی نسیں طاقت لگانے پر ابھرنے لگی تھیں۔ 

وہ تیزی سے بڑھا اور اسے ارحم سے الگ کیا۔ اس نے سلطان کا ہاتھ جھٹکا تو اس نے جواباً پوری قوت سے اس کے رخسار پر چانٹا رسید کیا تھا۔ وہ لڑھکتا ہوا پیچھے کو گرا۔ ارحم اب بے دم ہو کر سانسیں لے رہا تھا۔ معاذ ایک بار پھر سے اس پر جھپٹنے کے لیۓ اٹھا تو سلطان نے اسے گریبان سے جکڑا۔۔ 

”چھوڑو مجھے۔۔ میں اس کمینے کا خون پی جاٶنگا۔۔ زندگی تباہ کی تھی اس کی ماں نے میری۔۔ اور اب یہ میری زندگی مجھ سے چھین رہا تھا۔۔“ 

”ہوش میں آٶ معاذ۔۔ انسان بنو۔۔ “ 

اس نے اسے پیچھے دھکا دے کر ارحم سے دور ہٹایا تھا۔ وہ بے دم قدموں کے ساتھ پیچھے کو گرا۔ اس کا طاقتور جسم، بے حد تھک گیا تھا۔ اور یہ تھکن آج کی نہیں تھی۔ یہ تھکن برسوں کی تھی۔۔ برسوں سے اس کے ساتھ تھی۔ 

”میں دیکھ لونگا انہیں۔۔ تم جاٶ۔۔ اسے سنبھالو۔۔ اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے ابھی تمہاری۔۔“ 

اور وہ جیسے یکدم ہی ہوش میں آیا تھا۔ چونک کر سلطان کی جانب دیکھا۔ وہ فکر مند نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

”تم کیا کررہے ہو یہاں۔۔؟“ 

”تمہیں قاتل بننے سے باز رکھ رہا ہوں۔“ 

”یہ میرا معاملہ ہے سلطان۔۔ دور رہو اس سے۔۔ میں اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کرونگا۔۔ اپنے ہاتھوں سے اس کی لاش کتوں کے آگے ڈالونگا میں۔۔“ 

”اچھا۔۔ اور پھر اپنی ماں کو کیا منہ دکھاٶ گے۔۔؟“ 

”مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔۔“ 

اس نے لرزتے ہاتھ سے اسے پرے ہٹایا تھا لیکن وہ ایک بار پھر سے اس کے درمیان آ کھڑا ہوا تھا۔ اس کی سرخ نگاہوں کے سامنے بار بار اندھیرا چھانے لگا تھا۔ شاید کچھ تھا جو اس کے اندر آہستہ آہستہ ڈوبتا جارہا تھا۔ 

”اور وہ لڑکی۔۔ وہ لڑکی جس سے محبت کرتے ہو تم۔۔ اسے کون دیکھے گا پھر۔۔؟ تم تو اسے مار کر خود بھی موت کے گھاٹ اتر جاٶگے اور وہ۔۔ وہ کہاں کہاں تک پھر اس جیسے لوگوں سے اپنی حفاظت کرے گی۔۔؟“ 

اس کی زخمی سی چوٹ پر اس کا ادھڑا زخم تکلیف دینے لگا تھا۔ اس نے اسے گلابی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ 

”کس نے کہا کہ میں موت کے گھاٹ اتر جاٶنگا۔ ہزاروں قاتل زندہ ہیں۔۔ زندہ رہتے ہیں۔۔ میں بھی زندہ رہونگا۔۔“ 

اس کی غراہٹ پر سلطان مسکرایا تھا۔ پھر اس کی سرمٸ آنکھوں میں جھانکا۔ ہاں بس۔۔ وہ آنکھیں ہی آج تک نہیں بدلی تھیں۔ 

”لیکن اس لڑکی کا ساتھ تمہیں کبھی میسر نہیں آۓ گا۔۔“ 

”مجھے پتا ہے کہ میں نہیں رہونگا اس کے قابل اور میں اپنی اس خواہش کا گلا گھونٹ کر یہاں تک آیا تھا سلطان۔ میں جانتا ہوں کہ وہ میری نہیں رہے گی اور اسے میرا رہنا بھی نہیں چاہیۓ۔ میرے جیسا سیاہ انسان اس کے حصے میں نہیں آسکتا۔۔“ 

اسی اثناء میں اسکا فون بجا تھا۔ اس نے جیب سے موباٸل نکالا اور پھر جگمگاتا نمبر دیکھ کر وہ رک سا گیا۔ سلوی کا نمبر جگمگا رہا تھا۔۔ اس نے فون بنا اٹھاۓ جیب میں اڑسنا چاہا تو سلطان نے اس کے ہاتھ سے فون جھپٹ کر، کال رسیو کی۔ دوسری جانب سے ایک آواز ابھری تھی۔۔ لرزتی ہوٸ، سہمی سی آواز۔۔! کھلے اسپیکر سے باہر کو گرتی وہ آواز اس سرد سے گھر میں تحلیل ہونے لگی تھی۔ 

”معاذ۔۔“

وہ رو رہی تھی۔ اس کے خون آلود سے ہاتھ بے دم ہو کر پہلوٶں میں آگرے۔ ایسے ہی کسی طاقتور لمحے میں حبیبہ کی بہتی آواز اسے روک لیا کرتی تھی۔۔ کیوں تھیں آخر یہ دونوں عورتوں ایک سی۔۔؟ وہ جانور بننا چاہتا تھا لیکن وہ دونوں اسے کبھی جانور بننے نہیں دیتی تھیں۔ 

”ک۔۔ کہاں ہو تم۔۔؟“ 

اس کے ہاتھ میں لپٹی زنجیر ڈھیلی پڑنے لگی تھی۔ کوٸ شے کمزور نہیں کرتی انسان کو سواۓ۔۔ ہاں۔۔ سواۓ محبت کے۔۔ 

”واپس آجاٶ معاذ۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ تم نے کہا تھا کہ تم اب اچھے انسان بن کر رہوگے۔۔ پلیز واپس آجاٶ۔۔ کوٸ انتہاٸ قدم مت اٹھانا۔۔“ 

اور رابیل کی ابھرتی سسکی پر اس کے ہاتھ سے زنجیر چھوٹ کر زمین پر گرچکی تھی۔ کیا وہ اب کوٸ قدم اٹھا سکتا تھا۔۔؟ حبیبہ اور رابیل کے سامنے وہ بے بس تھا۔ 

”مجھے بہت زخم آۓ ہیں لیکن تم۔۔ تم کوٸ زخم خود کو مت لگانا۔ مجھ سے دیکھا نہیں جاۓ گا۔۔ جانتے ہو ناں کتنی کمزور ہوں میں۔۔“ 

وہ آہستہ سے زمین پر بیٹھا تو سلطان نے اگلے ہی لمحے رابطہ منقطع کردیا۔ وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھا۔ پھر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ 

”میں جانتا ہوں تم زخمی ہو۔ تمہارے زخم بہت گہرے ہیں لیکن وہ لڑکی۔۔ وہ لڑکی انتظار کررہی ہے تمہارا۔ اسی معاذ کا جسے وہ کھوچکی تھی۔ اب تم قاتل بن کر پلٹوگے تو اس پر کیا گزرے گی۔۔؟ سوچو ذرا۔۔“ 

اس نے خالی خالی سا چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ 

”انہیں میں دیکھ لونگا۔۔ تم بس واپس پلٹ جاٶ۔۔ یہ اپنے انجام کو پنہچیں گے۔ کسی اور عدالت سے نہیں، بلکہ سلطان کی عدالت فیصلہ سناۓ گی انہیں۔ تم جاٶ بچے۔ انسان ہو۔ انسان رہو۔۔ شیطان مت بنو۔۔“ 

اور اس کے رگ و پے میں اگلے ہی لمحے خاموشی پھیل گٸ تھی۔ ایک نظر اس نے سامنے کراہتے ارحم پر ڈالی تھی۔ دوسری نگاہ دور گری صاٸمہ پر ڈالی۔ بہت خاموش نگاہ تھی وہ۔ سفید ٹاٸلز پر گرے بہت سے لہو کے ساتھ وہ بھی تھکا ہارا سا زمین پر بیٹھا تھا۔ پھر اس کی گردن میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوٸ۔ گلابی پڑتی بصارت میں اب صرف تکلیف تھی۔ جانے کیوں۔۔ اسی لمحے حبیبہ بہت یاد آنے لگی تھیں۔ 

”انہوں نے مجھے کہا تھا کہ میں ہر ظلم کو معاف کردوں۔ لیکن ہمیشہ میں ہی کیوں معاف کروں سلطان۔۔؟ ظلم تو معاذ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔۔ پھر ہر دفعہ میں ہی کیوں اپنے اندر پلتے زخم ادھیڑوں۔۔؟ ہمیشہ میں ہی کیوں۔۔؟“ 

اس کی لرزتی آواز پر سلطان نے گہرا سانس لیا تھا۔ پھر اس کے بازو کو اپنی ہتھیلی میں جکڑا۔ اس نے سرمٸ آنکھوں کا زاویہ اس کی جانب پھیرا تھا۔ 

”وہ انتظار کررہی ہے تمہارا۔۔ جاٶ۔۔“ 

دھیرے سے کہا۔ اگلے ہی پل وہ لرزتے قدموں سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ چند قدم چل کر ارحم کے برابر میں گری زنجیر جھک کر اٹھاٸ۔  ایک نگاہ اس پر ڈالے بغیر اس نے باہر کی جانب رخ پھیرا اور خاموشی سے داخلی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ سلطان نے سکون کا سانس خارج کر کے سر جھکایا تھا۔ اگر جو وہ ذرا سی بھی دیر کردیتا تو شاید معاذ کو کبھی واپس نہ لا سکتا۔ پیچھے کھڑا ”رضا ہاٶس“ گہری خاموشی میں ڈوب گیا تھا۔ اگلے ہی پل وہ اٹھا اور پھر دور گرے ارحم کو گریبان سے اٹھا کر کھڑا کیا۔۔ پھر اسے گھسیٹتا ہوا باہر کی جانب بڑھا۔ اسے پتا تھا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا کرنا تھا۔ شاید اب کبھی ارحم کو صبح کا سورج دیکھنا تک نصیب نہ ہو۔۔ یہ ان کا قانون تھا۔۔ ان کا انصاف تھا۔۔ 

دوسری جانب اب وہ گاڑی ڈراٸیو کرتا، سلویٰ کے گھر جانے کے بجاۓ۔۔ قبروستان جارہا تھا۔۔ اپنی ماں سے ملنے۔۔ وہ جو اسے اپنے آخری لمس سے قید کر گٸ تھیں۔۔ آج وہ اس لمس سے آزادی چاہتا تھا۔۔ اس نے زخمی ہاتھ سے اسٹیرنگ وہیل مضبوطی سے تھاما اور پھر رفتار تیز کرتا آگے بڑھ گیا۔۔ 

سلویٰ کے گھر پر اب سب اکھٹا تھے۔ کچھ دیر پہلے ہی رابیل کو ہوش آیا تھا۔ اس کے ماٶف ذہن کو مزید کسی آزماٸش کا شکار کیۓ بنا، عابد اور وقار لاٶنج میں آ بیٹھے تھے۔ اس کی حالت ان دونوں کے لیۓ گہری اذیت کا باعث تھی۔ اندر اب وہ اسکا لباس تبدیل کروا کر رابیل کو دوبارہ بستر پر لٹا رہے تھے۔ رامین کے لبوں سے تو شکر کا کلمہ جاتا ہی نہ تھا۔ ساتھ ساتھ اس کی شکستہ حالت دیکھ کر لمحہ بہ لمحہ ان کے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔ اس کے زخموں کو سلویٰ پہلے ہی ٹریٹ کرچکی تھی۔ اسی لیۓ اب وہ کمزوری محسوس کرتی، لیٹی ہوٸ تھی۔

ردا، سلویٰ کے ساتھ کچن میں کھڑی چاۓ کی ٹرالی پر کپ رکھ رہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ سلویٰ کو بھی چوری چھپے دیکھ لیتی۔ وہ اتنی خوبصورت اور نرم تھیں کہ انہیں دیکھ کر دل ہی نہ بھرتا تھا۔ ساتھ ساتھ ان کی وہ فکر مند سی آواز بھی اسے سکون دے رہی تھی۔ 

”اللہ کا شکر ہے، ہماری رابیل بالکل ٹھیک ہے۔ اب سب ٹھیک ہے۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا۔۔“ 

”آپ معاذ بھاٸ کی خالہ ہیں۔۔؟“ 

اس کے اس پوچھنے پر وہ ہلکا سا مسکراٸیں پھر اثبات میں سر ہلایا۔ ردا بھی مسکراٸ تھی۔ 

”رابی نے ذکر کیا تھا ایک بار آپ کا۔ لیکن مجھے لگا کوٸ خاتون ہونگی بڑی سی عمر کی۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ ہیں۔“ 

اس کی بات پر انہوں نے نرم یخ ہاتھ سے اس کا گال تھپکا تھا۔ پھر چاۓ کی ٹرالی گھسیٹتیں لاٶنج تک لاٸیں۔ عابد صاحب بمشکل اپنا ابلتا طیش قابو کیۓ وقار سے بات کررہے تھے۔ 

”مجھے نہیں پتا تھا کہ ارحم اور صاٸمہ۔۔ اس حد تک بھی گر سکتے ہیں۔۔ خیر ہے۔۔ دیکھ لونگا میں سب کو۔۔ بچ کے کہاں جاٸیں گے مجھ سے۔ سارے جگ میں اگر ان کی عزتوں کا جنازہ نہ نکال دیا تو عابد نام نہیں میرا۔۔“ 

وہ عموماً طیش میں نہیں آیا کرتے تھے۔ لیکن ابھی جو رابیل اور شزا کی حالت تھی، وہ ان کے لیۓ ناقابلِ برداشت ہورہی تھی۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ ارحم کا سر کچل کر چوک پر لٹکا دیں۔ 

”وہ ہمیشہ سے ہی اتنے گھٹیا تھے عابد۔ اللہ کا شکر ہے ہماری بچی بچ گٸ ایسے لوگوں سے۔ پتا نہیں وہ کیا کرتے ہماری لڑکی کے ساتھ۔۔“ 

وقار تو رہ رہ کر اللہ کا شکر ادا کررہے تھے۔ رابیل کے تحفظ سے زیادہ ان کے لیۓ ابھی کچھ بھی اہم نہیں تھا۔ 

”لیکن اس قدر گھٹیا پن پر اترنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے بھاٸ صاحب۔۔؟ پہلے تو کبھی اس نے اس طرح کا کوٸ تاثر نہیں دیا۔“ 

اسی پہر شزا کمرے سے باہر نکلی تھی۔ منہ ہاتھ دھونے کے بعد، بالوں کو پونی میں جکڑے، اب وہ پہلے سے کافی حد تک بہتر اور سنبھلی ہوٸ لگ رہی تھی۔ 

”انہیں اپنی کمپنی کو سہارا دینا تھا بابا۔۔ وہ بھی آپ کے پیسوں سے۔۔“ 

اس کے یکدم بولنے پر جہاں سلویٰ اور ردا نے سر اٹھایا تھا، وہیں عابد اور وقار بھی چونکے تھے۔ 

”ارحم بھاٸ رابیل کو ہراساں کرنے کے بعد مجھے کافی عرصے سے تنگ کررہے تھے بابا۔ میں نے کسی کو نہیں بتایا، لیکن معاذ بھاٸ جانتے تھے اس سب کے بارے میں۔ اور انہوں نے مجھے روکا بھی تھا ان سے بات کرنے سے۔ لیکن رابیل کو اس بارے میں پتا چل گیا۔ مجھے بھی ارحم بھاٸ کافی عرصے سے بلا رہے تھے۔۔ شاید اسی گھٹیا پن کے لیۓ جس کا مظاہرہ انہوں نے رابیل کے ساتھ کیا۔ پھر میں اور رابی ان سے بات کرنے گۓ اور وہاں ہمیں اندازہ ہوا کہ انہیں ہم میں نہیں۔۔ انہیں آپ کے پیسے میں دلچسپی ہے بابا۔۔ عباد انکل کے نکمے پن کی وجہ سے کمپنی ڈوب رہی ہے اور انہیں اسے سہارا دینے کے لیۓ آپ کے پیسے درکار ہیں۔۔ انہیں کبھی ہم سے رشتہ بنانے میں دلچسپی نہیں تھی۔ انہیں ہمیشہ سے آپ کے پیسوں میں دلچسپی تھی۔۔“ 

ایک ہی سانس میں بول کر وہ خاموش ہوٸ تو پل بھر کے لیۓ لاٶنج میں سناٹا چھا گیا۔ سب دم سادھے بیٹھے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھول کر رامین بھی باہر نکل آٸ تھیں۔ 

”اسی لیۓ، وہ ہمیشہ رابیل کے پیچھے آتے تھے۔ اسی لیۓ ارحم بھاٸ میرا پیچھا کررہے تھے۔ معاذ بھاٸ اس مسٸلے سے خود نبٹنا چاہتے تھے لیکن میری اور رابیل کی بیوقوفی کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچے۔ سوری ٹو سے لیکن آپ کی بہن، انسان کہلانے کے لاٸق نہیں ہے بابا۔ شاید دادی بھی انسان کے کہلانے کے لاٸق نہیں تھیں۔۔“ 

اس کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ اسے اب سمجھ آیا تھا کہ ہمیشہ رابیل، تاٸ کے بارے میں بات کرتے کرتے کیوں رو پڑتی تھی۔ ہاں۔۔ اس کا اندازہ اسے آج ہوا تھا۔ عابد نے نم آنکھوں سے بکھری سی شزا کی جانب دیکھا۔۔ کیا وہ کچھ غلط کہہ رہی تھی۔۔؟ ہر گز نہیں۔ 

”جو ہوگیا۔۔ وہ ہوچکا۔۔ اب جو ہونا ہے۔۔ بس فکر اسکی کرو بچے۔۔ جو حبیبہ نے گزارا، ہماری رابیل بچ گٸ وہ سب سہنے سے۔ اللہ کا احسان ہے ہماری ذات پر یہ۔۔“ 

وقار نے کھنکھار کر دکھتے گلے کے ساتھ کہا تو وہ اور رونے لگی۔ کچھ دیر پہلے گزرے واقعے کے باعث وہ پوری طرح سے ہل کر رہ گٸ تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر روۓ۔ اس سیاہ فام کی نگاہیں اپنے جسم پر اسے اب تک محسوس ہو رہی تھیں۔ 

”میں دیکھ لونگا ان میں سے ایک ایک کو۔ میری پیٹھ پیچھے، میری پشت پر گھاٶ لگانے والوں کو میں کبھی نہیں چھوڑا کرتا۔ وہ بھی اپنا انجام بھگتیں گے اور میں اس بات کو یقینی بناٶنگا کہ وہ جہنم تک اس انجام کو یاد رکھیں۔۔“ 

ان کی پھنکار پر جہاں رامین کا دل دہلا تھا وہیں وقار نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر، انہیں تھمنے کا اشارہ کیا تھا۔ 

”میں نے کہا ناں کہ ابھی ہمیں صرف رابیل کے بارے میں سوچنا ہے۔ ان مساٸل سے ہم بات میں نبٹیں گے اور تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ معاذ خود ہی ڈیل کرلے گا ان سب باتوں سے۔ تم اپنا بلڈ پریشر نہ ہاٸ کرو۔۔“ 

ان کے نرمی سے کہنے پر عابد نے ضبط سے مٹھی بھینچ کر آنکھیں موندی تھیں۔ بیٹی کا باپ ہونا انہیں پہلے کبھی اتنا کمزور نہیں کرگیا تھا جتنا کہ ابھی۔۔ اس لمحے کرگیا تھا۔۔ 

”اور شزا بچے۔۔ یہاں آٶ۔۔ روتے نہیں ہیں۔۔ اللہ بہت مہربان ہے۔ مہربانی کرنے والا ہے۔“ 

وہ بے تحاشہ ابلتے آنسو رگڑتی آگے بڑھی تو وقار نے اٹھ کر اسے خود سے لگایا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ سوتیلا کون تھا۔۔؟ پھپھو یا پھر تایا۔۔! وہ جو خون کے رشتوں سے منسلک ہونے کے باوجود بھی غیروں سے بھی گرا ہوا برتاٶ کررہے تھے، وہ۔۔ یا پھر یہ۔۔ جو سوتیلا ہونے کے باوجود بھی اپنا ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔ 

”بس۔۔ اب نہیں رونا تم نے۔۔ رابیل زیادہ بری حالت میں ہے۔۔ اگر اس کے سامنے رٶ گی تو پھر وہ کیسے ریکور کر پاۓ گی۔؟ مجھے پتا ہے کہ تم اس سے زیادہ مضبوط ہو۔۔ چلو اب مضبوط بن کر دکھاٶ۔۔“ 

ان کے پچکارنے پر جہاں نم آنکھیں لیۓ رامین اداسی سے مسکراٸ تھی، وہیں سلویٰ نے مسکرا کر شزا کو دیکھا تھا۔ وہ اب تایا کے ساتھ ہی لگی صوفے پر بیٹھی تھی۔ وہ اس سے دھیرے دھیرے، ہلکی پھلکی باتیں کررہے تھے اور وہ سرخ ناک، نم آنکھیں لیۓ سر اثبات میں ہلا کر جواب دے رہی تھی۔ عابد ایک جانب بالکل خاموش ہو کر رہ گۓ تھے۔ جن رشتوں کو ہمیشہ وہ پیچھے دھکیلتے آۓ تھے، آج وہی رشتے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ شاید اسی کو احساس کا رشتہ کہتے ہیں۔۔ وہ رشتہ جو، خون کے رشتے کو مات دے دیا کرتا تھا۔ 

اس پرانے طرز کے بنے لاٶنج میں بہت سی سکینت ایک بار پھر سے گھلنے لگی تھی۔ سلویٰ اب سب کو چاۓ سرو کررہی تھی۔ اور ردا ان کی مدد کروا رہی تھی۔ رامین عابد کے ساتھ خاموشی سے آ بیٹھی تھیں اور شزا اب تک تایا سے چھوٹی چھوٹی باتیں کررہی تھی۔ رابیل کمرے میں لیٹی، خالی خالی نگاہوں سے چھت کو تک رہی تھی۔ 

”کیوں نہیں آیا وہ اب تک۔۔؟ کیا اسے نہیں پتا کہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔۔؟ کہاں ہے وہ۔۔؟ کہاں ہوگا وہ۔۔؟“ 

اس نے ابلتے آنسوٶں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑا اور پھر بمشکل کروٹ لے کر لیٹ گٸ۔ کمر میں اٹھتے درد اور زخمی پیروں کی جلن، جیسے اس کی روح تک میں سرایت کرنے لگی تھی۔ 

”میں تمہیں یاد کررہی ہوں۔ پلیز واپس آجاٶ۔۔“ 

اس کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے تھے۔ اس کا جنگلی خر تکلیف میں تھا۔۔ وہ تو اس سے کہیں وقت پہلے سے اس اذیت کا شکار ہورہا تھا۔۔ اس کہف میں قید لمحوں کے دوران جانے اس نے کتنے زخم سہے تھے۔ کیا وہ کبھی اسے اپنے زخموں کا مرہم بناۓ گا۔۔؟ کیا کبھی وہ اس کے ساتھ نارمل رہ پاۓ گا۔۔؟ کیا کبھی۔۔۔ اور اب اسکا سر یہ باتیں سوچ سوچ کر پھٹا جارہا تھا۔ اس نے جلتی آنکھیں موندی اور خاموشی سے گرتے آنسو سمیٹنے لگی۔۔

وہ شام کے ڈھلتے سایوں تک اس قبر کے پاس خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔ آس پاس پھیلی خنکی میں، خاموشی کی گہری رمق بخوبی محسوس کی جاسکتی تھی۔ پھر وہ آہستہ سے اٹھا۔۔ 

”ٹھہر جاٶ معاذ۔۔“ 

کسی پرانے منظر نے لمحے بھر میں اسے قید کرلیا تھا۔ وہ جو آگے بڑھنے لگا تھا، وہیں ٹھہر گیا۔۔ 

”جانتے ہو۔۔ جو قرآن پڑھتے ہیں۔۔ وہ کبھی تنہا نہیں رہتے۔ اللہ کبھی انہیں تنہا نہیں کرتا۔۔ وہ جو خود کو انسان بناتے ہیں۔۔ انتہاٶں پر رہنے کے بجاۓ، سادگی اپناتے ہیں۔۔ وہی کامیاب لوگ ہوتے ہیں۔۔“ 

تیرہ سالہ معاذ کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر حبیبہ نے نرمی سے کہا تھا۔ اس نے قدم آگے بڑھاۓ۔۔ لیکن وہ گزرا منظر۔۔ وہ منظر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔ 

”قرآن پڑھنے والے کامیاب ہوتے ہیں ماں۔۔؟“ 

”بالکل۔۔ وہی کامیابی کے حقدار ہیں۔۔“ 

”لیکن پھر وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو اس قرآن کو تھام کر چھوڑ دیتے ہیں۔۔؟ کیا ایسے لوگوں کا کوٸ حصہ ہے آخرت میں۔۔؟“ 

اس کے معصوم سے سوال کا مطلب ہرگز بھی معصوم نہیں تھا۔ حبیبہ کی گود میں سر رکھے معاذ نے، ان کی خاموشی پر انہیں آنکھیں اٹھا کر دیکھا تھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ پھر ان کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے گال پر گرا۔ 

قبروستان سے دور جاتے معاذ نے، اپنے رخسار پر ہاتھ پھیر کر اس آنسو کی نمی محسوس کی تھی۔ 

”نہیں۔۔ ان کا آخرت میں پھر کوٸ حصہ نہیں ہوتا۔۔“ 

”اور اگر کوٸ اسے چھوڑ کر دوبارہ تھام لے۔۔ کوٸ اس سے بھٹک کر دوبارہ ہدایت کی جانب آجاۓ۔۔ تو کیا اللہ ایسے کسی انسان کو قبول کرتا ہے ماں۔۔؟“ 

اس نے پوچھا تو وہ جانے کیوں چند پل کے لیۓ کسی لمحے کے سحر میں کھوٸ نظر آٸیں۔ 

”اللہ قبول کرلیتا ہے بچے۔۔“ 

”اور انسان۔۔؟“ 

اس کی برجستگی اس عمر میں بھی اپنے عروج پر تھی۔ وہ جو سحر میں گھرنے لگی تھیں، یکدم جاگیں۔ چونک کر اسے دیکھا۔۔ اس نے بھی لمحے بھر کو مڑ کر قبروستان کی جانب دیکھا تھا۔۔ جانے اس قبروستان سے نکلتے وقت ہمیشہ وہ ایک بار پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا کرتا تھا۔۔ اسے پتا تھا کہ یہ ایک لمحہ۔۔ یہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والا ایک لمحہ بہت اذیت ناک ہوا کرتا تھا۔۔ اسے اس بات کا علم تھا۔۔ لیکن وہ پھر بھی مجبور تھا۔۔ کچھ چیزوں پر انسان کا اختیار کبھی نہیں ہوا کرتا۔۔ 

”انسان قبول نہیں کیا کرتے بچے۔۔“ 

اس نے زخمی ہاتھ کی ہتھیلی نگاہوں کے سامنے کی۔ اس ہتھیلی پر وہ یخ سا لمس آج بھی سلگ رہا تھا۔ ایک پل کو چہرہ موڑ کر اس نے دوبارہ پیچھے دیکھا تھا۔ حبیبہ کی نم آنکھوں میں نمی اب کہ واضح ہونے لگی تھی۔ 

”اور اگر کبھی کوٸ انسان تمہیں قبول نہ کرے تو بچے۔۔ اللہ کی جانب پلٹ جانا۔۔ وہ کبھی تمہیں دھتکارے گا نہیں۔۔ وہ کبھی تمہیں مایوس نہیں کرے گا۔۔ وہ کبھی تمہیں بھولے گا نہیں۔۔ وہ کبھی تمہیں۔۔ “ 

اس نے چہرہ واپس پھیرا۔ حبیبہ کی نم آنکھوں سے برستے آنسو جا بجا اس کے چہرے پر گرنے گے تھے۔ 

”وہ کبھی تمہیں گمراہ نہیں کرے گا۔ میں دعا کرونگی کہ وہ تمہیں کہف کی سی پناہ میں رکھے۔“ 

اس نے بڑھتے قدموں کی دھول کے ساتھ حبیبہ کو آخری دفعہ خدا حافظ کہا تھا۔ اس کے ٹیبل پر رکھی، قدیم زرد اوراق پر اک غزل تحریر تھی۔ بہتی ہوا سے پھڑپھڑاتے وہ اوراق بہت سے لفظ واضح کرنے لگے تھے۔۔ 

میں محبت کرتا ہوں آپ سے ماں۔۔ 

میں یاد کرتا ہوں آپ کو ماں۔۔ 

میں روتا ہوں۔۔ 

میں ایک چھوٹا بچہ ہوں۔۔ 

میں ایک چھوٹا بچہ تھا۔۔ 

میں نے ڈھونڈا تھا آپ کو۔۔ 

اس تاریک کہف تلے۔۔ 

لیکن آپ کھو گٸیں مجھ سے۔۔ 

اس دنیا کی ظالم روایات میں۔۔ 

میں ڈھونڈتا ہوں اب بھی۔۔ 

اس آخری لمس کو۔۔ 

کہ کہانی۔۔ 

رک سی گٸ ہے۔۔ 

اس لمس کے احساس تلے۔۔ 

لیکن پھر میں نے۔۔ 

پایا اسے۔۔ 

جو کھو گیا تھا مجھ سے۔۔ 

اس تاریک کہف تلے۔۔ 

کہ وہی تھا۔۔ 

ہمیشہ سے میرا ساتھی۔۔ 

میرا مددگار۔۔ 

میرا راستہ۔۔ 

میرا سہارا۔۔ 

میرا قرآن۔۔ 

معاذ بڑا ہوگیا تھا۔۔ الفاظ زندہ ہوگۓ تھے۔۔ کہانی اپنے انجام کو پہنچنے لگی تھی۔۔ کہف روشن ہوگیا تھا۔۔ بجھتی امید مہک اٹھی تھی۔۔ لمس محسوس ہونے لگا تھا۔۔ بنجر دل، جینے لگا تھا۔۔ وہ اللہ کی جانب پلٹنے لگا تھا۔۔ 

”میں دعا کرونگی کہ وہ اس کہف تلے کبھی تمہیں تنہا نہ کرے۔ تم کبھی اس تاریکی کا حصہ نہ بنو، جس کا یہ دنیا خاصہ ہے۔۔ میں تمہارے لیۓ اس آخری زندہ لمحے تک دعا کرتی رہونگی معاذ۔۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میں پلٹنے والی ہوں اپنے رب کی جانب۔۔“ 

حبیبہ اب تک بول رہی تھیں۔ شام کی سیاہی میں ان کی وہ نرم آواز بکھرنے لگی تھی۔ اس نے قدم آگے بڑھاۓ اور گاڑی میں آ بیٹھا۔۔ اسے اب صرف اس کا سامنہ کرنا تھا، جس کے رو برو ہونے سے وہ خوفزدہ ہورہا تھا۔۔ حبیبہ مرگٸ تھیں لیکن رابیل۔۔ رابیل زندہ تھی۔۔ اور اسے اسی زندگی کی جانب دوبارہ لوٹنا تھا۔۔ 

sairakhushi

I am a software developer and want to be a multi-language developer.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form